Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 82
وَ الَّذِیْۤ اَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِؕ
وَالَّذِيْٓ : اور وہ جس سے اَطْمَعُ : میں امید رکھتا ہوں اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ : کہ مجھے بخش دے گا خَطِيْٓئَتِي : میری خطائیں يَوْمَ الدِّيْنِ : بدلہ کے دن
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہ بخشے گا
والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الدین، اطمع کا معنی ہے میں امید کرتا ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آپ کے حق میں یقین کے معنی میں ہے اور آپ کے علاوہ تمام مومنوں کے حق میں رجاء کے معنی میں ہے۔ حضرت حسن بصرمی اور ابن ابی اسحاق نے خطایای قرأت کی ہے کہا : یہ ایک خطان ہیں۔ نحاس نے کہا : خطیئۃ کلام عرب میں خطایا میں معروف ہے۔ علماء نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : فاعترفوا بذنبھم ( الملک : 11) میں واحد پر اتفاق کیا ہے اس کا معنی ذنوب ہے۔ اسی طرح و 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 235 اقیمو الصلوٰۃ ( البقرہ : 43) اس کا منی الصلوات اسی طرح خطیتی ہے یہ خطایا کے معنی میں ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مجاہد نے کہا : خطیئۃ سے آپ کا یہ قول ہے بل فعلہ کبیر ھم ھذا ( الانبیائ : 63) اور ان کا قول : انبی سقیم۔ ( الصافات) اور ان کا قول : سارہ ان کی بہن ہے۔ حضرت حسن بصری نے اس کا اضافہ کیا ہے کہ ان کا قول جو ستاروں کے بارے میں ہے ھذا ربی یہ میرا رب ہے، اس کا مفصل وضاحت گزر چکی ہے۔ زجاج نے کہا : انبیاء بشر ہیں یہ جائز ہے کہ ان سے خطاء واقع ہو ہاں کبیرہ گناہ جائز نہیں کیونکہ وہ کبیرہ گناہ سے معصوم ہیں۔ یوم الدین، یوم جزاء : جہاں بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب سے اظہار عبودیت ہے اگرچہ آپ کو علم تھا کہ آپ بخشنے ہوئے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ابن جدعان دور جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا اور مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتا کیا یہ امر اس کے لیے نافع ہوگا ؟ فرمایا :” اے نفع نہ دے گا کیونکہ اس نے اس وقت نہیں کہا تھا رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین “ اے میرے رب قیامت کے روز میرے گناہ بخش دینا “ (1)
Top