Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 83
رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ
رَبِّ : اے میرے رب هَبْ لِيْ : مجھے عطا کر حُكْمًا : حکم۔ حکمت وَّاَلْحِقْنِيْ : اور مجھے ملا دے بِالصّٰلِحِيْنَ : نیک بندوں کے ساتھ
اے پروردگار مجھے علم و دانش عطا فرما اور نیکو کاروں میں شامل کر
(رب ھب لی۔۔۔۔ ) رب ھب لی حکما والحقنی بالصلحین حکم سے مراد تیری، تیری حدود اور تیرے احکام کی معرفت ہے۔ یہ حضرت ابنی عباس ؓ نے کہا۔ مقاتل نے کہا : مراد فہم اور علم ہے : یہ بھی تعبیر کی طرف راجع ہے۔ کلبی نے کہا : مراد نبوت اور مخلوق کی طرف رسالت ہے۔ والحقنی بالصلحین مجھ سے قبل سے جو انبیاء ہو گزرے ہیں درجہ میں ان کے ساتھ لاحق کر دے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : بالصلحین سے مراد اہل جنت ہیں یہ ھب لی حکما ً کی تاکید ہے۔ واجعل لی لسان صدق فل اخرین حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد تمام امتوں کا اس پر مجتمع ہونا ہے۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد اچھی تعریف ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ لسان صدق سے مراد ثناء، ہمیشہ کے لیے اچھا مقام و مرتبہ ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول کیا۔ ہر امت آپ سے تمسک کرتی ہے اور 1 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب ایمان، باب الدلیل علین من مات علی الکفر لا ینفعہ عسل، جلد 1، صفحہ 115، قدیمی کتب خانہ۔ آپ کی عظمت بیان کرتی ہے وہ اسی دین حنیف پر تھے جسے حضرت محمد ﷺ لائے۔ مکی نے کہا : ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کا معنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ سوال کرنا ہے کہ آپ کی اولاد میں آخر زمانہ میں وہ افراد ہوں جو حق کو قائم کریں تو حضرت محمد ﷺ کی صورت میں آپ کی دعا قبول کی گئی (1) ابن عطیہ نے کہا : یہ اچھا معنی ہے مگر آیت کا لفظ یہ معنی نہیں کرتا مگر اس صورت میں کہ لفظ پر اپنی مرضی سے حکم لگایا جائے۔ قشیری نے کہا : مراد قیامت تک اچھی دعا ہے کیونکہ ثواب کی زیادتی ہر ایک کے حق میں مطلوب ہے۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے ایسا کردیا کیونکہ کوئی فرد بھی جو نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں درود پیش کرتا ہے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی دورد پڑھتا ہے، خصوصاً نمازوں میں درود پڑھتا ہے اور منبروں پر بیٹھ کر بھی درود پڑھا جاتا ہے جو تمام حالات سے افضل اور تمام درجات سے افضل ہے۔ صلاۃ سے مراد رحمت کی دعا ہے لسان سے مراد قول ہے اس کا اصل معنی زمان ہے۔ قتبی نے کہا : لسان کا لفظ قول کی جگہ استعارہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ بعض اوقادت عرب اس لفظ کو کلمہ کی جگہ کنایہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اغشی نے کہا : انی اتتنی لسان لا اسر بھا من علو لا عجب ولا سخر جوہری نے کہا : علو کا لفظ وائو کے ضمہ، فتحہ اور کسرہ کے ساتھ روایت کیا گیا ہے یعنی مجھے اوپر سے خبر پہنچی جس سے میں خوش نہیں ہوتا نہ تعجب ہے اور نہ ہی مذاق ہے۔ اتتنی میں تانیث کلمہ کی وجہ سے ہے۔ اس تک اس کے بھائی منتشر کے قتل کی خبر پہنچی تھی۔ اشہب نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : واجعل لی لسان صدق فی الاخرین اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایک انسان اس کو پسند کرے کہ صالح کی حیثیت سے اس کی تعریف کی جائے اور صالحین کے عمل میں اسی کو دیکھا جائے، جب وہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کا قصد کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ ج (طہٰ : 39) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۔ “ (مریم : 96) یعنی اپنے بندوں کے دلوں میں محبت اور اچھی تعریف ڈال دے پھر اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ساتھ اس پر متنبہ فرمایا : ” واجعل لی لسان صدق فی الاخرین “ کہ جو چیز ذکر جمیل کا وارث بنائے اس کو حاصل کرنا مستحب ہے۔ لیث بن سلیمان نے کہا : اس سے مراد دوسری زندگی ہے۔ یہ کہا گیا : قدمات قوم وھم فی الناس احیاء لوگ مر گئے جب کہ وہ لوگوں میں زندہ ہیں۔ ابن عربی نے کہا : زید کے شیوخ میں سے محققین نے کہا : اس سے ایسے عمل صالح پر ترغیب ہے جو اچھی تعریف کا باعث ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جب انسان فوت ہوتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل منقطع نہیں ہوتے “ (2) 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4 صفحہ : 235 2 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب الومیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، جلد 2 صفحہ 41، قدیمی کتب خانہ ایک روایت میں ہے اسی طرح درخت لگانا اور کھیتی کاشت کرنا ہے اسی طرح وہ شخص جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے تو اس کا عمل قیامت تک لکھا جاتا رہتا ہے، ہم نے اس کی وضاحت سورة رعد کے آخر میں بیان کی ہے۔ الحمد للہ۔ واجعلنی من ورثہ جنۃ النعیم جنت اور جو جنت کا وارث بنے اس کی دعا ہے، یہ ارشاد ان بعض لوگوں کا رد کرتا ہے جو یہ کہتا ہے : میں جنت کا سوال کرتا ہوں اور نہ جہنم سے بچنے کا سوال کرتا ہوں۔ واغفرلا لی انہ کان من الضالین ان کے باپ نے ظاہر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ایمان لے آئے تو آپ نے اس کے حق میں مغفرت کی التجاء کی جب یہ واضح ہوگیا کہ اس نے جو کہا اس کو پورا نہ کیا تو اس سے برأت کرلی۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے الضالین سے مراد مشرک ہے اور کان زاہدہ ولا تخرنی یوم یبعثون یعنی لوگوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرنا یا مجھے قیامت کے روز عذاب نہ دینا۔ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باپ کو قیامت کے روز دیکھیں گے جب کہ ان پر غبارہو گا “ غبرہ ہی قترہ ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے ملیں گے وہ عرض کریں گے : اے میرے رب ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا کہ تو مجھے قیامت کے روز غمگین نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے (1) ۔ امام بخاری ان دونوں روایات کو روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ یوم لا ینفع مال ولا بنون یوم، پہلے یوم سے بدل ہے یعنی جب روز مال اور بیٹے کسی کو کوئی نفع نہ دیں گے۔ یہاں بنون سے مراد مددگار ہیں کیونکہ جب بیٹا نفع نہیں دیتا تو اور کب نفع دے گا ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بیٹوں کا ذکر کیا کیونکہ حضرت ابراہیم کے والد کا ذکر گزر چکا ہے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسے کچھ نفع نہ دیں گے۔ الا من اتی اللہ یغلب سلیم یہ الکافرین سے مستثنیٰ ہے یعنی اس کا مال اور اس کے بیٹے اسے نفع نہ دیں گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ غیر جنس سے استثناء ہے۔ معنی ہوگا لیکن جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آیا تو اسے نفع دے گا۔ قلب کا خصوصاً ذکر کیا کیونکہ جس کا دل سلیم ہو تو اس کے اعضاء بھی سلیم ہوجاتے ہیں اور جب وہ فاسد ہوجائے تو باقی اعضاء بھی فاسد ہوجاتے ہیں : سورة بقرہ کے آغاز میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ قلب سلیم کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ شک اور شرک سے پاک ہے جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں : یہ قتادہ، ابن زید اور اکثر مفسرین کی رائے ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا : قلب سلیم سے مراد صحیح یہ مومن کا دل ہے کیونکہ کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فی قلوبھم مرض (البقرہ : 10) ابو عثمان نیساپوری نے کہا : اس سے مراد وہ دل ہے جو بدعت سے خالی ہو اور سنت پر مطمئن ہو۔ حضرت حسن بصری نے کہا : وہ مال اور بیٹوں کی آفت سے محفوظ ہو۔ جنید نے کہا : لغت میں سلیم اسے کہتے ہیں جسے کسی چیز نے ڈسا ہو (2) اس کا معنی ہے وہ ایسا دل ہے جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے ڈسے۔ 1 ؎۔ صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل واتخذا اللہ ابراہیم خلیلا، جلد 1، صفحہ 473، وزارت تعلیم۔ 2 ؎۔ الحرر الوجیز جلد 4، صفحہ 235 ہوئے انسان کی طرح ہے۔ ضحاک نے کہا : سلیم سے مرادخالص ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول اپنے عموم کی وجہ سے مختلف اقوال کو جامع ہے یہ اچھا قول ہے یعنی یہ دل اوصاف ذمیمہ سے پاک اور اوصاف جمیلہ سے متصف ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ عروہ سے مروی ہے فرمایا : اے میرے بیٹو ! لغت کرنے والے نہ بنو کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کبھی بھی لغت نہ کی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اذ جاء ربعہ یقلب سلیم۔ ( صافات) محمد بن سیرین نے کہا : قلب سلیم یہ ہے کہ وہ یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قائم ہونے والی ہے اور قبروں میں جو بھی ہیں سب کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جنت میں اقوام داخل ہوں گی ان کے دل پرندوں کے دلوں کی طرح ہوں گے “ (1) اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ یہ ارادہ کیا : وہ ہر گناہ سے خالی ہوں گے یا ہر عیب سے محفوظ ہوں گے، دنیا کے امور کی انہیں کچھ خبر نہ ہوگی، جس طرح حضرت انس بن مالک ؓ نے روایت نقل کی ہے :” اکثر جنتی بلہ ہوں گے “۔ یہ حدیث صحیح ہے، جو معاصی سے پاک ہوں گے۔ ازہری نے کہا : یہاں بلہ سے مراد وہ ہے جس کو بھلائی پر پیدا کیا گیا وہ شر سے غافل ہو وہ شر کو پہچانتا ہی نہیں۔ قتبی نے کہا : البلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر سینوں کی سلامتی غالب ہو اور انہیں لوگوں کا حسن ظن حاصل ہو۔
Top