Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ
: اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا)
الطَّيْرَ
: پرندے
فَقَالَ
: تو اس نے کہا
مَا لِيَ
: کیا ہے
لَآ اَرَى
: میں نہیں دیکھتا
الْهُدْهُدَ
: ہدہد کو
اَمْ كَانَ
: کیا وہ ہے
مِنَ
: سے
الْغَآئِبِيْنَ
: غائب ہونے والے
اور انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کہ کیا سبب ہے کہ ہدہد نظر نہیں آتا ؟ کیا کہیں غائب ہوگیا ہے
(وتفقد الطیر فقال ما لی۔۔۔۔۔ ) اس میں اٹھارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
:۔ وتفقد الطیر جس سفر میں چیونٹی کا ذکر ہوا اس میں اور چیز کا ذکر کیا جس طرح پہلے گزرا ہے۔ تفقد کا مطلب ہے جو چیز تجھ سے غائب ہوا اس کو تلاش کرنا۔ طیرا سم جمع ہے واحد طیر ہے۔ یہاں طیر سے مراد جنس طیر اور جماعت ہے۔ وہ سفر میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس رہتے اور اپنے پروں سے آپ کو سایہ کرتے لوگوں نے پرندوں کی تلاش کی وجہ میں اختلاف کیا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : یہ اس اعتبار سے تھا کہ امور مملکت کی بجا آو ری اس کا تقاضا کرتی تھی یہ آیت کا ظاہر معنی ہے۔ ایک جماعت نے کہا : آپ نے پرندوں کو تلاش کیا کیونکہ جب ہد ہد غائب ہوا تو سورج کی شعاعیں اس جگہ سے آپ پر پڑھیں۔ پرندے کا طلب کرنے کا سبب یہی چیز تھی تاکہ یہ واضح ہو کہ سورج کی شعاع کہاں سے داخل ہوئی۔ حضرت عبد اللہ بن سلام نے کہا : آپ نے ہد ہد کو طلب فرمایا کیونکہ آپ کو پانی کی معرفت کی ضرورت پڑی تھی کہ وہ روئے زمین سے کتنا دور ہے، کیونکہ آپ نے ایسے جنگل میں پڑائو کیا تھا جہاں پانی نہیں تھا۔ اور ہد ہد زمین کے ظاہر اور اس کے باظن کو دیکھ لیتا ہے۔ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پانی کی جگہ پر آگاہ کرتا تھا پھر جن تھوڑے سے وقت میں اسے نکال لیتے تھے وہ روئے زمین کو یوں الگ کرلیتے جس طرح بکری سے چمڑا اتارا جاتا ہے : یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے جو حضرت ابن سلام سے مروی ہے۔ ابو مجلز نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت عبد اللہ بن سلام سے فرمایا میں تجھ سے تین مسائل پوچھنا چاہتا ہوں۔ حضرت ابن سلام نے کہا : تو مجھ سے سوال کرے گا جب کہ تو قرآن پڑھتا ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ یہ تین دفعہ کہا۔ پوچھا : دوسرے پرندوں کو چھوڑ کر حضرت سلیمان نے ہد ہد کا ہی کیوں پوچھا ؟ جواب دیا : پانی کی ضرورت تھی آپ اس کی گہرائی کو نہیں جانتے تھے ہد ہد دوسرے پرندوں کی بجائے اسے پہچانتا تھا اس لیے آپ نے اسے طلب فرمایا۔ نقاش کی کتاب میں کہا۔ ہد ہدمہندس تھا۔ روایت بیان کی گئی کہ نافع بن ازرق نے سنا کہ حضرت ابن عباس ؓ ہد ہد کا ذکر کر رہے ہیں تو عرض کی : اے علامہ ! رک جایئے ہد ہدہ زمین کے اندر کیسے دیکھ سکتا ہے جب کہ وہ پھندے کو نہیں دیکھ سکتا جب اس میں گرتا ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب تقدیر آجاتی ہے تو آنکھ اندھی ہوجاتی ہے۔ مجاہد نے کہا : حضرت ابن عباس سے عرضی کی گئی : ہد ہد کو پرندوں میں سے کسی لیے تلاش کیا گیا ؟ فرمایا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایسی جگہ اترے جہاں وہ نہیں جانتے تھے کہ پانی کتنا دور ہے ہد ہد پانی کے بارے میں آپ کی رہنمائی کرتا تھا۔ تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے پوچھنے کا ارادہ کیا۔ مجاہد نے کہا : میں نے کہا : وہ پانی تک کیسے ہدایت پا سکتا ہے جب کہ اس کے لیے پھندہ لگتا ہے تو وہ اس میں پھنس جاتا ہے ؟ فرمایا : جب تقدیر آجاتی ہے تو آنکھ اندھی ہوجاتی ہے۔ ابن عربی نے کہا : اس جواب پر قرآن کا عالم ہی قادر ہو سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں : نہیں یہ وہ جواب ہے جو ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو دیا جو پہلے گزر چکا ہے۔ یہ اشعار کہے گئے : اذا ارادہ اللہ امرا بامری وکان ذا عقل ورای و نظر وحیلۃ یعملھا فی دفع ما یاتی بہ مکروہ اسباب القدر عظی علیہ سمعہ و عقلہ وسلہ من ذھنہ سل الشعر حتی اذا انفذ فیہ حکمہ رد علیہ عقلہ لیعتبر جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کے ساتھ کسی امر کا ارادہ کرتا ہے جب کہ وہ بڑا عقل مند، اچھی نظر و فکر والا اور بڑے حیلے والا ہوتا ہے اسباب قدر جو مکروہات اس تک لاتے ہیں اس حیلہ کے دن وہ دفاع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی قوت سماعت اور عقل کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کے ذہن سے یوں نکال لیتا ہے جس طرح بال نکال لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس میں اپنا قلم نافذ کر چکتا ہے تو اس پر اس کی عقل کو واپس کر دتا ہے تاکہ عبرت حاصل کرے۔ کلبی نے کہا : آپ کے سفر میں صرف ایک ہی ہد ہد تھا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر
2
:۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ امام کہ اپنی رعیت کے احوال کی چھان بین اور اس پر نگاہ رکھنی چاہیے ہد ہد کو دیکھو وہ چھوٹا سا پرندہ تھا پھر بھی اس کا حال حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر مخفی نہ رہا، تو ملک کی بڑی بڑی چیزیں مخفی رہ سکتی تھیں ؟ اللہ تعالیٰ حضرت عمر ؓ پر رحم فرمائے وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سیرت پر ہی تھے۔ آپ نے فرمایا : اگر فرات کے کنارے ایک میمنہ کو بھیڑیا پکڑ لے تو اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، تو تیرا ان والیوں کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ہاتھوں سے شہر دشمنوں کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں رعیت ضائع ہوتی ہے اور نگہبان ضائع ہوتے ہیں۔ صحیح میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب وہ سرغ ( وادی تبوک کا ایک دیہات) کے مقام پر تھے تو اجناد کے امراء آپ سے ملے ان میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح امین الامۃ اور آپ کے اصحاب بھی تھے انہوں نے عرض کی : شام کے علاقہ میں وباء پھوٹ پڑی ہے ہمارے علماء نے کہا : حضرت عمر ؓ کا یہ دورہ بیت المقدس کی فتح کے بعد سن سترہ ہجری میں ہوا تھا جس طرح خلیفہ بن خیاط نے ذکر کیا ہے۔ حضرت عمر ؓ خود اپنی رعیت اور امراء کے احوال کی چھان بین کیا کرتے تھے۔ قرآن اور سنت اس پر دال ہے اور دونوں نے واضح کیا کہ امام پر اپنی رعیت کے احوال کے حوالہ سے یہ واجب ہے اور فریضہ اسے بنفس نفیس ادا کرنا چاہیے اور اس کے لیے سفر کرنا چاہیے اگرچہ وہ طویل ہو۔ اللہ تعالیٰ ابن مبارک پر رحم فرمائے جب انہوں نے کہا : وھل افسد الدین الا الملوک واجبار سوء و رھبانھا دین کو بادشاہ ہوں، برے علماء اور برے عبادت گزاروں نے فاسد کیا۔ مسئلہ نمبر
3
:۔ مالی لا اری الھدھد ہد ہد کو کیا ہوگیا ہے میں اسے نہیں دیکھتا ؟ یہ کلام اس قلب کے قاعدہ سے تعلق رکھتی ہے جس کا معنی معروف نہیں۔ یہ تیرے اس قول کی طرح ہے : مالی اراک کنیبا یعنی تجھے کیا ہوگیا ہے میں تجھے غمگین دیکھتا ہوں ؟ ہد ہد معروف پرندہ ہے ھدھدتہ صوتہ میں نے اس کی آواز نکالی۔ ابن عطیہ نے کہا : کلام کا مقصد یہ تھا کہ ہد ہد غائب ہے لیکن لازم کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ میں اسے نہیں دیکھتا۔ تو لازم پر آگاہی حاصل کرنے کے لیے سوال کیا۔ یہ ایجاز کی ایک قسم ہے۔ مالی میں جو استفہام ہے اس ہمزہ کے قائم مقام ہے ام جس کا محتاج ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فرمایا ما لی لا اری الھد ھد اپنے نفس کی حالت کا اعتبار کیا کیونکہ آپ کو علم تھا کہ آپ کو عظیم ملک دیا گیا ہے تمام مخلوق آپ کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ اور آپ پر حق شکر لازم ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ طاعت اختیار کریں اور عدل کو دوام بخشش۔ جب آپ نے ہد ہد کی نعمت کو مفقود پایا تو خوف ہوا کہ آپ نے حق شکر میں کمی کی ہے۔ اسی وجہ سے وہ نعمت طلب کی گئی تو آپ اسے تلاش کرنے لگے۔ فرمایا : ما لی۔ ابن عربی نے کہا : یہ وہ عمل ہے جو صوفیاء کے شیوخ کرتے ہیں جب وہ اپنی کسی چیز کو گم پاتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی چھان بین کرتے ہیں۔ یہ آداب میں تو ہمارا کیا حال ہوگا کہ ہم فرائض میں بھی کوتاہی کرتے ہیں۔ ابن کثیر، ابن محیصن، عاصم، کسائی، ہشام اور ایوب نے مالی یاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا۔ اسی طرح سورة یٰسین میں ہے ” وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ “ (یٰسین :
22
) حمزہ اور یعقوب نے اسے ساکن پڑھا ہے۔ باقی مدینہ طبہ کے قراء اور ابو عمرو نے سورة یٰسین میں یاء کے فتحہ اور یہاں سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عمرو نے کہا : سورة ٔ نمل میں یہ استفہام ہے اور دوسری جگہ یہ نافیہ ہے۔ ابو حاتم اور ابو عبیدہ نے اسکان کو پسند کیا ہے فقال مالی۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : ایک قوم نے گمان کر انہیں نے ارادہ کیا کہ وہ ابتداء اور جو ما قبل پر معطوف ہے ان میں فرق کریں۔ یہ کوئی چیز نہیں۔ یہ یاء نفس ہے عربی میں سے کچھ اسے فتحہ دیتے ہیں اور ان میں سے کچھ اسے ساکن رکھتے ہیں۔ انہوں نے دونوں لغتوں کے ساتھ اسے پڑھا ہے۔ یاء نفس میں فصیح لغت یہ ہے کہ وہ مفتوح ہو کیونکہ وہ اسم ہے اور یہ حرف واحد پر ہے پسندیدہ یہ ہے کہ اس کو ساکن رکھا جائے کہ اسم میں احجاف ہو۔ امر کان من الغائبین امر، بل کے معنی میں ہے۔ مسئلہ نمبر
4
:۔ لا عذبنہ عذابا شدید اولا اذبحنہٗ اس میں یہ دلیل ہے کہ حد گناہ کے اعتبار سے ہوگی جسم کے اعتبار سے نہ ہوگی، مگر بعض اوقات جس پر حد جاری کی جا رہی ہوتی ہے زمانہ اور صفت کے اعتبار سے نرمی کی جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس، مجاہد اور ابن جریج سے مروی ہے کہ پرندے کو عذاب دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے پر اکھاڑ دیئے جائیں۔ ابن جریج نے کہا : اس کے تمام پر۔ یزید بن رومان نے کہا : اس کے دونوں پر (
1
) ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہد ہد کے ساتھ یہ معاملہ اس لیے کیا تاکہ نافرمانوں پر سختی کی جائے اور سزا دی جائے اس کی صورت یہ ہو کہ اس کی باری اور رتبہ میں کمی کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب ان کے لیے مباح کیا تھا، جس طرح جانوروں اور پرندوں کو کھانے اور دوسرے منافع کے لیے ذبح کرنا مباح قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ نوادر الاصول میں ہے کہا : سلیمان بن حمیدابو ربیع ابادی، عون بن عمارہ سے وہ حسین جعفی سے وہ زبیر خریت سے وہ عکرمہ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہد ہد سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو شر کو دور کردیا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا۔ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تعذب سے مراد اس کو اس کی اضداد کے ساتھ ملا دینا ہے۔ بعض سے یہ بھی مروی ہے : قید خانوں میں سے سب سخت اضداد کے ساتھ ملا دینا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : میں اس پر لازم کروں گا کہ وہ اپنے ساتھیوں کی خدمت کرے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : میں اسے پنجرے میں بند کر دوں گا : ایک قول یہ کیا گیا ہے : پر اکھیڑنے کے بعد اسے دھوپ میں چھوڑ دوں گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : میں اس کو اپنی خدمت سے خارج کردوں گا۔ بادشاہ اپنی خدمت اور الفت سے محروم کر کے جدائی کے ساتھ لوگوں کو سزا دیتے یہ نون ثقلیہ کے ساتھ موکد ہے۔ یہ اسے ہی لازم ہوتا ہے یا خفیفہ کو بھی لاحق ہوتا ہے۔ ابو حاتم نے کہا : اگر اسے لا عدبنہ عزاباً شدید اولاً ذبحنہ پڑھنا جائز ہو تو جانز ہے اولیاتینی بسلطن مبین واضح حجت کے ساتھ۔ لیاتینی میں لام قسمیہ نہیں کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہد ہد کے فعل پر قسم اٹھانے والے نہیں تھے، لیکن جب یہ اس قول کے بعد آیا لاعذبنہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جن میں قسم جائز ہوتی ہے تو اسے اس کے طریقہ پر جاری کیا۔ صرف ابن کثیر نے اسے لیاتیننی دو نونوں کے ساتھ پڑھا ہے (
2
) ۔ مسئلہ نمبر
5
:۔ فمکث غیر بعید فعل کا فاعل ہد ہد ہے جمہور قراء کاف کو ضمہ دیتے ہیں صرف عاصم نے اسے فتحہ دیا ہے۔ دونوں قرایتوں میں اس کا معنی اقام ہے۔ سیبویہ نے کہا : مکث یمکث مکوثا جس طرح انہوں نے قعد یقعد قعودا کہا : مکث یہ ظرف کی مثل ہے۔ دوسرے قراء نے کہا : فتحہ اچھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ما کثین۔ یہ مکث سے مشتق ہے یوں باب ذکر کیا جاتا ہے۔ مکث یمکث فھو ماکث۔ مکث یمکث جس طرح عظم یغظم فھو مکیث جس طرح عظیم ہے مکث یمکث فھو ما کث جس طرح حمض یحض فھو حا مض۔ مکث میں جو ضمیر ہے اس میں احتمال ہے کہ یہ حضرت سلیمان کے لیے ہو معنی ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) طلب اور وعید کے بعد تھوڑی دیر رہے یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ہد ہد کے لیے ہو، یہ اکثر کا قول ہے وہ آگیا فقال احطت بما لم تحط بہ، یہی چھٹا مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر
6
:۔ میں نے وہ امر جانا ہے جس کا آپ کو علم نہیں۔ اس میں اس کا رد ہے جو یہ کہتا ہے کہ انبیاء غیب (
3
) کو جانتے ہیں۔ فراء نے کہا : احط تاء کو طاء میں ادغام کیا۔ احت حکایت بیان کی، طاء کی تاء سے بدلا اور اس میں ادغام کیا۔ مسئلہ نمبر
7
:۔ ومتک من سیابنبا تقین ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کو بتایا جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے اور اس کو عذاب اور ذبح کی جو دھمکی دی گئی اس کو اپنی ذات سے دور کیا۔ جمہور نے سباتنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن کثیر اور ابو عمر نے سبا ہمزہ پر فتحہ اور تنوین کے ساتھ پڑھا ہے (
1
) پہلی تاویل کی صورت میں یہ ایک آدمی کا نام ہے جس کی طرف قوم کی نسبت کی گئی ہے۔ اسی تعبیر پر شاعر کا قول ہے : الواردون وتیم فی ذری سبا قد عض اعنا قھم جلد الجوامیس (
2
)
1
؎۔ المحرر الوجیز جلد
4
، صفحہ
255
2
؎۔ ایضاً
3
؎۔ اس کی توضیح حضرت مفسر مسئلہ نمبرنو میں خود کر رہے ہیں۔ وارد ہونے والے اور تیم سبا کی نسل میں ہیں ان کی گردنوں کو بھینسوں کی جلد نے کاٹا ہے۔ زجاج نے اس کا انکار کیا ہے کہ یہ کسی آدمی کا نام ہو۔ کہا : سبا شہر کا نام ہے جو مآرب کے نام سے معروف تھا جو یمن میں واقع ہے اس کے درمیان اور صنعاء کے درمیان تین دن کی مسافت ہے۔ میں کہتا ہوں : غزنوی کے عیون المعانی میں واقع ہے کہ تین میل کی مسافت ہے۔ قتادہ اور سدی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس بستی کی طرف بارہ انبیاء مبعوث فرمائے اور نابغہ جعدی کا شعر پڑھا : من سبا الحاضرین مارب اذ یبنون من دون سیلہ العرما سبا سے جو مآرب میں رہتے تھے جب وہ سیل عرم کی وجہ سے عمارتیں بناتے تھے۔ کہا : جو اسے تنوین نہیں دیتا اس نے کہا : یہ شہر کا نام ہے۔ جس نے اسے تنوین دی۔ اور یہ قول اکثر کا قول ہے کیونکہ یہ بلد کا نام وہ مذکر ہوگا اس وجہ سے مذکر کا نام دیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : ایک عورت کا نام تھا جس کی وجہ سے شہر کا نام رکھا گیا۔ صحیح یہ ہے کہ یہ ایک آدمی کا نام تھا۔ کتاب الترمذی میں فروہ بن مسیک مرادی کی حدیث سے ثابت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں انشاء اللہ اس کا ذکر آئے گا۔ ابن عطیہ نے کہا : زجاج پر یہ حدیث محفی رہی اس وجہ سے اس نے ٹامک ٹوئیاں کھائیں۔ فراء نے گمان کیا کہ رواسی نے ابو عمرو بن علاء سے سبا کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا : میں نہیں جانتا وہ کیا ہے ؟ نحاس نے کہا : فراء نے ابو عمرو پر تاویل کی ہے انہوں نے اسے تنوین سے روک دیا ہے کیونکہ وہ مجہول ہے، کیونکہ جب شے معروف نہ ہو تو وہ منصرف نہیں ہوتی۔ نحاس نے کہا : ابو عمرو اس قسم کا قول کرنے سے جلیل شان والا ہے۔ رواسی نے اس سے جو بیان کیا ہے کہ یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ غیر منصرف اس لیے ہے کیونکہ وہ اسے نہیں پہچانتے تھے۔ انہوں نے کہا : میں اسے نہیں پہچانتا، اگر کسی نحوی سے یہ پوچھا جائے تو وہ کہہ دے، میں اسے نہیں پہنچانتا تو اس میں اس کی دلیل نہیں کہ یہ غیر منصرف ہے بلکہ حق اس کے علاوہ ہے ضروری ہے کہ جب وہ اسے نہیں پہچانتا تو اسے تنوین دے کیونکہ اسماء میں اصل ان کا منصرف ہوتا ہے۔ شے کو تنوین سے روکا جاتا ہے کسی ایسی علت کی وجہ سے جو اس پر داخل ہوتی ہے۔ اصل یقینی طور پر ثابت ہے تو جو معروف نہ ہو وہ اس کے ساتھ زائل نہیں ہوتا اور نحویوں سے کثیر کلام ذکر کی ہے اس کے آخر میں کہا : سباء کے بارے جو بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اصل میں آدمی کا اسم ہے اگر تو اس کو تنوین دے تو یہ اس لیے کیونکہ یہ قبیلہ کا نام ہے اگر تو اس کو تنوین نہ دے تو تو اسے قبیلہ کا نام قرار دے گا، جس طرح ثمود ہے مگر سیبویہ کے نزدیک تنوین اور منصرف ہے اس میں اس کی دلیل قطعی ہے کیونکہ جب یہ ایسا اسم ہے جو مذکر اور مونث دونوں طرح آسکتا ہے تو مذکر اولی ہے کیونکہ یہی اصل اور زیادہ خفیف ہے۔
1
؎۔ المحرر الوجیز، جلد
4
، صفحہ
255
۔
2
؎۔ ایضاً مسئلہ نمبر
8
:۔ آیت میں دلیل ہے کہ چھوٹا بڑے سے کہتا ہے متعلم، عالم سے کہتا ہے : عندی ما لیس عندک میرے پاس وہ ہے جو تیرے پاس نہیں ہے۔ جب یہ چیز اس پر واضح ہوگئی اور اس کو اس کا یقین ہوگیا۔ یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ہیں اپنی جلالت شان اور علم کے باوجود اجازت طلب کرنے والے حکم سے آگاہ نہیں تھے۔ تمیم کا علم حضرت عمارہ وغیرہ کے پاس تھا اور حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس نہیں تھا۔ دونوں صحابہ نے کہا : جنبی تمیم نہیں کرے گا۔ بالغہ عورت کے بارے میں اذن کا حکم حضرت ابن عباس ؓ کے پاس تھا اور حضرت مسور بن مخرمہ پر مخفی تھا۔ اس کی کثیر امثلہ ہیں اس وجہ سے اس کے ساتھ اس بحث کو طویل نہیں کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
9
:۔ انی وجدث امراۃ تملکھم جب ہد ہد نے کہا : جئتک من سیا بنیا یقین حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : اس کی کیا خبر ہے ؟ اس نے عرض کی : انی وجدت امراۃ تملکھم مراد بلقیس بنت شراحیل ہے جو اہل سبا کی ملکہ تھی۔ یہ سوال کیا جاتا ہے : حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر اس کا مکان کیسے مخفی رہا جب کہ آپ کے پڑائوں اور اس کے شہر کے درمیان فاصلہ بہت تھوڑا تھا ؟ یہ صنعاء اور مآرب کے درمیان تین دن یا تین میل کی مسافت تھی۔ اس کا جواب یہ ہے اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت کی وجہ سے اسے مخفی رکھا جس طرح حضرت یوسف کا مکان حضرت یعقوب پر مخفی رکھا۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ اس کے آباء میں سے ایک جن تھا۔ ابن عربی نے کہا : یہ ایسا امر ہے جس کا ملحد انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں : جن نہ کھاتے ہیں اور نہ ان کے ہاں ولادت ہوتی ہے۔ انہوں نے جھوٹ بولا اللہ تعالیٰ ان سب پر لعنت فرمائے۔ یہ صحیح ہے ان کا نکاح عقلاً جائز ہے اگر نقلا ًصحیح ثابت ہوجائے تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔ میں کہتا ہوں : ابو دائود نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث نقل کی ہے۔ جنوں کا وفد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، انہوں نے عرض کی : اے محمد ﷺ ! آپ اپنی امت کو منع کریں کہ وہ ہڈی، لید اور جحجم ( سر کی کھوپڑی، لکڑی کا پیالہ) سے استنجاء نہ کریں، اللہ تعالیٰ نے ان میں ہمارے لیے رزق بنایا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے ” ہر وہ ہڈی جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھ لگے گی تو اس پر وافر گوشت ہوگا اور ہر لید کا دانہ تمہاری سواریوں کے لیے چارہ ہوگا “۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ان دونوں کے ساتھ استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمہارے جن بھائیوں کا کھانا ہے “۔ (
1
) بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے میں نے عرض کی : یہ ہڈی اور لید کا کیا معاملہ ہے ؟ فرمایا :” یہ جنوں کا کھانا ہے میرے پاس نصیحتیں کے جنوں کا وفد آیا وہ کتنے اچھے جن تھے انہوں نے مجھ سے زاد راہ کا سوال کیا، میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ کسی ہڈی اور لید پر نہ گزریں مگر اس پر کھانا پائیں “۔ (
2
) یہ سب روایات اس میں نص ہیں کہ وہ کھاتے ہیں۔ جہاں تک ان کے نکاح کا تعلق ہے۔ ” وَشَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ “ ( الاسرائ :
64
) کے ضمن میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ وہب بن جریربن حازم، خلیل بن احمد سے وہ عثمان بن حاضر سے روایت نقل کرتے ہیں کہ بلقیس کی ماں جنوں میں سے تھی جسے بلعم بنت شیعان کہا جاتا تھا اس کے بارے میں مزید گفتگو انشاء اللہ آگے آئے گی۔
1
؎۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الجھر بالقراۃ، جلد
1
، صفحہ
184
2
؎۔ صحیح بخاری، کتاب فی بنیان الکعبہ، باب ذکر الجن وقول اللہ تعالیٰ قل اوحی الی انہ، جلد
1
، صفحہ
544
مسئلہ نمبر
10
:۔ امام بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو بادشاہ بنایا ہے فرمایا : لن یفلح قوم ولو امرھم امراۃ وہ قوم فلاح نہیں پائے گی جس نے اپنے امور عورت کے سپرد کردیئے (
1
) قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : یہ اس امر میں نص ہے کہ عورت خلیفہ نہ ہو اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ محمد بن جریر طبری سے مروی ہے کہ یہ جائز ہے کہ عورت قاضی ہو ان سے یہ قول ثابت نہیں۔ شاید ان سے یہ قول اسی طرح منقول ہے جس طرح امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ وہ ان امور میں فیصلہ کرسکتی ہے جن میں وہ گواہی دے سکتی ہے وہ علی الاطلاق قاضی نہیں بن سکتی اور نہ اس کے لیے یہ لکھا جائے کہ فلانہ حکم پر مقدم ہے اس کا سبیل تحکیم اور قضیہ واحدہ میں نائب بنانا ہے یہی وہ گمان ہے جو امام ابوحنیفہ اور ابن جریر کے بارے میں ہے۔ حضرت عمر سے مروی ہے کہ آپ نے ایک عورت کو بازار کی نگرانی پر مقرر کیا۔ یہ ثابت نہیں تم اس کی طرف متوجہ نہ ہو یہ احادیث میں بدعت جاری کرنے والوں کے وساوس ہیں۔ اس مسئلہ میں قاضی ابوبکر بن طب مالکی اشعری نے ابو الفرج بن طرار شیخ شافیعہ کے ساتھ مناظرہ کیا ابو الفرج نے کہا : اس امر پر دلیل کی عورت کیلئے جائز ہے کہ وہ فیصلہ کرے وہ یہ ہے احکام سے غرض یہ ہے کہ قاضی ان کو نافذ کرے، اس پر گواہوں کو سنے، جھگڑا کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے یہ عورت کی طرف سے بھی اسی طرح ممکن ہے جس طرح مرد کی جانب سے ممکن ہے۔ قاضی ابوبکر نے اس پر اعتراض کیا اور امامت کبریٰ سے ان کے کلام میں نقض پیش کیا کیونکہ اس سے غرض سرحدوں کی حفاظت ہے امور کی تدبیر ہے، خراج کی وصولی ہے اور اسے مستحقین کی طرف لوٹانا ہے۔ یہ فرائض جس طرح مرد سے واقع ہوتے ہیں عورت سے واقع نہیں ہوتے۔ ابن عربی نے کہا : اس مسئلہ میں شیخین کا کلام کوئی چیز نہیں عورت کے لیے مجلس میں آنا ممکن نہیں ہوتا، وہ مردوں سے میل جول نہیں رکھ سکتی اور ہم پلہ کے ساتھ جو معاملہ کرتا ہے وہ ایسا نہیں کرسکتی کیونکہ اگر وہ نوجوان ہوگی تو مرد کا اس کی طرف دیکھنا اور کلام کرنا حرام ہوگا۔ اگر وہ پکی عمر کی ہو مرد اس کے ساتھ اکٹھے نہیں بیٹھ سکتا۔ مردوں کی مجلس ایک ہوتی ہے وہ ان کے ساتھ بھیڑ کرے گی وہ ان کی طرف دیکھے گی جو آدمی اس قسم کا تصور رکے وہ فلاح نہیں پا سکتا اور نہ وہ جو اس قسم کا اعتقاد رکھتا ہے۔ مسئلہ نمبر
11
:۔ واوتیت من کل شی یہ کلام مبالغہ کے طور پر ہے یعنی مملکت جس کی محتاج ہوتی ہے وہ سب مجھے حاصل ہے اوتیت من کلی شی فی زمانھا شیاء، تو مفعول کو حذف کردیا گیا، کیونکہ کلام اس پر دال ہے، والھا عرش عظیم عرش سے مرادسریر ( تخت) ہے اس کی عظیم سے جو صف لگائی گئی ہے وہ ہیئت اور سلطان کے رتبہ کے لحاظ سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ سونے کا تخت تھا جس پر وہ بیٹھا کرتی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہاں عرش سے مراد ملک ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہیایکم یاتینی بعر شھا اگر تو کہے : ہد ہد نے کیسے بلقیس کے عرش اور اللہ تعالیٰ کے عرش میں عظیم کے ساتھ صفت لگا کر برابری کی ہے ؟ میں کہوں گا : دونوں وصفوں میں بہت ہی دوری ہے کیونکہ ملکہ بلقیس کے عرش کی عظمت اس مناسبت سے ہے جو اس جیسے بادشاہ بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عرش کی عظمت ان چیزوں کے اعتبار سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیں جیسے آسمان اور زمین۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس کے عرش کی لمبائی اسی ہاتھ تھی اور اس کی چوڑائی چالیس ہاتھ تھی اور اونچائی تیس ہاتھ تھی، جس پر موتیوں، سرخ یاقوت اور سبز زبر جد کا تاج تھا۔ قتادہ نے کہا : اس کے پائے موتیوں اور جواہرات کے تھے اس پر دیباج ( ریشم کی ایک قسم) اور حریر کے پردے تھے، اس کے ساتھ تالے تھے۔ مقاتل نے کہا : وہ اسی ہاتھ لمبا اور اسی ہاتھ چوڑا تھا اس کی اونچائی اسی ہاتھ تھی اس پر جواہرات جڑے تھے۔ ابن اسحاق نے کہا : عورتیں اس کی خدمت گار تھیں اس کی خدمت کے لیے چھ سو عورتیں تھیں۔ ابن عطیہ نے کہا : آیت سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ ایک ایسی عورت تھی جو یمن کے شہروں کی ملکہ تھی اس کا عظیم ملک اور عظیم تخت تھا۔ وہ کافر قوم کی ایک کافر عورت تھی۔ (
1
)
1
؎۔ صحیح بخاری، کتاب السفازی، باب کتاب النبی ﷺ الی کسری وقیصر، جلد
2
، صفحہ
637
مسئلہ نمبر
12
ر
1
:۔ وجدثھا وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ امت ان لوگوں میں سے تھی جو سورج کی پوجا کرتے ہیں جس طرح روایت کی گئی ہے وہ زنادقہ تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ مجوسی تھے وہ انوار کی عبادت کیا کرتے تھے۔ نافع سے مروی ہے کہ وقف عرش پر ہوگا۔ مہدوی نے کہا : اس تعبیر کی بناء پر عظیم مابعد کے متعلق ہوگا اس تعبیر کی بناء پر یہ مناسب ہوگا کہ تقدیر کلام یوں ہو عظیم ان وجدتھا یعنی عظیم وجودی ایاھا کافرہ۔ ابن انباری نے کہا : ولھا عرش عظیم اس پر وقف اچھا ہے عرش پر وقف جائز نہیں اور عظیم۔ وجدثھا سے ابتداء جائز نہیں مگر جو فتحہ دے کیونکہ عظیم عرش کی صفت ہے اگر یہ وجدت کے متعلق ہو تو تو کہتا : عظیمۃ وجدتھا یہ ہر اعتبار سے محال ہے۔ ابوبکر محمد بن حسین بن شہر یار، ابو عبد اللہ حسین بن اسود عجلی سے وہ بعض اہل علم سے روات نقل کرتے ہیں کہ عرش پر وقت اور عظیم سے ابتداء اس معنی کی بناء پر ہوگی ان کا سورج اور چاند کی عبادت کرنا عظیم ہے۔ کہا : میں نے اس کو کہتے ہوئے سنا جو اس مذہب کی تائید کرتا ہے اور اللہ اللہ کرتا ہے کہ اس کا عرش اس سے حقیر اور دقیق تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی صفت عظیم سے لگاتا۔ انباری نے کہا : میرے نزدیک پسندیدہ وہ ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے کیونکہ سورج اور چاند کی عبادت کے مضمر ہونے پر کوئی دلیل نہیں اور یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی صفت عظیم سے لگائے کیونکہ اس نے اسے طول اور عرض میں متناہی حد کو دیکھا۔ عرش کے اعراب پر اس کا جاری ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ اس کی نعت ہے۔ وزین لھم الشیطن اعما لھم یعنی ان میں جو کفر تھا اسے مزین کیا فصدھم عن السبیل توحید کے راستہ سے انہیں روکا اور اس امر کو واضح کیا کہ جو توحید کا راستہ نہیں وہ ایسا راستہ نہیں جس سے یقینی طور پر نفع حاصل کیا جائے۔ فھم لا یھتدون وہ اللہ تعالیٰ اور توحید کی طرف ہدایت پانے والے نہیں۔ مسئلہ نمبر
13
:۔ الا یسجدو اللہ ابو عمرو، نافع، عاصم اور حمزہ نے الا یسجدو اللہ، الا کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن انباری نے کہا : جس نے الا کو شددی ہے اس کے نزدیک فھم لا یھتدون مکمل کلام کیونکہ معنی ہے شیطان نے
1
؎۔ المحرر لوجیز، جلد
4
صفحہ
256
ان کے لیے مزید کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہ کریں۔ نحاس نے کہا : یہ ان ہے جو لا پر داخل ہوا ہے ان محل نصب میں ہے۔ اخفش نے کہا : اسے زین نے نصب دی ہے تقدیر کلام یہ ہوگی زین لھم لئلا یسجدوا۔ کسائی نے کہا : صدھم نے اسے نصب دی ہے تقدیر کلام یہ ہوگی قصدھم الا یسجدوا دونوں صورتوں میں مفعول لہ ہے۔ یزیدی اور علی بن سلیمان نے کہا : ان، اعمالھم سے بدل ہے یہ محل نصب میں ہے۔ ابو عمرو نے کہا : ان محل جز میں جو السبیل سے بدل ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس میں عامل لا یھتدون ہے تقدیر کلام یہ ہوگی فھم لا یھتدون ان یسجدواللہ یعنی وہ نہیں جانتے کہ یہ ان پر واجب تھا۔ اس قول کی بناء پر لا زائدہ ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ما منعک الا تسجد (الاعراف :
12
) یعنی تجھے کس نے سجدہ کرنے سے منع کیا ؟ اس قرأت کی بناء پر یہ سجدہ کی جگہ نہیں کیونکہ اس سورت میں یہ ان کے سجدہ ترک کرنے کی خبر ہے، خواہ وہ تزہین روکنے اور ہدایت پانے سے رکنے کی صورت میں ہو۔ زہری، کسائی وغیرہما نے پڑھا الا یسجد واللہ معنی ہے خبردار اے لوگو ! تم سجدہ کرو کیونکہ بحرف ندا کے ساتھ اسماء کو ندا کی جاتی ہے افعال کو ندا نہیں کی جاتی۔ سیبویہ نے یہ شعر پڑھا : یا لعنۃ اللہ والاقوام کلھم والضالحین علی سمعان من جار سیبویہ نے کہا : یا حرف ندا لعنت کے لیے نہیں کیونکہ اگر اس کا منادی لعنۃ ہوتا تو حرف ندا اس کو نصب دیتا کیونکہ یہ منادی مضاف ہوتا، لیکن اس کی تقدیر کلام یہ ہے یا ھولا لعنۃ اللہ والا قوام علی سمعان۔ اے لوگو ! تمام اقوام کی سمعان پر لعنت ہو۔ بعض علماء نے عربوں سے اپنے سماع کو بیان کیا ہے الا یا ارحم الا اصدقو۔ وہ اس سے یہ مراد لتے ہیں خبردار اے قوم ! تم رحم کرو سچ بولو۔ اس قرأت کی بناء پر اسجدو امر کی وجہ سے مجزوم ہے اور وقف الایا پر ہوگا پھر تو نئے سرے سے کلام کرے گا اور تو کہے گا : اسجدوا، کسائی نے کہا : میں شیوخ کے امر کے ارادہ سے تخفیف کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنتا تھا عبد اللہ کی قرأت میں ہے الاھل تسجدون للہ یعنی تاء اور نون ہے۔ ابی کی قرأت میں الا تسجدون للہ یہ دونوں قرأیتیں اس کے لیے حجت ہیں جو تخفیف کرتا ہے۔ زجاج نے کہا : تخفیف کی قرأت سجدہ کے وجوب کا تقاضا کرتی ہے تشدید سجدہ کا تقاضا کرتی۔ کہا تخفیف بہت اچھی توجیہ ہے مگر اس میں خبر سبا کے امر سے منقطع ہوجاتی ہے پھر اس کے بعد ان کے ذکر کی طرف رجوع کیا۔ تشدید کے ساتھ قرأت ایسی خبر ہے جس کا بعض بعض کے تابع ہے اس کے وسط میں کوئی انقطاع نہیں اس کی مثل نحاس نے کہا : تخفیف کے ساتھ قرأت بعید ہے کیونکہ کلام جملہ معترضہ بن جائے گی اور تشدید کے ساتھ قرأت متسق ہوجائے گی، نیز جو مستورات ہیں وہ اس قرأت کے علاوہ ہیں کیونکہ اس سے وہ الف حذف ہیں۔ اس کی مثل کو ایک الف کے حذف کے ساتھ اختصار کیا جاتا ہے۔ جس طرح یا عیسیٰ بن مریم۔ ابن انباری نے کہا۔ اسجدوا کا الف ساقط ہوگیا جس طرح یہ ساقط ہوجاتا ہے ان کے ساتھ جب ظاہر ہو۔ جب یا کا الف ساقط ہوگیا تو اسجدوا کا الف متصل ہوگیا تو وہ گرگیا اس کا سقوط اختصار پر دلالت کرنے والا شمار ہوا اور اس پر ترجیح دینے کے لیے شمار ہوا جو تخفیف کا قائل ہے اور الفاظ کی کمی کا قائل ہے۔ جوہری نے اپنی کتاب کے آخر میں کہا : بعض نے کہا اس جگہ یا یہ تنبیہ کے لیے ہے گویا فرمایا : لا اسجدو اللہ جب اس پر یہ تنیبہ کے لیے داخل کی گئی تو اسجدو میں جو الف تھا وہ ساقط ہوگیا کیونکہ یہ الف وصل ہے اور یا میں جو الف تھا وہ اجتماع ساکنین کی وجہ سے حذف ہوگیا کیونکہ یہ اور سین دونوں ساکن ہیں۔ ذورمہ نے کہا : الا یا اسلمی یا دارمی علی البلی ولا زال منھلا بجر عائک القطر (
1
) محل استدلال اسلمی کا ہمزہ ہے۔ جرجانی نے کہا : یہ کلام معترضہ ہو۔ ہد ہد کی جانب سے ہو، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جانب سے ہو یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو، یعنی الا یسجدوا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللہ “ ( الجاثیہ :
14
) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ امر ہے یعنی بخشش طلب کرو۔ اسی پر مصحف کی کتابت منظم ہے یعنی یہاں ندا نہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : العظیم تک ہد ہدکلام ہے یہ ابن زید اور ابن اسحاق کا قول ہے۔ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ تو مخاطب ہی نہیں تو وہ شرع کے معنی میں کیسے گفتگو کرسکتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول ہے جب ہد ہد نے آپ کو اس قوم کی خبر دی۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہو یہ دو کلاموں کے درمیان جملہ معترضہ ہوگا یہ تامل کے ساتھ ثابت ہے۔ الا میں تشدید کے ساتھ قرأت یہ معنی دیتی ہے کہ کلام ہد ہد ہے اور تخفیف کی قرأت اس سے مانع ہے۔ تخفیف کی قرأت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ کا امر ہے یہ تقاضا اس امر کی وجہ سے ہے جس کو ہم نے بیان کیا ہے۔ زمحشری نے کہا : اگر تو سوال کرے کیا سجدہ تلاوت دونوں قرآیتوں میں واجب ہے یا ایک قرأت میں واجب ہے ؟ میں کہوں گا : دونوں قرأیتوں میں واجب ہے کیونکہ سجدہ کے جتنے بھی مواضع ہیں یا تو ان کا امر ہے یا ان لوگوں کی مدح ہے جو سجدہ کرتے ہیں یا جو اسے ترک کرے اس کی مذمت ہے دونوں قرآیتوں میں سے ایک سجدہ کا امر ہے اور دوسری تارک کے لیے مذمت ہے۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں خبر دی کہ وہ سجد نہیں کرتے جس طرح سورة انشقاق میں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس میں سجدہ کیا، جس طرح بخاری اور دوسری کتب میں ثابت ہے۔ اسی طرح سورة نمل کا مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ بہتر جانتا ہے۔ زمحشری نے کہا : زجاج نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ تخفیف کی صورت میں سجدہ واجب ہے اور تشدید کی صورت میں واجب نہیں تو اس کی طرف رجوع نہیں کیا جائیگا۔ الذی یخرج الحب خبہ السماء سے مراد اسکے قطرات ہیں اور خب الارض سے مراد اس کے خزانے اور نباتات ہیں۔ قتادہ نے کہا : خب سے مراد اور راز ہے۔ نحاس نے کہا : یہ مروی ہے یعنی جو آسمانوں اور زمین میں غائب ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ما تخفون وما تعلنون دلالت کرتا ہے۔ عکرمہ اور مالک بن دینار نے کہا : الخب باء کے فتحہ کے ساتھ اور ہمزہ کے بغیر ہے۔ مہدوی نے کہا : یہ تخفیف قیاسی ہے اور جو وقف کی صورت میں ہمزہ کو ترک کردیتا ہے اس کا ذکر ہے۔ نحاس نے کا : ابو حاتم نے حکایت بیان کی ہے کہ عکرمہ نے الذی یخرج الخبا پڑھا یعنی ہمزہ کے بغیر الف کے ساتھ اور گمان کیا کہ یہ لغت عرب میں جائز نہیں علت یہ بیان کی کہ اگر ہمزہ میں تخفیف کی جائے تو اس کی حرکت باء کو دی جاتی ہے تو کہا : الخب لی السموات والارض اگر ہمزہ میں تحویل کی جائے تو الخبی باء ساکن اور اس کے بعد یاء ہوگی۔ نحاس نے کہا : پس علی بن سلیمان کو کہتے ہوئے سنا وہ محمد بن یزید سے بیان کرتے ہیں کہ ابو حاتم نحو میں اپنے ساتھیوں سے مرتبہ میں کم تھے وہ ان کے مرتبہ کو لاح نہیں ہوتے تھے، مگر جب وہ اپنے شہر سے نکلے تو ان سے بڑا نہ پایا گیا۔
1
؎۔ المحرر الوجیز، جلد
4
، صفحہ
256
سیبویہ نے عربوں سے حکایت بیان کی کہ وہ ہمزہ کو الف سے بدل دیتے ہیں جب اس کا ما قبل ساکن ہو اور وہ خود مفتوح ہو، اسے وائو سے بدل دیا جاتا ہے۔ جب اس کا ما قبل ساکن ہو اور وہ خود مضموم ہو، اسے یاء سے بدل دیا جاتا ہے جب اس کا ما قبل ساکن ہو او وہ خود مکسور ہو۔ تو کہتا ہے : ھذا الوثر، عجبت من الولی رایت الوثا۔ یہ وثت یدہ سے مشتق ہے اس طرح یہ ہے ھذا الخبو، عجبت من الخبی رایت الخبا۔ یہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ہمزہ خفیفہ ہے۔ ہمزہ کو ان حروف سے بدل دیا جاتا ہے۔ سیبویہ نے بنی تمیم اور بنی اسد سے یہ روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں، ھذا الغبو، جب ہمزہ مضموم ہو تو وہ ساکن کو ضمہ دیتے ہیں۔ وہ ہمزہ کو ثابت رکھتے ہیں اور ساکن کو کسرہ دیتے ہیں جب ہمزہ مکسور ہو، جب ہمزہ مفتوح ہو تو ساکن کو فتحہ دیتے ہیں۔ سیبویہ نے یہ حکایت بھی کی ہے وہ کسرہ دیتے ہیں اگرچہ ہمہ مضموم ہو مگر یہ بنی تمیم سے مروی ہے وہ کہتے ہیں : الردی اس نے گمان کیا ہے وہ دال کو ضمہ نہیں دیتے کیونکہ وہ اس ضمہ کو ناپسند کرتے ہیں جس سے قبل کسرہ ہو کیونکہ کلام میں کوئی فعل نہیں یہ سب قرأیتیں اس لغت پر داخل ہیں جنہیں جماعت نے پڑھا ہے۔ عبد اللہ کی قرأت میں الذی یخرہ الخبا من السموات ہے من اور فی ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں عرب کہتے ہیں : لا ستخر جن العلم فیکم اس سے وہ منکم مراد لیتے ہیں : وہ فراء کا قول ہے۔ ویعلم ما تخفون وما تعلنون دونوں میں عام قرأت یاء کے ساتھ ہے۔ یہ قرأت یہ معنی دیتی ہے کہ کلام ہد ہد کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے توحید کی معرفت، اس کی بارگاہ میں سجدہ کے وجوب، وہ سورج کو جو سجدہ کرتے اس کا انکار، اس کی شیطان کی طرف ضافت اور شیطان کا ان کے لیے اس امر کو مزین کرنا اس سب چیزوں کی معرفت کے لیی ہد ہد کو خاص کیا۔ جس طرح اس نے دوسرے پرندوں اور حیوانوں کو لطیف معارف کے لیے خاص کیا جہاں تک ترجیح پانے والے عقول رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ حجدری، عیسیٰ بن عمر، حفص اور کسائی نے تخفون اور تعلنون پڑھا ہے یہ ساء کے ساتھ خطاب کا صیغہ ہے یہ قرأت یہ معنی دیتی ہے کہ آیت اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت محمد ﷺ کی امت کو خطاب ہے۔
Top