Al-Qurtubi - An-Naml : 26
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۩  ۞
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا رَبُّ : رب (مالک) الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ : عرش عظیم
خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا مالک ہے
اللہ لا الہ الا ھو رب العرش العظیم ابن محصین نے العظیم پڑھا ہے مرفوع ہے لفظ اللہ اسم جلالت کی صفت ہے۔ باقی قراء نے مجرور پڑھا ہے یہ العرش کی صفت ہے رب کا خصوصاً ذکر فرمایا کیونکہ مخلوقات میں سے عظیم ہے اس کے علاوہ اس کے ضمن میں اور اس کے قبضہ میں ہیں۔ مسئلہ نمبر 14 :۔ ستظر یہ اس نظر سے مشتق ہے جس کا معنی غور و فکر کرنا ہے۔ اصدقت امر کنت من الکذبین کیا تو اپنی بات میں سچا ہے یا جھوٹا ہے کنت یہ انت کے معنی میں ہے کہا : ستنظر اصدقت یہ نہیں کہا۔ سننضر فی امرت کیونکہ جب ہد ہد نے علم میں فخر کی تصریح کردی احطت بما لم تحط بہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے قول کے ساتھ تصرزیح کی ستظر اصدقت ام کنت اس نے جو کہا تھا یہ اس کے لیے کافی ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 15 :۔ اصدقت ام کنت من الکذبین یہ اس امر پر دلیل ہے کہ امام پر واجب ہے کہ وہ اپن رعیت کا عذر قبول کرے اور ان کے باغی عذروں کی وجہ سے ان کے ظاہر احوال میں جو عقوبت واقع ہو رہی تھی اس کو ختم کرے، کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہد ہد کو کوئی سزا نہ دی جب اس نے معذرت پیش کی کیونکہ ہد ہد کا صدق عذر بن گیا کیونکہ اس نے اس امر کی خبر دی جو جہاد کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جہاد سے محبت کرتے تھے۔ صحیح میں اللہ کی ذات سے بڑھ کر کوئی بھی معذرت سے محبت کرنے والا نہیں اس وجہ سے اس نے کتاب کو نازل کیا اور رسولوں کو بھیجا “ (1) حضرت عمر ؓ نے نعمان بن عدی کا عذر قبول کیا اور اسے سزا نہ دی۔ لیکن امام کو حق حاصل ہے کہ وہ خوب چھان بیان کرے جب اس کے ساتھ کوئی حکم شرعی بھی متعلق ہو۔ جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کیونکہ جب ہد ہد نے آپ کی خدمت میں عرض کی : انی وجدت امراۃ تملکھم و اوتیت من کل شی وولھا عرش عظیم۔ آپ کی طمع نہ بھڑکی اور نہ ملک میں زیادتی کی محلت آپ کو اس طرف لے گئی کہ آپ اس سے تعرض کریں، یہاں تک کہ ہد ہد نے کہا : وجدتھا و قومھا یسجدون للشمس من دون اللہ جب یہ سنا تو اس وقت غصے میں ہوئے اور جو اس نے خبری دی اس کی تہہ تک پہنچنے کا فیصلہ کیا اور جو امور ابھی تک غیب تھے ان کو حاصل کرنا چاہا۔ فرمایا : سنظر اصدقت ام کنت من الکذبین اس کی مثال وہ روایت ہے جس کو حضرت مسور بن مخرمہ نے روایت کیا ہے جب حضرت عمر ؓ نے لوگوں سے املاص المراۃ میں مشورہ کیا۔ املاص المراۃ سے مراد وہ عورت ہے جس کے پیٹ پر ضرب لگائی جاتی ہے تو وہ اپنا نا مکمل بچہ پھینک دیتی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا : میں نبی کریم ﷺ کے پاس موجود تھا تو حضور ﷺ نے اس سے غلام یا لونڈی کے غرہ ( چھوٹا غلام) کا فیصلہ کیا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : وہ آدمی لائو جو تیرے حق میں گواہی دے۔ حضرت محمد بن مسلمہ نے ان کے حق میں گواہی دی۔ ایک روایت میں ہے : تو یہاں سے نہیں جاسکتا یہاں تک اس نے نکلنے کی کوئی راہ پائے۔ میں نکلا تو میں نے حضرت محمد مسلمہ کو پایا میں انہیں لے آیا تو انہوں نے گواہی دی۔ اس کی مثل اجازت طلب کرنے کے حوالے سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا واقعہ ہے۔ مسئلہ نمبر 16 :۔ اذھب یکبتی ھذا فالقہ الیم زجاج نے کہا : اس میں پانچ وجوہ ہیں : فالقہ الیھم لفظ میں یاء ثابت ہے یاء کو حدف کرنے اور کسرہ کو ثابت کرنے کے ساتھ جو یاء کے حذف پر دال ہے۔ فالقہ الیم باء کے ضمہ اور وائو کو ثابت کرنے کے ساتھ اپنے اصل پر۔ فالقہ الیم وائو کے حذف اور ضمہ کو ثابت کرنے کے ساتھ۔ فالقہ الیھم پانچویں لغت وہ ہے جسے حمزہ نے ہاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ فالقہ الیم۔ نحاس نے کہا : نحویوں کے نزدیک یہ جائز نہیں مگر بعیدی حلیہ کی صورت میں جائز ہو سکتا ہے وہ وقف کو مقدر کیا جائے۔ میں نے علی بن سلیمان کو کہتے ہوئے سنا : اس علت کی طرف متوجہ نہ ہو، اگر یہ جائز ہوتا، کہ تو وہ وصل کرے اور وقف کی نیت کرے تو اسماء سے اعراب کو حذف کرنا جائز ہوتا۔ الیھم کہا : ضمیر جمع کی ذکر کی الیھا نہیں کہا کیونکہ کہا : وجدلھا و قومھا یجسدون للشمس گویا فرمایا : اسے ان کی طرف پھینکو جن کا یہ دین ہے۔ مقصود دین کا امر کا اہتمام ہے اور غیر سے 1 ؎۔ صحیح مسلم، باب غیرۃ اللہ تعالیٰ و تحریم الفواحش، کتاب التوبۃ، جلد 2، صفحہ : 358 اس کے ساتھ اعراض کرنا ہے، اسی وجہ سے کتاب میں خطاب کی بنیاد جمع کے صیغہ پر رکھی گئی ہے۔ اس آیت کے قصوں میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ ہد ہد پہنچا اس نے اس ملکہ کے ارد گرد دیواروں سے بناحجاب پایا اس نے اس روشندان کا قصہ کیا، بلقیس نے یہ روشن دان اس لیے بنوایا تھا تاکہ سورج کے طلوع ہونے کے وقت روشنی اس سے داخل ہوتا کہ وہ سورج کی عبادت کرسکتے۔ وہ اس روشن دان سے داخل ہو اور خط ملکہ بلقیس پر پھینک دیا وہ اس وقت سوئی ہوئی تھی یہ اس طرح روایت کیا گیا ہے جب وہ بیدار ہوئی تو اس خط کو پایا تو اس خط نے اس کو خوفزدہ کردیا۔ اس نے گمان کیا کہ کوئی اس کے کمرہ میں داخل ہوا ہے پھر وہ اٹھی تو اس نے وہی حال پایا جس طرح پہلے کا معمول تھا اس نے روشن دان کی طرف دیکھا تاکہ سورج کے معاملہ کا جائزہ لے تو اس نے ہد ہد کو دیکھا تو اسے علم ہوگیا۔ وہب اور ابن زید نے کہا : سورج کے مطلع کے سامنے روشن دان تھا جب سورج طلوع ہوتا تو وہ سجدہ کرتی ہد ہد نے اپنے پروں کے ساتھ اسے بند کردیا۔ سورج بلند ہو اور بلقیس کو اس کا علم نہ ہوا جب سورج کے نظر آنے میں دیر ہوگئی تو وہ دیکھنے لگی ہد ہد نے صحیفہ اس کی طرف پھینکا جب اس نے مہر دیکھی تو وہ کا نپ اٹھی اور عاجزی کا اظہار کیا کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت، ان کی مہر میں تھی، اس نے خط پڑھا اس نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور جو کچھ ہونے والا تھا اسکے بارے میں ان سے بات چیت کی۔ مقاتل نے کہا : ہد ہد نے خط اپنی چونچ میں اٹھایا وہ اڑا یہاں تک کہ عورت کے سر پر رک گیا اس کے اردا گرد اس کے لشکر تھے۔ وہ تھوڑی دیر پھڑپھڑایا جب کہ لوگ اسے دیکھ رہے تھے عورت نے اپنا سر اوپر کو اٹھایاتو ہد ہد نے خط اس کو گود میں پھینک دیا۔ مسئلہ نمبر 17 :۔ اس آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ مشرکوں کو خط بھیجنا، انہیں دعوت پہچانا اور اسلام کی طرف انہیں دعوت دینا درست ہے۔ نبی کریم ﷺ نے کسریٰ ، قیصر اور ہر جابر کی طرف خطوط بھیجے جس طرح آل عمران میں ہے۔ مسئلہ نمبر 18 :۔ ثم تول عنھم پھر ایک طرف ہوجانے کا حکم دیا یہ امر حسن ادب کے طور پر تھا تاکہ وہ اس طرح الگ ہوجائے جس طرح بادشاہوں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا ہے معنی ہے قریب ہی رہنا تاکہ تو ان کے جواب کو دیکھے، یہ وہب بن منبہ کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا : اسے واپس آنے کا حکم دیا، یعنی خط اس پر پھنکنا اور واپس آجانا (1) فانظر ماذا یرجعون یہ حکم میں مقدم ہے ثم تول یہ حکم میں موخر ہے کلام میں اتساق نمایاں ہے، یعنی القہ ثم تول، اس کے درمیان دیکھنا یعنی انتظار کرنا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے جان لے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ ( النبائ : 40) جان لو وہ کیا جواب دیتے ہیں اور کیا مشورہ کرتے ہیں ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے، فانظر ماذا یرجعون وہ آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں ؟
Top