Al-Qurtubi - An-Naml : 39
قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ١ۚ وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ
قَالَ : کہا عِفْرِيْتٌ : ایک قوی ہیکل مِّنَ الْجِنِّ : جنات سے اَنَا اٰتِيْكَ : میں آپ کے پاس لے آؤں گا بِهٖ : اس کو قَبْلَ : اس سے قبل اَنْ تَقُوْمَ : کہ آپ کھڑے ہوں مِنْ مَّقَامِكَ : اپنی جگہ سے وَاِنِّىْ : اور بیشک میں عَلَيْهِ : اس پر لَقَوِيٌّ : البتہ قوت والا اَمِيْنٌ : امانت دار
جنات میں سے ایک قوی ہیکل جن نے کہا کہ قبل اسکے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اسکو پاس لا حاضر کرتا ہوں اور میں اس (کے اٹھانے کی) طاقت رکھتا ہوں (اور) امانت دار ہوں
قال عفریت من الجن جمہور کی قرأت یہی ہے۔ ابورجاء اور عیسیٰ ثقفی نے اسے عفریۃ پڑھا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے مروی ہے حدیث میں ہے ” اللہ تعالیٰ عفریہ نفریہ کو نپاسند کرتا ہے۔ “ (1) نفریہ کا لفظ عفریتہ کی اتباع میں آتا ہے۔ قتادہ نے کہا : بڑی مصیبت کو کہتے ہیں۔ نحاس نے کہا : شدید کو عفریہ کہتے ہیں جب اس کے ساتھ خبث ہو۔ دھاء عفرو عفریۃ و عفریت وعفاریۃ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عفریت کا معنی رئیس ہے۔ ایک فرقہ نے قرأت کی قال عفر عین کے نیچے کسرہ ہے، ابن عطیہ نے اس کی حکایت بیان کی ہے۔ نحاس نے کہا، جس نے عفریۃ کہا اس کی جمع عفار ہے جس نے کہا، عفریت، اس کی جمع میں تین صورتیں ہیں۔ اگر چاہے تو کہے : عفاریت اگر چاہے تو کہے : عفار کیونکہ تاء زائدہ ہے، جس طرح کہا جاتا ہے طواغ یہ طاغوت کی جمع ہے اگر چاہے تو تاء کی جگہ یاء لے آئے اور کہے : عفاری، شیطانوں میں سے عفریت اسے کہتے ہیں جوط اقتور اور سرکش ہو۔ تاء زائدہ ہے۔ عربوں نے کہا : تعفرت الرجل۔ جب اس نے اذیت پہچانے والا رویہ اپنایا۔ وہب بن منبہ نے کہ؁: اس عفریت کا نام کو دن تھا۔ نحاس نے اس کا ذکر کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کا نام ذکوان تھا، سہیلی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ شعیب صبائی نے کہا : اس کا نام دعوان تھا۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے وہ صخر جنی تھا۔ اس نام کے بارے میں ذی رمہ کا قول ہے : کانہ کو کب فی اثر عفریۃ مصوب فی سواد اللیل منقضب گویا وہ عفریہ کے پیچھے ستارہ تھا۔ کسائی نے یہ شعر پڑھا : اذل قال شیطانھم العفریت لیس لکم ملک و لاتثبیت جب ان کی عفریت شیطا ننے کہا، تمہارے لئے کوئی ملک اور ثابت قدمی نہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے صحیح میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” گزشتہ رات جنوں میں سے ایک سرکش جن مجھے دھوکہ دینے لگا تاکہ مجھ پر میری نماز کو قطع کر دے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے شدید دھکا دیا۔ “ (1) حدیث ذکر کی۔ بخاری شریف میں تفلت علی البارحۃ کے الفاظ ہیں جو جعل یفتک کی جگہ ہیں۔ موطا میں یحییٰ بن سعید سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت میرا کرائی گئی۔ آپ ﷺ نے ایک سرکش جن کو دیکھا جو آگ کے ایک شعلہ کیساتھ آپ ﷺ کی طلب میں تھا جب بھی رسول اللہ ﷺ متوجہ ہوتے تو اسے دیکھ لیتے۔ جبریل امین نے کہا، کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جو آپ ﷺ کہیں، جب آپ ﷺ وہ کلمات پڑھیں تو اس کا شعلہ بجھ جائے تو اس کی ہڈی سے گوشت الگ ہو کر گر جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ حضرت جبریل امین نے یہ کلمات بتائے : اعوذ باللہ الکریم و کلمات اللہ التامات التی لایجاوزھن برولافاجر من شر ما ینزل من السماء و شر مایعرج و شر ما ذرانی الارض و شرما یخرج منھا ومن فتن اللیل والنھار ومن طوارق اللیل و النھار الا طارق یطرق بخیریا رحمٰن (2) میں اللہ کریم اور اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ جن سے کوئی نیک اور فاجر تجاوز نہیں کرسکتا کی پناہ مانگتا ہوں اس شر سے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور اس شر سے جو آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور اس کے شر سے جو زمین میں بوئی جاتی ہے اور اس شر سے جو زمین سے نکلتی ہے رات اور دن کے فتنوں سے، رات اور دن کے وقت آنے والوں سے مگر جو بھلائی لائے اے رحمٰن۔ انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک یعنی اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے جن میں آپ فیصلہ کرتے ہیں۔ وانی علیہ لقوی امین اس کے اٹھانے پر قوی اور اس میں جو کچھ ہے اس پر امین ہوں۔ حضرت ابن عباس نے کہا : بیوی کی شرمگاہ پر امین ہوں، مہدوی نے یہ ذکر کیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : میں اس سے بھی تیزی کا ارادہ کرتا ہوں۔ قال الذی عندہ علم من الکتب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طوفک اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ وہ فرد جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہآصف بن برخیا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا۔ وہ صدیق تھا اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کا حافظ تھا جب اس اسم کے وسیلہ سے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے جب اس اسم کے وسیلہ سے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول فرماتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا : نبی کریم ﷺ نیارشاد فرمایا :” وہ اسم اعظم جس کے وسیلہ سے آصف بن برخیا نے دعا کی تھی وہ یاحی یا قیوم تھا۔ “ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ان کی زبان میں اھیاشا اھیا ہے۔ زہری نے کہا : جس کے پاس اسم اعظم تھا اس کی دعا یہ تھی یا الھنا والہ کل شی الھا واحد الا الہ الا انت ایتنی بعرشھا اے ہمالہ الہٰ ! اے ہر شے کے الہ ! جو الہ واحد ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں میرے پاس کا عرش لے آئو۔ تو وہ عرش اس کے سامنے تھا۔ مجاہد نے کہا : اس نے دعا کی اور یہ الفاظ کہے : یا الھہ و الہ کل شی ئیا ذالجلال والا کرام سہیلی نے کہا، جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہآصف بن برخیا تھا وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی تھا۔ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے اسم اعظم تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) خود تھے۔ سیاق کلام میں اس قسم کی تاویل صحیح نہیں۔ ایک جماعت نے کہا : وہ حضرت حضرت سلیمان (علیہ السلام) تھے اس تاویل کی صورت میں خطاب عفریت کو ہوگا جب یہ کہا : انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک گویا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس میں دیری محسوس کی اور اسے تحقیر کے انداز میں کہا انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طوفک یہ قول کرنے والے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں۔ ھذا من فضل ربی۔ میں نے کہا : ابن عطیہ نیجو ذکر کیا ہے نحاس نے وہ معانی القرآن میں کہا : انشاء اللہ یہ اچھا قول ہے۔ بحر نے کہا : وہ فرشتہ تھا جس کے قبضہ قدرت میں کتاب المقادیر تھی۔ عفریت کے قول کے وقت اللہ تعالیٰ نے اس فرشت یکو بھیجا۔ سہیلی نے کہا : محمد بن حسن مقری نے ذکر کیا ہے وہ ضبہ بن او تھا۔ یہ کسی اعتبار سے بھی درست نہیں کیونکہ ضبہ وہ ابن ادبن طابحہ تھا۔ اس کا نام عمرو بن الیاس بن مضر بن بزار بن معد تھا۔ معدیہ بخت نصر کے دور میں تھا یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دور کے طویل عرصہ بعد تھا۔ جب معد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں نہہو تو ضبہ بن ادا کیسے ہو سکتا ہے جو اس کے پانچ نسلوں بعد تھا، جو آدمی غور کرے یہ اس کے لئے واضح ہے۔ ابن لہیعہ نے کہا : وہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے۔ ابن زید نے کہا : جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ ایک صالح آدمی تھا جو سمندر کے جزیروں میں سے ایک جزیرہ میں رہتا تھا وہ اس روز زمین میں سکوتن پذیر افراد کو دیکھنے کے لئے نکلا تھا، کیا اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے یا کہ نہیں۔ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پایا اس نی اللہ تعالیٰ کے نام کیوسیلہ سے دعا کی تو عرش لے آیا گیا۔ ساتواں قول ہے : یہ بنی اسرائیل کا ایک آدمی تھا اس کا نام یملیخا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم جانتا تھا، قشیری نے اسے ذکر کیا ہے۔ ابن ابی بزہ نے کہا : وہ آدمی جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس کا نام اس طوم تھا وہ بنی اسرائیل میں بڑا عبادت گزار تھا، غزنوی نے اسے ذکر کیا ہے۔ محمد بن منکدر نے کہا : وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہی تھے۔ خبردار لوگ خیال کرتے ہیں ان کے پاس کوئی نام تھا یہ بات اس طرح نہیں۔ بنی اسرائیل کا ایک آدمی تھا جو عالم تھا اللہ تعالیٰ نے اسے علم اور سمجھ عطا کر رکھی تھی اس نے کہا : انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک فرمایا، لے آ۔ اس نے عضر کی : آپ اللہ کے نبی ہیں اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں، اگر آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ اسے لے آئے گا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ اس عرش کو لے آیا۔ آٹھواں قول بھی ہے : وہحضرت جبریل (علیہ السلام) تھے، یہ امام نخعی کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے اس تعبیر کی بنا پر علم الکتاب سے مراد کتب منزلہ کا علم ہے یا لوح محفوظ میں جو ہے اس کا علم ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ بلقیس کی طرف مکتوب کا علم۔ ابن عطیہ نے کہا : جس پر جمہور کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل کا ایک شخ تھا جس کا نام آصف بن برخیا تھا۔ روایت بیان کی گی ہے : انہوں نے دو رکعت نماز ادا کی پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! اپنی نظر اٹھائیے، تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے نظر یمن کی طرف اٹھائی تو تخت کو دیکھا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی نظر واپس نہ کی مگر وہ تخت آپ کے پاس موجود تھا۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد اتنی طویل نظر ہے جس سے آنکھ تھک ہار کر واپس ہوجاتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد اتنا وقت ہے جس میں انسان آنکھ کھولتا ہے پھر پلک جھپکتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح تو کہتا ہے، افعل کذافی لحظۃ عین میں یہ کام آنکھ جھپکتے کیوقت میں کر گزرت اہوں۔ یہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اگر یہ فعل حضرت سلیمان کی جانب سے ہو تو وہ معجزہ ہوتا ہے۔ اگر یہ آصف یا کسی اور ولی کی جانب سے ہوتا ہے تو یہ کرامت ہوگی۔ اور ولی کی کرامت نبی کا معجزہ ہوا کرتا ہے۔ قشیری نے کہا : جس نے یہ کہا : الذی عندہ علم من الکتب سے مراد حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہیں تو اس نے اولیاء کی کرامت کا انکار کیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عفریت سے کہا : انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک ان کے نزدیک یہ کام عفریت نے نہیں کیا اس لئے نہ یہ معجزات میں سے ہے اور نہ ہی کرامات میں سے ہے کیونکہ جن تو اس قسم کے افعال کرنے پر قادر ہوتے میں ایک حال میں دو جگہ ایک جوہر کے متحقق ہونے کے بارے میں واقع ہونے کا قطعی حکم نہیں لگایا جاتا، بلکہ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرق کی انتہا میں ایک جوہر کو معدوم کر دے پھر دوسری حالت میں اسے لوٹا دے عدم کے بعد یہی حالت اقصی مغرب میں ہوتی ہے یا درمیانی اماکن کو وہ معدوم فرما دیتا ہے پھر اسے اٹھاتا ہے۔ قشیری نے کہا، وہب نے اسے امام مالک سے روایت کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسے ہوا میں لایا گیا، یہ مجاہد کا قول ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور عرش کے درمیاناتنا فاصلہ تھا جتنا فاصلہ کوفہ اور حیرہ کے درمیان تھا۔ امام مالک نے کہا : وہ تخت یمن میں تھا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) شم میں تھے۔ تفاسیر میں ہے ملکہ بلقیس کے عرش کی جگہ کو پھاڑا گیا پھر اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے نکالا گیا۔ عبدلالہ بن شداد نے کہا : زمین کے نیچے سے ایک سوراخ سے عرش ظاہر ہوا۔ کیا ہوا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ فلما راہ مستقراً عندہ آپ کے پاس ثابت تھا۔ قال ھذا من فضل ربی یہ مدد اورق درت میرے رب کے فضل سے ہے۔ لیبلونی اخفش نے کہا : معنی ہے وہ مجھے دیکھے۔ ء اشکر ام اکفر دوسرے علماء نے کہا : لیبلونی کا معنی ہے لیتعبدنی یہ مجا ہے، ابتلاء کا اصل معنی آزمانا ہے، یعنی وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کی نعمت کا شکر بجا لاتا ہوں یا میں اس کی ناشکری کرتا ہوں۔ ومن شکر فانما یشکر لنفسہ اس کا نفع اس کی ذات کی طرف ہی لوٹتا ہے۔ شکر، تمام نعمت، اس کے دوام اور مزید نعمت کا تقاضا کرتا ہے شکر موجود نعمت کے لیے قید ہوتی ہے اور اس کے ساتھ مفقودنعمت کو حاصل کیا جاتا ہے۔ ومن کفر فان ربی غنی کریم میرا رب شکر سے غنی ہے اور فضل و احسان فرمانے والا ہے۔
Top