Al-Qurtubi - An-Naml : 65
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ
قُلْ : فرما دیں لَّا يَعْلَمُ : نہیں جانتا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین الْغَيْبَ : غیب اِلَّا اللّٰهُ : سوائے اللہ کے وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں جانتے اَيَّانَ : کب يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے
قل لایعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ بعض سے مروی ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب کو مخلوق سے مخفی رکھا کوئی اس پر مطلع (1) نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت کریمہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے نبی کریم ﷺ سے قیامت کے برپا ہونے کے بارے میں سوال کیا۔ من محل رفع میں ہے معنی ہے کہہ دیجیے : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب کو نہیں جانتا۔ کیونکہ لفظ اللہ اسم جلالت من کا بدل ہے، یہ زجاج اور فراء کا قول ہے۔ الا کے مابعد کو رفع دیا کیونکہ اس سے ماقبل کلام منفی ہے جس طرح اس کا قول ہے ماذھب احد الابوک معنی ایک ہی ہے۔ زجاج نے کہا : جس نے اس کو نصب دی ہے اس نے استثناء کے طور پر نصب دی ہے۔ نحاس نے کہا : جو آدمی منجم کی تصدیق کرتا ہے میں نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے سنا کہا : مجھے خوف آتا ہے کہ وہ آیت کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کر رہا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ بحث سورة الانعام میں مفصل گزر چکی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : جس نے یہ گمان کیا کہ حضرت محد ﷺ جانتے ہیں کہ کل کیا ہوگا تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرما ات ہے : قل لایعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ۔ امام مسلم نے اسے نقل کیا ہے۔ یہ روایت بیان کی گی ہے کہ حجاج کے پاس ایک منجم آیا حجاج نے اسے روک لیا پھر کنکریاں لیں اور انہیں گنا پھر پوچھا : میرے ہاتھ میں کتنی کنکریاں ہیں ؟ منجم نے حساب لگایا پھر کہا : اتنی۔ تو درست جواب دیا پھر اسے روک لیا کنکریاں لیں انہیں شمار نہ کیا پوچھا : میرے ہاتھ میں کتنی کنکریاں ہیں ؟ اس نے حساب لگایا تو غلطی کی پھر حساب لگایا تو غلطی کی پھر اس نے کہا : اے امیر ! میرا گمان ہے تو عدد کو نہیں جانتا۔ حجاج نے کہا : نہیں۔ نجومی نے کہا، تو پھر میں صحیح جواب نہیں دے سکتا۔ اس نے کہا، وجہ کیا ہے ؟ نجومی نے کہا، اگر تو انہیں شمار کرلیتا تو یہ غیب کی حد سے نکل جاتا انہیں تو نے شمار نہیں کیا تو یہ غیب ہے قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللہ یہ بحث سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ بل ادرک علمھم فی الاخرۃ اکثر قراء کی قرأت ہے، ان میں عاصم، شیبہ، نافع، یحییٰ بن وثاب، اعمش، حمزہ اور کسائی ہے۔ ابو جعفر، ابن کثیر، ابو عمرو اور حمید نے بل ادرک قرأت کی ہے یہ ادرک سے مشتق ہے۔ عطا بن یسار، اس کے بھائی سلیمان بن یسار اور اعمش نے اسے بل ادرک ہمزہ کے بغیر اور مشدد پڑھا ہے۔ ابن محیصن نے بل ادرک استفہا کے طریقہ پر قرأت کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بلی قرأت کی یعنی یاء کو ثابت رکھا۔ ادارک ہمزہ قطعی ہے دال مشدد ہے اس کے بعد الف ہے۔ نحاس نے کہا : اس کی اسناد اسناد صحیح ہے یہ شعبہ کی حدیث سے ہے جسے وہ حضرت ابن عباس ؓ تک مرفوع نقل کرتے ہیں۔ ہارونقاری نے روایت نقل کی ہے : ابی کی قرأت بل تدارک علمھم ہے۔ ثعلبی نے حکایت کی ہے ابی کی قرأت میں ام تدارک ہے عرب ام کی جگہ بل اور بل کی جگہ ام رکھتے ہیں جب کلام کے شروع میں استفہام ہو۔ جس طرح شاعر کا قول ہے : فو اللہ لا ادری اسلمی تغولت ام القول ام کل الی حبیب یہاں ام کل، بل کل کے معنی میں ہے۔ ناس نے کہا، پہلی قرأت اور آخری قرأت کا معنی ایک ہی ہے۔ کیونکہ ادراک کا اصل تدارک ہے دال کو تاء میں ادغام کیا اور الف وصول کو لائے۔ اس کے منی میں دو قول ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے بلکہ ان کا علم آخرت میں مکمل ہوگیا کیونکہ انہوں نے جب ہر چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا تو اس کے متعلق ان کا علم مکمل ہوگیا۔ دوسرا قول یہ ہے معنی ہے آخرت کے بارے میں ان کا علم آج پے در پے ہے۔ انہوں نے کہا : وہ ہوگی اور انہوں نے کہا : نہیں ہوگی۔ اس کی دوسری قرأت میں بھی دو معنی ہیں (1) اس کا معنی ہے آخرت میں کامل ہوگیا، یہ پہلے کی مثل ہے۔ مجاہد نے کہا : آخرت کے بارے میں ان کا علم احاطہ کرنے والا ہے، وہ اسے جانتے ہیں جب وہ اسے دیکھیں گے اس وقت اس کا علم انہیں کوئی نفع نہ دے گا، کیونکہ وہ دنیا میں جھٹلانے والے تھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ انکار کے طریقہ پر ہے، یہ ابو اسحاق کا مذہب ہے اس قول کی صحت پر یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اس کے بعد بل ھم منھا عمون یعنی ان کا علم آخرت کے علم کا احاطہ کرنے والا نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بلک ہان کا آخرت کے بارے میں علم کم ہوگیا اور غائب ہوگیا ان کا اس میں کوئی علم نہیں۔ تیسرای قرأت بل ادرک یہ بل ادارک کے معنی میں ہے۔ بعض اوقات افتعل اور تفاعل ایک ہی معنی میں ہوتے ہیں اس وجہ سے اذدوجوا کا لفظ صحیح ہوتا ہے جب وہ تزاوجوا کے معنی میں ہو۔ چوتھی قرأت : اس میں ایک ہی قول ہے : اس میں انکار کا معنی پایا جاتا ہے جس طرح تو کہتا ہے : انا قاتلتک ؟ تو معنی ہوگا اس نے ادراک نہ کیا، اسی کی طرف حضرت ابن عباس ؓ کی قرات لوٹتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : بلی ادارک علمھم فی الٓخرۃ یہ لم یدرک کے معنی میں ہے۔ فراء نے کہا، یہ اچھا قول ہے گویا بعث کے انکار والوں کی طرف استہزاء کو متوجہ کیا۔ جس طرح تیرا ایسے آدمی کے بارے میں قول جس کو تو جھٹلاتا ہے : بلی لعمری قداد رکت السلف فانت تردی مالا اروی کیوں نہیں تو نے اسلاف کو پایا تو روایت کرتا ہے جو میں روایت نہیں کرتا جب کہ تو اس کو جھٹلا رہا ہوتا ہے۔ ساتویں قرأت : بل ادرک ہے لام پر فحتہ ہے فتحہ کی طرف اس لئے عدول کیا ہے کیونکہ یہ خفیف ترین حرکت ہے۔ قطرب سے اس کی مثل قم الیل (المزمل : 2) میں مروی ہے، کیونکہ اس میں فتحہ کی طرف عدول کیا گیا ہے۔ اسی طرح وبع الثوب وغیرہ میں ہے۔ زمحشری نے کتاب میں کہا : بل ادرک دو ہمزوں کے ساتھ اسے پڑھا گیا ہے اسی طرح بل آدرک درمیان میں الف ہے بلی ادرک، ام تدارک ام ادرک یہ بارہ قرآئتیں ہیں۔ پھر قرائتوں کی صورتوں کی علتیں بیان کیں۔ کہا، اگر تو کہے بل ادرک استفہام کے ساتھ قرأت کی وجہ ہے ؟ میں نے کہا، یہ استفہا انکار کے طریقہ پر ہے ان کے علم کے ادراک کی وجہ سے۔ اسی طرح جس نے پڑھا ام ادرک اور ام تدارک کیونکہ یہ ام ہے جو بل اور ہمزہ کے معنی میں ہے۔ جس نے پڑھا بلی ادرک استفہام کے طریقہ پر تو معنی ہوگا کیوں نہیں وہ شعور رکھتے ہیں کہ کب ان کو اٹھایا جائے گا ؟ اس کے وقع کے وقت ان کے علم کا انکار کیا۔ جب اس کے واقع ہونے کے وقت اس کے علم کا انکار کیا تو اس کے وقوع کے وقت کا شعور انہیں نہیں حاصل نہ ہوا کیونکہ کسی ہونے والی چیز کے وقت کا علم اس چیز کے ہونے کے علم کے تابع ہے۔ فی الاخرۃ یعنی آخرت کے متعلق۔ بل ھم فی شک منھا یعنی دنیا میں اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں : بل ھم منھا عمون بلکہ وہ اس کے بارے میں دل سے اندھے ہیں۔ اس کا واحد عمو ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عم ہے اصل میں عمیون تھا اجتماع ساکنین کی وجہ سے یاء کو حذف کیا گیا حرکت کے ثقیل ہونے کی وجہ سے حرکت دینا جائز نہیں۔
Top