Al-Qurtubi - An-Naml : 87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ
وَ يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک ماری جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَفَزِعَ : تو گھبرا جائیگا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوا مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے وَكُلٌّ : اور سب اَتَوْهُ : اس کے آگے آئیں گے دٰخِرِيْنَ : عاجز ہو کر
اور جس روز صور پھونکا جائے گا تو جو لوگ آسمانوں میں اور جو زمین میں ہیں سب گھبرا اٹھیں گے مگر وہ جسے خدا چاہے اور سب اس کے پاس عاجز ہو کر چلے آئیں گے
و یوم ینفخ فی الصور یوم سے پہلے اذکرھم یا ذکرھم فعل محذوف ہے۔ فراء کا مذہب ہے کہ معنی ہے ذلکم یوم ینفخ فی الصور اس میں حذف جائز ہے۔ صور میں صحیح یہ ہے کہ نور کا ایک قرن ہے جس میں حضرت اسرافیل پھونکیں گے۔ مجاہد نے کہا : یہ بوق کی شکل کا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یمن کی زبان میں صور کا معنی بوق ہے۔ سورة انعام میں اس کی وضاحت اور علماء کا نقطہ نظر گزر چکا ہے۔ ففزع من فی السموت و من فی الارض الا من شآء اللہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ جب آسمانوں کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اس نے صور کو پیدا کیا اور حضرت اسرافیل کو دے دیا۔ وہ اسے اپنے منہ پر رکھے ہوئے ہیں اور اپنی نظر عرش کی طرف لگائے ہوئے ہیں وہ انتظار کر رہے ہیں کہ کب اسے پھونکنے کا حکم ملتا ہے۔ “ (1) میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! صور کیا ہے ؟ فرمایا :” اللہ کی قسم ! وہ عظیم سینگ ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اس کے دائرہ کا پھیلائو آسمان و زمین کی چوڑائی جتنا ہے اس میں تین دفعہ پھونکا جائے گا پہلا نفخہ فزع ہے (2) نفخہ صعق (3) اللہ تعالیٰ کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کا نفخہ “ حدیث کا ذکر کیا، اسے علی بن معبد، طبری، ثعلبی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ ابن عربی نے اس کی تصحیح کی ہے۔ میں نے کتاب ” التذکرہ “ میں ذکر کیا ہے اور وہاں ہم نے اس کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ صور میں نفخہ میں اصل یہ ہے کہ نفخے دو ہیں تین نہیں ہیں۔ نفخہ فزع سے مراد نفخہ صعق ہی ہے کیونکہ وہ دونوں امر اس کو لازم ہیں وہ سخت گھبرائیں گے اور اس سے مر جائیں گے یا یہ نفخہ بعث کی طرف راجع ہے، یہ امام قشیری اور دوسرے علماء کا پسندیدہ نقطہ نظر ہیخ کیونکہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یہ کہا ہے : مراد نفخہ ثانیہ ہے وہ گھبرائے ہوئے راندہ ہوں گے وہ ہیں گے من بعثنا من مرقدنا (ینسین : 52) وہ ایسے امر کو دیکھیں گے جو انہیں خوفزدہ کر دے گا۔ یہ نفخہ بوق کی آواز کی طرح ہوگا تاکہ تمام مخلوق جزا کے میدان میں جمع ہوجائے، یہ قتادہ کا قول ہے۔ ماوردی نے کہا : وم یوم ینفخ فی الصور یہ قبروں سے اٹھنے کا دن ہے۔ کہا : اس فزع میں دو قول ہیں (1) ندا کی طرف جلدی کرنا اور اس پر لبیک کہنا، یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے فزعت الیک فی کذا تیری مدد کے لئے میں نے تیری آواز کی طرف جلدی کی (2) یہاں فزع سے مراد خوف اور حزن کا معہود و معروف فزع ہے، کیونکہ انہیں ان کی قبروں میں پریشان کیا گیا وہ گھبرا گئے اور خوفزدہ ہوگئے، یہ دونوں قولوں میں سے زیادہ مناسب ہے۔ میں کہتا ہوں : حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرہ ؓ کی احادیث سے ثابت ہونیوالی سنت دلالت کرتی ہے کہ دو نفخے ہیں تین نفخے نہیں۔ امام مسلم نے ان دونوں احادیث کو نقل کیا ہے ہم نے اس کا ذکر کتاب ” التذکرہ “ میں کیا ہے۔ انشاء اللہ صحیح یہی ہے کہ نفخے دو ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ونفخ فی ال صور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ (الزمر : 68) یہاں استثناء کی ہے جس طرح نفخہ فزع میں استثناء کی ہے یہ اس امر پر حال ہے کہ یہ دونوں ایک ہی۔ ابن مبارک نے حضرت حسن بصری سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” دو نفخوں کے درمیان چالی سال کا عرصہ ہوگا۔ پہلے نفخہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو موت دے دے گا اور دوسرے نفخ کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہر مردہ کو زندہ کر دے گا۔ “ اگر یہ قول کیا جائے اللہ تعالیٰ کا فرمان، یوم ترجف الراجفۃ۔ تتبعھا الرادفۃ۔ (النازعات) سے لے کر زفجرۃ واحدۃ۔ (النازعات) اس کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ تین نفخے ہیں۔ اسے کہا جائے گا : اس طرح معاملہ نہیں۔ زجرہ سے مراد دوسرا نفخہ ہے جس کے واقع ہونے پر تمام مخلوق قبروں سے باہر آجائے گی۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، عطا، ابن زید وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ جاہد نے کہا : دو نفخے ہیں جہاں تک پہلے نفخہ کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے وہ ہر چیز کو موت عطا کر دے گا جاں تک دوسرے کا تعق ہے تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہر چیز کو زندہ کر دے گا۔ عطا نے کہا، الرجفۃ سے مراد قیامت ہے اور الردافۃ سے مراد بعث ہے۔ ابن زید نے کہا، الراجفۃ سے مراد موت ہے اور الردافۃ سے مراد قیامت ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ الا من شآء اللہ اس مستثنٰی میں اتخلاف کیا گیا ہے وہ کون ہیں ؟ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے :” مراد شہداء ہیں ان کے رب کے ہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے فزع زندوں کو ہی لاحق ہوتا ہے۔ “ یہ سعید بن جبیر کا قول ہے مراد وہ شہداء ہیں جو عشر کے اردگرد گلے میں تلواریں لٹکائے ہوئے ہیں۔ قشیری نے کہا : مراد انبیاء ہیں جو ان کی جماعت میں شامل ہیں، کیونکہ ان کے لئے نبوت کے ساتھ شہادت بھی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد فرشتے ہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : فرشتوں کی کچھ جماعتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو دو نفخوں کے درمیان مریں گے۔ مقاتل نے کہا، مراد حضرت جبریل امین، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل اور ملک الموت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مرادحورعین ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ مومنین ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : من جآء بالحسنۃ فلہ خیر منھا وھم من فزع یومئذ امنون ہمارے بعض عملاء نے کہا : صحیح یہ ہے کہ ان کی تعیین میں خبر صحیح وارد نہیں سب محتمل ہے۔ میں کہتا ہوں : اس پر حضرت ابوہریرہ کی حدیث مخفی رہی جس کی تصحیح قاضی ابوبکر بن عربی نے کی یا چاہئے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے، کیونکہ وہ تعیین میں نص ہے اور باقی سب اجتہاد ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کے علاوہ کا ذکر سورة زمر میں آئے گا۔ ففزع من فی السموت یہ فعل ماضی ہے اور ینفخ مستقبل ہے۔ تو یہ سوال کیا جائے گا فعل ماضی کا عطف فعل مستقبل پر کیسے کیا گیا ہے ؟ فراء نے گمان کیا ہے : یہ معنی پر محمول ہے کیونکہ معنی بنتا ہے اذا نفخ فی الصور ففزع اور من شاء اللہ یہ استثناء کے طور پر منصوب ہے۔ وکل اتوہ دخرین ابو عمرہ، عاصم، کسائی، نافع، ابن عامر اور ابن کثیر نے اسے آتوہ پڑھا ہے انہوں نے اسے فعل مستقبل یعنی اسم فاعل کا صیغہ بنایا ہے۔ اعمش یحییٰ حمزہ اور حفص نے عاصم سے وکل اتوہ ہمزہ پر زبرمد کے بغیر فعل ماضی کا صیغہ پڑھا ہے۔ حضرت ابن معسود نے بھی اس طرح قرأت کی ہے۔ قتادہ سے مروی ہے، وکل اتاہ داخرین نحاس نے کہا : میری کتاب جو ابو اسحاق سے قرأت میں مروی ہے اس میں ہے جس نے پڑھا وکل اتوا واحد کا صیغہ لفظ کل کے اعتبار سے ہے اور جس نے اسے آتوہ جمع کا صیغہ پڑھا ہے انہوں نے معنی کا اعتبار کیا ہے۔ یہ قول غلط اور قبیح ہے، کیونکہ جب کہا : وکل اتوہ یہ واحد کا صیغہ نہیں یہ جمع کا صیغہ ہے اگر واحد کا صیغہ ہوتا تو فرمان ہوتا اتاہ لیکن جس نے کہا، اتوہ یہ جمع کا صیغہ ہے معنی کا اعتبار کیا ہے اور ماضی کا صیغہ آیا ہے کیونکہ اس نے اسے فزع کی طرف لوٹایا ہے اور جس نے پڑھا : وکل آتوہ اس نے بھی معنی پر محمول کیا اور کہا : آتوہ یہ ایسا جمالہ ہے جو یہاں سے منقطع ہے۔ ابن نصر نے کہا، ابو اسحاق سے وہ مروی ہے جو انہوں نے کہا یہی ابو اسحاق کی نص ہے وکل اتوہ داخرین اور وہ قرأت کرتے ہیں آتوہ جس نے واحد کا صیغہ پڑھا ہے۔ وہ کل کے لفظ کا اعتبار کرتے ہیں اور جس نے جمع کا صیغہ پڑھا ہے تو وہ معنی کا اعتبار کرتے ہیں وہ اس سے یہ ارادہ کرتے ہیں کہ قرآن حکیم اور دوسری چیزوں میں جو کل کی خبر واحد ذکر کی گئی ہے وہ کل کے لفظ کا اعتبار کرتے ہوئے ہے اور جمع کی صورت میں خبر معنی کے اعتبار سے ہے۔ ابو جعفر نے یہ معنی اخذ نہیں کیا۔ مہدوی نے کہا، جس نے وکل اتوہ داخرین قرأت کی ہے تو وہ اتیان سے فعل ہے اور کل کے معنی کا اعتبار کیا ہے لفظ کا اعتبار نہیں کیا۔ جس نے وکل آتوہ داخیرن تو وہ اتی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے : وکلھم اتیہ یوم القیمۃ فرداً ۔ (مریم) جس نے پڑھا : وکل اتاہ اس نے کل کے لفظ پر محمول کیا ہے معنی کا اعتبار نہیں کیا۔ دخرین یہ معنی پر محمول ہے اس کا معنی صاغرین ہے ذلیل و رسوا، یہ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ سے مروی ہے سورة نحل میں یہ بحث گزر چکی ہے۔
Top