Al-Qurtubi - Al-Qasas : 10
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا١ؕ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَصْبَحَ : اور ہوگیا فُؤَادُ : دل اُمِّ مُوْسٰى : موسیٰ کی ماں فٰرِغًا : صبر سے خالی (بیقرار) اِنْ : تحقیق كَادَتْ : قریب تھا لَتُبْدِيْ : کہ ظاہر کردیتی بِهٖ : اس کو لَوْلَآ : اگر نہ ہوتا اَنْ رَّبَطْنَا : کہ گرہ لگاتے ہم عَلٰي قَلْبِهَا : اس کے دل پر لِتَكُوْنَ : کہ وہ رہے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور موسیٰ کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کردیتے تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر کردیں غرض یہ تھی کہ وہ مومنوں میں رہیں
واصبح قوادام موسیٰ فرغاً حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری، عکرمہ، قتادہ، ضحاک، ابو عمران جونی اور ابو عبیدہ نے فرغاً کا معنی یہ کیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا دل آپ کے ذکر کے سوا دنیا کی ہر شے کے ذکر سے خالی تھا۔ حضرت حسن بصری نے یہ بھی کہا نیز اب ن اسحاق اور ابن زید نے کہ؁، وہ وحی سے خالی تھی کیونکہ ان کی طرف وحی کی گئی جب اسے حکم دیا گیا کہ وہ اس بچے کو پانی میں پھینک دے وہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ السلام کی ماں سے کیا وہ یہ وعدہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو واپس اس کی طرف لوٹائے گا اور اسے رسولوں میں سے بنائے گا۔ شیطان نے اسے کہا، اے موسیٰ کی ماں ! تو نے یہ تو ناپسند کیا کہ فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کرے مگر تو نے خود اسے غرق کردیا۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو یہ خبر پہنچی کہ اس کا بیٹا فرعون کے پاس ہے تو عظیم مصیبت نے اسے وہ وعدہ بھلا دیا جو اللہ تعالیٰ نے اس سے کیا تھا۔ ابو عبیدہ نے کہا، فرغاً یعنی غم اور حزن سے خالی، کیونکہ اسے علم ہوچکا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غرق نہیں وئے، یہ اخفش کا قول بھی ہے۔ علاء بن زیاد نے کہا، فرغاً کا معنی ہے نفرت کرنے والا۔ کسائی نے کہا، بھولنے والا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : شدت غم سے متحیر، اسے سعید بن جبیر نے روایت کیا ہے۔ ابن قاسم نے مالک سے روایت کیا ہے : اس سے مراد عقل کا چلا جانا ہے۔ معنی ہے جب اس نے یہ سنا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے ہاتھ پہنچ چکے ہیں تو شدت غم کی وجہ سے اور شدت دہشت کی وجہ سے عقل اڑ گئی۔ اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وافدتھم ھوآء۔ (ابراہیم) یعنی خالی، ان کی کوئی عقل نہ تھی۔ جس طرح سورة ابراہیم میں پہلے گزر چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل عقول کا مرکز ہوتے ہیں کیا تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں دیکھتا : فتکون لھم قلوب یعقلون بھآ (الحج : 48) جس نے فزعا پڑھا ہے اس کی قرأت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ نحاس نے کہ؁، سب سے صحیح قول پہلا ہے۔ جنہوں نے وہ قول کیا وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ جب آپ کی والدہ کا دل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے سوا ہر ذکر سے خالی تھا تو وہ وحی سے بھی فارغ تھا۔ ابوعبیدہ کا قول وہ غم سے خالی تھا، یہ بہت ہی قبیح ہے کیونکہ اس کے بعد ان کا دت لتبدی بہ لولاً ان ربطنا علی قلبھا ہے۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے : قرب تھا کہ وہ کہتی وا ابناہ ہائے بیٹے۔ فضالہ بن عبید انصاری محمد بن سمقع، ابو العالیہ اور ابن محیصن نے پڑھا فزعا یہ فاء اور عین کے ساتھ ہے۔ یہ فزع سے مشتق ہے۔ یہ اسے خوف تھا کہ کہیں اسے قتل ہی نہ کردیا جائے۔ حضرت ابن عباس نے پڑھا : قرعا قاف، راء اور عین کے ساتھ آخری دونوں حرف نقطہ کے بغیر ہیں۔ یہ جماعت کی قرأت کی طرف راجع ہے جو فارغا ہے۔ اسی وجہ سے وہ سر جس پر بال نہ ہوں اس کو اقرع کہتے ہیں، کیونکہ وہ بالوں سے فارغ ہوتا ہے۔ قطرب نے حکایت، بیان کی ہے کہ حضور ﷺ کے بعض صحابہ نے پڑھا فرغا یعنی فاء راہ اور غین مجموعہ کے ساتھ یہ الف کے بغیر ہے۔ یہ تیرے اس قول کی طرح ہے ھدرا و باطلا یہ جملہ بولا جاتا ہے : دماء ھم بینھم فرغ یعنی ان کے باہم قصاص باطل ہوگئے۔ معنی ہے اس کا دل باطل ہوگیا اور چلا گیا اور وہ یوں ہوگئی کہ اس کا دل ہی نہیں یہ اس غم کیشدت کی وجہ سے ہوا جو اس پسروارد ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : واصبح اس میں دو وجوہ ہیں (1) اس نے رات کو پانی میں تابوت پھینکا تو دن کے وقت اس کا دل فارغ ہوچکا تھا (2) اس نے دن کے وقت پھینکا تھا۔ اصبح کا معنی صار ہے۔ جس طرح شاعر نے کہا : مضق الخلفاء بالامر الرشید واصجت المدینۃ للولید خلفاء صحیح امر کے ساتھ چلے گئے اور مدینۃ ولید کے لئے رہ گیا۔ ان کا دت اصل میں یہ انھا کا دت تھا۔ جب ضمیر کو حذف کیا تو نون ساکن ہوگیا یہ ان مخففہ ہے اسی وجہ سے لتبدی بہ پر لام داخل ہے۔ مراد ہے اس کے امر کو ظاہر کر دے یہ بدایبدو سے مشتق ہے جب وہ ظاہر ہو۔ حضرت ابن عباس نے کہا : وہ پھینکنے کے وقت چیخی۔ ہائے بٹے ! سدی نے کہا، جب وہ دودھ پلانے کے لئے اٹھاتی اور چھاتی سے لگاتی تو قریب تھا کہ وہ کہتی : یہ میرا بیٹا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوئے تو لوگ کہتے موسیٰ بن فرعون۔ ان کی ماں پر یہ بات شاق گزرتی اور ان کا سینہ تنگ ہوتا۔ قریب تھا کہ وہ کہہ اٹھتی : یہ میرا بٹا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بہ میں ھاء ضمیر وحی کی طرف لوٹ رہی ہے اس کی تقدیر کلام یہ ہے ان کا نت لتبدی بالوحی الذی اوحیناہ الیھا ان نزدہ علیھا، قریب تھا کہ وہ اس وحی کو ظاہر کردیتی جو ہم نے اس کی طرف وحی کی تھی کہ ہم موسیٰ کو اس پر لوٹا دیں گے۔ پہلا قول زیادہ نمایاں ہے۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : قریب تھا کہ وہ کہتی : میں اس کی ماں ہوں۔ فراء نے کہا : قریب تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کا نام ظاہر کردیتی کیونکہ اس کا سینہ تنگ پڑتا تھا۔ لولا ان ربطنا علی قلبھا قتادہ نے کہا، اگر ہم ایمان کے ساتھ اس کا دل مضبوط نہ کرتے۔ سدی نے کہا، اگر ہم عصمت کے ساتھ اس کا دل مضبوط نہ کرتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اگر ہم صبر کے ساتھ اس کا دل مضبوط نہ کرتے ربط علی القلب سے مراد صبر کا الہام ہے۔ لتکون من المومنین تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی تصدیق کرنے والی ہوجائے جب اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا انا رآدہ الیک۔ لتبدی بہ فرمایا : لتبدیہ نہیں فرمایا کیونکہ حروف کی صفات بعض اوقات کلام میں زائد کی جاتی ہیں تو کہتا ہے : اخذت الحبل و بالحبل یعنی کبھی واسطہ ذکر کیا جاتا ہے اور کبھی واسطہ ذکر نہیں کیا جاتا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام لتبدی القول بہ ہے۔ وقالت لاختہ قصیہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن سے فرمایا : اس کے پیچھے جائو تاکہ تمہیں اس کی خبر سے آگاہی ہو۔ اس کا نام مریم بنت عمران تھا اس کا نام حضرت مریم جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ماں تھی کے نام کے موافق تھا، سہیلی اور ثعلبی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ماوردی نے ضحاک سے ذکر کیا ہے : اس کا نام کثمہ تھا۔ سہیلی نے کہا، اس کا نام کلثوم تھا اس کا ذکر زبیر بن بکار نے کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا :” میں نے محسسو کیا ہے کہ جنت میں ﷺ نے میری شادی تیرے ساتھ ساتھ حضرت مریم بنت عمران، حضرت کلثوم جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن ہیں اور حضرت اسٓیہ جو فرعون کی بیوی تھی سے شادی کی۔ “ (1) حضرت خدیجہ نے عرض کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی خبر دی ہے فرمایا : ہاں۔ عرض کی یعنی حضرت خدیجتہ الکبری نے عرض کی : بالرفاء والبنین یہ لفظ مبارکباد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ عمنی اتفاق اور بیٹوں والا ونا ہے۔ فبصرت بہ عن جنب جنب کا معنی دوری ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ اس سے اجنبی ہے۔ اشعر نے کہا : فلا تحرمنی نائلا عن جنابۃ فانی امرئو وسط القباب غریب دوری کی وج ہ سے مجھے عطیہ سے محروم نہ کھنا بیشک میں بتوں کے درمیان اجنبی آدمی ہوں۔ اصل میں یہ مکان جنب ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، عن جنب سے مراد جانب سے۔ نعمان بن سالم نے قرأت کی عن جانب معنی ہے ایک طرف سے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے شوق سے۔ ابو عمرو بن علاء نے حکایت بیان کی ہے یہ بنو حزام کی لغت ہے۔ وہ کہتے ہیں : جنبت الیک میں تیرا مشتاق ہوگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عن جنب ان کی ماں ان سے اجنبی ہے۔ کسی طریقے سے وہ نہیں پہچانتے تھے کہ یہ اس کی ماں ہے۔ قتادہ نے کہا، تو ایک طرف سے اس کو دیکھتی رہ گویا تو اس کا ارادہ نہیں رکھتی۔ وہ اس کو عن جنب جیم کے فتحہ اور نون کے سکون کے ساتھ پڑھتے۔ وھم لایشعرون کہ یہ اس بچے کی بہن ہے کیونکہ وہ ساحل سمندر پر چلتی رہی یہاں تک کہ اس نے دیکھ لیا کہ انہوں نے اسے پکڑ لیا ہے۔ وحرمنا علیہ المراضع من قبل ہم نے اس کو اس کی ماں اور بہن کے آنے سے منع کردیا۔ مراضع یہ مرضع کی جمع ہے۔ جس نے مراضیع پڑھا ہے تو یہ مرضاء کی جمع ہے فعال یہ جمع کثرت کے لئے وزن استعمال ہوتا ہے۔ اس وزن میں مذکر و مونث میں فرق کرنے کے لئے ہاء داخل نہیں کی جاتی کیونکہ یہ وزن فعل پر جاری نہیں ہوتا۔ جس نے مرضاعہ کہا تو وہ اء کے ساتھ مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے : مطرابۃ حضرت ابن عباس نے کہا : جو دودھپلانے والی بھی لائی جاتی حضرت موسیٰ اسے قبول نہ کرتے اس حرمت سے مراد روکنا ہے یہ حرمت شرعی نہیں۔ امراء القیس نے کہا : جالت لتصرعنی فقلت لھا اقصری انی امرء صرعی علیک حرام اس نے چکر لگایا تاکہ وہ پچھاڑ دے میں نے اسے کہا، رک جا میں ایسا آدمی ہوں تجھ پر مجھ کو پچھاڑنا حرام ہے۔ حرام ممتنع کے معنی میں ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے یہ دیکھا تو اس نے کہا، ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ لکم اس کی بات وھم لہ نصحون سن کر انہوں نے اسے کہا، تجھے کیسے پتہ ہے ؟ ممکن ہے تو اس کے گھر والوں کو پہچانتی ہو ؟ اس نے کہا : نہیں مگر وہ بادشاہ کی خوشی کے حریص رہتے ہیں یا اس کی دایہ بننے میں رغبت رکھتے ہیں۔ سدی اور ابن جریج نے کہا : جب اس نے کہا وھم لہ نصحون تو اسے کہا گیا : تو اس بچے کے اہل کو پہچانتی ہے تو ہماری اس بارے میں رہنمائی کرو۔ اس نے کہا، میں نے اراد کیا ہے کہ وہ بادشاہ کے مخلص ہیں تو اس نے ان کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں پر رہنمائی کردی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن ان کے حکم سے گئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو لے آئی۔ بچہ فرعون کے ہاتھ میں تھا وہ شفقت کے انداز میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہلا رہا تھا جب کہ وہ دودھ کی طلب میں رو رہا تھا۔ فرعون نے وہ بچہ اسے دے دیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ماں کی خوشبو پائی تو اس کے پستانوں کو قبول کرلیا۔ ابن زید نے کہا : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے کہا، وھم للملک ناصحون تو انہیں شک پڑگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب اس نے کہا ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ لکم وہ اس عورت کی تلاش میں مبالغہ سے کام لے رہے تھے جو اس کے پستان کو قبول کرلے۔ انہوں نے کہا : وہ کون ہے اس نے کہا : میری ماں ہے۔ اسے کہا گیا : اس کا دودھ ہے ؟ اس نے جواب دیا : ہاں۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت کا دودھ۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ولادت ایسے سال میں ہوئی تھی جس سال بچوں کو قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا : تو نے سچ بولا ہے اللہ کی قسم ! وھم لہ نصحون یعنی ان میں شقت اور اخلاص ہے۔ روایت بیان کی گی ہے : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ماں کا دودھ پی لیا تو اس سے کہا گیا : اس نے تیرا دودھ کیسے پی لیا ہے جب کہ اس نے کسی اور کا دودھ نہیں پای ؟ اس نے کہا، میں ایسی عوتر ہوں جس کی خوشبو اچھی ہے اور دودھ بھی پاکیزہ ہے۔ میرے پاس کوئی بچہ نہیں لایا جاتا مگر وہ میرا دودھ پی لیتا ہے۔ ابو عمران جونی نے کہا، فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو ہر ایک روز ایک دینار دیا کرتا تھا۔ زمحشری نے کہا : اگر تو یہ کہے اس کے لئے کیسے حلال ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے پر اجر لیتی ؟ تو میں کہوں گا : وہ اس لئے دینار نہیں لیتی تھی کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے کی اجرت لیتی بلکہ یہ حربی کا مال تھا وہ استباحت کے طریقہ پر مال لے لیتی تھیں۔ فرددنہ الی امہ ہم نے اسے اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے دل کو اس پر مہربان کردیا اور اس بارے میں ہمارا اس سے وعدہ بھی تھا۔ کی تقرعینھا تاکہ اپنے بچہ کی وجہ سے اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو۔ ولاتحزن اور وہ اپنے بچے کے فراق سے غمگین نہ ہو۔ ولتعلم ان وعدہ اللہ حق تاکہ اس کے وقوع کو جانے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے بچے کا اس کی طرف لوٹانا عنقریب ہوگا۔ ولکن اکثرھم لایلمون یعنی آل فرعون میں سے اکثر نہیں جانتے تھے یعنی وہ تقدیر اور قضاء کے راز سے غفلت میں تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ جو بھی وعدہ کرے وہ حق ہے۔
Top