Al-Qurtubi - Al-Qasas : 23
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ١٘۬ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ١ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا١ؕ قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُ١ٚ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ
وَلَمَّا : اور جب وَرَدَ : وہ آیا مَآءَ : پانی مَدْيَنَ : مدین وَجَدَ : اس نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اُمَّةً : ایک گروہ مِّنَ : سے۔ کا النَّاسِ : لوگ يَسْقُوْنَ : پانی پلا رہے ہیں وَوَجَدَ : اور اس نے پایا (دیکھا مِنْ دُوْنِهِمُ : ان سے علیحدہ امْرَاَتَيْنِ : دو عورتیں تَذُوْدٰنِ : روکے ہوئے ہیں قَالَ : اس نے کہا مَا خَطْبُكُمَا : تمہارا کیا حال ہے قَالَتَا : وہ دونوں بولیں لَا نَسْقِيْ : ہم پانی نہیں پلاتیں حَتّٰى : جب تک کہ يُصْدِرَ : واپس لے جائیں الرِّعَآءُ : چرواہے وَاَبُوْنَا : اور ہمارے ابا شَيْخٌ كَبِيْرٌ : بہت بوڑھے
جب مدین کے پانی (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ جمع ہو رہے (اور اپنے چارپایوں کو) پانی پلا رہے ہیں اور دیکھا کہ انکے ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے کھڑی ہیں موسیٰ نے (ان سے کہا) تمہارا کام کیا ہے ؟ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے (اپنے چارپایوں کو) نہ لے جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں
اس میں تئیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ ولما ورمآء مدین حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلتے رہے یہاں تک کہ مدین کے چشمہ پر پہنچے۔ وردمآء سے مراد ہے اس تک پہنچ گئے اس کا یہ مطلب نہیں اس میں داخل ہوگئے ورود کا لفظ بعض اوقات مورد میں داخل ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، بعض اوقات اطلاع پانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کبھی پہنچنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اگرچہ اس میں داخل نہ ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چشمہ پروارد ہونے سے مردا تک پہنچنا ہے۔ اس معنی میں زہیر کا قول ہے : فلما وردن الماء زرقا جمامہ وضعن عصی الحاضر المتخیم جب وہ اس چشمہ پروارد ہوئیں جس کا لبالب پانی آسمان کے رنگ جیسا نظر آ رہا تھا۔ یہ معانی اللہ تعالیٰ کے فرمان : وان منکم الاواردھا (مریم : 71) میں گزر چکے ہیں۔ مدین غصر منصرف ہے کیونکہ یہ معروف شہر ہے۔ شاعر نے کہا : رھبان مدین لو رائوک تنزلوا مدین کے راہب اگر تجھے دیکھ لیتے تو اپنی عبادت گاہوں سے نیچے اتر آتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ایسا قبیلہ ہے جو حضرت مدین بن ابراہیم (علیہما السلام) کی اولد میں سے ہیں۔ اس بارے میں گفتگو سورة اعراف میں گزر چکی ہے۔ امۃ سے مراد جمع کثیر ہے۔ یسقون کا معنی ہے وہ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ من دونھم معنی ہے اس جانب سے جس جہت سے آپ آئے تو آپ ان عورتوں تک جا پہنچے قبل اس کے کہ اس جماعت تک پہنچتے۔ آپ نے ان دونوں کو پایا کہ وہ اپنے ریوڑ کو روک رہی ہے۔ اس معنی میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فلیذا دن رجال عن حوضی میرے حوض سے لوگوں کو روکا جا رہا ہوگا۔ بعض مصاحف میں ہے : امراتین حابستین تذودان یہ جملہ بولا جاتا ہے : ذادیذودجب وہ روکے ذوت الشیء میں نے شے کو روکا : شاعر نے کہا : ابیت علی باب القوفی کا نما اذودبھا سرباً من الوحش نزعا میں قافیوں (شکاری کا گڑھا) کے دروازے پر رات گزارتا ہوں گویا میں وہاں سے وحشی جانوروں کی جماعت کو روکتا ہوں۔ اذود کا معنی ہے میں روکتا ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تدودان کا معنی ہے وہ دھتکار رہی تھیں، شاعر نے کہا، لقد سلبت عصاک عصاک بنو تمیم فما تدری بای عصا تذود بنو تمیم نے تیرے عصاب کو طلب کرلیا ہے تو نہیں جانتا تو کس عصا کے ساتھ دھتکارے گا۔ تذود کا معنی تو دھتکارے گا، تو روکے گا۔ ابن سلام نے کہا : وہ اپنے ریوڑ کو روک رہی تھیں تاکہ لوگوں کے ریوڑ کے ساتھ مل نہ جائیں۔ مفعول کو حذف کردیا گیا یا تو مقصد مخاطب کو وہم دلانا ہے یا اس کے علم کی وجہ سے ذکر کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ حضرت ابن عباس نے کہا : وہ قوی پانی پلانے والوں کے ڈر سے اپنے ریوڑ کو پانی سے روک رہی تھیں۔ قتادہ نے کہا : وہ لوگوں کو اپنے ریوڑ سے روکے ہوئے تھیں۔ نحاس نے کہا : پہلا معنی زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس کے بعد ہے قالتا لانسقی حتی یصدرالرعآء اگر وہ لوگوں کو اپنے ریوڑ سے روک رہی ہوتیں تو وہ یہ خبر نہ دیتیں کہ وہ اپنے ریوڑ کو اس وقت پلاتی ہیں جب چرواہے چلے جائیں گے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے اس انداز کو دیکھا تو کہا : ماخطبکما یعنی تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ رئوبہ نے کہا ، یاعجبا ماخطبہ وخصبی تعجب ہے اس کے اور میرے کام پر۔ ابن عطیہ نے کہا : مصیبت زدہ، مظلوم، جس پر شفقت مقصود ہو یا عجیب و غریب کام کرے اس سے سوال کرنے کے لئے لفظ خطب استعمال ہوتا ہے، گویا یہ لفظ شر کے بارے میں سوال کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دونوں نے اپنے بارے میں بتایا اور یہ بتایا کہ ان کے باپ انتہائی بوڑھے شخص ہیں معنی ہے وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے ریوڑ کے معاملات نہیں سنبھال سکتے اور وہ دونوں بہنیں اپنے ضعف اور طاقت کی کمی کی وجہ سے قوی لوگوں کیساتھ مزاحمت کی طاقت نہیں رکھتیں۔ ان دونوں کی عادت یہ ہے کہ وہ آہستگی اپناتی ہیں یہاں تک کہ لوگ پانی سے چلے جاتے ہیں اور چشمہ خالی ہوجاتا ہے۔ وہ اس وقت وارد ہوتی ہیں۔ ابن عامر اور ابو عمرو نے پڑھا یصدریہ صدر سے مشتق ہے یہ ورد کی ضد ہے، یعنی جب چراو ہے واپس چلے جاتے ہیں۔ باقی یصدر پڑھتے ہیں یہ اصدر سے مشتق ہے، یہاں تک کہ ان کے چوپائے پانی سے واپس چلے جاتے ہیں۔ رعاء یہ راعی کی جمع ہے۔ جس طرح تاجر کی جمع تجار، صاحب کی جمع صحاب آتی ہے۔ ایک فرقہ کہتا ہے : کنویں اوپر سے کھلے ہوئے تھے۔ لوگوں کا زدحام ان دونوں کو روکتا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ ان کے ریوڑ کو پانی پلائیں تو آپ نے لوگوں سے مزاحمت کی اور پانی پلانے میں ان پر غلبہ پایا یہاں تک کہ آپ نے پانی پلایا۔ اسی غلبہ کی وجہ سے ان دونوں میں سے ایک نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت سے وصف بیان کیا۔ ایک جماعت نے کہا : وہ حوضوں میں ان کے بچے ہوئے پانی پر آتیں اگر دونوں حوض میں باقی ماندہ پانی پاتیں تو یہی ان کے جانوروں کی سیرابی کا باعث ہوتا اگر اس میں کوئی پانی نہ ہوتا تو ان کا ریوڑ پیاسا رہ جاتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس پر ترس آگیا آپ نے ایک کنوئیں کا قصد کیا جو اوپر سے ڈھانپا گیا تھا لوگدوسرے کنوئیں سے پانی پلا رہے تھے۔ اس کنوئیں کے پتھر کو سات آدمی ہی اٹھا سکتے تھے۔ یہ ابن زید کا قول ہے۔ ابن جریج نے کہا : دس آدمی اٹھا سکتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : تیس آدمی اٹھا سکتے تھے۔ زجاج نے کہا، چالیس آدمی اٹھا سکتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اکیلے اسے اٹھا لیا اور دونوں عورتوں کے ریوڑ کو پانی پلا دیا۔ اس پتھر کے اٹھانے کی وجہ سے ان میں سے ایک نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت کے ساتھ صفت لگائی ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کا کنواں ایک تھا۔ آپ نے وہ پتھر چراہوں کے چلے جانے کے بعد اٹھایا تھا۔ جب کہ دونوں عورتوں کی عادت یہ تھی کہ وہ بچے ہوئے پانی کو پلایا کرتی تھیں۔ عمرو بن میمون نے حضرت عمر بن خطاب سے روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا : جب چرواہوں نے پانی پلا لیا تو انہوں نے کنوئیں پر ایک پتھر رکھ دیا جسے دس آدمی ہی اٹھا سکتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے آپ نے وہ پتھر ہٹایا اور پانی کا ایک ہی ڈول نکالا کسی اور ڈول کی ضرورت نہ رہی تو آپ نے ان کی ریوڑ کو سیراب ر دیا۔ مسئلہ نمبر 2۔ اگر یہ سوال کیا جائے : اللہ کے نبی جو حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں کے لئے کیسے جائز تھا کہ وہ اس بات پر راضی تھے کہ ان کے جانوروں کو پانی کے لئے ان کی بیٹیاں کام کریں ؟ اس کو جواب دیا جائے گا : یہ کوئی ممنوع نہیں۔ دین اس کا انکار نہیں کرتا۔ جہاں تک مروت کا تعلق ہے تو لوگوں کی آراء مختلف ہیں۔ لوگوں کی عادت جدا جدا ہے۔ عربوں کے احوال عجمیوں کے احوال سے مختلف ہیں۔ دیہاتی لوگوں کا رویہ شہریوں سے مختلف ہے، خصوصاً جب مجبوری ہو۔ مسئلہ نمبر 3۔ ثم تولی الی الظل آپ سمرہ (ببول) درخت کے سایہ کی طرف گئے، یہ حضرت ابن مسعود کا قول ہے اور اس سوال کی طرف متوجہ ہوئے جو آپ کو کھانا کھلائے اس کا ذکر اس قول میں ہے : انی لما انزلت الی من خیر فقیر آپ نے سات دن سے کوئی کھانا نہیں کھایا تھا، آپ کا پیٹ پشت سے لگ چکا تھا۔ دعا کی اور سوال کی وضاحت نہ کی۔ تمام مفسرین نے اس طرح روایت کیا ہے کہ آپ نے اس کلام میں کھانے کو طلب کیا۔ خیر یہاں کھانے کے معنی میں ہے جس طرح اس آیت میں ہے اور مال کے معنی میں ہے جس طرح فرمایا : ان ترک خیر (البقرہ : 180) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وانہ لحب الخیر لشدید۔ (العادیات) یہ لفظ قوت کے معنی میں بھی اسعتمال ہوتا ہے جس طرح فرمایا : اھم خیر ام قوم تبع (الدخان : 37) یہ عبادت کے معنی میں ہے جس طرح فرمایا : واوحینا الیھم فعل الخیرت (الانبیائ : 73) حضرت ابن عباس نے کہا : بھوک انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور پیٹ میں سبزیاں کھانے سیرنگ زرد پڑچکا تھا جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے معزز تھے۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ مدین تک نہیں پہنچے تھے یہاں تک کہ پائوں کے نیچے والے حصے گر چکے تھے۔ اس میں یہ شعور دلایا گیا کہ دنیا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حقیر ہے ابوبکر بن طاہر نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : انی لما انزلت الی من خیر فقیر کے بارے میں کہا، میں محتاج ہوں اس چیز کا جو تو نے فضل اور غنا نازل فرمائی کہ تو مجھے اپنے غیر سے غنی کر دے۔ میں کہتا ہوں : اہل تفسیر نیجو کہا وہ اولیٰ ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واسطہ سے آپ کو غنی کردیا۔ مسئلہ نمبر 4۔ فجآء تہ احدلھما تمشی علی استحیآء اس کلام میں اختصار ہے جس پر یہ کلام ظاہر دلالت کرتا ہے۔ ابن اسحاق یا ابو اسحاق نے یہ کہا ہے : وہ دونوں تیزی سے اپنے باپ کی طرف گئیں ان کا معمول یہ تھا کہ وہ پانی پلانے میں دیری کیا کرتی تھیں۔ دونوں نے اس مرد کے بارے میں بتایا جس نے ان کے ریوڑ کو پانی پلایا تھا۔ آپ نے اپنی بڑی بیٹی کو حکم دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : اپنی چھٹوی بیٹی کو حکم دیا کہ وہ اس مرد کو بلا لائے۔ تو وہ بچی ائٓی جس طرح اس آیت میں ذکر ہے۔ عمر بن میمون نے کہا، وہ ایسی عورتوں میں سے نہ تھی جو مردوں پر جری ہوتی ہیں اور حیلہ گر ہوتی ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ اپنی قمیص کے پلو سے اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھی۔ یہ حضرت عمر بن خطاب نے قول کیا ہے۔ روایت بیان کی گی ہے ان دونوں میں سے ایک کا نام لیا اور دوسری کا نام صفور یا تھا یہ دونوں شیرون کی بیٹیاں تھیں اور شیرون ہی حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی پوتیاں تھیں اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کا وصال ہوچکا تھا۔ اکثر علماء کی رائے ہے کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں۔ قرآن کا ظاہر یہی بتاتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : و الی مدین اخاھم شعیباً (اعراف : 85) میں اسی طرح ہے۔ سورة شعراء میں ہے کذب اصحب لیکۃ المرسلین۔ اذ قال لھم شعیب (شعرائ) قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اصحابا یا کہ اور اصحاب مدین کی طرف بھیجا۔ سورة اعراف میں ان کے باپ کے نام کے بارے میں اختلاف گزر چکا ہے۔ روایت کی گئی ہے کہ جب وہ لڑکی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پیغام لائی تو آپ اس کے پیچھے ہو لیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔ ہوا چلی تو قمیص جسم کے ساتھ چیک گئی اور اس کی سرین کی کیفیت کو بیان کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے دیکھنے میں گناہ محسوس کیا فرمایا : میرے پیچھے ہولے اور اپنی آواز کے ساتھ مجھے راستہ کے بارے میں آگاہ کرو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ابتداء کہا : میرے پیچھے ہولے میں عبرانی آدمی ہوں میں عورتوں کی پشت کو نہیں دیکھتا مجھے دائیں بائیں بتا کر استہ پر میری راہنمائی کرو۔ اس بچی نے آپ کی امانت کے ساتھ جو وصف بیان کیا تھا اس کا سبب یہی تھا، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بلان یوالے تک پہنچ گئے اور اپنی تمام سرگزشت سنائی تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے اس قول کے ساتھ آپ سے انس کا اظہار کیا : لاتخف نجوت من القوم الظلمین مدین کا علاقہ فرعون کی مملکت سے باہر تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کھانا پیش کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : میں نہیں کھائوں گا۔ ہم اس خاندان سے تعلقر کھتے ہیں ہم اپنا دین زمین بھر ہونے کے بدلے میں بھی نہیں بیچتے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا، یہ پانی پلانے کا عوض نہیں بلکہ یہ میرے اور میرے آباء کا معمول ہے کہ ہم مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، کھانا کھلاتے ہیں اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کھانا کھایا۔ مسئلہ نمبر 5۔ قالت احدلھما یا بت استاجرہ یہ اس امر پر دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اجارہ مشروع تھا اور معلوم ہو معروف بھی تھا۔ ہر ملت میں یہ اسی طرح ہے۔ یہانسان کی ضرورت ہے اور لوگوں کے درمیان میل جول کی مصلحت میں سے ہے۔ اصم نے اس میں اختلاف کیا ہے کیونکہ وہ سننے سے بہرہ تھا۔ مسئلہ نمبر 6۔ انی ارید ان انکحک اس میں یہ معنی ہے کہ ولی اپنی بیٹی کسی آدمی پر پیش کرتا ہے یہ مروج سنت ہے۔ مدین کے صالح نے اپنی بیٹی بنی اسرئایل کے صالح کو پیش کی۔ حضرت عمر نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عثمان غنی پیش کی۔ ایک عوتر نے اپنے آپ کو حضور ﷺ پر پیش کیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ مرد اپنی رشتہ دار عورت کسی پر پیش کرے اور ایک عورت اپنے آپ کو صالح مرد پر پیش کرے اس میں سلف صالحین کی اقتدا ہے۔ حضرت ابن عمر نے کہا، جب حضرت حفصہ بیوہ ہوگئیں تو حضرت عمر نے حضرت عثمان سے کہا، اگر تو چاہے تو میں تیرا نکاح حفصہ بنت عمر سے کر دوں۔ امام بخاری نے نتہا اس روایت کو نقل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ اس آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ نکاح کا اختیار ولی کو ہے عورت کا اس میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ مدین کے صالح نے اس کی ذمہ داری کو قبول کیا۔ شہروں کے فقفہاء نے یہی قول کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ یہ بحث گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 8۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ باپ کو حق حاصل ہے کہ وہ مشورہ کے بغیر اپنی باکرہ بالغہ کی شادی کردے۔ امام مالک کا یہی قول ہے آپ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ یہ اس بات میں قوی اور ظاہر ہے آپ کا اس سے استدلال کرنا اسی بات پر دلالت کرتا ہے وہ اسرائیلیات پر اعتماد کرتے تھے۔ جس طرح پہلے گزرا ہے۔ اس مسئلہ میں امام مالک کے قول کی وجہ سے امام شافعی اور دوسرے کثیر علماء نے بھی یہی قول کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : جب بچی بالغ ہوجائے تو کوئی آدمی بھی اس کیمرضی کے بغیر شادی نہکرے کیونکہ وہ مکلف بننے کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ جب وہ چھوٹی ہو تو اس کی مرضی کے بغیر بھی شادی کرسکتا ہے کیونکہ چھوٹی عمر میں نہ اس کا اذن ہے اور نہ اس کی رضا کی کوئی اہمیت ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مسئلہ نمبر 9۔ اصحاب الشافعی نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : انی ارید ان انکحک سے یہ استدلال کیا ہے کہ نکاح، لفظ تردق اور لفظ نکاح پر موقوف ہے۔ یہی قول ربیعہ، ابو ثور، ابو عبید، دائود، امام مالک نے کیا ہے آپ سے یہ قول اختلاف سے مروی ہے ہمارے علماء کا مشہور قول یہ ہے : نکاح ہر لفظ سے منعقد ہوجاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : نکاح ہر ایسے لفظ سے منعقد ہوجاتا ہے جو دائمی ملکیت کا تقاضا کرتا ہے۔ جہاں تک شافعیہ کا تعلق ہے ان کے لئے اس آیت میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ ہم سے پہلی امتوں کا حکم ہے اور پہلی شریعتوں کے حکم کو مشہور مذہب کے مطابق وہ حجت تسلیم نہیں کرتے، جہاں تک امام ابوحنیفہ آپ کے اصحاب ثوری حسن بن حی کا تعلق ہے انہوں نے کہا : ہبہ وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے جب اس پر گواہ قائم کردیئے جائیں کیونکہ طلاق لفظ صریح اور لفظ کنایہ سے واقع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا : اس طرح نکاح بھی واقع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا : نبی کریم ﷺ نے جو خصوصی حکم دیا وہ یہ ہے کہ عوض کے بغیر بعض کی ملکیت حاصل نہ کی جائے۔ لفظ ہبہ سے نکاح منع نہیں کیا، ابن قاسم نے ان کی موافقت کی ہے۔ کہا : اگر اس نے اپنی بیٹی ہبہ کی جب کہ وہ اس کے نکاح کا ارادہ کرتا ہو تو پس امام مالک سے اس بارے میں کوئی چیز یاد نہیں رکھتا۔ میرے نزدیک یہ چیز اسی طرح ہے جس سرح بیع کا لفظ استعمال کرنا۔ ابوعمر نے کہا : صحیح یہ ہے کہ ہبہ کے لفظ سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، جس طرح نکاح کے الفاظ سے اموال میں سے کسی چیز کا ہبہ نہیں ہوتا نیز نکاح میں وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس پر شہادت دی جاسکے۔ یہ طلاق کی ضد ہے تو اس پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ؟ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نکاح ابحت لک اور احللک لک کے الفاظ سے منعقد نہیں ہوتا اسی طرح ہبہ کے الفاظ سے عقد نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ نیارشاد فرمایا : استحللتم فرجھن بکلمۃ اللہ (1) تم ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے حکم سے حلال کرو۔ کلمتہ اللہ سے مراد قرآن ہے حکیم میں لفظ ہبہ سے عقد نکاح کا ذکر نہیں۔ اس میں تزویج اور نکاح کا ذکر ہے۔ لفظ ہبہ کے ساتھ نکاح کے جواز کا قول کرنے سے حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے بعض کا ابطال لازم آتا ہے۔ مسئلہ نمبر 10۔ احدی ابنتی ھتین اس میں یہ دلالت ہے کہ یہاں ایک کو پیش کیا جا رہا ہے عقد نہیں کیا جا رہا ہے، کیونکہ اگر یہ عقد نکاح ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے معقود علیہ کو معین کردیا جاتا، کیونکہ علماء اگرچہ اس صورت میں بیع کے جواز میں اختلاف کرتے ہیں جب کوئی کہے : بعتک احد عبدی ھذین بثمن کذا میں نے ان دو غلاموں میں سے ایک کو اس قیمت پر تیرے ہاتھ بیچا۔ انہوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ نکاح کے اندر یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں اختیار ہے اور اس اختیار میں سے کسی چیز کا نکاح سے کوئی تعلق نہیں۔ مسئلہ نمبر 11۔ مکی نے کہا، اس آیت میں نکاح کے خصوصی احکام ہیں ان میں سے ایک یہ کہ بیوی کو معین نہیں کیا اور عرصہ کے آغاز کو معین نہیں کیا اور اجارہ کو مہر بنایا ہے اور نقد کوئی شے نہیں دی۔ میں کہتا ہوں : یہ وہ چار مسائل ہیں جنہیں گیارہ نمبر مسئلہ اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے۔ (1) چار مسائل میں سے ایک تعیین ہے۔ ہمارے علماء نے کہا، جہاں تک تعیین کا تعلق ہے تو یہ اس کے مشابہ ہے کہ یہ متوجہ کرنے کے مرحلہ میں ہو پہلے معاملہ کو مجمل انداز میں پیش کیا اور بعد میں اس کی تعیین کی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کی شادی صفور یا سے کردی۔ یہی حضرت شعیب کی چھوٹی بیٹی تھی۔ حضرت ابو ذر سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اگر تجھ سے سوال کیا جائے : دونوں مدتوں میں سے کون سی مدت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری کی تو کہنا ان دونوں میں سے بہتر اور کامل مدت پوری کی۔ اگر تجھ سے سوال کیا جائے : کس عورت سے شادی کی ؟ تو کہنا : چھوٹی سے۔ یہی وہ تھی جو اس کے پیچھے آئی اور اس نے کہا، یابت استاجرہ ان خیر من استاجرت القوی الامین۔ “ (1) لیکن قول یہ کیا گیا : بڑی سے پہلے چھوٹی سے شادی کرنے میں حکمت یہ تھی اگرچہ بڑی کو مردوں کی زیادہ ضرورت تھی کیونکہ حضرت شعیب کو توقع تھی کہ وہ اس کی طرف مائل ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پیغام لاتے ہوئے اسے دیکھا تھا اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے باپ کی طرف آ رہے تھے اس وقت اس کے ساتھ چلے تھے اگر حضرت شعیب (علیہ السلام) اس پر بڑی کو پیش کرتے ممکن تھا کہ وہ اس کے لئے پسندیدگی کو ظاہر کردیتے جب کہ دل میں کسی غیر کو پوشیدہ رکھے ہوتے۔ اس کے علاوہ بھی قول کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ بعض روایات میں ہے : آپ نے بڑی سے شادی کی تھی، قشیری نے اسے بیان کیا ہے۔ (ب) مدت کے آغاز کا جو ذکر کیا گیا ہے آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں جو اس کے اسقاط کا تقاضا کرے بلکہ اس کے بیان سے یہ خاموش ہے۔ ممکن ہے دونوں نے اسے لکھ لیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے جب عقد ہوگا اس وقت سے اس مدت کا آغاز ہوگا۔ (ج) اجارہ کے بدلے نکاح یہ تو آیت میں ظاہر ہے۔ یہ ایسا امر ہے جس کو ہماری شرع نے بیان کیا ہے اور اس حدیث میں اس کا ذکر ہے جس کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی چیز نہ تھی۔ اسے ائمہ نے روایت کیا ہے۔ اس کی ایک سند میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” قرآن حکیم میں سے جسے تو یاد رکھتا ہے۔ “ (1) اس نے عرض کی : سورة بقرہ اور اس کے بعد والی سورت فرمایا :” اسے بیس آیات کی تعلیم دے دے یہ تیری بیوی ہے۔ “ علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اس بارے میں انکے تین اقوال ہیں (1) امام مالک نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، ابن قاسم نے اس سے منع کیا ہے، ابن حبیب نے اسے جائز قرار دیا ہے، یہ امام شافعی اور آپ کے اصحاب کا قول ہے۔ انہوں نے کہا، یہ جائز ہے کہ حر (آزاد) کی منفعت مہر ہو جس طرح کپڑے سینا، تعمیر کرنا اور قرآن کی تعلیم دینا۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : یہ صحیح نہیں اور اس امر کو جائز قرار دیا ہے کہ وہ اس عورت سے شادی کرے اور شرط یہ لگائے کہ اس کا غلام ایک سال تک اس کی خدمت کرے گا یا اسے اپنے گھر میں ایک سال تک رکھے کیونکہ غلام اور گھر مال ہے۔ اپنی بیوی کا خود خدمت کرنا مال نہیں۔ ابو الحسن کرخی نے کہا، اجارہ کے لفظ کے ساتھ عقد نکاح جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فاتوھن اجورھن (النسائ : 24) ابوبکر رازی نے کہا، یہ صحیح نہیں کیونکہ اجارہ ایسا عقد ہے جس میں وقت کی تعیین ہوتی ہے اور عقد نکاح دائمی ہوتا ہے۔ یہ آپس میں منافی ہیں۔ ابن قاسم نے کہا، حقوق زوجیت ادا کرنے سے قبل یہ ختم ہو سکتا ہے اور اس کے بعد ثابت ہوجاتا ہے۔ اصبغ نے کہا : اگر اس نے ساتھ ہی کوئی چیز نقد بھی دی تو اس میں اختلاف ہے اگر ساتھ نقد کوئی چیز نہ دی تو یہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اگر اس کو ترک کیا تو یہ ہر حال میں نافذ ہوگا دلیل حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قصہ ہے، یہ امام مالک ہے، ابن معاذ اور شہب کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں متاخرین اور متقدمین کی ایک جماعت نے اس آیت پر اعتماد کیا ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : یہ آیت اجارہ کی صورت میں نکاح کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے عقد صحیح ہے۔ یہ مکروہ ہے کہ اجارہ کو مہر بنایا جائے مناسب یہ ہے کہ مہر مال ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان تبتغوا باموالکم محصنین (النسائ : 24) یہ ہمارے تمام علماء کا قول ہے۔ (و) جہاں تک یہ قول ہے : ودخل ولم ینقد علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ جب عقد کیا اس وقت حقوت زوجیت ادا کئے یا جب ساتھ سفر کیا۔ اگر یہ اس وقت ہوا جب عقد کیا تو کیا کوئی نقد پیش کیا ؟ ہمارے علماء نے دخول (حقوق زوجیت ادا کرنا) سے منع کیا یہاں تک کہ وہ کوئی چیز نقد پیش کرے اگرچہ وہ ایک چوتھائی دینار ہو، یہ ابن قاسم کا قول ہے۔ اگر نق دینے سے پہلے دخول کیا تو یہ نافذ ہوجائے گا، کیونکہ ہمارے علماء میں سے متاخرین نے کہا : تمام مہر پہلے دنیا یا اس میں سے کچھ پہلے دینا یہ مستحب ہے۔ اگر مہر ریوڑ کو چرانا ہو تو خدمت میں شروع ہونے سے ہی نقد ادائیگی ہوگی۔ اگر دخول اس وقت کیا جب ساتھ سفر کیا تو نکاح میں طویل انتظار جائز ہے، اگرچہ عرصہ کی طوالت شرط کے بغیر ہے۔ اگر شرط کی صورت میں ہو تو یہ جائز نہیں مگر اس صورت میں کہ غرض صحیح ہو جس طرح حرم میں داخل کرنے کی تیاری کرنا یا بیوی کا حقوق زوجیت کے اہل ہونے کا انتظار کرنا اگر وہ بالغ نہ ہو اس پر ہمارے علماء نے تصریح کی ہے۔ مسئلہ نمبر 12۔ اس آیت میں اجارہ اور نکاح کا اجتماع ہے ہمارے علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے اس بارے میں تین اقوال ہیں (1) ثمانیہ ابی زید میں کہا : ابتداء مکروہ ہے اگر ایسا ہوگیا تو نافذ ہوجائے گا (2) امام مالک اور ابن قاسم کا مشہور قول ہے : جائز نہیں، دخول سے قبل اور اس کے بعد فسخ ہوجاتا ہے کیونکہ دونوں کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں جس طرح باقی ماندہ مختلف عقود ہوتے ہیں (3) اشہب اور اصبغ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ ابن عربی نے کہا، یہی صحیح ہے۔ آیت اسی پر دلالت کرتی ہے۔ امام مالک نے کہا : نکاح بیع کے زیادہ مشابہ ہے تو پھر اجارہ اور بیع میں کیا فرق ہے ؟ اور بیع اور نکاح میں کیا فرق ہے ؟ مسئلہ : اگر اس نے یہ مہر مقرر کیا کہ وہ اپنی بیوی کو مباح شعر کی تعلیم دے تو یہ صحیح ہے، یہ مزنی نے کہا ہے۔ وہ شاعری کے قول کی طرح ہے : یوقل العبد فائدتی و مالی وتقویٰ اللہ افضل ما استفادا بندہ کہتا ہے : ہائے میرا فائدہ اور میرا مال ! اللہ کا تقویٰ زیادہ افضل ہے جتنا وہ فائدہ اٹھائے۔ اگر اس نے یہ مہر مقرر کیا کہ وہ ایسے اشعار کی تعلیم دے گا جس میں ہجو اور فحش کلامی ہو تو یہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے شراب یا خنزیر کو مہر کے طور پر مقرر کیا۔ مسئلہ نمبر 13۔ علی ان تاجرنی ثمنی حجج خدمت کا ذکر مطلق جاری ہوا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : یہ جائز ہے اسے آپ عرف پر محمول کرتے ہیں خدمت کا ذکر کرنا کوئی ضرور نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کا ظاہر یہی ہے، کیونکہ یہ جارہ مطلقہ کا ذکر ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے کہا، یہ جائز نہیں یہاں تک کہ وہ نام لے کیونکہ یہ مجہول ہے۔ امام بخاری نے باب باندھا ہے : باب من استاجر اجرافبین لہ الاجل ولم یبین لہ العمل۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : علی ان تاجرنی ثمنی حجج مہلب نے کہا، بات اس طرح نہیں جس طرح آپ نے باب باندھا ہے، کیونکہ عمل ان کے نزدیک معلوم تھا کہ پانی پلاتا ہے۔ ہل چلاتا ہے اور ریوڑ چرانا ہے اور اس کی مثل جو دیہاتی علاقوں کے کام ہوتے ہیں۔ یہ عمل متعارف تھا۔ اگرچہ معین عمل اور معین مقدار کا ذکر نہ کیا جائے، جس طرح وہ اسے کہتے : انک تحرث کذا من السنۃ و ترعی کذامن السنۃ تو اتنے سال ہل چلائے گا اور اتنے سال جانور چرائے گا۔ یہ دیہاتی زندگی کا عام معمول ہے۔ جو چیز تمام علماء کے نزدیک جائز نہیں وہ یہ ہے کہ مدت مجہول ہو اور عمل غیر مصروف ہو یہ عقد جائز نہ ہوگا یہاں تک کہ یہ معلوم ہوجائے۔ ابن عربی نے کہا : اہل تفسیر نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے ریوڑ چرانے کے عمل کو معین کیا یہ صحیح سند سے مروی نہیں لیکن انہوں نے کہا : مدین کے صالح کا ریوڑ چرانے کے سوا کوئی عمل نہ تھا، تو ان کا جول مال معلوم تھا وہ خدمت کے تعیین کے قائم مقام ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر 14۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ جائز ہے کہ کوئی آدمی چرواہے کو چند معین مہینوں کے لئے اجرت پر رکھے، اجرت معلوم ہو اس میں معین بھیڑ بکریوں کی بھی رعایت کی جائے اگر معین بکریاں ہوں تو اس میں ہمارے علماء کی تفصیل ہے۔ ابن قاسم نے کہا : یہ جائز نہیں یہاں تک کہ ان بکریوں کے نائب کی شرط لگائی جائے اگر وہ بکریاں مر جائیں۔ یہ بہت ہی کمزور روایت ہے۔ مدین کے صالح نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اجرت پر رکھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دیکھا اور آپ نے نائب کی شرط نہیں لگائی۔ اگر وہ مطلق ہوں نہ ان کا نام لیا گیا ہو اور نہ ہی وہ معین ہوں تو ہمارے علماء کے نزدیک یہ جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے کہا، ان کی جہالت کی وجہ سے جائز نہیں۔ ہمارے علماء نے عرف پر اعتماد کیا ہے جس طرح ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کو اتنی مزدوری دی جائے گی جس قدر وہ طاقت رکھتا ہوگا۔ ہمارے بعض علماء نے یہ زائد کہا ہے کہ یہ جائز نہیں یہاں تک کہ مزدور رکھنے والا اس کی قوت کا اندازہ جانتا ہ، یہ قول صحیح ہے کیونکہ مدین کے صالح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت کی مقدار کو جانتے تھے کیونکہ آپ نے پتھر اٹھایا تھا۔ مسئلہ نمبر 15۔ امام مالک نے کہا : چرواہے پر کوئی ضمانت نہیں جو جانور ہلاک ہو یا جس کو چوری کیا گیا ہو اس کے بارے میں چرواہے کی بات کو تسلیم کیا جائے گا، کیونکہ وہ وکیل کی طرح امین ہے۔ امام بخاری نے یہ عنوان باندھا ہے۔ باب اذا بصر الراعی الو الوکیل شاہ تموت او شیاء یفسد فاصلح، یخاف الفساد اور کعب بن مالک کی حدیث کو ذکر کیا جو انہوں نے اپنے باپ سے نقل کی۔ ان کی بکریاں تھیں جو سلع پہاڑ پر چرائی جاتی تھیں ہماری ایک لونڈی نے ہمارے ریوڑ میں سے ایک بکری دیکھی جو مر رہی تھی اس نے ایک پتھر توڑا اور اس پتھر کے ساتھ اسے ذبح کردیا۔ اس نے انہیں کہا، نہ کھائو یہاں تک کہ میں نبی کریم ﷺ سے سوال کروں یا میں نبی کریم ﷺ کی طرف کوئی آدمی بھیجوں جو آپ سے سوال کرے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یا آپ نے آدمی بھجیا تو حضور ﷺ نے اس کے کھانے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ نے کہا، مجھے اس امر نے متعجب کیا کہ وہ لونڈی ہے اور اس نے جانور ذبح کیا ہے۔ مہلب نے کہا : اس میں فقہی مسئلہ یہ یکہ چرواہے اور وکیل کی ان امور میں تصدیق کی جائے گی جس پر ہم نے اسے امین بنایا ہے یہاں تک کہ ان دونوں پر خیانت اور جھوٹ کی دل یل ظاہر ہو، یہ امام مالک اور جماعت کا قول ہے۔ ابن قاسم نے کہا، جب اسے بکری کے مر جانے کا خوف ہو تو اس نے اس بکری کو ذبح کردیا تو وہ ضامن نہیں ہوگا اور جب وہ ذبح شدہ لائے گا تو اس کی تصدیق کی جائے گی۔ دوسرے علماء نے کہا : وہ ضامن ہوگا یہاں تک کہ اس نے جو کچھ کہا وہ واضح ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 16۔ ابن قاسم اور اشہب نے اختلاف کیا ہے جب چرواہے نے جانوروں کی مادائوں پر مالکوں کی اجازت کے بغیر نر چھوڑے تو وہ مادائیں ہلاک ہوگئیں تو ابن قاسم نے کہا : چرواہے پر کوئی ضمانت نہیں کیونکہ نر چھوڑتا مال کی اصلاح اور اس کو بڑھانے میں سے ہے۔ اشہب نے کہا، اس پر ضمانت ہوگی۔ ابن قاسم کا قول حضرت کعب کی حدیث کے زیادہ مشابہ ہے، اس کے اجتہاد سے جو چیز تلف ہوگئی اس میں اس پر کوئی ضمانت نہیں اگر وہ اہل اصلاح میں سے تھا اور اس کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ وہ مال پر شفقت کرتا ہے اگر وہ فاسق وف فسادی ہو اور صاحب مال نے ارادہ کیا کہ وہ اس سے ضمانت لے تو وہ ضمانت لے سکتا ہے کیونکہ جب اس کا فسق معروفہو تو اس کی اس بات میں تصدیق نہیں کی جائے گی کہ اس نے بکری میں موت کے آثار دیکھے تھے۔ مسئلہ نمبر 17۔ یہ منقول نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کیا اجرت تھی ؟ لیکن یحییٰ بن سلام نے روایت کی ہے کہ مدین کے صالح نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے یہ اجرت معین کی تھی کہ ہر وہ بچہ جو اپنی ماں کے رنگ کے خلاف پیدا ہوگا وہ ان کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وحی کی کہ تو ان کے درمیان اپنا عصا پھینک وہ سب اپنی مائوں کے رنگ کیخلاف پیدا ہوں گے۔ یحییٰ کے علاوہ دوسرے علماء نے کہا : ہر وہ بچہ جو سیاہ وسفید رنگ والا پیدا ہوگا وہ اس کا ہوگا۔ تو سب نے ایسے ہی بچے جنے۔ قشیری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اجرت پر رکھا تو انہیں کہا : فلاں کمرے میں داخل ہو جائو اور اس میں پڑے ہوئے عصائوں میں سے عصالو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا نکالا یہ وہی عصا تھا جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے جنت سے نکالا تھا۔ انبیاء اس کے وارث چلے آرہے تھے یہاں تک کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تک پہنچا تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : وہ یہ عصا کمرے میں رکھ دے اور دوسرا عصا لے لے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کمرے میں داخل ہوئے اور وہی عصا نکالا۔ یہ سلسلہ سات دفعہ ہوا ہر دفعہ آپ کے ہاتھ میں یہی عصا آتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جان گئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصی شان ہے جب صبح ہوئی تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں کہا : اپنے ریوڑ کو دور لے جانا جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں اور دائیں راستے کو لینا وہاں زیادہ جھاڑیاں نہیں بائیاں راستہ نہ اپنانا کیونکہ وہاں بہت زیادہ جھاڑیاں ہیں اور بڑاسانپ ہے جو جانوروں کو برداشت نہیں کرتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہاں تک ریوڑ کو لے آئے جہاں سے راستے جدا ہوتے ریوڑ نے بائیں جانب والا راستہ لیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انہیں نہ روک سکے۔ حضرت موسیٰ علی السلام ہوگئے اژدھا نکلا عصا کھڑا ہوگیا اس کی دونوں شاخیں لوہے کی بنگئیں اس نے اژدھا سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ اس کو مار ڈالا اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹ آیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو عصا کو خون آلودہ پایا اور سانپ کو مرا ہوا دیکھا عشاء کے وقت حضرت شعیب (علیہ السلام) کی طرف لوٹ آئے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) ناببینا تھے تو آپ نے بکریوں پر ہاتھ پھیرا تو سبزے کا اثر ان پر نمایاں تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس واقعہ کا سوال کیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سب کچھ بتا دیا حضرت شعیب (علیہ السلام) خوش ہوگئے اور کہا : ان جانوروں میں سے جو بھی اس سال کئیرنگوں والا بچے جنے گا تو وہ تریا ہوگا۔ اس سال تمام بچے مختلف رنگوں والے پیدا ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو علم ہوگیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام و مرتبہ ہے۔ عینیہ بن حصن نے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اجرت پیٹ بھر کر کھانا اور اپنی شرمگاہ کی عفت رکھی تھی “ (1) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں یہ فرمایا تھا : تیرے لئے ان میں سے یعنی ریوڑ کے بچوں میں سے وہ ہوگا جو مختلف رنگوں والا ہو جس میں عزوز، فشوش، کموش، ضبوب اور ثعول نہ ہو۔ ہر وی نے کہا : عزوز سے مراد کم دودھ والی، یہ عزاز سے ماخوذ ہے اس سے مراد سخت زمین ہے قد تعززت الشاۃ بکری کم دودھ والی ہے۔ فشوش جس کا دودھ دونے کے بغیر ہی نکلتا رہے، یہ تھن کے سوراخ کے بڑا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اسی کی مثل فتوح اور ثرور ہے۔ عربوں کی امثال میں سے ہے : لافشنک فش الوطب میں تیرا غصہ اور کبرتیرے سر سے نکال دوں گا۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : فش السقائ، جب اس سے ہوا کو نکال دیا۔ اس معنی میں حدیث ہے : ان الشیطان یفش بین الیتی احدکم یخیل الیہ ان احدث شیطان تمہاری دوسرینوں کے درمیان ہلکی سی پھونک مارتا ہے یہاں تک کہ اس آدمی کو خیال ہوتا ہے کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے۔ کموش سے مراد چھوٹی کھیری والی، اس کو کمیشہ بھی کہتے ہیں۔ اسے یہ نام اس لئے دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی کھیری سکڑی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے : رجل کمیش الا زار ایسا آدمی جس کا تہبند چھوٹا ہو۔ کشود یہ کموش کی طرح ہے۔ ضبوب اسے کہتے ہیں جس کے تھن کا سوراخ تنگ ہو۔ ضب سے مراد جس کا دودھ دوہنے کے لئے سختی سے نچوڑنا پڑے۔ ثعول سے مراد ایسی بکری ہے جس کا حلمہ زیادہ ہوں حلمہ سیمراد ثعل ہے اور ثعل سے مراد جس کے دانت زیادہ ہوں۔ اسی زیادتی کو راء ول کہتے ہیں : رجل اثعل ثعل سے مراد دودھ کے نکلنے کی جگہ کا تنگ ہوتا۔ ہر وی نے کہا : حدیث میں قالب لون سے مراد ہے کہ وہ بچہ جو ماں کے رنگ سے مختلف ہو۔ مسئلہ نمبر 18۔ مجہول عوض کے ساتھ اجارہ جائز نہیں ہوتا کیونکہ بھیڑ بکری کا بچہ دینا معلوم نہیں۔ بعض سرسبز و شاداب علاقوں میں بھیڑ بکریوں کا بچہ جننا، اس کی تعداد اور ان کے بچوں کا سل امت رہنا یہ قطعی طور پر معلوم ہوتا ہے جس طرح مصر وغیرہ کے علاقے۔ مگر یہ ہماری شریعت میں جائز نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے غرر سے منع کیا اور مضامین و ملاقیح سے بھی منع کیا ہے۔ مضامین سے مراد جو مئونث کے بطن میں ہوتے ہیں اور ملا قیح سے مردا جو نروں کی پشت میں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس شاعر نے کہا : ملقوحۃ فی بطن ناب حامل یاں ملقوحہ کی نسبت مونث سے کی گئی ہے۔ سورة حجر میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ تاہم راشد بن معمر نے ایک تہائی اور ایک چوتھائی پر ریوڑ کو چرانے میں اجارہ کو جائز قرار دیا ہے۔ ابن سیرین اور عطا اور عطا نے کہا : کپڑے کے ایک حصہ کے بدلے میں کپڑے کو بنا جاتا ہے، امام احمد نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 19۔ نکاح میں کفو کا اعتبار ہے۔ علماء نے اختلاف کیا ہے کہا : دین، مال اور حسب سب میں ان میں سے بعض کا اعتبار ہوگا۔ صحیح یہ ہے کہ موالی کا نکاح عربی عورت اور قریشی عورت سے جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان اکرمکم عند اللہ اتقکم (الحجرات : 13) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین کی طرف آئے اجنبی مسافر تھے، علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، خوفزدہ تھے، تنہا تھے، بھوکے تھے، وافر لباس بھی نہ تھا، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بچی کا نکاح ان سے کردیا جب آپ کی امانت ان پر ثابت ہوگئی اور آپ نے ان کا حال دیکھ لیا، باقی چیزوں سے اعراض کیا۔ یہ مسئلہ گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 20۔ بعض علماء نے کہا : حضرت شعیب (علیہ السلام) کی طرف سے جو کچھ ہوا یہ عورت کے مہر کا ذکر نہیں تھا۔ یہ تو اپنے لئے ایک شرط تھی جس طرح بدو لوگ کرتے ہیں وہ اپنی بچیوں کے لئے مہر کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے لئے فلاں چیز خاص ہے اور مہر کو ترک کردیتے ہیں اور بغیر مہر کے عقد نکاح کردیتے ہیں بغیر مہر کے نکاح یہ جائز ہے۔ ابن عربی نے کہا : بدو لوگ جو کچھ کرتے ہیں یہ حلو ان اور مہر پر زیادتی ہے۔ یہ حرام ہے اور انبیاء کے مناسب نہیں مگر جب ولی اپنے لئے کوئی شرط ذکر کرے علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے جسے خاوند اپنے آپ سے نکالتا ہے اور عورت کے قبضہ میں نہیں دیتا۔ اس کے بارے میں دو قول ہیں (1) یہ جائز ہے (2) یہ جائز نہیں۔ میرے نزدیک تقسیم صحیح ہے کیونکہ عورت اس سے خالی نہ ہوگی وہ باکرہ ہوگی یا مثیبہ ہوگی۔ اگر ثیبہ ہو تو یہ جائز ہے کیونکہ نکاح اس کے اپنے قبضہ میں ہے ولی کا کام صرف ایجاب و قبول کی ذمہ داری ادا کرنا ہے جس طرح وکیل بیع کی صورت میں عوض لیتا ہے اسی طرح ولی بھی عوض لے سکتا ہے۔ اگر وہ باکرہ ہو تو عقد ولی کے اختیار میں ہے گویا اس نے نکاح میں بیوی کے علاوہ کسی اور کے لئے عوض مقرر کیا یہ باطل ہے۔ اگر ایسا ہوا تو حق زوجیت سے پہلے یہ ختم ہوجائے گا اور حقوقزوجیت کے بعد ثابت رہے گا یہ مشہور روایت ہے۔ الحمد اللہ مسئلہ نمبر 21۔ جب شرط ذکر کی اور اس کے بعد حسن معاشرت کے طور پر کوئی اضافی چیز ذکر کی تو ہر ایک اپنے اپنے حکم پر جاری ہوگی۔ دوسری پہلے کے ساتھ لاحق نہ ہوگی اور فرض و نفل کا کوئی اشتراک نہیں ہوگا، اسی وجہ سے عقود میں متفقہ شروط لکھی جاتی ہیں پھر کہا جاتا ہے : تطوع بکذا شرط اپنی جگہجاری ہوگی اور نفل اپنے حکم پر جاری ہوگا۔ واجب، نفل سے الگ ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت شعیب (علیہ السلام) کے الفاظ میں حسن ہے جو انہوں نے عقد کے نکاح کے حوالے سے کہا : انکحہ ایاہ یہ اس سے اولیٰ ہے : انکحھا ایاہ اس کی وضاحت سورة احزاب میں آئے گی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے آٹھ سال بطور ذکر کئے اور دس سال بطور حرمت ذکر کئے۔ مسئلہ نمبر 22۔ قال ذلک بینی وبینک ایما الا جلین قضیت فلا عدوان علی۔ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی گفتگو ختم ہوئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی توثیق کی اور اسے پختہ کرنے کے انداز میں اس کے معنی کو مکرر کیا کہ شرط آٹھ سالوں میں ہوگی۔ ایمایہ کلمہ استفہام ہے، فضیت کی وجہ سے منصوب ہے۔ الاجلین یہ اس لئے مجرور ہے کیونکہ ای کا کلمہ اس کی طرف مضاف ہے۔ تازائدہ ہے تاکید کے لئے ہے، اس میں شرط کا معنی موجود ہے اس کا جواب فلا عدوان میں ہے۔ عدوان کا لفظ لا کی وجہ سے منصوب ہے۔ ابن کسی ان نے کہا : مامحل جر میں ہے اس کی طرف مضاف ہے۔ یہ نکرہ ہے اور الا جلین اس سے بدل ہے، اسی طرح فما رحمۃ من اللہ (آل عمران : 159) میں ہے یعنی رحمۃ یہ ما سے بدل ہے۔ کلبی نے کہا : اس سے بدل ہے، اسی طرح فبما رحمۃ من اللہ (آل عمران : 159) میں ہے یعنی رحمۃ یہ ما سے بدل ہے۔ کلبی نے کہا : وہکوشش کرتے کہ قرآن میں کسی چیز کو زائد نہ بنائیں اور اس کی کوئی ایسی توجیہ کریں جو اس کو زیادتی سے خارج کر دے۔ حضرت حسن بصری نے ایمایاء کے سکون کے ساتھ پڑھا۔ جمہور علماء کی قرأت ہے : عدوان میں عین مضموم ہے۔ ابوحیوۃ نے اسے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ معنی ہے مجھ پر کوئی گرفت نہ ہوگی اور مجھ سے زیادہ عمل کا مطالبہ نہیں ہوگا۔ عدوان سے مراد غیر واجب امر میں تجاوز کرنا۔ صحیح سے مردا سال ہیں، شاعر نے کہا : لمن الدیار بقنۃ الحجر اقوین من حجج ومن دھر پہاڑ کی چوٹی پر کس کے گھر ہیں جو سالوں اور زمانہ سے قوی ہیں۔ حجج کا واحد حجہ ہے۔ واللہ علی مانقول وکیل ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول میں سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عورت کے والد کے قول میں سے ہے۔ دونوں صالح ہستیوں نے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنانے پر اکتفا کیا مخلوقات میں سے کسی کو گاہ نہیں بنایا۔ علماء نے نکاح میں گواہ بنانے کو واجب قرار دیا ہے۔ تئیسواں مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 23۔ اس کے بارے میں دو قول ہیں (1) نکاح دو گواہوں سے ہی منعقد ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ امام مالک نے کہا، نکاح گواہوں کے بغیر بھی منعقد ہوجاتا ہے کیونکہ یہ عقد معاوضہ ہے اس میں گواہ بنانا شرط نہیں ہے اس میں اعلان اور تصریح شرط ہے آپ نے نکاح اور بدکاری میں فرقدف بجانے کیساتھ کیا ہے۔ یہ مسئلہ سورة بقرہ میں تفصیلی گزر چکا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے ایک اسرائیل سے سوال کیا کہ وہ اسے ایک ہزار دینار ادھار دے تو دوسرے نے کہا، گواہ لے آئو جن کو میں گواہ بنائوں۔ اس نے کہا : اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے۔ دوسرے نے کہا : کوئی ضامن لے آئو تو پہلے نے کہا : اللہ تعالیٰ ضامن کا فی ہے۔ دوسرے نے کہا : تو نے سچ بولا ہے اور وہ دینار قرض کے طور پر دے دے۔ (1)
Top