Al-Qurtubi - Al-Qasas : 30
فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ یّٰمُوْسٰۤى اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ
فَلَمَّآ : پھر جب اَتٰىهَا : وہ آیا اس کے پاس نُوْدِيَ : ندا دی گئی مِنْ شَاطِیٴِ : کنارہ سے الْوَادِ الْاَيْمَنِ : میدان وادیاں فِي الْبُقْعَةِ : جگہ میں الْمُبٰرَكَةِ : برکت والی مِنَ الشَّجَرَةِ : ایک درخت سے اَنْ : کہ يّٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِنِّىْٓ اَنَا : بیشک میں اللّٰهُ : اللہ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کا پروردگار
جب اسکے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ موسیٰ میں تو خدائے رب العالمین ہوں
فلما اتھا، ھاضمیر سے مراد درخت ہے ضمیر کو اسم سے مقدم کیا۔ نودی من شاطی الواد پہلا اور دوسرا من ابتداء غایت کے لئے ہے آپ کو ندا وادی کی جانب سے درخت کی جانب سے آئی۔ من الشجرۃ یہ من شاطی الواد پہلا اور دوسرا من ابتداء غایت کے لئے ہے آپ کو نداوادی کی جانب سے درخت کی جانب سے ائٓی۔ من الشجرۃ یہ من شاطی الواد سے بدل اشتمال ہے، کیونکہ درخت وادی کے کنارے پر اگا ہوا تھا۔ شاطی الوادی اور شط الوادی دونوں کا معنی اس کی جانب ہے۔ جمع شطان اور شواطی آتی ہے، قشیری نے اسے ذکر کیا ہے۔ جوہری نے کہا، شاطی الاودیۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع نہیں بنائی جاتی۔ شاطات الرجل جب ت ایک کنارے پر چلے اور وہ دوسرے کنارے پر چلے۔ الایمن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دائیں جانب۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : پہاڑ کی دائیں جانب سے۔ فی البقعۃ المبرکۃ اشہب عقیلی نے پڑھافی البقعۃ ان کا قول بقاع یہ بقعۃ پر دلالت کرتا ہے جس طرح کہا جاتا ہے : جفنۃ جفان جس نے بقعۃ کہا اس نے جمع بقع ذکر کی جس طرح غرفۃ کی جمع غرف آتی ہے۔ من الشجرۃ درخت کی جانب سے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ درخت علیق کا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ببول کا درخت تھا اور ایک قول یہ کیا گیا : وہ عوسبح کا درخت تھا۔ اسی درخت سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا تھا، زمحشری نے یہ ذکر کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ عناب کا درخت تھا۔ عوسبح کا درخت جب بڑا ہوجائے تو اس کو غرقد کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے : یہودیوں کا درخت ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے اور ان یہودیوں کو قتل کردیں گے جو دجال کے ساتھ ہوں گے تو یہودیوں میں سے کوئی آدمی درخت کے پیچھے نہیں چھپے گا مگر وہ درخت بول پڑے گا۔ وہ درخت کہے گا : اے مسلمان ! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اور اس کو قتل کرو مگر غرقد کا درخت نہیں بولے گا کیونکہ یہ یہودیوں کا درخت ہے (1) امام مسلم نے اسے نقل کیا ہے۔ مہدوی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے عرش کے اوپر سے کلام کی اور جس طرح چاہا درخت سے اپنا کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سنایا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے انتقال اور زوال کی صفت ذکر کی جاسکتی اس کی مثل مخلوق کی صفات ہیں۔ ابو المعالی نے کہا، اہل معانی اور اہل حق کہتے ہیں اللہ تعالیٰ جس سے کلام فرمائے اور اسے رتبہ عالی اور غایت قصوی کے ساتھ خاص کرے تو وہ انسان اس کے کلام قدیم کا ادراک کرلیتا ہے جو کلام حروف، اصوات، عبارات، نغمات اور لغات کی اقسام سے پاک ہوتا ہے، جس طرح کہ جس شخص کو کرامات کی منازل کے لئے طے کیا، اس پر اپنی نعمتیں مکمل کیں اور اپنے دیدار سے نوازا اس نے اپنے رب کا دیدار، اجسام کی مماثلث اور حوادث کے احکام سے منزہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا مثل نہیں۔ امت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرشتوں میں سے دوسرے منتخب افراد کو اپنی کلام کے ساتھ خاص کیا۔ الاستاذ ابو اسحاق نے کہا، اہل حق نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں ایسی صلاحیت پیدا فرما دی جس کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو ادراک کرلیا۔ کلام کے سماع میں یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت تھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمام مخلوق میں ایسی صلاحیت پیدا کرنے پر قادر ہے علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے۔ کیا ہمارے نبی ﷺ نے لیلتہ المعراج کو اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ؟ کیا جبریل امین نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ہے اس بارے میں دو قول ہیں : دونوں میں سے ایک کا طریقہ، قطعی روایت کا ہونا ہے اور یہ تو مفقود ہے۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ مخلوق کا اسے سننا قرآن کی قرأت کے وقت اس معنی میں ہے کہ انہوں نے ایسی عبارت سنی جس کے ساتھ وہ اس کے معنی کو پہچان گئے بعینہ اس کے کلام کو نہیں سنا۔ عبداللہ بن سعد بن کلاب نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا قیدیمی کلام سنا جو پیدا کی گئی آوازوں میں تھا اللہ تعالیٰ نے جنہیں بعض اجسام میں ثبت کردیا تھا۔ ابو المعالی نے کہا : بلکہ یہ ضروری ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے خرق عادت کے طور پر اللہ تعالیٰ کے کلام کے ادراک کو تسلیم کیا جائے۔ اگر یہ قول نہ کیا جائے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے کوئی تخصیص نہ رہے گی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلام سنایا۔ ان کے لئے علم ضروری پیدا فرمایا یہاں تک کہ انہیں علم ہوگیا کہ جو کچھ انہوں نے سنا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس ذات نے اس سے کلام کیا اور جس ذات نے اسے ندا کی وہ رب العالمین ہے۔ اقاصیص میں وارد ہوا ہے۔ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں نے تمام اعضاء کے ساتھ اپنے رب کا کلام سنا اور میں نے اسے اپنی جہتوں میں سے کسی ایک جہت سے اسے نہیں سنا۔ سورة بقرہ میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔ ان یموسی ان محل نصب میں ہے کیونکہ حرف جر محذوف ہے اصل کلام یوں تھی بان یا موسیٰ ان انا اللہ رب العلمین اللہ تعالیٰ نے غیر کے رب ہونے کی نفی کی ہے۔ اس کلام کے ذریعے آپ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگوں میں سے ہوگئے رسولوں میں سے نہ ہوئے کیونکہ وہ رسول نہ ہوئے مگر اس کے بعد کہ آپ کو رسالت کا حکم دیا اور رسالت کا حکم اس کلام کے بعد ہوا۔
Top