Al-Qurtubi - Al-Qasas : 38
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ١ۚ فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰى١ۙ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون نے يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ : اے سردارو مَا عَلِمْتُ : نہیں جانتا میں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرِيْ : اپنے سوا فَاَوْقِدْ لِيْ : پس آگ جلا میرے لیے يٰهَامٰنُ : اے ہامان عَلَي الطِّيْنِ : مٹی پر فَاجْعَلْ لِّيْ : پھر میرے لیے بنا (تیار کر) صَرْحًا : ایک بلند محل لَّعَلِّيْٓ : تاکہ میں اَطَّلِعُ : میں جھانکوں اِلٰٓى : طرف اِلٰهِ : معبود مُوْسٰي : موسیٰ وَاِنِّىْ : اور بیشک میں لَاَظُنُّهٗ : البتہ سمجھا ہوں اسے مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا اپنے سوا کسی کو خدا نہیں جانتا تو ہامان میرے لئے گارے کو آگ لگوا (کر اینٹیں پکوا) دو پھر میرے لئے ایک (اونچا) محل بنوا دو تاکہ میں موسیٰ کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں اور میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں
وقال فرعون یا یھا الملا ما علمت لکم من الہ غیری حضرت ابن عباس نے کہا : اس کلام اور انا ربکم الاعلی کے قول کے درمیان چالیس سال کا عرصہ حائل ہے۔ اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے بلکہ اسے علم تھا کہ اس کا وہاں رب ہے جو اس کا اور اس کی قوم کا خالق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ولئن سآلتھم من خلقھم لیقولن اللہ (الزخرف : 78) اس نے کہا فاوقدلی یھامن علی الطین میرے لئے اینٹیں پکائو یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ قتادہ نے کہا : فرعون وہ پہلا شخص ہے جس نے اینٹیں پکوائیں اور ان سے عمارت بنوائی۔ جب فرعون نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ وہ اس کے لئے محل بنائے تو ہامان نے مزدور جمع کئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس نے پچاس ہزار مستری جمع کئے معاونین اور مزدور اس کے علاوہ تھے اس نے اینٹیں پکانے، چونا تیار کرنے، لکڑی چیرنے اور کیل لگانے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے محل بنایا، محل کو خوب اونچا کیا اور اسے پختہ کیا جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا کوئی عمارت اس تک نہیں پہنچتی تھی۔ عمارت بنانے والا اس کی چوٹی پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے آزمانے کا ارادہ کیا۔ سدی نے حکایت بیان کی ہے : فرعون اس چھت پر چڑھا اور ایک تیر آسمان کی طرف پھینکا وہ تیر خون میں لت پت واپس آیا۔ اس نے کہا : میں نے (حضرت) موسیٰ کے الہ کو قتل کردیا ہے۔ روایت بیان کی جاتی ہے : اللہ تعالیٰ نے اس کی اس گفتگو کے موقع پر جبریل امین کو بھیجا حضرت جبریل امین نے اپنا پر مارا تو اس نے محل کے تین ٹکڑے کردیئے۔ ایک ٹکڑا فرعون کے لشکر پر پڑا جس کی وجہ سے ان کے دس لاکھ سپاہی مارے گئے ایک ٹکڑا سمندر میں جا گرا اور ایک ٹکڑا مغرب میں جا گرا اور وہ تمام ہلاک ہوگئے جنہوں نے اس محل کے بنانے میں کام کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات کی صحت کو خوب جانتا ہے۔ وانی لاظنہ من الکذبین یہاں ظن سے مراد شک ہے۔ اس نے شک کرتے ہوئے انکار کیا کیونکہ اس نے ایسے دلائل دیکھے جن کا سمجھنا عقل مند پر کوئی مشکل نہ تھا۔
Top