Al-Qurtubi - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تین قسم کے افراد ایسے ہیں جنہیں دو گنا اجر دیا جائے گا (1) اہل کتاب میں سے آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور اس نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ پایا تو وہ حضور ﷺ پر ایمان لایا، آپ کی اتباع کی اور آپ کی تصدیق کی۔ اس کے لئے دو اجر ہیں (2) مملوک غلام حسن نے اللہ تعالیٰ کے حق کو اور اپنے آقا کے حق کو ادا کیا اس کے لئے دو اجر ہیں (3) ایک مرد جس کی ایک لونڈی تھی۔ اس نے اسے غذا دی اور اچھی غذا دی اسے ادب سکھایا اور بہترین ادب سکھایا پھر اسے آزاد کیا اور اس سے شادی کی تو اس کے لئے دو اجر ہیں “ (1) شعبی نے خراسان سے کہا : یہ حدیث بغیر کسی شے کے لے لو جب کہ ایک آدمی اس سے کم درجہ کی حدیث کے لئے مدینہ طیبہ تک کا سفر کیا کرتا تھا۔ اسے امام بخاری نے بھی روایت کیا ہے۔ ہمارے علماء نے کہا : جب ان میں سے ہر ایک دو جہتوں سے دو امور کا مخاطب بنا تو ان میں سے ہر ایک دو اجروں کا مستحق ہوا۔ کتابی اپنے نبی کی جانب سے مخاطب تھا پھر ہمارے نبی کی جانب سے اسے خطاب کیا گیا اس نے اس دعوت کو قبول کیا اور اس کی پیروی کی تو اس کے لئے دو ملتوں کا اجر ہے۔ اس طرح غلام وہ اللہ تعالیٰ کی جہت سے مامور ہے اور اپنے سید کی جانب سے مامور ہے اور لونڈی کا مالک، جب اس نے وہ فرائض ادا کئے جسے اپنی لونڈی کی تربیت کے اور ادب کے حالے سے خطاب کیا گیا تھا تو اس نے اسے تربیت کے ساتھ زندہ کیا پھر جب اس نے اسے آزاد کیا اور پھر اس سے شادی کی تو آزادی کے احیاء کے ساتھ زندہ کیا پھر اسے اپنے ساتھ لاحق کرلیا تو اس نے وہ امور سر انجام دیئے جن کا اسے حکم دیا گیا تھا تو ہر ایک کے لئے دو اجر ہیں پھر ہر ایک اجر کو کئی گنا کردیا جائے گا۔ ایک نیکی دس گناہ ہے تو اس کے اجروں کو بھی کئی گنا کردیا جائے گا، اسی وجہ سے کہا گیا : ہر وہ غلام جو اپنے آق کا حق ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حق آزاد یعنی مالک کے حق سے زیادہ ہے یہی وہ چیز ہے جسے ابو عمر بن عبدالبر اور دوسرے علماء نے پسند کیا ہے۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” مملوک غلام جو اپنی اصلاح کرنے والا ہو اس کے لئے دو اجر ہیں۔ “ (2) مجھے اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں ابوہریرہ کی جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد، حج اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کا تصور نہ ہوتا تو میں اس کو پسند کرتا کہ میں مرتا اس حال میں کہ میں مملوک ہوتا۔ سعید بن مسیب نے کا : ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے حج نہ کیا یہاں تک کہ ان کی ماں مر گئی مقصد ماں کی خدمت تھی۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ایک مملوک کے لئے کتنا اچھا ہے کہ وہ فوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو اور اپنے آقا کی خدمت اچھی طرح کرتا ہوا اس غلام کے لئے کتنا اچھا ہے “ (3) ۔ مسئلہ نمبر 2۔ بما صبروا اپنی ملت پر صبر کرنے میں یہ عام ہے پھر اس عمل اور اس اذیت سے جو وہ کفار وغیرہ سے پاتے ہیں پر صبر کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 3۔ ویدرئون بالحسنۃ السئۃ وہ برائی کو نیکی سے دور کرتے ہیں درات یہ اس وقت بولتے ہیں جب تو دفاع کرے۔ دردء کا معنی دور کرنا ہے۔ حدیث میں ہے :” حدود کو شبہات کے ساتھ دور کرو “ (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ بردات اور اچھی کلام کے ساتھ اذی کو دور کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ توبہ اور استغفار کے ساتھ گناہوں کو دور کرتے ہیں۔ پہلی تعبیر کی صورت میں یہ مکارم اخلقا کا وصف ہے یعنی جوان کے ساتھ برائی کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ نرمی کرتے ہیں اور اچھے قول کے ساتھ پیش آتے ہیں اس کے ساتھ وہ برائی کو دور کرتے ہیں یہ آیت صلح ہے یہ ابتداء اسلام میں تھا یہ وہ آیت ہے جسے آیت سیف نے منسوخ کردیا ہے اور کفر کے سوا کے لئے اس کا حکم باقی ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی امت قیامت تک بجالاتی رہ گی۔ اس معنی میں حضرت معاذ کے لئے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اتبع السیئۃ الحسنۃ تمحھا و خالق الناس بخلق حسن (2) برائی کے پیچھے نیکی لائو جو اس برائی کو مٹا دے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے ملو۔ خلق حسن میں سے یہ بھی ہے کہ ناپسندیدہ چیز اور اذیت کو دور کرو ظلم پر اس سے اعراض اور نرم گفتگو کے ساتھ صبر کرو۔ مسئلہ نمبر 4۔ وما رزقنھم ینفقون اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی کہ وہ اپنے اموال طاعات اور شرع کے احکام میں خچ کرتے ہیں۔ اس میں صدقات پر برانگیختہ کیا گیا ہے بعض اوقات روزے اور نماز کی صورت بدنی صدقہ ہوتا ہے پھر لغو سے اعراض کرنے پر ان کی مدح کی، جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واذا مروا باللغو مروا کراماً ۔ (الفرقان) مشرک جو انہیں اذیت دیتے اور گالیاں دیتے اس کو سنتے تو یہ اس سے اعراض کرتے یعنی اس میں مشغول نہ ہوتے۔ وقالوا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم سلم علیکم یہ کلام ایک دوسرے سے لاتعلق ہونے کی بنا پر ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، واذا خاطبھم الجھلون قالوا سلما۔ (الفرقان) یعنی ہمارے لئے ہمار ادین اور تمہارے لئے تمہارا دین ہے سلم علیکم یعنی تمہیں ہم سے امن ہے ہم جنگ نہیں کرتے اور ہم تمہیں گالیاں نہیں دیتے یہاں سلام کا کوئی ذکر نہیں۔ زجاج نے کہا : یہ قتال کا حکم آنے سے قبل کا معاملہ ہے۔ لانبتغی الجھلین ہم انہیں جھگڑے، بات لوٹانے اور باہم گالی دینے کے لئے طلب نہیں کرتے۔
Top