Al-Qurtubi - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کر ڈالا جو اپنی (فراخی) معیشیت میں اترا رہے تھے سو یہ ان کے مکانات ہیں جو انکے بعد آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ان کے پیچھے ہم ہی ان کے وارث ہوئے
وکم اھلکنا من قریۃ بطرت معیشتھا اس آدمی کے لئے اس امر کو واضح کیا جو یہ گمان کرتا ہے کہ اگر وہ ایمان لایا تو عرب اس سے قتال کریں گے ایمان کے ترک کرنے میں خوف بہت زیادہ ہے کتنی ہی قومیں ہیں جنہیں نے کفر کیا پھر ان پر ہلاکت واقع ہوئی۔ بطر سے مرادنعمت کے بدلے میں سرکشی کرنا ہے، یہ زجاج کا قول ہے۔ معیشتھا سے مراد فی معیشتھا ہے جب فی کو حذف کیا تو فعل متعدی ہوگیا، یہ مازنی اور زجاج کا قول ہے، جس طرح اس ارشاد میں حرف جار حذف ہے، و اختار موسیٰ قومہ سبعین رجلاً (الاعراف : 551) فراء نے کہا : یہ تفسیر کے طور پر منوب ہے اسی طرح فرمایا : جس طرح تو کہتا ہے ابطرت مالک وبطرتہ اس کی مثل اس کے ہاں یہ ہے الا من سفہ نفسہ (البقرہ : 031) اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے فان طبن لکم عن شی الامنہ نفساً (النسائ : 4) بصریوں کے نزدیک اسم معرفہ کو نصب دینا محال ہے کیونکہ تفسیر اور تمیز کا مطلب یہ ہے کہ واحد نکرہ ہو جو جنس پر دلالت کرے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ بطرت کی وجہ سے منصوب ہے بطرت کا معنی ہے جھلت جاہل اور ناقواف ہے معنی ہے وہ بستی اپنی معیشت پر شکر بجا لانے سے جاہل ہے۔ قتلک مسکنھم لم تسکن من بعدھم الا قلیلاً ان کے اہل کے ہلاک ہونے کے بعد کچھ مسکن ہی آباد ہوئے اکثر برباد ہوگئے۔ استثناء مساکن کی طرف راجع ہے۔ یعنی بعض میں رہئاش رکھی جاتی ہے یہ زجاج کا قول ہے۔ اس پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا : اگر استثناء مساکن کی طرف لوٹتی تو ارشاد یوں ہوتا : الاقلیل کیونکہ تو کہتا ہے : القوم لم تضرب الاقلیل قلیل کو رفع دیا جاتا ہے کیونکہ مارے جانے والے افراد تھوڑے ہوتے ہیں۔ جب تو نصب دے گا تو قلیل، ضرب کی صفت ہوگی۔ یعنی تھوڑا مارا گیا۔ تو اس وقت معنی ہوگا وہ ایسے مساک نہیں جن میں مسافر ہی رہائش پذیر ہوتے اور وہ لوگ جو اس راستہ سے گزرے وہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے یعنی ان کے بعد تھوڑی ہی رہائش رکھی گئی حضرت ابن عباس نے اس طرح کہا، یعنی ان میں مسافر یا راہ گزر وہی ایک دن یا دو دن رہائو کنانحن الورثین یعنی ان کی ہلاکت کے بعد انہیں ان کا نائب بنایا گیا۔ (1)
Top