Al-Qurtubi - Al-Qasas : 68
وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ١ؕ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيَخْتَارُ : اور وہ پسند کرتا ہے مَا كَانَ : نہیں ہے لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : اختیار سُبْحٰنَ اللّٰهِ : اللہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں
اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کرلیتا ہے انکو اس کا اختیار نہیں ہے یہ جو شرک کرتے ہیں خدا اس سے پاک و بالاتر ہے
وربک یخلق مایشآء و یختار یہ ان شرکئا کی ذکر کے ساتھ متصل ہے جن کی انہوں نے عبادت کی اور انہوں نے شفاعت کے لئے انہیں اختیار کیا۔ شفعاء میں اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے مشرکین کا اس میں کوئی اختیار نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ولدین بن مغیرہ کا جواب ہے جب اس نے کہا، لو لا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم۔ (الزخرف : 31) یعنی اس نے اپنے آپ کو اور طائف سے عروہ بن مسعود ثقفی کو عظیم خیال کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ یہودیوں کا جواب ہے جب انہوں نے کہا : اگر جبریل امین کے علاوہ حضرت محمد ﷺ کی طرف پیغام لانے والا ہوتا تو ہم اس پر ایمان لے آتے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، تیرا رب مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے طاعت کے لئے چن لیتا ہے۔ یحییٰ بن سلام نے کہا : معنی ہے تیرا رب مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے نبوت کے لئے چاہتا ہے پسند کرلیتا ہے۔ نقاش نے بیان کیا ہے : معنی ہے اللہ تعالیٰ میں سے جسے چاہتا ہے یعنی حضرت محمد ﷺ کو پیدا فرماتا ہے اور اپنے دین کے مددگار پسند کرلیتا ہے۔ (1) میں کہتا ہوں : کتاب البزار میں حضرت جابر سے صحیح اور مرفوع روایت ہے :” اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور مرسلین کے علاوہ میرے صحابہ کو عالمین پر چن لیا ہے اور میرے صحابہ میں سے میرے لئے چار صحابہ کو چن لیا ہے یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمرو فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی شیر خدا (2) اللہ تعالیٰ نے انہیں میرے صحابہ بنایا ہے اور میرے تمام صحابہ میں خیر ہے، میری امت کو تمام امتوں پر چن لیا ہے اور میری امت میں سے چار قرون کو میرے لئے چن لیا ہے۔ “ سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے وہ دہب بن عنبہ سے وہ اپنے باپ سے اس آیت ور بک یخلق مایشآء ویختار کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ جو پائوں میں سے بکری، پرندوں میں سے کبوتر، ویختار پر وقف تام ہے۔ علی بن سلیمان نے کہا : یہ وقف تام ہے یہ جائز نہیں کہ مایختار کی وجہ سے محل نصب میں ہو کیونکہ اگر یہ محل نصب میں ہوتا تو فعل اس سے پہلے نہ ہوتا۔ کہا : اس میں قدر یہ کا رد ہے۔ نحاس نے کہا کلام وختیار پر مکمل ہوجاتی ہے یعنی وہ رسولوں کو چن لیتا ہے۔ ما کان لھم الخیرۃ جن کو وہ پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بھیجتا۔ ابو اسحاق نے کہا : ویختار یہ وقف تام ہے اور پسندیدہ ہے یہ بھی جائز ہے کہ ما، یختار کی وجہ سیمنصوب ہو معنی ہے وہ اسے چنتا ہے جس میں ان کا اختیار ہوتا ہے۔ قشیری نے کہا : صحیح پہلاقول ہے کیونکہ ان سب کا ویختار کے وقف پر اتفاق ہے۔ مہدوی نے کہا : یہ اہل سنت کے مذہب کے زیادہ مناسب ہے۔ ماکان لھم الخیرۃ میں ما تمام اشیاء کے لئے نفی عام ہے کہ اس میں بندے کے لئے کوئی چیزہو سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اسے حاصل کرے۔ زمخشری نے کہا : ماکان لھم الخیرۃ یہ بختیار کا بیان ہے کیونکہ اس کا معنی ہے جو چاہتا ہے پسند کرتا ہے اسی وجہ سے حرف عطف ذکر نہیں کیا۔ معنی ہے افعال میں اختیار اسی کا ہے اور وہ ان میں حکمت کی وجوہ کی خو جانتا ہے یعنی مخلوق میں سے کوئی ایسا نہیں جو اس پر اختیار رکھتا ہو۔ زجاج اور دوسرے علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے کہ ما، یختار کی وجہ سے منصوب ہو (3) طبری نے اس کا انکار کیا ہے کہ مانا فیہ ہو، تاکہ یہ معنی نہ ہو کہ زمانہ گزشتہ میں ان کا کوئی اختیار نہیں تھا اور زمانہ مستقبل میں ان کے لئے اختیار ہوگا، کیونکہ نفی کی صورت میں کلام پہلے نہیں گزری (4) مہدوی نے کہا : یہ لازم نہیں آتا کیونکہ ماحال اور استقبال کی نفی کرتا ہے جس طرح لیس اسی وجہ سے ما، لیس کا سا عمل کرتا ہے اور کیونکہ آیات نبی کریم ﷺ پر اسی طرح نازل ہوتیں جس قسم کے سوال نبی کریم ﷺ سے کئے جاتے اور جیسے اعمال پر وہ مصر ہوتے اگرچہ یہ چیز نص میں نہیں ہے، طبری کے نزدیک آیت کی تقدیر یہ ہے ویختار لولایتہ الخیرۃ من خلقہ کیونکہ مشرکین اپنے بہترین اقوال چنتے اور انہیں اپنے معبودوں کے لئے مختص کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وربک یخلق مایشآء و ویختار یعنی اپنی مخلوق میں سے جسے ہدایت کے لئے چنتا ہے جس کے متعلق اس کے علم میں پہلے سے سعادت موجود ہوتی ہے جس طرحمشرک اپنے اموال میں سے بہترین اموال اپنے معبودوں کے لئے مختص کرتے ہیں۔ اس تعبیر کی بناء پر مازوی العقول کے لئے ہوگا اور یہ الذی کے معنی میں ہوگا۔ الخیرۃ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ لھم اس کی خبر ہے اور جملہ کان کی خبر ہے۔ اس کے مشابہ تیرا قول ہے : کان زید ابوہ منطق اس میں ضعف ہے کیونکہ کلام میں ایسی ضمیر نہیں ہے جو کان کے اسم کی طرف لوٹے مگر اس صورت میں کہ حذف کو مقدر کیا جائے تو یہ دوری کی وجہ سے جائز ہوگا۔ طبری نے جو کہا ہے اس کا معنی حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ ثعلبی نے کہا : مانا فیہ ہے یعنی انہیں اللہ تعالیٰ پر کوئی اختیار نہیں (1) یہ زیادہ صحیح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ومان کان لمومن ولا مئومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم (الاحزاب : 36) محمود وراق نے کہا : توکل علی الرحمن فی کل حاجۃ اردن فان اللہ یقضی ویقدر اذا مایرد ذوالعرش امرا بعبدہ یصبہ وما للعبد ما یتخیر وقد یھلک الانسان من وجہ حذرہ وینجو بحمد اللہ من حیث (2) یحذر جس امر کا بھی تو ارادہ کرے اللہ تعالیٰ پر توکل کرے بیشک اللہ تعالیٰ ہی قضا و قدر کا مالک ہے۔ جب عزت والا اپنے بندے کے متعلق کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے وہ پہنچا دیتا ہے بندے کا کوئی اختیار نہیں۔ بعض اوقات انسان احتیاط کی وجہ سے ہلاک ہوجاتا ہے اور جو احتیاط نہیں کرتا بحمد للہ وہ نجات پا جاتا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : العبد ذوضجر والرب ذو قدر والدھر ذو دول والرزق مقسوم والخیر اجمع فیما اختار خالقنا وفی اختیار سواہ اللوم السوم بندہ پریشان ہونے والا ہے اور رب قدرت والا ہے زمانہ چکر لگانے والا ہے اور رزق تقسیم کیا جاجا چکا ہے۔ ہمارا خالق جس کو اختیار کرے بھلائی اس میں زیادہ جمع ہے اس کے سوا کیا ختیار میں ملامت اور نحوست ہے۔ بعض علماء نے کہا : کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ دنیا کے امور میں سے کسی امر کا ارادہ کرییہاں تک کہ وہ اس میں اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے وہ بندہ دو رکعت نماز نقل استخارہ پڑھے پہلی رکعت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة قل یایھا الکفرون پڑھے اور دوسری رکعت میں سورة اخلاص قل ھو اللہ احد پڑھے بعض مشائخ نے یہ پسند کیا کہ وہ پہلی رکعت میں وربک یخلق مایشآء و یختار ماکان لھم الخیرۃ اور دوسری رکعت میں وما کان لئ مومن ولا مئومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم (الاحزاب : 36) یہ سب حسن ہے۔ پھر سلام کے بعد یہ دعا مانگے۔ وہ وہ دعا ہے جو امام بخاری نے اپنی صحیح میں حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے۔ نبی کریم ﷺ تمام امور میں ہمیں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے۔ جس طرح قرآن کی سورت کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ فرماتے تے : تم میں سے جب کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرضوں کے علاوہ دو رکعت نماز ادا کرے پھر یہ دعا کرے (1) علماء نے کہا : اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ اس کا دل تمام قسم کے وساوس سے فارغ ہو یہاں تک کہ وہ کسی امر کی طرف مائل نہ ہو تو اس وقت اس کا دل جس کی طرف سفر کا قصد کرے تو اپنے سفر کے لیء جمعرات یا پیر کا انتخاب کرے اس میں وہ رسول اللہ ﷺ کی اقتدار کا ارادہ کر رہا ہو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے قول حق کے ساتھ پاکی بیان کی۔ فرمایا : سبحن اللہ و تعلی وہ پاک ہے مقدس ہے وہ بزرگ و برتر ہے۔ عما یشرکون۔ وربک یعلم ماتکن صدورھم و ما یعلنون جس کو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ ابن محیصن اور حمید نے تکن تاء کے فتحہ اور کاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے (1) سورة نمل میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدح بیان کی وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ وھو الا لا الہ الا ھو لہ الحمد فی الاولی والاخرۃ ولہ الحکم والیہ ترجعون وہ حدانیت میں منفرد ہے تمام محامد اس کے لئے ثابت ہیں حکم اس کا ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
Top