Al-Qurtubi - Al-Qasas : 7
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے الہام کیا اِلٰٓى : طرف۔ کو اُمِّ مُوْسٰٓى : موسیٰ کو اَنْ اَرْضِعِيْهِ : کہ تو دودھ پلاتی رہ اسے فَاِذَا : پھر جب خِفْتِ عَلَيْهِ : تو اس پر ڈرے فَاَلْقِيْهِ : تو ڈالدے اسے فِي الْيَمِّ : دریا میں وَ : اور لَا تَخَافِيْ : نہ ڈر وَلَا تَحْزَنِيْ : اور نہ غم کھا اِنَّا : بیشک ہم رَآدُّوْهُ : اسے لوٹا دیں گے اِلَيْكِ : تیری طرف وَجَاعِلُوْهُ : اور اسے بنادیں گے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں (جمع)
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا ہم اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اسے پیغمبر بنادیں گے
واوحینآ الی ام موسیٰ ان ارضعیہ وحی کی اعمنی اور اس کے مصداق کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کی طرف جو وحی کی گئی ہے اس میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت کا کہنا ہے : یہ قول اس کی نیند میں کیا۔ قتادہ نے کہا : وہ الہام تھا۔ ایک جماعت نے کہا : وہ فرشتہ تھا جو مثالی شکل میں اس کے پاس آیا تھا۔ مقتال نے کہ؁، حضرت جبریل امین یہ پیغام لائے تھے۔ اس تعبیر کی بناء پر وہ وحی اعلام تھی الہام نہیں تھا۔ تمام علماء کا اسپر اتفاق ہے وہ نبی نہ تھیں۔ اس کی طرف فرشتے کے بھیجنے کی صورت وہی تھی جس طرح فرشتے نے اقرع، ابرص اور اور اعمی سے گفتگو کی تھی جس کا ذکر حدیث مشہور میں ہے امام بخاری اور امام مسلم نے اسے نقل کیا ہے سورة براۃ میں ہم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مروی ہے کہ فرشتوں نے لوگوں سے ان کی نبوت کے بغیر کلام کیا۔ عمران بن حصین کو سلام کیا وہ نبی نہیں تھا اس کا نام ایاز خا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت موسیٰ کی ماں کا نام ایارخت تھا : سہیلی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ثعلبی نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا نام لوحابنت ہاند بن لاوی بن یعقوب تھا۔ ان ارضعیہ عمر بن عبدالعزیز نے ان ارضعیہ نون کے کسرہ اور الف وصل کی صورت میں پڑھا ہے۔ ارضع کے ہمزہ کو تخفیف کے طریقہ پر حذف کیا پھر دو ساکنوں کے جمع ہونے کی وجہ سے نون کو کسرہ دیا۔ مجاہد نے کہا : یہ وحی ولادت سے پہلے رضاعت کے بارے میں تھی۔ دوسرے علماء نے کہا، یہ وحی ولادت کے بعد تھی۔ سدی نے کہا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جنا تو انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ولادت کے بعد اسے دودھ پلائیں اور اس بچے کے ساتھ وہ کچھ کریں جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ خوف ولادت کے بعد شرع ہوا تھا۔ ابن جریج نے کہا : انہیں حکم دیا گیا کہ چار ماہ تک ایک باغ میں دودھ پلائیں اور جب اس کے چیخنے کا خوف ہوا (کیونکہ ان کا دودھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے کافی نہ تھا) تو اس وقت انہوں نے یہ کہا۔ پہلا قول زیادہ نمایاں ہے مگر دوسرے قول کی تائید فاذا خفت علیہ کے الفاظ کرتے ہیں اذا یہ زمانہ مستقبل کے لئے آتا ہے روایت بیان کی جاتی ہے انہوں نے بردی لکڑی کا تابوت بنایا اس کے اندر کی جانب تار کول ملا، اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو رکھا اور دریائے نیل میں اسے بہاد یا۔ اس کی وضاحت سورة طہ میں گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب بنی اسرائیل مصر میں بہت زیادہ ہوگئے تو وہ لوگوں پر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے برائیاں کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قبطیوں کو مسلط کردیا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو سخت عذاب میں مبتلا کیا یہاں تک کہ انہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر نجات ہوئی۔ وہب نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تلاش میں ستر ہزار بچے ذبح کیے۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے، نوے ہزار بچے ذبح کئے۔ یہ روایت کی جاتی ہے جب ولادت کا عمل قریب آیا اور آپ کی ماں کو دروازہ شروع ہوا اور ایک دائی جو بنی اسرائیل کی حاملہ عورتوں پر معین تھی وہ آپ کی والدہ کی مخلص اور حمبت کرنے والی تھی۔ آپ کی والدہ نے کہا، ممکن ہے تیری محبت مجھے آج نفع دے اس دائی نے آپ کی والدہ کا علاج کیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زمین پر آئے تو آپ کی آنکھوں کے درمیان موجود نور نے اسے خوفزدہ کردیا اس کا ہر جوڑ کا نپنے لگا اور آپ کی محبت اس کے دل میں پیوست ہوگئی پھر اس نے کہا، میں تیرے پاس اس لئے آئی تھی کہ تیرے بچے کو قتل کروں اور فرعون کو خبر دوں لیکن میں نے تیرے بیٹے کے لئے ایسی محبت پائی ہے جیسی محبت میں نے کسی کے لئے نہیں پائی اس بچے کی حفاظت کرنا۔ جب دائی نکلی تر فرعون کے جاسوس آگئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹا اور دہکتے ہوئے تنور میں ڈال دیا وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ تنور اس بچے کے ساتھ کیا کرے گا وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ کی عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بچے کو تلاش کیا مگر کوئی چیز نہ پائی وہ چلے گئے مگر وہ بچے کی جگہ کو نہیں پہچانتی تھی اس نے تنور سے بچے کے رونے کی آواز سنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ٹھنڈک اور سلامتی والا بنا دیا۔ ولاتخافی اس میں دو وجود ہیں (1) تو اس پر غرق ہونے کا خوف نہ کر، یہ ابن زید کا قول ہے۔ (2) تو اس کے بارے میں ضائع ہونے کا خوف نہ کر۔ ولا تخزنی اس میں بھی دو وجوہ ہیں (1) اس کے فراق پر غمگین نہ ہو، یہ ابن زید کا قول ہے (2) اس کی قتل ہونے کے بارے میں غم نہ کرو، یہ یحییٰ بن سلام کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ کو ایسے تابوت میں رکھا جس کی لمبائی پانچ بالشت اور چوڑائی بھی پانچ بالشت تھی۔ اس کی چابی تابوت کے ساتھ رکھی اور اسے موج کے سپرد کردیا جب کہ آپ کو چار ماہ تک دودھ پلا چکی تھی۔ دوسرے علماء نے کہا : تین ماہ دودھ پلا چکی تھی۔ کئی دوسرے علماء نے کہا : آٹھ ماہ دودھ پلا چکی تھی، یہ کلبی کی حکایت میں ہے۔ حکایت بیان کی گئی ہے جب بڑہی تابوت بنانے سے فارغ ہوگیا اس نے فرعون کو چغل خوری کی اس نے سپاہی اس کے ساتھ بھیجا جو اسے لے آئے اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں اور دل کو بےنور کردیا تو وہ راستہ بھول گیا اسے یقین ہوگیا کہ یہ وہی بچہ ہے جس سے فرعون کو خوف ہے تو وہ اسی وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا وہ آل فرعون کا مومن ہے، ماوردی نے اسے ذکر کیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تابوت ان کی والدہ کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا شیطان نے ان کو شرمندہ کیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے دل میں کہا، اگر وہ میرے پاس ذبح کردیا جاتا اور میں اسے اپنے ہاتھ سے کفن دیتی اور دفن کرتی تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہوتا بنسبت اس کے کہ میں نے سمندر میں پھینکا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انار آدوہ الیک وجاعلوا من المرسلین اہل مصر کی طرف رسول بنا کر بھیجنے والے ہیں۔ اصمعی نے کہا، میں نے ایک بدوی لڑکی کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا۔ استغفر اللہ لذبنی کلہ قبتلت انساناً بغیر حلہ مثل الغزال ناعماً فی دلہ فانتصف اللیل ولم اصلہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے ہر گناہ پر معافی مانگتی ہوں میں نے بغیر حلت کے ایک انسان کو بوسہ دیا۔ ہرن کی مانند وہ نازو و ادا میں نرم و نازک تھا رات آدھی ہوگئی اور میں نے اس کی نماز نہیں پڑھی۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ تجھے قتل کرتے کتنی فصیح ہے۔ اس نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ہوتے ہوئے اس کو فصیح شمار کیا جاسکتا ہے و اوحیناً الی ام موسیٰ ان ارضعیہ اللہ تعالیٰ نے اس ایک آیت میں دو امر، دونہی، دو خبریں اور دو بشارتیں جمع کردیں۔ فالتقطہ ال فرعون لیکون لھم عدوا احزنا کیونکہ ان کا اس بچہ کو لینا اس امر کی طرف لے جاتا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے دشمن ہوں گے اور انہیں غم عطا کریں گے تو لیکون میں لام عاقبت اور لام صیرورت کا ہوگا، کیونکہ انہوں نے تو اس لئے پکڑا تھا تاکہ یہ ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔ اس امر کا انجام یہ تھا کہ یہ ان کے لئے دشمن ہوں گے اور غم کا باعث ہوں گے۔ تو حال کا ذکر مآل کے ساتھ کردیا۔ جس طرح شاعر نے کہا : وللمنایا تربی کل مرضعۃ ودرنا لخراب الدھر نبنیھا موتوں کے لئے ہر دودھ پلانے والی پرورش کرتی ہے اور ہم اپنے گھر اس لئے بناتے ہیں کہ زمانہ ان کو کھنڈر بنا دے۔ ایک اور شاعر نے کہا : فللموت تغذو الوالدات سخالھا کما لخراب تبنی المساکن مائیں موت کے لئے اپنے بچوں کو غذا دیتی ہیں جس طرح زمانہ کے برباد کرنے کے لئے گھر بنائے جاتے ہیں۔ تعمیر کا انجام بربادی ہے اگرچہ فی الحال اس پر خوش ہوا جاتا ہے۔ التقاط سے مراد طلب اور ارادہ کے بغیر کسی چیز کو پانا۔ عرب جب کسی چیز کو طب اور ارادہ کے بغیر پاتے ہیں تو کہتے ہیں : التقصہ التقاطا لقیت فلانا التقاطا راجز نے کہ؁، ومنھل وردتہ التقاطا میں اچانک گھاٹ پروارد ہوا۔ اسی سے لقطہ ہے۔ سورة یوسف میں اس کے احکام کے متعقل اتنی بحث گزر چکی ہے جو اس کے لئے کافی و شافی ہے۔ اعمش، یحییٰ ، مفضل، حمزہ، کسائی اور لخف نے وحزنا حاء کے ضمہ اور زاء کے سکون کے ساتھ قرأت کی ہے۔ باق قراء نے دونوں کے فتحہ کے ساتھ قرأت کی ہے۔ ابوعبید نے اس کو پسند کیا ہے۔ ابو حاتم نے کہا، اس میں تفخیم کا قاعدہ جاری ہوتا ہے یہ دونوں لغتیں ہیں جس طرح العدم اور العدم، السقم اور السقم، الرشد اور الرشد ان فزعون وھا من ہامان قبطیوں میں سے اس کا وزیر تھا وجنودھما کانوا خطین وہ نافرمان تھے، مشرک تھے اور گناہگار تھے۔ وقالت امرات فرعون قرت عین لی ولک لاتقتلوہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت آسیہ جو فرعون کی بیوی تھی اس نے تابوت کو پانی میں تیرتے ہوئے دیکھا اس نے حکم دیا کہ اس تابوت کو اس کی طرف لایا جائے اور اسے کھولا جائے اس نے تابوت میں ایک چھوٹا بچہ دیکھا تو اس پر اسے رحم آگیا اور اس کے دل میں بچے کی محبت پیدا ہوگئی۔ اس نے فرعون سے کہ؁، یہ میرے اور تیرے لئے آنکھوں کی ٹھنک ہے۔ قرۃ یہ مبتدا مخذوف کی خبر ہے، یہ کسائی کا قول ہے۔ نحاس نے کہا، اس میں ایک بعیدی توجیہ ہے جسے ابواسحاق نے ذکر کیا ہے اس نے کہا، یہ مبتداء ہونے کے اعتبار سے مرفوع ہے اس کی خبر لاتقتلوہ ہے یہ بعید اس لئے ہے کیونکہ معنی یہ بنتا ہے یہ معروف ہے کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کا یہ معنی بھی کرنا جائز ہے جب یہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو تم اسے قتل نہ کرو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلام ولک پر مکمل ہوجاتی ہے۔ نحاس نے کہا، اس پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے وقالت امراۃ فرعون لاتقتلوہ قرۃ عین لی ولک نصب بھی جائز ہے معنی ہوگا جو چیز میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو اس نے کہا، لاتقتلوہ یہ نہیں کہا : لاتقتلہ، یہ فرعون سے خطاب کر رہی ہے جس طرح جابروں سے خطاب کر رہی ہے اور جس طرح وہ اپنے بارے میں خبر دے رہے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس نے کہا لاتقتلوہ اسے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے کسی اور علاقہ سے لایا ہے یہ بنی اسرائیل سے نہیں ہے۔ عسی ان ینفعنآ او نتخذہ ولداً ممکن ہے یہ ہمیں نفع دے اور اس سے بھلائی حاصل کریں یا ہم اسے بچہ بنا لیں۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی، اس نے فرعون سے وہ بچہ مانگ لیا اور فرعون نے وہ بچہ اسے دے دیا۔ فرعون نے جب خواب دیکھا اور اسے اپنے کاہنوں اور علماء پر پیش کیا جس طرح پہلے گزر چکا ہے انہوں نے اسے کہا : بینی اسرئایل کا ایک بچہ تیری بادشاہت کو برباد کر دیگا۔ اس نے بنی اسرئایل کے بچے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کی رائے تھی کہ ان کی نسل ختم کر دے گا۔ وہ ایک سال تک بچے ذبح کرتا اور ایک سال تک زندہ رکھتا حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ولادت اسی سال ہوئی جس سال وہ بچوں کو زندہ رکھتا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت اس سال ہوئی جس سال میں اس نے بچوں کو ذبح کرنے کا معمول بنایا ہوا تھا۔ وھم لایشعرون یہ ابتدا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے کلام ہے وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی ہلاکت اسے بچے کے سبب سے ہوگی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عورت کا کلام ہے یعنی بنی اسرائیل نہیں جانتے کہ ہم نے اسے پکڑ لیا ہے اور وہ نہیں جانتے مگر یہ کہ یہ ہمارا بچہ ہے۔ علماء تاویل نے اس وقت میں اختلاف کیا ہے جس وقت میں فرعون کی بیوی نے کہا تھا : قرت عین لی ولک ایک جماعت کا خیال ہے یہ بات اس نے اس وقت کہی جب تابوت کو پکڑا اور اس نے فرعون کو اس کا احساس دلایا جب اس نے فرعون کو بتایا تو فرعون کے ذہن میں گیا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ہے اس نے یہ ارادہ اس لئے کیا تاکہ وہ ذبح سے چھٹکارا پائے۔ اس نے کہا : مجھ پر ذبح کرنے والے لائو۔ تو اس کی بیوی نے وہ کہا جس کا ذکر ہوا۔ فرعون نے کہا، جہاں تک میرا تعلق ہے تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اگر فرعون نعم کہہ دینا تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا اور وہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے “ (1) سدی نے کہا : بلکہ فرعون کی بیوی نے اس کو پالا یہاں تک کہ وہ چلنے پھرنے لگا فرعون نے آپ میں ذہانت دیکھی تو اسے گمان ہوا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ہے اسے اپنے ہاتھ میں اٹھایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے اس وقت فرعون نے آپ کو ذبح کرنے کا ارادہ کرلیا اور اس وقت فرعون کی بیوی نے یہ بات کہی۔ اور یاقوت اور انگارہ کے ذریعے اس کا تجربہ کیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان جل گئی اور لکنت پیدا ہوگئی جس طرح سورة طہ میں گزر چکا ہے۔ فراء نے کہا، میں نے محمد بن مروان سے سنا جنہیں سدی کہا جاتا وہ کلبی سے وہ ابو صالح سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت آسیہ نے کہا، قرت عین لی ولک پھر کہا : تقتلوہ۔ فراء نے کہا، اس میں تقدیم فعل کے آخر میں نون ہوتا کیونکہ فعل مستقبل مرفوع ہوتا ہے یہاں تک کہ اس پر ناصب یا جازم داخل ہو۔ اس میں نون علامت رفع ہوتی ہے۔راء نے کہا : حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت اس کی تائید کرتی ہے وقالت امراۃ فرعون لاتقتلوۃ قرۃ عین لی ولک یعنی لاتقتلوہ مقدم ہے۔
Top