Al-Qurtubi - Al-Qasas : 81
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ
فَخَسَفْنَا : پھر ہم نے دھنسا دیا بِهٖ : اس کو وَبِدَارِهِ : اور اس کے گھر کو الْاَرْضَ : زمین فَمَا كَانَ : سو نہ ہوئی لَهٗ : اس کے لیے مِنْ فِئَةٍ : کوئی جماعت يَّنْصُرُوْنَهٗ : مدد کرتی اس کو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوائے وَمَا كَانَ : اور نہ ہوا وہ مِنَ : سے الْمُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی اور نہ وہ بدلا لے سکا
مقاتل نے کہا : جب حضرت موسیٰ علیہ الشلام نے زمین کو حکم دیا تو زمین نے اسے نگل لیا بنی اسرائیل نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے اس لئے ہلاک کیا ہے تاکہ اس کے مال کا وارث بن جائے، کیونکہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے، اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا اور تین دن کے بعد اس کے تمام اموال کو بھی زمین میں دھنسا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ تیرے بعد زمین کو کسی کی اطاعت کرنے کا حکم نہیں دوں گا۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : مکان زمین میں چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں غائب کردیا۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وہ زمین میں دھنس گیا، اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ خسوف القمر سے مراد چاند کا گرہن لگ جانا ہے۔ ثعلب نے کہا : یہ عمدہ کلام ہے۔ خسف کا معنی نقصان ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ وہ کم حصہ پر راضی ہوگیا۔ سے مراد جماعت اور جتھہ ہے۔ اس پر خسف کی صورت میں جو عذاب نازل ہوا اس سے بچنے والا نہیں تھا۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ قارون ہر روز انسان کی قامت کے برابر نیچے جاتا ہے یہاں تک کہ جب زمین کی انتہائی گہرائی تک جا پہنچے تو حضرت اسرافیل صور پھونک دیں گے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ وہ اس آروز پر شرمند ہوں گے۔ وہی حرف ندامت ہے۔ نحاس نے کہا : اس بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے ان میں سے سب سے اچھا قول خلیل سیبویہ، یونس اور کسائی کا قول ہے قوم متنبہ ہوئی یا انہیں متنبہ کیا گیا انہوں نے کہا : وہی عربوں میں شرمندگی کا اظہار کرنے والا شرمندگی کے دوران وی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ جوہری نے کہا : وی کلمہ تعجب ہے۔ یہ کہا جاتا ہے : تجھ پر تعجب ہے، اللہ کے بندے پر تعجب ہے۔ بعض اوقات وی کا لفظ کان مخفلہ اور مشددہ پر داخل ہوتا ہے تو کہتا ہے : خلیل نے کہا : یہ مفصولہ ہے تو کہتا ہے : وی پھر نئے سرے سے کلام شروع کرتا ہے اور تو کہتا ہے : کان : ثعلبی نے کہا : فراء نے کہا : یہ کلمہ تقریر ہے جس طرح تیرا قول ہے : کیا تو اللہ تعالیٰ کی کاری گری اور اس کے احسان کی طرف نہیں دیکھتا۔ یہ ذکر کیا کہ ایک بدوی عورت نے اپنے خاوند سے کہا : اس نے جواب دیا، یعنی کیا تو اسے دیکھتی نہیں وہ گھر کے پیچھے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : کلمہ ابتداء اور کلمہ تحقیق ہے ؟ اس کی تقدیر کلام یہ ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کلمہ تنبیہ ہے اَلاّ کی جگہ استعمال ہوتا ہے اور جس طرح اَلاّ تفعل اور اما کے قائم مقام ہوتا ہے جو تیرے قول : امابعد میں ہے، شاعر نے کہا : ان دونوں نے مجھ سے طلاق کا سوال کیا جب انہوں نے مجھے دیکھا کہ میرا مال گم ہوگیا ہے تحقیق تم عجیب مطالبہ لائی ہو۔ خبردار جب آدمی کے پال مال ہو اس سے محبت کی جاتی ہے اور جو فقیر ہوتا ہے وہ تکلیف کی زندگی بسر کرتا ہے۔ قطرب نے کہا : یہ اصل میں ویلک ہے اس کا لام حذف ہوگیا اور کاف جو خطاب کا ہے اس کے ساتھ ملا دیا گیا۔ عشرہ نے کہا : میرے نفس کو شفا دی اور اس کی بیماری کو ٹھیک کردیا، شاہسواروں کے اس قول نے : تو ہلاک ہوا اے عشر : آگے بڑھو ! نحاس اور دوسرے علماء نے اس کا انکار کیا ہے کیونکہ معنی صحیح نہیں کیونکہ قوم ایک فرد کو خطاب نہیں کرتی کہ وہ اسے کہے : ویلک : اگر یہ ایسے ہوتا تو انہ کسرہ کے ساتھ ہوتا نیز ویلک سے لام حذف کرنا جائز نہیں۔ ان میں سے بعض نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے ویلک اعلم انہ تو اعلم کو مضمر کردیا۔ ابن اعرابی نے کہا : ویکان اللہ اعلم۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے الم تر ان اللہ۔ قتیی نے کہا : اس کا معنی ہے رحمتہ لک، یہ حمیر کی لغت میں ہے۔ کسائی نے کہا : وی اس میں تعجب کا معنی ہے (3) ۔ اس سے یہ بھی مروی ہے کہ وی پر وقف ہے اور کہا : یہ تفجہ کا کلمہ ہے ؎ جس نے کہا : ویک او کاف پر وقف کیا تو اس کا معنی ہے خوش ہوجا کیونکہ اللہ تعالیٰ رزق کو فراخ کرنے والا ہے اور خوش ہوجا کیونکہ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔ یہ بھی مناسب ہے کہ کاف حرف خطاب ہو یہ اسم نہ ہو کیونہ وی ان کلمات میں سے نہیں جن کو مضاف کیا جاتا ہے اسے اکٹھے لکھا جاتا ہے جب اس کا استعمال زیادہ ہو اسے ما بعد کے ساتھ ایک چیز بنا دیا گیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایمان اور رحمت کے ساتھ ہم پر احسان نہ فرا اتا اور قارون جس بغاوت اور تکبر پر تھا اس سے ہمیں محفوظ نہ رکھتا، تو وہ ہمیں بھی زمین دھنسا دیتا۔ اعمش نے پڑھا لو لا من اللہ علینا، حفص نے پڑھا لخف بنا تو یہ معروف کا صیغہ ہے۔ باقی قراء نے اسے مجہول کا صیغہ پڑھا ہے۔ یہ ابو عبیدہ کا پسندیہ نقطہ نظر ہے۔ عبداللہ کی قرأت لا تخسف بنا جس طرح تو کہتا ہے : انطلق بنا اسی طرح اعمش اور طلحہ بن مصرف نے قرأت کی۔ ابو حاتم نے دو وجوہ سے جماعت کی قرأت کو پسند کیا ہے ان دونوں میں سے ایک قول ہے : دوسرا قول : اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اولیٰ ہے کیونہ یہ اس کے قریب اسم ہے۔
Top