Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 26
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ١ۘ وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
فَاٰمَنَ : پس ایمان لایا لَهٗ : اس پر لُوْطٌ : لوط وَقَالَ : اور اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں مُهَاجِرٌ : ہجرت کرنیوالا اِلٰى رَبِّيْ : اپنے رب کی طرف اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ الْعَزِيْزُ : زبردست غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
پس ان پر (ایک) لوط ایمان لائے اور (ابراہیم) کہنے لگے میں اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں بیشک وہ غالب حکمت والا ہے
حضرت لوط (علیہ السلام) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تصدیق کی جب آگ کو آپ پر ٹھنڈی اور سلامتی والا پایا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے جبکہ حضرت لوط، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھانجے ہیں حضرت سارہ بھی آپ پر ایمان لائیں جبکہ وہ آپ کی چچا زاد تھیں۔ نخعی اور قتادہ نے کہا : جس نے کہا : اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ اسلام ہیں (1) ۔ قتادہ نے کہا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کو ثا سے ہجرت کی یہ سواد کوفہ کا ایک دیہات تھا پہلے حر ان کی طرف ہجرت کی پھر شام کی طرف ہجرت کی آپ کے ساتھ آپ کے بھتیجے حضرت لوط بن ہاران بن تارخ تھے اور آپ کی بیوی حضرت سارہ تھیں۔ (2) کلبی نے کہا : حران کے علاقہ سے فلسطین کے علاقہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ وہ پہلے شخص ہیں کہ آپ نے کفر کے علاقہ سے ہجرت کی۔ مقاتل نے کہا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کی، جبکہ آپ کی عمر 75 سال تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ جس نے کہا : وہ حضرت لوط (علیہ السلام) تھے۔ بیہقی نے قتادہ سے ذکر کیا : جس نے سب سے پہلے اپنے اہل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی وہ حضرت عثمان بن عفان ؓ ہیں۔ قتادہ نے کہا : میں نے حضرت نضر بن انس ؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابو حمزہ یعنی حضرت انس بن مالک ؓ کو کہتے ہوئے سنا حضرت عثمان بن عفان ؓ حبشہ کی طرف نکلے جبکہ ان کے ساتھ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بارہ گاہ میں ان کی خبر دیر سے پہنچی تو قریش کی ایک عورت آئی اس نے کہا اے محمد ! ﷺ ۔ میں نے آپ کا داماد دیکھا جبکہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھی۔ پوچھا :” ان دونوں کو کس حال میں دیکھا۔ “ اس نے عرض کی، میں نے انہیں دیکھا اس نے اپنی بیوی کو ایک گدھے پر بٹھا رکھا تھا جو اس دبابہ (ایسا جانور جو آہستہ چلتا ہے) سے تعلق رکھتا تھا جبکہ وہ اس جانور کو ہانک رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” دونوں کا اللہ ساتھی ہے، حضرت عثمان، حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل کے ساتھ ہجرت کی۔ “ بیہقی نے کہا : یہ پہلی ہجرت میں ہوا جہاں تک حبشہ کی طرف دوسری ہجرت کا تعلق تھا (3) ۔ واقدمی نے یہ گمان کیا ہے : یہ بعث کے پانچویں سال ہوئی۔ میرے رب کی رضا کی طراور جس کی طرف اس نے مجھے حکم دیا۔ ہجرت کے متعلق گفتگو سورة النساء اور دوسری سورتوں میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد کے ساتھ ان پر احسان کیا۔ حضرت اسحاق بچے اور حضرت یعقوب کو پوتے کی صورت میں عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کے بعد حضرت اسحاق عطا فرمایا اور حضرت اسحاق کے بعد حضرت یعقوب عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کیا مگر آپ کی نسل سے ہی مبعوث کیا۔ کتاب کو واحد ذکر کیا کیونکہ مصدر کا ارادہ کیا جس طرح نبوت ہے۔ مراد تورات، انجیل اور فرقان ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔ سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نوازشات ہوں۔ دنیا میں اجر کی صورت یہ ہے کہ تمام ادیان والے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دذات پر ایمان رکھتے ہیں، یہ عکرمہ کا قول ہے۔ سفیان نے حمید بن قیس سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے ایک انسان کو حکم دیا کہ وہ عکرمہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بارے میں پوچھے عکرمہ نے جواب دیا : تمام ادیان والے دعویٰ کرتے ہیں او کہتے ہیں وہ ہم سے ہیں : سعید بن جبیر نے کہا : اس نے سوچ بولا۔ قتادہ نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے (النحل 122) مراد عاقبت، عمل صالح اور اچھی تعریف، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام ادیان والے اس کی پیروی کرتے ہیں (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اکثر انبیاء ان کی اولاد میں سے ہیں میں داخل نہیں یہ وضاحت ہے۔ سورة بقرہ میں اس کی وضاحت گزار چکی ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ دین حق پر صبر کرنے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اقتداء پر برانگیختہ کیا جائے۔
Top