Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١٘ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : (یاد کرو) جب قَالَ : اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم کو اِنَّكُمْ : بیشک لَتَاْتُوْنَ : تم کرتے ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی مَا سَبَقَكُمْ : نہیں پہلے کیا تم نے بِهَا : اس کو مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور لوط (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم (عجب) بےحیائی کے مرتکب ہوتے ہو تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا
کسائی نے کہا : معنی ہے ہم نے حضرت لوط علیہ لسلام کو نجات دی یا ہم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھیجا۔ کہا : یہ توجیہ میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے یہ بھی جائز ہے کہ معنی ہو لوط کو یاد کرو کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو شرمندہ کرتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے کہا : ان میں قرأت اور اس کی وضاحت سورة الاعراف میں گزر چکی ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ سورة الاعراف اور سورة ھود میں گزر چکا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ڈاکو تھے، یہ ابن زید نے کہا : ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لئے راستوں سے لوگوں کو اٹھا لیتے تھے، ابن شجرہ نے اسے بیان کیا ہے : ایک قول یہ کیا گیا ہے : عورتوں سے مردوں کی طرف عدول کرنے سے نسل کو قطع کرنا ہے۔ ، یہ وہب بن منبہ کا قول ہے وہ مردوں کی وجہ سے عورتوں سے مستغنی ہوگئے۔ میں کہتا ہوں : شاید یہ سب بیماریاں ان میں موجود تھیں وہ ڈاکہ مارا کرتے تھے تاکہ اموال کو حاصل کریں اور بدفعلی کریں اور جس وجہ سے وہ عورتوں سے مستغنی ہوجائے۔ النادی سے مراد مجلس ہے وہ منکر جو کیا کرتے تھے اس میں اختلاف کیا گیا ہے۔ ایک جماعت کا کہنا ہے : وہ عورتوں کو کنکریاں مارا کرتے تھے وہ اجنبی اور باہر سے آنے والے کو حقیر سمجھتے۔ حضرت ام ہانی نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے، حضرت ام ہانی نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان : کے بارے میں پوچھا : فرمایا ” جوان کے پاس سے گزرتا وہ اس کو کنکریاں مارا کرتے تھے اور اس کا مذاق اڑایا کرتے، یہی وہ منکر عمل تھا جو وہ کیا کرتے تھے (1) “ اسے ابو دائود طیالسی نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے، نحاس، ثعلبی، مہدوی اور ماوردی نے اسے ذکر کیا ہے، ثعلبی نے ذکر کیا ہے : حضرت معاویہ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اپنی مجالس میں بیٹھا کرتی اور ہر آدمی کے پاس ایک پیالہ ہوتا جس میں مارنے کے لئے کنکریاں ہوتیں جب کوئی ان کے پاس سے گزرتا تو وہ اس پر کنکر کی پھینکتے جس کی کنکری اس کو لگتی تو وہ اس کا زیادہ مستحق ہوتا۔ “ یعنی وہ اس کو بدکاری کے لئے لے جاتے۔ تو یہی اللہ تعالیٰ کے فرمان سے مراد ہے، حضرت عائشہ صدیقہ حضرت ابن عباس قاسم بن ابی بزہ اور قاسم بن محمد نے کہا : وہ اپنی مجالس میں گوز کرتے تھے (1) ۔ منصور نے مجاہد سے یہ قول نقل کیا ہے وہ اپنی مجالس میں مردوں سے خواہش پوری کیا کرتے تھے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے ان کا یہ معمول تھا وہ کبوتروں سے کھیلتے، انگلیوں کو مہندی سے رنگتے، سیٹیاں بجاتے اور تمام امور میں حیاء کو پس پشت ڈالتے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ امور حضرت محمد ﷺ کی امت کے بعض نافرمانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان چیزوں سے رکنا واجب ہے، مکحول نے کہا : اس امت میں قوم لوط کے اخلاق میں سے دس باتیں پائی جاتی ہیں، مصطگی کو چبانا، انگلیوں کو مہندی سے رنگنا، تہبند کھول دینا، انگلیوں کے چٹخارے نکالنا، وہ پگڑی جو سر کے ارد گر لپیٹی جاتی ہے انگلیوں کا جال بنانا، بندوق جس کے ساتھ کسی چیز کو پھینکا جاتا ہے، سیٹی بجانا، کنکری مارنا، لواطت کا عمل کرنا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم میں فاشحہ کے علاوہ بھی گناہ تھے (2) ان میں سے ایک یہ تھا کہ باہم ظلم کرتے، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے، مجالس میں گوز مارتے، کنکریاں مارتے، نرد اور شطرنج کھیلتے، رنگے ہوئے کپڑے پہنتے، وہ مرغوں کو لڑاتے، اپنی انگلیوں کو مہندی لگاتے، مرد عورتوں کا لباس پہنتے اور عورتیں مردوں کا لباس پہنتیں، وہ ہر گزرنے والے پر ٹیکس لگاتے، ان سب برائیوں کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے یہ پہلے لوگ تھے جن سے مردوں سے بدفعلی اور عورتوں کے ساتھ ہم جنسی کا فعل صادر ہوا۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں ان قبائح سے روکا تو وہ آپ کو جھٹلانے اور جھگڑنے کی طرف لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا یہ نہیں ہوگا نہ وہ اس پر قادر ہے۔ انہوں نے یہ بات نہیں کی کہ مگر وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے جھوٹا ہونے کے اعتقاد پر سخت تھے۔ فطرت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ معاندیہ کہے پھر حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے رب سے مدد طلب کریں اور اللہ تعالیٰ ان پر عذاب کے فرشتے بھیج دے۔ پہلے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دے رہے تھے کہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی ان کی قوم کے خلاف مدد کرنے کے لئے آئے ہیں جس کی وضاحت سورة ھود وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ اعمش، یعقوب، حمزہ اور کسائی نے لننجینہ واھلہ کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ باقی قراء نے اسے شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن کثیر، ابو بکر، حمزہ اور کسائی نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے (3) باقی قراء نے اسے شد کے ساتھ پڑھا ہے انجی اور نخجی دونوں ایک لغت ہیں۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ ابن عامر نے اسے انا منزلون تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس کی قرأت ہے۔ باقی قراء نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ قتادہ نے کہا : اس آیت سے مراد وہ پتھر ہے جو باقی رکھا گیا (4) ، یہ ابو العالیہ کا قول ہے : ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس امت کی ایک جماعت کو اس کے ساتھ رجم کیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ ان کے کھنڈر گھروں کے آثار ہیں، مجاہد نے کہا : اس سے مراد روئے زمین پر سیاہ پانی ہے یہ سب باقی ہے اس میں کوئی تعارض نہیں۔
Top