Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمْ وَ قُوْدُ النَّارِۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز نہ کام آئیں گے عَنْھُمْ : ان کے اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ھُمْ : وہ وَقُوْدُ : ایندھن النَّارِ : آگ (دوزخ)
جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچاسکے گا اور ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے
آیت نمبر : 10۔ اس کا معنی بین اور واضح ہے، یعنی ان کے اموال اور نہ ان کی اولاد اللہ تعالیٰ کے عذاب میں سے کوئی شے ہر گز ان سے دور نہ کرسکیں گے، اور سلمی نے لن یغنی یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 405 دارالکتب العلمیہ) اس لئے کہ فعل متقدم ہے اور فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ موجود ہے اور حسن نے یغنی اباء کے ساتھ قرات کی ہے مگر آخری یاء کو تخفیف کے لئے سکون دیا ہے جیسا کہ شاعر کا قول ہے۔ کفی بالیاس من اسماء کافی ولیس لیقمھا اذغالی شافی۔ اس میں حق یہ تھا یکہ وہ کافیا کہتا پس اس نے یا کو چھوڑ دیا۔ اور اسی کی مثل فرا نے شعر کہا ہے : کان ایدیھن بالقاع القرق ایدی جوار یتعاطین الورق : القرق اور القرقۃ القاع میں دونوں لغتیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” من اللہ “ من بمعنی عند ہے، ابو عبید نے یہی کہا ہے (اولئک ھم وقود النار “۔ الوقود یہ جلنے والی لکڑی کا اسم ہے اور سورة البقرہ میں اس کا ذکر ہوچکا ہے، حسن، مجاہد اور طلحہ بن مصرف نے وقود واؤ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے پہلے مضاف محذوف ہے۔ تقدیر کلام ہے حطب وقود النار۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 405 دارالکتب العلمیہ) اور عرب کلام میں یہ جائز ہے کہ جب واؤ مضموم ہو تو اسے ہمزہ سے بدل دیا جائے لہذا اقود پڑھنا جائز ہے جیسا کہ ’ اقتت۔ اور وقود واؤ کے ضمہ کے ساتھ مصدر ہے اور وقدت النار تقد کہا جاتا ہے جب آگ بھڑک اٹھے، ابن مبارک نے حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ کی حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ دین غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندروں کو عبور کرلے گا اور یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد کرتے ہوئے) گھوڑے سمندروں میں ڈال دیئے جائیں گے، پھر کچھ قومیں آئیں گی وہ قرآن کریم پڑھیں گے اور جب وہ اسے پڑھیں گے تو کہیں گے : کون ہم سے بڑھ کر قاری ہے اور کون ہم سے بڑھ کر عالم ہے ؟ پھر آپ ﷺ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : کیا تو اس میں کوئی خیر اور بھلائی دیکھتے ہو ؟ انہوں نے عرض : نہیں تو آپ نے فرمایا : ” وہ تم میں سے ہوں گے اور وہ اس امت میں سے ہوں گے اور وہی آگ کا ایندھن ہوں گے (2) (کنز العمال، جلد 10، صفحہ 212، حدیث نمبر 29121 )
Top