Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
جس دن بہت سے منہ سفید ہوں گے اور بہت سے سیاہ تو جن لوگوں کے منہ سیاہ ہوں گے (ان سے خدا فرمائے گا) کیا تم ایمان لا کر کافر ہوگئے تھے ؟ سو (اب) اس کفر کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو
آیت نمبر : 106، تا 107۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ “۔ یعنی قیامت کے دن جب وہ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو مومنین کے چہرے روشن اور سفید ہوں گے اور کافروں کے منہ کالے ہوں گے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نامہ اعمال پڑھنے کے وقت ہوگا جب مومن اپنا نامہ عمل پڑھے گا اور اس میں اپنی نیکیاں دیکھے گا تو وہ انتہائی خوش ہوگا اور اس کا چہرہ چمک اٹھے گا اور جب کافر اور منافق اپنانامہ عمل پڑھیں گے اور اس اپنی برائیاں اور گناہ دیکھیں گے تو ان کا چہرہ سیاہ کالا ہوجائے گا، اور یہ بھی کہا جاتا ہے، : بیشک ایسا میزان کے پاس ہوگا کہ جب اس کی نیکیاں بھاری ہوجائیں گی تو اس کا چہرہ روشن ہوجائے گا اور جب (کافر) کے گناہ بھاری ہوجائیں گے تو اس کا منہ سیاہ ہوجائے گا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے وقت ہوگا (آیت) ” وامتازوالیوم ایھا المجرمون “۔ (یسن) اور کہا جاتا ہے : جب قیامت کا دن ہوگا تو ہر فریق کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے معبود کے پاس جمع ہوجائیں پس جب وہ اس تک پہنچیں گے تو پریشان اور غمزدہ ہوجائیں گے اور ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے، پس مومنین، اہل کتاب اور منافقین باقی رہ جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرمائے گا (آیت) ” من ربکم “ ؟ تمہارا رب کون ہے ؟ تو وہ عرض کریں گے : ربنا اللہ عزوجل ہمارا رب اللہ عزوجل ہے، تو وہ انہیں فرمائے گا : ” کیا تم اسے پہچان لو گے جب تم اسے دیکھو گے ؟ “ تو وہ عرض کریں گے : اس کی ذات پاک ہے ! جب اس نے اعتراف کرلیا تو ہم اسے پہچان لیں گے پس وہ اس کا دیدار کرنے لگیں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے چاہا، اور مومنین اللہ تعالیٰ کے لئے سجدے میں گر جائیں گے اور ان کے چہرے برف کی مثل سفید ہوجائیں گے اور منافقین اور اہل کتاب باقی رہ جائیں گے، وہ سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہوں گے تو غمزدہ ہوجائیں گے اور ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے اور اسی کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد (آیت) ” یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ “۔ اور اس کی قرات میں تبیض وتسود دونوں تاکو مسکور پڑھنا بھی جائز ہے، کیونکہ آپ کہتے ہیں : ابیضت “ ، پس تاکو اسی طرح کسرہ دیا جاتا ہے جیسے اس میں الف کو۔۔۔۔ اور یہ بنی تمیم کی لغت ہے اور اسی کے مطابق یحییٰ بن وثاب نے پڑھا ہے اور زہری نے یوم تبیاض وسواد پڑھا ہے اور تاکو مکسور پڑھنا بھی جائز ہے اور یوم یبیض وجوہ جمع مذکر کی بنا پر یا کے ساتھ پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور ” اقتت کی مثل اجوہ بھی جائز ہے، اور ابیضاض الوجوہ مراد ان کا نعمتوں کے ساتھ چمک اٹھنا اور روشن ہونا اور ان کی سیاہی سے مراد وہ ہے جو درد ناک عذاب میں سے ان پر چھا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (2) اور علماء تعیین میں اختلاف کیا ہے پس حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اہل سنت کے چہرے روشن (اور منور) ہوں گے اور اہل بدعت کے منہ سیاہ کالے ہوں گے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کو مالک بن سلیمان ہر وی غسان کے بھائی نے مالک بن انس سے انہوں نے حضرت نافع ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے قول باری تعالیٰ (آیت) ” یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ “۔ کے بارے میں ارشاد فرمایا : یعنی تبیض وجوہ اھل السنۃ وتسودہ وجوہ اھل البدعۃ، اسے ابوبکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب نے ذکر کیا ہے اور اس میں کہا ہے : یہ مالک کی حدیث میں سے منکر ہے۔ حضرت عطا ؓ نے کہا ہے : مہاجرین وانصار کے چہرے روشن ہوں گے اور بنی قریظہ اور نضیر کے چہرے سیاہ ہوں گے اور حضرت ابی ابن کعب ؓ نے فرمایا : وہ جن کے چہرے سیاہ ہوں گے وہ کفار ہیں اور ان کو کہا جائے گا : کیا تم نے کفر اختیار کرلیا تھا ایمان لانے کے بعد کیونکہ تم نے اس وقت اقرار کیا تھا جب تم حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے چونٹیوں کی مثل نکالے گئے تھے، اسے علامہ طبری نے اختیار کیا ہے : حسن نے کہا ہے : یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے قتادہ نے کہا ہے : یہ مرتدین کے بارے ہے، عکرمہ نے کہا ہے : وہ اہل کتاب میں سے ایک قوم ہے، وہ اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی تصدیق کرتے تھے اور وہ حضور نبی مکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے آپ کی بھی تصدیق کرتے تھے لیکن جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ کے ساتھ کفر کیا پس اسی کے بارے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” اکفرتم بعد ایمانکم “ سے بھی زجاج نے اختیار کیا ہے، اور مالک بن انس ؓ نے کہا ہے : یہ اہل اھواء کے بارے ہے۔ حضرت ابو امامہ باہلی ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ یہ حرور یہ کے بارے ہے، اور ایک دوسری خبر میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ قدریہ کے بارے ہے، اور ترمذی نے ابوغالب سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا : ابو امامہ ؓ باب دمشق پر کھڑے کئے گئے سروں کو دیکھا (1) (سنن ترمذی باب ومن سورة آل عمران : حدیث نمبر 2926، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو حضرت ابوامامہ (رح) نے کہا : جہنمی کتے ہیں آسمان کی چھت کے نیچے شریر ترین مقتول ہیں، بہترین اور اچھے نیکو کار مقتول وہ تھے جنہیں انہوں نے قتل کیا تھا، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی (آیت) ” یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ “۔ الی آخر الایۃ۔ میں نے حضرت ابو امامہ ؓ کو کہا : کیا تم نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : اگر میں نے اسے رسول اللہ ﷺ نہ سنا ہوتا سوائے ایک بار یا دو بار یا تین بار کے یہاں تک کہ انہوں نے سات بار تک گنا، تو میں تمہیں یہ بیان نہ کرتا، (امام ترمذی نے) کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ اور صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ میں تمہارے لئے حوض (کوثر) پر پہلے موجود ہوں گا جو کوئی میرے پاس سے گزرے گا وہ وہاں سے پیئے گا اور جس نے (ایک بار) پی لیا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا یقینا کئی گروہ میرے پاس آئیں گے میں انہیں پہچانتا ہوں گا اور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے پھر میرے اور ان کے درمیان کچھ حائل کردیا جائے گا۔ “۔ ابو حازم نے کہا ہے : نعمان بن ابی عیاش نے مجھے سنا اور کہا : کیا تو نے سہل بن سعد سے اسی طرح سنا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں۔ تو اس نے کہا : میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس حاضر تھا اور میں نے آپ سے سنا وہ اس میں یہ اضافہ بیان کرتے تھے : ” تو میں کہوں گا بلاشبہ وہ تو میرے ہیں تو کہا جائے گا بلاشبہ آپ نہیں جانتے جو کچھ انہوں نے آپ کے بعد کیا ہے، اس کے لئے ہلاکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری ہے جس نے میرے بعد (دین) تبدیل کرلیا۔ “ (1) (صحیح بخاری، باب فی الحوض وقول تعالیٰ انا اعطیناک الکوثر، حدیث نمبر 6097، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اصحاب کا ایک گروہ قیامت کے دن میرے پاس حوض پر آئے گا تو انہیں حوض سے نکال دیا جائے گا تو میں کہوں گا اے میرے پروردگار میرے اصحاب ہیں تو وہ فرمائے گا آپ کے علم میں وہ نہیں ہے جو کچھ انہوں نے آپ کے بعد کیا ہے بلاشبہ یہ لوگ الٹے پاؤں لوٹ کر مرتد ہوگئے، ‘(2) (ایضا، حدیث نمبر 6098، ایضا) اس معنی میں احادیث بہت ہیں زیادہ ہیں پس جس نے اللہ تعالیٰ کے دین میں تغیر وتبدل کیا یا ایسی بدعت کا ارتکاب کیا جس سے اللہ تعالیٰ راضی نہ ہو اور نہ اس کے بارے اللہ تعالیٰ اجازت دے تو وہ حوض سے بھگائے جانے والوں میں سے ہوگا اور اس سے دور رہنے والوں میں سے ہوگا جن کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ان میں سب سے زیادہ مطرود اور بعید وہ ہوگا جس نے جماعت مسلمین سے اختلاف کیا اور ان کے راستہ سے علیحدہ ہوگیا جیسا کہ خوراج اپنے مختلف فرقوں کی بنا پر اور روافض اپنی واضح گمراہی کی بنا پر اور معتزلہ طرح طرح کی خواہشات اور ہوس پرستی کی بنا پر، یہ تمام کے تمام دین میں تبدیلی لانے والے اور بدعت کا ارتکاب کرنے والے ہی اور اسی طرح وہ ظالم جو ظلم وستم میں حق مٹانے میں اہل حق کو قتل اور ذلیل ورسوا کرنے میں انتہائی زیادتی کرنے والے ہیں اور وہ جو اعلانیہ گناہ کبیرہ کرنے والے ہیں اور جو معاصی اور گناہوں کو حقیر اور ہلکا سمجھنے والے ہیں اور راہ حق سے انحراف کرنے والوں خواہش پرستوں اور بدعت کا ارتکاب کرنے والوں کی جماعت، ان تمام کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہی اس آیت سے مراد ہوں، اور مثال اسی طرح ہے جو ہم نے بیان کردی ہے، کسی کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رکھا جائے گا سوائے اس انکار کرنے والے کافر کے جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔ اور ابن قاسم نے کہا ہے : کبھی اہل اھواء کے سوا بھی کوئی ایسا ہوتا ہے جو اہل اھواء کی نسبت زیادہ شریر ہوتا ہے یہ کہتے ہیں : اخلاص کی تکمیل گناہوں سے اجتناب کرنا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاما الذین استودت وجوھم “۔ اس کلام میں حذف ہے یعنی فیقال لھم، (تو انہیں کہا جائے گا) (آیت) ” اکفرتم بعد ایمانکم “۔ ترجمہ : کیا تم نے کفر اختیار کرلیا تھا ایمان لانے کے بعد۔ یعنی یوم میثاق کو جب انہوں نے کہہ دیا بلی (ہاں تو ہمارا رب ہے) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ یہود کے لئے ہے، اور حضور نبی مکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے آپ کے ساتھ ایمان رکھتے تھے لیکن جب آپ تشریف لائے تو انہوں نے (آپ کا انکار کیا اور) آپ کے ساتھ کفر کیا، اور ابو العالیہ نے کہا : یہ خطاب منافقین کے لئے ہے کہا جائے گا : کیا تم نے سرا اور خفیۃ کفر کیا تھا اعلانیہ اقرار کرنے کے بعد، اور اہل عرب کا اس پر اجماع ہے کہ اما کے جواب میں فا لانا ضروری ہے کیونکہ اس کا معنی میرے اس قول میں ہے : اما زید فمنطلق مھمایکن من شی فزید منطلق۔ اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” واما الذین ابیضت وجوھھم “۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والے اور اس کے عہد کو پورا کرنے والے لوگ ہوں گے، (آیت) ” ففی رحمۃ اللہ ھم فیھا خلدون “۔ یعنی وہ ہمیشہ اس کی جنت اور دار عزت و کرامت میں باقی رہیں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں انہیں میں سے بنائے اور بدعتوں اور ضلالتوں کی راہوں سے ہمیں بچائے اور محفوظ رکھے اور ہمیں ان کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کرتے رہے۔ آمین۔
Top