Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 11
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ۚ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
كَدَاْبِ : جیسے۔ معاملہ اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ مِنْ قَبْلِهِمْ : سے۔ ان سے پہلے كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَخَذَھُمُ : سو انہیں پکڑا اللّٰهُ : اللہ بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں پر وَاللّٰهُ : اور اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
ان کا حال بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا سا ہوگا، جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی تھی تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب عذاب میں پکڑ لیا تھا اور خدا سخت عذاب کرنے والا ہے
آیت نمبر : 11۔ الداب کا معنی عادت اور طریقہ ہے۔ اور داب الرجل فی علمہ یداب دایا ودؤبا کہا جاتا ہے جب وہ اپنے کام میں کوشش کرے اور خوب محنت کرے اور ادابتہ انا اور اداب بعیرہ جب وہ اونٹ کو چلانے میں خوب تھکا دے۔ اور الدائبان سے مراد رات اور دن ہیں۔ ابو حاتم نے کہا ہے : میں نے یعقوب کو یہ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے کداب کہ یہ ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہے اور انہوں نے مجھے کہا درآنحالیکہ میں نوجوانی کی حالت میں تھا، کون سی شے پر کداب جائز ہو سکتا ہے ؟ تو۔۔۔۔۔ کہا : میرا گمان ہے کہ یہ دئب یداب دابا سے ہے، تو انہوں نے میری بات کو قبول کرلیا اور میرے چھوٹا ہونے کے باوجود میری عمدہ وضاحت پر اظہار تعجب ومسرت کیا اور میں نے نہیں جانتا کیا جانتا کیا یہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ نحاس نے کہا ہے : یہ قول غلط ہے، بالیقین دئب نہیں کا جاسکتا، بلکہ یہ کہا جائے گا داب یداب دؤبا (ودابا) اسی طرح نحویوں نے بھی بیان کیا ہے، ان میں سے امام فراء نے اسے کتاب المصادر میں بیان کیا ہے، جیسا کہ امرؤ القیس نے کہا ہے : کدابک من ام الحویرث قبلھا وجار تھا ام الرباب بماسل : پس رہا اداب تو یہ کہنا جائز ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے : شعر وشعر، نھر ونھر “۔ کیونکہ اس میں حروف حلقی میں سے ایک حرف ہے، البتہ الکاف میں اختلاف ہے، بعض نے کہا ہے : یہ محل رفع میں ہے تقدیر کلام ہے دابھم کداب ال فرعون “ ، یعنی آپ ﷺ کے ساتھ کفار کا رویہ اسی طرح ہے جیسے آل فرعون کا رویہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا، اور فراء کا خیال ہے کہ معنی یہ ہے : عرب آل فرعون کے کفر کی طرح کافر ہوگئے، نحاس نے بیان کیا ہے : یہ جائز نہیں کہ کاف کفروا کے متعلق ہو، کیونکہ کفرو اصلہ میں داخل ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اخذھم اللہ کے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں شدید پکڑ لیا جیسا کہ اس نے آل فرعون کو پکڑا تھا، اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ اس ارشاد کے متعلق ہے : (آیت) ” لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولادھم “۔ یعنی انہیں دولت نے کوئی فائدہ نہ دیا جیسا کہ آل فرعون کو ان کے مال اور اولاد نے کوئی فائدہ نہ دیا، اور یہ ان کے لئے جواب ہے جو جہاد سے پیچھے رہ گئے، اور انہوں نے کہا : ہمارے مالوں اور ہمارے گھر والوں نے ہمیں مشغول رکھا۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس میں لفظ وقود سے مقدر شدہ کوئی فعل عامل ہو۔ اور تشبیہ نفس احتراق (جلنے) میں ہو، اور اس معنی کی تائید اس ارشاد سے ہوتی ہے۔ (آیت) ” وحاق بال فرعون سوء العذاب، النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا، ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب، (المومن) ترجمہ ؛ اور ہر طرف سے گھیر لیا فرعونیوں کو سخت عذاب نے دوزخ کی آگ ہے پیش کیا جاتا ہے انہیں اس پر صبح وشام اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) داخل کر دو فرعونیوں کو سخت تر عذاب میں) پہلا قول ارجح ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 405 دارالکتب العلمیہ) اور علماء میں سے کئی ایک نے اسے اختیار کیا ہے، ابن عرفہ نے کہا ہے : (آیت) ” کداب ال فرعون “ کا معنی ہے جیسا کہ آل فرعون کی عادت اور رویہ تھا، وہ کہہ رہے ہیں : ان کافروں کا الحاد اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ سرکشی اور سختی کا رویہ اسی طرح ہے جیسا کہ آل فرعون نے انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ سرکشی اور سختی کا رویہ اپنایا اور کہا : یہ معنی ازہری نے بیان کیا ہے۔ اور رہا وہ قول جو سورة الانفال میں ہے (آیت) ” کداب ال فرعون “ تو اس کا معنی یہ ہے کہ انہیں قتل اور قید کی سزا دی گئی جیسا کہ آل فرعون کو غرق اور ہلاکت کی سزا دی گئی۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” بایتنا یہ احتمال ہے کہ مراد وہ آیات ہوں جن کی تلاوت کی گئی ہے (یعنی آیات متلوہ) اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ مراد وہ آیات ہوں جو وحدانیت پر بطور دلیل بیان کی گئی ہیں۔ (آیت) ” فاخذھم اللہ بذنوبھم واللہ شدید العقاب “۔ ترجمہ : پس پکڑ لیا انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے)
Top