Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور اپنے پروردگار کی بخشش اور بہشت کی طرف لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے برابر ہے اور جو (خدا سے) ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے
آیت نمبر : 133۔ اس میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وسارعوا “ حضرت نافع اور ابن عامر نے واؤ کے بغیر (آیت) ” سارعوا “ پڑھا ہے اور اسی طرح اہل مدینہ اور اہل شام کے مصاحف میں ہے (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 547) اور باقی سات نے (آیت) ” وسارعوا “ واؤ کے ساتھ پڑھا ہے، ابو علی نے کہا ہے : دونوں قراتیں رائج اور صحیح ہیں، پس جنہوں نے واؤ کے ساتھ قرات کی ہے انہوں نے جملہ کا عطف جملہ پر کیا ہے اور جنہوں نے واؤ کو چھوڑ دیا ہے وہ اس لئے ہے کہ دوسرا جملہ پہلے کے ساتھ اس طرح ملتبس ہے کہ اسے حرم عطف واؤ کی حاجت اور ضروت ہی نہیں۔ اور المسارعۃ کا معنی المبادرۃ (جلدی کرنا، تیزی کرنا) ہے اور یہ باب مفاعلہ ہے۔ اور آیت میں حذف ہے، یعنی سارعوا الی مایوجب المغفرۃ وھی الطاعۃ (یعنی اس عمل کی طرف تیزی سے آؤ جو مغفرت و بخشش کو واجب کردیتا ہے اور وہ طاعت وفرمانبرداری ہے۔ حضرت انس ابن مالک اور مکحول نے (آیت) ” وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم “۔ کی تفسیر میں کہا ہے : اس کا معنی ہے تم دوڑو تکبیر تحریمہ کی طرف اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : تم تیزی سے آؤ فرائض ادا کرنے کی طرف، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے فرمایا : تم جلدی سے آؤ اخلاص کی طرف، اور کلبی نے کہا ہے : تم سود سے توبہ کی طرف دوڑو، اور یہ بھی کہا گیا ہے : تم میدان جنگ میں ثابت قدمی کی طرف آؤ اور ان کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں، اور آیت ان تمام کو شامل ہے اور ان کا معنی وہی ہے جو ” فاستبقوا الخیرات “۔ کا معنی ہے (کہ تم خیر اور نیکی کے کاموں کی طرف تیزی سے آگے بڑھو) اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) : و جنت عرضھا السموت والارض “۔ تقدیر عبارت ہے کعرض السموات والارض، اور مضاف محذوف ہے جیسا کہ اس ارشاد میں ہے : ما خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ، ای الاکخلق نفسواحدۃ وبعثھا۔ شاعر نے کہا ہے : حسبت بغام راحلتی عناقا وما ھی ویب غیرک بالعناق : اس میں مراد صوت عناق (بھیڑ کے بچے کی آواز) ہے اس کی نظیر سورة حدید میں ہے۔ (آیت) ” وجنۃ عرضھا کعرض السمآء والارض “۔ (2) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 548) (اور جنت اس کا عرض آسمان و زمین کے عرض کی طرح ہے) اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : آسمان و زمین آپس میں بعض بعض کے ساتھ ملادیئے جائیں گے جیسا کہ کپڑوں کو پھیلایا جاتا ہے اور بعض کو بعض کے ساتھ ملادیا جاتا ہے پس یہ جنت کا عرض ہے اور اس کا طول سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، اور یہ جمہور کا قول ہے۔ اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے ” کہ سات آسمان اور سات زمینیں کرسی کے مقابلے میں اس طرح ہیں جیسے وہ دراہم جو زمین کے وسیع بیابان میں پھینک دیئے جائیں اور کرسی عرش کے مقابلہ میں اس انگوٹھی کی طرح ہے جو زمین کے وسیع بیانب میں پھینک دی گئی ہو۔ “ یہ مخلوقات سے آسمانوں اور زمین کے مقابلہ میں بہت زیادہ بڑی اور عظیم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ان تمام سے اعظم ہے۔ اور کلبی نے کہا ہے : جنتیں چار ہیں، جنت عدن، جنۃ الماوی، جنۃ الفردوس، اور جنۃ النعیم “۔ اور ان میں سے ہر جنت زمین و آسمان نے عرض کی مثل ہے اگر وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں، اور اسماعیل السدی نے کہا ہے : اگر آسمانوں اور زمین کو توڑ دیا جائے اور وہرائی کے دانے ہوجائیں اور پھر ہر دانے کے بدلے جنت ہو تو اسکی چوڑائی زمین و آسمان کی چوڑائی کی طرح ہے، اور صحیح روایت میں ہے :” بیشک اہل جنت میں سے رتبہ کے اعتبار سے ادنی وہ ہوگا جو تمنا کرے گا اور آرزو کرتا رہے گا یہاں تک کہ جب اس کی آرزوئیں ختم ہوجائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : لک ذالک وعشرۃ امثالہ “۔ (تیرے لئے وہ بھی ہے اور اس کی مثل دس اور بھی ہیں) اسے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے روایت کیا ہے، اسے مسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے اور یعلی بن ابی مرہ نے بیان کیا ہے، میں حمص میں تنوخی سے ملاجو کہ ہر قل کی طرف سے قاصد بن کر حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا تھا وہ شیخ کبیر تھا، اس نے کہا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ہر قل کا خط لے کر آیا تو آپ ﷺ نے وہ صحیفہ اپنی بائیں طرف والے آدمی کو دیا، پھر میں نے پوچھا، تمہارا کون وہ ساتھی ہے جو اسے پڑھے گا ؟ انہوں نے کہا : معاویہ، پس تب یہ میرے صاحب کی تحریر ہے، بلاشبہ آپ نے لکھا ہے آپ مجھے ایسی جنت کی طرف دعوت دے رہے ہیں جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے تو جہنم کہاں ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’ رحمۃ اللہ علہیم سبحان اللہ رات کہاں ہوتی ہے جب دن آجاتا ہے۔ “ (1) (تفسیر ابن کثیر، سورة آل عمران، جلد 1، صفحہ 318، دار القرآن بیروت) اور اسی طرح کی دلیل سے حضرت فاروق اعظم ؓ نے یہودیوں کے خلاف استدلال کیا جب انہوں نے آپ کو کہا : کیا تم نے اس قول کو دیکھا ہے (آیت) : و جنت عرضھا السموت والارض “۔ تو جہنم کہاں ہے ؟ اور انہوں نے آپ کو کہا : آپ وہ لائیں جو اس سے مشابہت رکھتا ہو جو تورات میں ہے، اور اللہ تعالیٰ نے عرض کے سبب طول پر آگاہ فرمایا کیونکہ اغلبا طول عرض سے زیادہ ہوتا ہے اور طول جب ذکر کر دیاجائیی تو وہ عرض کی مقدار پر دلالت نہیں کرتا، زہری نے کہا ہے : جنت کا عرض بیان کیا گیا ہے اور رہا اس کا طول تو اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (2) (معالم التنزیل، جلد 1 صفحہ 548) اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرح ہے : (آیت) ” متکئین علی فرش بطآئنھا من استبرق “۔ (الرحمن : 54) ترجمہ : وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے بستروں پر جن کے استر قنادیز کے ہوں گے۔ تو اس میں بطانۃ کو اس حسین ترین شے کے ساتھ متصف کیا گیا ہے جو زینت اور خوبصورتی سے جانی جاتی ہے جبکہ یہ معلوم ہے کہ ظواہر باطن کے مقابلہ میں زیادہ حسین اور اتقن ہوتے ہیں، عرب کہتے ہیں : ” بلاد عریضۃ وفلاۃ عریضۃ “ یعنی وسیع شہر اور بیابان “۔ شاعر نے کہا ہے : کان بلاد اللہ وھی عریضۃ علی الخائف المطلوب کفۃ حابل : اس میں وھی عریضۃ وسیع و عریض ہونے کے معنی میں ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : مقطع عرب پر کلام بطور استعارہ جاری ہے، پس جب جنت وسعت اور انفساح کے اعتبار سے انتہا کو پہنچی ہوئی ہے تو پھر اسے آسمانوں اور زمین کے عرض کے ساتھ بیان کرنا انتہائی حسین عبارت ہے جیسا کہ تو کسی آدمی کے لئے کہتا ہے : ھذا بحر (یہ تو سمندر ہے) اور حیوانوں میں سے کسی بڑے کے لئے یہ کہتا ہے : ” ھذا جبل “۔ یہ پہاڑ ہے تو آیت نے عرضاحد بیان کرنے کا قصد نہیں کیا، البتہ اس سے مقصود یہ ہے کہ وہ ہر اس شے سے وسیع تر ہے جسے تم نے دیکھا ہے، اور عام علماء کا نظریہ ہے کہ جنت تخلیق کردی گئی ہے اور یہ موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اعدت للمتقین “۔ اور اس کا بیان حدیث اسراء وغیرہ میں ہے جو صحیحین وغیرھما میں بیان کی گئی ہے۔ اور معتزلہ نے کہا ہے : بلاشبہ یہ دونوں (جنت اور جہنم) ہمارے وقت میں موجود نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ جب آسمانوں اور زمین کو لپیٹ دے گا تو پھر وہ جنت اور جہنم کو جہاں چاہے گا بنا دے گا، کیونکہ یہ دونوں ثواب و عقاب کے لئے دار جزا ہیں، لہذا احکام کا مکلف بنائے جانے کے بعد جزا کے وقت میں انہیں بنایا جائے گا، تاکہ دارالتکلیف اور دارالجز، دنیا میں جمع نہ ہوجائیں، اور ابن فورک نے کہا ہے : جنت میں قیامت کے دن اضافہ کردیا جائے گا، ابن عطیہ نے کہا ہے : اس میں منذر بن سعید وغیرہ کا تعلق قائم کیا گیا ہے ان سے جنہوں نے کہا : بلاشبہ ابھی تک جنت تخلیق نہیں کی گئی، ابن عطیہ نے کہا ہے ابن فورک کا یہ قول ” کہ اس میں اضافہ کیا جائے گا “۔ یہ جنت کے موجود ہونے کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ ایسی سند کا محتاج ہے جو زیادتی کے عذر میں قطعی ہو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن عطیہ نے اس بارے میں سچ کہا ہے کہ جب انہوں نے کہا : جب ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کرسی کے سامنے ان دراہم کی طرح ہیں جو زمین کے وسیع بیابان میں ڈال دیئے گئے ہوں اور کرسی عرش کے سامنے اس انگوٹھی کی طرح ہے جسے وسیع زمین میں رکھ دیا گیا ہے، تو جنت اب اسی حالت پر ہے جس پر وہ آخرت میں ہوگی کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے، کیونکہ عرش اس کی چھت ہے، یہ اس کے مطابق ہے جو صحیح مسلم میں موجود ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ چھت اپنے نیچے آنے والی ہر شے کو گھیرے ہوتا ہے اور کچھ زیادہ بھی ہوتا ہے اور جب تمام مخلوقات اس (عرش) کی نسبت ایک انگوٹھی کی طرح ہیں تو پھر کون ہے جو اس کا اندازہ لگا سکتا ہو اور اس کے طول وعرض کو جانتا ہو سوائے اللہ تعالیٰ کے جو ایسا خالق ہے جس کی قدرت کی کوئی انتہاء نہیں اور نہ ہی اس کی مملکت کی وسعت کی کوئی غایت اور حد ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
Top