Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 162
اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰهِ كَمَنْۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
اَفَمَنِ : تو کیا جس اتَّبَعَ : پیروی کی رِضْوَانَ : رضا (خوشنودی) اللّٰهِ : اللہ كَمَنْ : مانند۔ جو بَآءَ : لوٹا بِسَخَطٍ : غصہ کے ساتھ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کے وَمَاْوٰىهُ : اور اس کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور برا الْمَصِيْرُ : ٹھکانہ
بھلا جو شخص خدا کی خوشنودی کا تابع ہو وہ اس شخص کی طرح (مرتکب خیانت) ہوسکتا ہے ؟ جو خدا کی ناخوشی میں گرفتار ہو اور جس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے
آیت نمبر 162 تا 163۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” افمن اتبع رضوان اللہ “۔ یعنی جو غلول کو ترک کرنے کا اور جہاد پر صبر کرنے (ڈٹے رہنے) کا ارادہ کرتا ہے۔ (آیت) ” کمن بآء بسخط من اللہ “۔ (اس کی طرح ہوسکتا ہے) جو کفر یا غلول یا جنگ میں حضور نبی مکرم ﷺ سے پیٹھ پھیرنے کا ارادہ کرتا ہے (آیت) ” وماوہ جھنم “۔ یعنی اس کا ٹھکانا جہنم ہے، یعنی اگر اس نے توبہ نہ کی یا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف نہ کیا۔ (آیت) ” وبئس المصیر “ یعنی لوٹنے کی جگہ بہت بری ہے، اور (آیت) ” رضوان “ کو را کے کسرہ اور ضمہ دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے جیسا کہ عدوان اور عدوان “ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ھم درجت عنداللہ “۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی اور اتباع کی وہ اس کی طرح نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا حقدار بن گیا ہے، کہا گیا ہے : ” ھم درجت متفاوتۃ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے درجات اور منازل مختلف ہیں، پس جس نے رضائے الہی کی پیروی کی اس کے لئے عزت و کرامت اور ثواب عظیم ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا حقدار بن گیا اس کے لئے ذلت، رسوائی اور دردناک عذاب ہے۔ اور (آیت) ” ھم درجت “ کا معنی ہے ذو ودرجات (وہ صاحب درجات ہیں) یا علی درجات (وہ درجات پر ہیں) اوفی درجات (یا وہ درجات میں ہیں) یا لھم درجات (یا ان کے لئے درجات ہیں) اور اہل نار بھی درجات والے ہیں جیسا کہ فرمایا : وجدتہ فی غمرات من النار فاخرجتہ الی ضحضاح (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 115، اسلام آباد) (میں نے اسے آگ کی تکالیف میں پایا تو میں نے اسے تھوڑے سے پانی کی طرف نکال دیا) پس مومن اور کافر درجہ میں برابر اور مساوی نہیں ہوں گے پھر مومنین بھی مختلف ہوں گے پس ان میں سے بعض بعض سے بلند رتبہ پر ہوں گے اور اسی طرح کفار بھی، اور درجہ کا معنی رتبہ ہے اور اسی سے الدرج ہے (لکھا جانے والا کاغذ) کیونکہ اسے درجہ بدرجہ لپیٹا جاتا ہے، اور جہنم کے مراتب میں مشہور درکات ہیں۔ جیسا کہ فرمایا : (آیت) ” ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار “۔ (النسائ : 145 ) ترجمہ : بیشک منافقین جہنم کے نیچے والے درکہ (گڑھے) میں ہوں گے) پس جس نے غلول نہیں کیا اس کے لئے جنت میں درجات ہوں گے اور جس نے غلول کیا اس کے لئے جہنم میں درکات ہوں گے، ابو عبیدہ نے کہا ہے : جہنم کی کئی منازل ہیں اور ان میں سے ہر منزل کو درک اور درک کہا جاتا ہے اور درک نیچے کی طرف ہوتا ہے اور درج اوپر بلندی کی جانب ہوتا ہے۔
Top