Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
(جب) ان سے لوگوں نے آ کر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلے کے) لئے (لشکر کثیر) جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگے ہم کو خدا کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے
آیت نمبر : 173۔ اس قول باری تعالیٰ : (آیت) ” الذین قال لھم الناس “۔ میں اختلاف کیا گیا ہے، پس حضرت مجاہد (رح)، مقاتل، عکرمہ اور کلبی رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : وہ (کہنے والا) نعیم بن مسعود اشجعی تھا (2) (زاد المسیر 1۔ 2، صفحہ 402) یہ لفظ عام ہے اور اس کا معنی خاص ہے، جیسا کہ یہ ارشاد گرامی ہے، : (آیت) ” ام یحسدون الناس “۔ یعنی (الناس سے مراد) حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ سدی نے کہا : وہ ایک اعرابی تھا جس کے لئے اس کام پر اجرت مقرر کی گئی تھی اور ابن اسحاق (رح) اور ایک جماعت نے کہا ہے : الناس سے مراد عبدا لقیس کے سواروں کا قافلہ ہے، اور ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے انہیں مسلمانوں کی طرف ایک سازش کے تحت بھیجا تاکہ وہ انہیں اس سے باز رکھیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں الناس سے مراد منافقین ہیں۔ سدی نے کہا ہے : جب حضور نبی مکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب ابو سفیان کی مقرر کردہ میعاد کے مطابق بدر الصغری کی طرف چلنے کے لئے تیار ہوئے تو انکے پاس منافقین آئے اور انہوں نے کہا : ہم تمہارے وہی ساتھی ہیں جنہوں نے تمہیں ان کی طرف نکلنے سے منع کیا تھا اور تم نے ہماری تجویز نہ مانی تھی اور پھر انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں میں آکر قتل کیا اور وہ کامیاب ہوئے اور اگر تم ان کے پاس ان کے گھروں میں گئے تو تم میں سے کوئی ایک بھی واپس لوٹ کر نہیں آئے گا، تو انہوں نے کہا : (آیت) ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ (ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے) اور ابو معشر نے کہا ہے : اہل تہامہ میں سے قبیلہ ہذیل کے کچھ لوگ مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو ان سے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے ابو سفیان کے بارے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا : (آیت) ” قد جمعوا لکم “ تحقیق کافروں نے تمہارے لئے بہت بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے، (آیت) ” فاخشوھم “ پس تم ان سے ڈرو اور تم ان سے بچو، کیونکہ تمہارے پاس ان کے مقابلے کی طاقت نہیں ہے، ان باب میں ان اقوال کی بنا پر ہی الناس جمع ہے۔ واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فزادھم ایمانا “۔ یعنی لوگوں کے قول نے از روئے ایمان کے ان میں اضافہ کردیا، یعنی اپنے دین کے بارے میں تصدیق اور یقین، اپنی مدد ونصرت پر پختہ وثوق اور قوت وجرات اور استعداد کے اعتبار سے ان میں اضافہ ہوگیا، پس ان معنی کی بنا پر ایمان میں زیادتی سے مراد اعمال میں زیادتی ہے، علماء کا ایمان کے زیادہ اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف ہے اور اس بارے میں کئی اقوال ہیں اور اس بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ نفس ایمان جو کہ ایک تاج ہے اور کسی بھی شے کی ایک تصدیق ہے بلاشبہ یہ مفرد معنی ہے جب یہ حاصل ہوجائے تو اس میں کوئی زیادتی اور اضافہ داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس میں سے کوئی شے باقی رہجاتی ہے جب یہ زائل ہوجائے، پس کچھ باقی نہ رہا سوائے اس کے کہ زیادتی اور کمی ایمان کے متعلقات میں ہوتی ہے نہ کہ اس کی ذات میں۔ پس علماء کی ایک جماعت نے یہ موقف اپنانا ہے کہ ایمان ان اعمال کے اعتبار سے زیادہ یا کم ہوتا ہے جو اس سے صادر ہوتے ہیں، بالخصوص بہت سے علماء اسم ایمان کا اطلاق طاعات پر کرتے ہیں، اس وجہ سے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ایمان کے ستر سے کچھ زائد باب ہیں ان میں سے اعلی ” لا الہ الا اللہ “ کہنا ہے اور ان میں سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے (1) (جامع ترمذی، کتاب الایمان جلد 2، صفحہ 86، ایضا، جامع ترمذی، حدیث 2539، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور مسلم نے یہ اضافہ بھی ذکر کیا ہے :” اور حیاء ایمان کا ایک شعبہ ہے (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 47) اور حضرت علی ؓ کی حدیث میں ہے : ایمان دل میں ایک سفید نقطہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جب بھی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ نقطہ بڑھ جاتا ہے اور آپ کا قول ” لمظۃ “ اس کے بارے اصمعی نے کہا ہے : نقطہ اور اس کی طرح کی سفیدی ہے اور اسی سے کہا گیا ہے : فرس المظ جب گھوڑے کے ہونٹ میں سفیدی ہو اور محدثین کہتے ہیں لمظۃ “ فتحہ کے ساتھ، البتہ کلام عرب میں یہ ضمہ کے ساتھ ہے : مثلا ” شبھۃ، دھمۃ اور حمرۃ۔ اور اس میں ان کے خلاف حجت اور دلیل ہے جو ایمان کے زیادہ اور کم ہونے کا انکار کرتے ہیں، کیا آپ انہیں دیکھ نہیں رہے وہ کہتے ہیں جب بھی ایمان بڑھتا ہے تو وہ نقطہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ سارا دل سفید ہوجاتا ہے، اور اسی طرح نفاق دل میں ایک سیاہ نقطہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جب بھی نفاق بڑھتا ہے تو دل سیاہ ہوتا ہے یہاں تک کہ سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے، اور ان میں سے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ایمان عرض ہے اور یہ دو زمانوں میں ثابت نہیں رہتا اور یہ حضور نبی کریم ﷺ اور صلحاء کے لئے یکے بعد دیگرے قائم رہتا ہے پس مومن کے دل میں اس کی امثال ثابت نہیں رہتا، اور یہ حضور نبی کریم ﷺ اور صلحاء کے لئے یکے بعد دیگرے قائم رہتا ہے پس مومن کے دل میں اس کی امثال کے لگا تار اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کے اعتبار سے اور بالدوام اس کے موجود رہنے کے اعتبار سے یہ بڑھتا ہے، اور مومن کے دل پر لگا تار اور مسلسل غفلتیں پڑنے کے سبب یہ کم ہوجاتا ہے، اس کی طرف ابو المعالی نے اشارہ کیا ہے۔ اور یہ معنی حدیث شفاعت میں موجود ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث ہے اسے مسلم نے نقل کیا ہے (3) (صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6866، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس میں ہے :” پس مومنین عرض کریں گے اے ہمارے رب ہمارے بھائی روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے تو انہیں کہا جائے گا جنہیں پہچانتے ہو نکال لاؤ پس ان کی صور آتش جہنم پر حرام کردی جائیں گی اور خلق کثیر نکال لی جائے گی درآنحالیکہ اسے آگ نصف پنڈلی اور اس کے گھٹنے تک پکڑے ہوئے تھی پھر وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! جن کے بارے تو نے ہمیں حکم دیا ان میں سے کوئی باقی نہیں رہا ہے تو رب کریم فرمائے گا لوٹ کر جاؤ اور جس کے دل میں تم ایک دینار برابر خیر اور نیکی پاؤ تو اسے بھی نکال لاؤ چناچہ وہ بہت سی مخلوق کو نکالیں گے پھر وہ عرض کیں گے اے ہمارے رب ! ہم نے ان میں سے کوئی ایک بھی اس میں نہیں چھوڑا جن کے بارے تو نے ہمیں حکم دیا ہے پھر رب کریم فرمائے گا : تم لوٹ کر جاؤ اور تم جس کے دل میں نصف دینار کے برابر خیر اور نیکی پاؤ تو اسے نکال لو چناچہ وہ خلق کثیر کو نکالیں گے پھر عرض کریں گے اے ہمارے رب ! ہم نے اس میں سے کوئی بھی نہیں چھوڑا جن کے بارے تو نے ہمیں حکم دیا، پھر رب کریم فرمائے گا : تم لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں تم ذرہ برابر خیر اور نیکی پاؤ تو اسے بھی نکال لاؤ (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1 صفحہ 103) اور آگے پوری حدیث ذکر کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس حدیث میں ایمان سے مراد دلوں کے اعمال ہیں مثلا نیت، اخلاص، خوف، اور نصیحت، اور ان کے مشابہ اعمال، اور ان کا نام ایمان رکھا ہے کیونکہ یہ محل ایمان میں ہیں یا ایمان سے مراد عادت عرب کے مطابق تسمیۃ لشیء باسم الشیء ہے جبکہ یہ اس کے مشابہ اور مجاور ہو یا یہ اس کے سبب ہو، اس تاویل کی دلیل شفاعت کرنیو الوں کا وہ قول ہے جو انہوں نے ان لوگوں کو نکالنے کے بعد کہا جن کے دلوں میں ذرہ بھی خیر اور نیکی ہوگی : لم ندر فیھا خیرا (ہم نے اس میں کوئی خیر نہیں چھوڑی) باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد ان میں سے جمع کثیر کو نکالے گا، جو ” لا الہ الا اللہ “ کہتے ہیں اور وہ قطعا یقینا مومن ہیں اور اگر وہ مومن نہ ہوتے تو یقینا اللہ تعالیٰ انہیں نہ نکالتا۔ پھر اگر وہ وجود اول معدوم ہوجائے جس پر اس کی مثل مرتب ہوتا ہے تو یہ نہ زیادتی ہے اور نہ نقصان، اور اس کا اندازہ حرکت میں لگایا گیا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے علم مفرد پیدا کیا اور اس کے ساتھ اس کی مثل یا امثال کی معلومات پیدا کیں تو اس کا علم زیادہ ہوا اور اگر اللہ تعالیٰ امثال کو معدوم کر دے تو وہ کم ہوگیا، یعنی زیادتی زائل ہوگئی اور اسی طرح جب اس نے حرکت کو پیدا کیا اور اس کے ساتھ اس کی مثل یا امثال کو پیدا کیا۔ اور علماء کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ ایمان کی زیادتی اور کمی یہ اولہ کے اعتبار سے ہے پس ایک کے پاس دلائل زیادہوتے ہیں تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے : یہ ایمان میں زیادتی ہے، اس کے معنی کے مطابق۔۔۔۔ کئی اقوال پر۔۔۔ انبیاء (علیہم السلام) کو دوسری مخلوق پر فضیلت دی گئی ہے، کیونکہ وہ اسے وجوہ کثیرہ سے جانتے ہیں اور وہ ان وجوہ سے کہیں زیادہ ہیں جن کے سبب مخلوق اسے جانتی ہے اور یہ قول آیت کے مقتضی سے خارج ہے، کیونکہ یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں زیادتی ادلہ کے اعتبار سے ہو۔ اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ ایمان میں زیادتی حضور نبی رحمت ﷺ کے زمانہ میں فرائض واخبار کے نزول کے اعتبار سے ہے اور گزرے ہوئے زمانے میں جہالت کے بعد ان کی معرفت کے اعتبار سے ہے اور بلاشبہ یہی ایمان کی زیادتی ہے، پس اس بارے میں یہ قول کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے یہ قول مجازی ہے اور اس تعریف پر اس میں کمی کا تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ معلوم کی طرف اضافت کے اعتبار سے اس کا تصور کیا جاسکتا ہے، فاعلم۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ یعنی انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ ہمیں کافی ہے اور حسب یہ احساب سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی کفایت ہے۔ شاعر نے کہا ہے : فتملا بیتنا اقطا وسمنا وحسبک من غنی شیع وری : اس میں حسبک کا معنی ہے تیرے لئے کافی ہے۔ بخاری نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری تعالیٰ (آیت) ” الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایمان، وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے یہ اس وقت کہا جب انہیں آگ میں پھینکا گیا اور حضور نبی کریم ﷺ نے یہ اس وقت کہا جب انہیں لوگوں نے کہا : بیشک کافر تمہارے لئے بہت سے لوگوں کو (لشکر جرار کو) جمع کئے ہوئے ہیں (1) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 655) واللہ اعلم۔
Top