Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 185
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
كُلُّ
: ہر
نَفْسٍ
: جان
ذَآئِقَةُ
: چکھنا
الْمَوْتِ
: موت
وَاِنَّمَا
: اور بیشک
تُوَفَّوْنَ
: پورے پورے ملیں گے
اُجُوْرَكُمْ
: تمہارے اجر
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
فَمَنْ
: پھر جو
زُحْزِحَ
: دور کیا گیا
عَنِ
: سے
النَّارِ
: دوزخ
وَاُدْخِلَ
: اور داخل کیا گیا
الْجَنَّةَ
: جنت
فَقَدْ فَازَ
: پس مراد کو پہنچا
وَمَا
: اور نہیں
الْحَيٰوةُ
: زندگی
الدُّنْيَآ
: دنیا
اِلَّا
: سوائے
مَتَاعُ
: سودا
لْغُرُوْرِ
: دھوکہ
ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
آیت نمبر :
185
۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) جب اللہ تعالیٰ نے بخل کرنے والوں اور ان کے کفر کے بارے ان کے اس قول میں خبر دی : (آیت) ” ان اللہ فقیر ونحن اغنیآء “ اور مومنین کو ان کی اذیت پر صبر کرنے کے بارے میں اپنے اس قول میں حکم ارشاد فرمایا ” لتبلون “۔ الآیہ “۔ (تو پھر) بیان کیا کہ وہ ختم ہوجانے والی چیزوں میں سے ہے اور وہ ہمیشہ نہیں رہے گا، کیونکہ دنیا کی انتہا اور اختتام قریب ہے اور قیامت کا دن یوم جزا (بدلے کا دن) ہے (آیت) ” ذائقۃ الموت “۔ یہ ذوق سے ماخوذ ہے اور یہ (موت) ایسی شے ہے جس سے انسان کو پناہ نہیں، اور نہ ہی اس سے کوئی حیوان الگ اور جدا ہے (یعنی ہر ذی روح کو موت آنا یقینی ہے) امیہ بن ابی الصلت نے کہا : من لم یمت عبطۃ یمت ھرما للموت کاس والمرذائقھا : جو عین عالم شباب میں نہیں مرتا اسے بڑھاپے میں موت آجاتی ہے موت تو (شراب سے بھرا ہوا) ایک جام اور آدمی اس کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : الموت باب وکل الناس داخلہ فلیت شعری بعد الباب مالدار : موت ایک دروازہ ہے اور تمام لوگ اس سے داخل ہونے والے ہیں اے کاش مجھے علم ہوتا اس دروازے کے بعد گھر کون سا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) عام قرات (آیت) ” ذآئقۃ الموت “۔ اضافت کے ساتھ ہے اور اعمش، یحی اور ابی اسحاق نے ذائقۃ الموت “۔ یعنی ذائقۃ کو تنوین کے ساتھ اور الموت کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
550
دارالکتب العلمیہ) انہوں نے کہا ہے : کیونکہ موت بعدتو کوئی ذائقہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ اسم فاعل کی دو قسمیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بمعنی ماضی ہو۔ اور دوسری یہ کہ وہ بمعنی استقبال ہو، پس اگر تو پہلا معنی مراد لے گا تو اس میں تو صرف مابعد کی طرف اضافت ہی ہے، جیسے تیرا یہ قول ہے : ھذا ضارب زیدا مس اور قاتل بکر امس، کیونکہ اسے اسم جامد کے قائم مقام رکھا جاتا ہے اور وہ علم ہے، جیسا غلام زید اور صاحب بکر۔ شاعر نے کہا ہے : الحافظوعورۃ العشیرۃ لایا تیھم من ورائھم وکف : (اس میں الحافظ اسم مابعد کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہو رہا ہے) اور اگر دوسرا معنی مراد لیں تو جر جائز ہے اور نصب اور تنوین کی بھی ہی صورت ہے اور یہی اصل ہے، کیونکہ یہ (اسم فاعل) قائم مقام فعل مضارع کے ہوتا ہے اور اگر فعل غیر متعدی ہو، تو پھر یہ متعدی نہیں ہوتا جیسے قائم زید اور اگر وہ متعدی ہو تو تو اسے متعدی بنائے اور اس کے ساتھ نصب دے اور یہ کہے : زید ضارب عمروا ‘ بمعنی یضرب عمروا۔ اور تخفیف کے لئے تنوین کا حذف اور اضافت جائز ہوتی ہے۔ جیسا کہ المراز نے کہا ہے : سل الھوم بکل معطی راسہ فاج مخالط صھبۃ متعیس : مغتال احبلہ مبین عنقہ فی منکب زین المطی عرندس : تنوین کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے اور اصل میں : معط راسہ تنوین اور نصب کے ساتھ ہے اور اس کی مثل قرآن کریم میں بھی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ھل ھن کاشفات ضرہ “۔ اور اس کی مثل نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
3
) پھر تو جان کہ موت کے کچھ اسباب اور اس کی کچھ علامات ہیں، پس بندہ مومن کی موت کی علامات میں سے پیشانی پر پسینہ کا آنا ہے، اسے نسائی نے حضرت بریدہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بندہ مومن پیشانی کے عرق آلود ہونے کے ساتھ فوت ہوتا ہے۔ (
1
) (سنن نسائی الجنائز، جلد
1
، صفحہ
259
) ۔ اور ہم نے اسے ” التذکرہ “ میں بیان کیا ہے اور جب وہ قریب المرغ ہو تو اسے شہادت کی تلقین کی جائے، کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ” لقنوا موتا کم لا الہ الا اللہ “۔ (
2
) (صحیح مسلم، الجناز، جلد
1
، صفحہ
300
) (اپنے مرنے والوں کو ” لا الہ الا اللہ “ کی تلقین کرو) تاکہ یہ اس کا آخری کلام ہو اور اس کی زندگی کا اختتام کلمہ شہادت کے ساتھ ہو اور اس پر باربار اس کا اعادہ نہ کیا جائے تاکہ وہ پریشان اور تنگ نہ ہوجائے۔ اور اس وقت سورة یسین پڑھنا مستحب ہوتا ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : اقرؤ یس علی موتاکم “۔ (
3
) (اپنے مرنے والوں پر یسین پڑھو) اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے، اور علامہ الآجری نے کتاب النصیحہ میں حضرت ام درداء ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ما من میت یقرء عندہ سورة یسن الاھون علیہ الموت “۔ (
1
) (الفردوس بما ثور الخطاب، جلد
4
، صفحہ
32
) (جس مرنے والے کے پاس سورة یسین پڑھی جاتی ہے اس پر موت آسان کردی جاتی ہے) پس جب روح قبض کی جاتی ہے اور نگاہ روح کی اتباع اور پیچھا کرتی ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے خبر دی ہے اور صحیح مسلم میں ہے اور عبادات اٹھ جاتی ہیں اور پابندی (تکلیف) ختم ہوجاتی ہے، تو زندوں پر کچھ احکام لازم ہوتے ہیں، ان میں سے اس کی آنکھیں بند کرنا، اور اس کے نیک اور صالح بھائیوں دوستوں کو اس کی موت کی خبر دینا ہے، اور ایک قوم نے اسے مکروہ کہا ہے اور کہا ہے یہ موت کی خبر اور اعلان ہے، اور پہلا زیادہ صحیح ہے، ہم نے اسے کسی دوسرے مقام پر بیان کیا ہے اور ان احکام میں سے غسل ودفن کے ساتھ اس کی تیاری کرنا بھی ہے تاکہ اس میں تغیر اور تبدیلی نہ آجائے، حضور نبی مکرم ﷺ نے اس قوم سے کہا جنہوں نے میتوں کو دفن کرنے میں تاخیر کی : عجلوا بدفن جیفتکم اپنے مردوں کو دفن کرنے میں جلدی کرو) اور مزید فرمایا : اسرعوا بالجنازۃ الحدیث (جنازہ لے جانے میں جلدی کرو) اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اور رہا میت کے غسل کا مسئلہ تو یہ سوائے شہید کے تمام مسلمانوں کے لئے سنت ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ میت کو غسل دینا واجب ہے، قاضی عبدالوہاب نے یہی کہا ہے۔ اور پہلا کتاب کا مذہب ہے، اور ان دونوں قولوں پر علماء کا عمل ہے اور اختلاف کا سبب حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جو آپ نے ام عطیہ کو اپنی بیٹی زینب کو غسل دینے کے بارے میں فرمایا، جیسا کہ وہ مسلم میں موجود ہے، اور بعض نے کہا ہے : وہ حضرت ام کلثوم تھیں، جیسا کہ ابو داؤد کی کتاب میں موجود ہے : ” تم انہیں تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار غسل دینا اگر تم اسے دیکھو (
2
) (سنن ابی داؤد، الجنائز، جلد
2
، صفحہ
92
، ایضا صحیح بخاری، باب غسل المیت ووضونہ بالماء والسدر، حدیث نمبر
1175
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث علماء کے نزدیک میت کو غسل دینے کے بارے میں اصل ہے، پس کہا گیا ہے کہ اس امر سے مراد غسل کا حکم بیان کرنا ہے کہ وہ واجب ہے اور بعض نے کہا ہے : اس سے مقصود غسل کی کیفیت کی تعلیم ہے لہذا اس میں کوئی ایسی شے نہیں ہے جو غسل کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہو، وہ کہتے ہیں کہ اس پر آپ ﷺ کا قول ” ان رایتن ذالک “ دلالت کرتا ہے اور یہ امر کے ظاہر کو وجوب سے نکالنے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے اسے ان کی نظر وفکر کے سپرد کردیا۔ ان کو کہا گیا : اس میں یہ بعد اور دوری ہے، کیونکہ تمہارا ان رایتن کو امر کی طرف لوٹانا، یہ فہم میں جلدی آنے والا نہیں ہے بلکہ یہ بالفور اس شرط کو مذکورہ (مفہوم کے) اقرب کی طرف لوٹانے کا ذریعہ ہے اور وہ اس سے اکثر اور زیادہ ہے “ یا پھر اعداد میں تخیر کی طرف لوٹاتا ہے۔ المختصر اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کو غسل دینا مشروع ہے شریعت میں اس پر عمل کیا گیا ہے اسے (کبھی) نہیں چھوڑا جائے گا اور اس کا طریقہ غسل جنابت کے طریقہ کی طرح ہے جیسا کہ معروف ہے، اور بالاجماع ایک میت کو غسل دینے میں سات بار غسل سے تجاوز نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ اسے ابو عمر نے بیان کیا ہے، اگر ساتویں بار غسل دینے کے بعد اس سے کوئی شے خارج ہو تو صرف اس مخصوص جگہ کو دھو ڈالا جائے گا، اور اس کا حکم جنبی کے حکم کی طرح ہے جبکہ اسے غسل کے بعد حدث لاحق ہوجائے جب میت کے غسل سے فارغ ہوجائے تو اسے اس کے کپڑوں میں کفن دو اور وہ یہ ہیں۔ عام علماء کے نزدیک کفن دینا واجب ہے، پس اگر اس کا مال ہو تو پھر عام علماء کے نزدیک اس کے رأس المال سے کفن دیا جائے گا، مگر طاؤس نے یہ کہا ہے کہ اس کا مال تھوڑا ہو یا زیادہ اس کے تیسرے حصہ سے ہی کفن دیا جائے گا۔ اور اگر میت ان میں ہو کہ اس کا نفقہ اس کی زندگی میں ہی کسی اور کے ذمہ لازم ہو مثلا آقا کے ذمہ۔۔۔۔ اگر وہ غلام ہو۔۔۔۔ یا باپ یا خاوند یا بیٹے کے ذمہ، تو بلاتفاق (کفن) ان پر ہی ہوگا، پھر بیت المال پر یا مسلمانوں کی جماعت پر کفن کفایہ ہوگا اور وہ شے جو اس میں سے تعین فرض کے ساتھ متعین ہوجاتی ہے وہ ستر عورت (شرمگاہ کو ڈھانپنا) ہے اور اگر اس میں فالتو اور اضافی کپڑا ہو لیکن وہ سارے بدن کو نہ ڈھانپ سکتا ہو تو پھر اس کے چہرہ کی تکریم میں اس کے سر اور چہرہ کو ڈھانپا جائے گا اور اس کے محاسن کی تبدیلی میں سے جو ظاہر ہو اسے ڈھانپ دیا جائے اور اس میں اصل حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا قصہ ہے، کیونکہ انہوں نے احد کے دن ایک کمبل چھوڑا جب آپ کے سر کو ڈھانپا جاتا تو آپ کے پاؤں اس سے نکل جاتے اور جب آپ کے پاؤں کو ڈھانپا جاتا تو آپ کا سر باہر نکل جاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسے ان کے سر پر ڈال دو اور ان کے پاؤں پر اذکر (گھاس) رکھ دو (
1
) (صحیح مسلم الجنائز، جلدا، صفحہ
305
، ایضا صحیح بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر
1197
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور تمام علماء کے نزدیک کفن میں کپڑوں کا طاق (وتر) ہونا مستحب ہے، اور تمام کا اس پر اجماع ہے کہ اس میں کوئی مخصوص حد نہیں ہے اور پھر کپڑوں کا سفید ہونا مستحب ہے، حضور ﷺ نے فرمایا : البسوا من ثیابکم البیاض فانھا من خیر ثیابکم و کفنوا فیھا موتاکم (
2
) (سنن ابی داؤد، الطب جلد
2
، صفحہ
185
) (تم اپنے سفید کپڑے پہنو کیونکہ یہ لباس تمہارے کپڑوں میں سے بہترین ہے اور اسی میں تم اپنے مردوں کو کفن دو ) اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور حضور نبی ﷺ کو سحول کے بنے ہوئے روئی کے تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا اور کسی اور رنگ کے کپڑوں میں کفن دینا جائز ہے مگر یہ کہ وہ خالص ریشم یا اون ملا ریشمی کپڑا نہ ہو، اور اگر ورثاء کفن میں بخل سے کام لیں تو پھر ان میں جمعہ اور عیدین کے دنوں میں پہنے جانے والے لباس کی مثل کپڑا لازم کردیا جائے گا، حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اذا کفن احدکم اخاہ فلیحسن کفنہ “۔ (
3
) (صحیح مسلم، الجنائز، جلد
1
، صفحہ
306
) (جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اچھے کپڑے میں کفن دے) اسے مسلم نے روایت کیا ہے، مگر یہ کہ وہ اس سے کم کے بارے وصیت کرے، اور اگر اس نے اسراف (فضول خرچی) کی وصیت کی تو کہا گیا ہے : (ضرورت سے) زائد میں (اس کی وصیت) باطل ہوگی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ثلث میں نافذ ہوگی۔ (لیکن) پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے (آیت) ” ولا تسرفوا “۔ ترجمہ : اور تم فضول خرچی نہ کرو۔ اور ابوبکر نے کہا ہے : بیشک یہ میت کے بدن سے نکلنے والی پیپ کے لئے ہے، اور جب وہ اس کے غسل اور اسے کفن پہنانے سے فارغ ہوجائے، اور اسے چارپائی پر رکھ دیا جائے اور اسے آدمی اپنے کندھوں پر اٹھائیں تو اس کا حکم یہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) اس کے لئے حکم تیز چلنے کا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اسرعوا بالجنازۃ فان تک صالحۃ فخیر تقدمونھا الیہ وان تکن غیر ذالک فشر تضعونہ عن رقابکم (
1
) (صحیح مسلم، الجنائز، جلد
1
، صفحہ
307
۔
306
) (تم میت کو لے کرتیز چلو پس اگر وہ نیک اور صالح ہے تو اچھا اور بہتر ہے تم اسے اس تک جلدی پہنچا دو گے اور اگر وہ اس کے سوا ہے تو وہ برا ہے تم اسے جلدی اپنی گردنوں سے اتار دو گے) (
2
) (صحیح بخاری، باب السرعۃ بالجنازہ، حدیث
1231
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس طرح نہیں ہے جیسا کہ آج جاہل لوگ آہستہ آہستہ لے کر چلتے ہیں، اور باربار راستے میں ٹھہرتے ہیں اور ایسی سر اور آواز کے ساتھ قرآن کریم کی قرات کرتے ہیں جو حلال نہیں ہے اور وہ بھی جائز نہیں ہے جو مصری شہروں کے لوگ اپنے مردوں کے ساتھ کرتے ہیں، نسائی نے روایت کیا ہے کہ محمد بن عبدالاعلی نے ہمیں خبر دی ہے انہیں نے کہا ہے کہ خالد نے اور اسے عیینہ بن عبدالرحمن نے خبر دی ہے اور کہا ہے کہ مجھے میرے باپ نے بتایا ہے کہ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ کے جنازہ میں حاضر ہوا اور زیاد نکل کر چارپائی کے آگے آگے چلنے لگا اور عبدالرحمن کے خاندان کے لوگ اور ان کے موالی چارپائی اٹھا کر اپنی ایڑئیوں پر چل رہے تھے اور کہتے تھے : آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے : پس وہ رینگ رینگ کر چل رہے تھے (یعنی انتہائی آہستہ رفتار سے) یہاں تک کہ جب ہم مربد کا کچھ راستہ طے کرچکے تو ہمیں پیچھے سے خچر پر حضرت ابوبکر ؓ آ کر ملے، پس جب آپ نے انہیں وہ کرتے ہوئے دیکھا تو ان پر اپنے خچر سے حملہ کردیا اور ان پر کوڑا برسایا اور فرمایا تم چھوڑ دو ! قسم ہے سب سے مکرم ومحترم ابو القاسم ﷺ کے چہرہ اقدس کی ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے اور ہم میت کو لے کر دوڑتے چلے جاتے تھے تو اس سے قوم خوش ہوگئی (
3
) (سنن نسائی، الجنائز، جلد
1
، صفحہ
271
) اور ابو ماجدہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کہ انہوں نے بیان کیا ہم نے حضور نبی مکرم ﷺ سے جنازہ کے ساتھ چلنے کے بارے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ڈر کی چال سے ذرا کم ہو اگر وہ میت نیک اور صالح ہوئی تو بہتر ہے اسے اس تک جلدی پہنچا دیا جائے گا اور اگر وہ اس کے سوا ہوئی تو پھر اہل نار سے دور رہو (
4
) (ابو داؤد باب الاسراع باالجنازہ، حدیث
2769
، ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ رحمۃ اللہ علیہالحدیث “۔ ابو عمر نے کہا ہے : اس مسئلہ میں جس پر علماء کی جماعت ہے (وہ یہ ہے) کہ عام عادت سے چال تھوڑی تیز ہو، اور تیزی ان کے نزدیک آہستہ چال سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور ایسی تیزی جو ان کمزور اور ضعیف لوگوں کے لئے باعث مشقت ہو جو جنازہ کے پیچھے چل رہے ہیں وہ مکروہ ہے اور حضرت ابراہیم نخعی نے کہا ہے : میت کو لے کر تھوڑا آہستہ چلو (لیکن) یہود ونصاری کی طرح رینگ رینگ کر نہ چلو اور ایک قوم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں الاسراع کی تاویل یہ کہ ہے کہ اس سے مراد دفن میں جلدی کرنا ہے، نہ کہ چلنے میں اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کردی ہے، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اور رہی میت پر نماز جنازہ تو یہ جہاد کی طرح واجب (فرض) علی الکفایہ ہے یہی علماء کا مشہور مذہب ہے، امام مالک (رح) اور دیگر کا بھی، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے نجاشی کے بارے میں فرمایا : قوموا فصلوا علی (تم اٹھوا اور اس پر نماز پڑھو) اور اصبغ نے کہا ہے : نماز جنازہ سنت ہے اور انہوں نے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے، اس بارے میں مزید بیان سورة براۃ میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (
7
) میت کو مٹی میں دفن کرنا، اس میں چھپانا اور اسے مٹی کے ساتھ ڈھانپ دینا یہ واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یواری سوءۃ اخیہ “۔ (المائدہ :
31
) ترجمہ : پس بھیجا اللہ نے ایک کوا کھودتا تھا، زمین کو تاکہ دکھائے اسے کہ کس طرح چھپائے لاش اپنے بھائی کی۔ اس آیت کے تحت قبر بنانے کا حکم اور جو کچھ اس میں سے مستحب ہوتا ہے اور اس میں میت کو رکھنے کی کیفیت ذکر کی جائے گی اور اس پر مسجد بنانے کا حکم سورة ۃ ” الکہف “ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پس یہ مردوں سے متعلقہ احکام ہیں اور وہ جو زندوں پر ان کے لئے واجب ہوتے ہیں، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مردوں کا گالیاں نہ دو کیونکہ وہ اس تک پہنچ چکے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا ہے (
1
) (سنن نسائی الجنائز، جلد
1
، صفحہ
274
، ایضا صحیح بخاری، باب ماینھی من سب الاموات، حدیث نمبر
1308
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور سنن نسائی میں آپ ہی سے روایت ہے کہ ام المؤمنین نے فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس ایک مرنے والے کا ذکر برائی کے ساتھ کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم اپنے ہلاک ہونے والوں کا ذکر نہ کرو مگر خیر اور بھلائی کے ساتھ (
2
) (سنن نسائی الجنائز، جلد
1
، صفحہ
274
، ایضا صحیح بخاری، باب ماینھی من سب الاموات، حدیث نمبر
1308
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وانماتوفون اجورکم یوم القیمۃ “۔ پس مومن کا اجر ثواب ہے، اور کافر کا اجر عقاب (سزا) ہے دنیا میں نعمتوں اور آزمائش ومصائب کو اجر اور جزا میں شمار نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ فنا ہونے والی ہیں۔ (آیت) ” فمن زحزح عن النار “۔ پس جسے آتش جہنم سے دور رکھا گیا۔ (آیت) ” وادخل الجنۃ فقد فاز “۔ اور اسے جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ اس کے ساتھ کامیاب ہوگیا جس کی وہ آرزو اور تمنا رکھتا ہے اور اس سے وہ نجات پا گیا جس سے وہ ڈرتا ہے، اور اعمش نے زید بن وہب سے، انہوں نے عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : من سرہ ان یزحزح عن النار وان یدخل الجنۃ فلتاتہ منیتہ وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویاتی الی الناس الذی یحب ان یوتی الیہ (
3
) (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، البروالصلۃ، جلد
6
، صفحہ
340
، حدیث نمبر
13669
) ۔ (جسے یہ بات خوش کرتی ہے کہ اسے آتش جہنم سے دور رکھا جائے اور اسے جنت میں داخل کیا جائے تو چاہئے کہ اس کی موت اسے اس حال میں آئے کہ وہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور وہ لوگوں کے پاس وہ (شے) لے کر آئے جسے وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس کے پاس لائی جائے) اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جنت میں کوڑے (برابر) جگہ دینا اور اس میں موجود تمام چیزوں کی نسبت بہتر ہے اگر تم چاہو تو یہ پڑھ لو (آیت) ” فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز۔ (
4
) (المستدر التفسیر جلد
2
، صفحہ
327
، حدیث نمبر
3170
، جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن من رسول اللہ حدیث
2939
ضاء القرآن پبلی کیشنز) (آیت) ” وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور “۔ یعنی دنیا مومن کے ساتھ مکر کرتی ہے اور اسے دھوکہ دیتی ہے اور وہ اس کے طویل عرصہ تک باقی رہنے کا گمان کرنے لگتا ہے حالانکہ دنیا فانی ہے، اور متاع سے مراد ہر وہ شے ہے جس سے لطف اندوز ہوا جائے اور اس سے نفع اٹھایا جائے، جیسا کہ کلہاڑا، ہانڈی اور پیالہ پھر یہ زائل اور ختم ہوجاتا ہے، اور اس کی ملکیت باقی نہیں رہتی، اکثر مفسرین نے یہی کہا ہے۔ حسن نے کہا ہے : جیسا کہ سرسبز و شاداب نباتات اور بچیوں سے دل بہلانا اس کا کوئی حاصل اور نتیجہ نہیں۔ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا : یہ چھوڑا ہوا سازو سامان ہے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں سمیت برباد اور تباہ ہوجائے لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس سامان سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبردای کے لئے اتنا لے لے جتنی وہ استطاعت رکھتا ہے۔ تحقیق کسی نے کتنا خوب اور اچھا کہا ہے : ھی الدار دار الاذی والقذی ودارلفناء ودارالغیر : یہ (دنیا) اذیتوں اور تکلیفوں کا گھر ہے اور یہ فناہ ہونے والا اور تکبر ونحوت کا گھر ہے۔ فلو نل تھا بحذا فیرھا لمت ولم تقض منھا الوطر : پس اگر تو اسے مکمل طور پر بھی پالے تو یقینا تجھے موت آئے گی اور تیرا مطلوب حاصل نہ ہوا ہوگا۔ ایامن یؤمل طول الخلود وطول الخلود علیہ ضرر : اے وہ جو اس سے طویل آرزوئیں وابستہ رکھتا ہے اس پر ہمیشہ کی آرزو رکھنا باعث ضرر ہے۔ اذا انت شبت وبان الشباب ولا خیر فی العیش بعد الکبر : جب تو بوڑھا ہوجائے گا اور جوانی ڈھل جائے گی تو پھر بڑھاپے کے بعد زندگی میں کوئی مزہ اور خیر نہیں۔ اور (آیت) ” الغرور “ (عین کے فتحہ کے ساتھ) اس کا معنی شیطان ہے، وہ لوگوں کو جھوٹے وعدوں اور تمناؤں کے ساتھ دھوکہ دیتا ہے، ابن عرفہ نے کہا ہے : غرور سے مراد وہ شے ہے جسے تو ظاہرا دیکھے تو تو اسے پسند کرے اور اس کا باطن مکروہ (ناپسندیدہ) یامجہول ہو، اور شیطان کمزور ہے، کیونکہ وہ نفس کی محبت پر ابھارتا ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ برا ہوتا ہے فرمایا : اس سے بیع الغرر بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ بیع کا ظاہر اسے دھوکہ دیتا ہے اور باطن مجہول ہوتا ہے۔
Top