Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 185
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ١ؕ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ
كُلُّ : ہر نَفْسٍ : جان ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَاِنَّمَا : اور بیشک تُوَفَّوْنَ : پورے پورے ملیں گے اُجُوْرَكُمْ : تمہارے اجر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن فَمَنْ : پھر جو زُحْزِحَ : دور کیا گیا عَنِ : سے النَّارِ : دوزخ وَاُدْخِلَ : اور داخل کیا گیا الْجَنَّةَ : جنت فَقَدْ فَازَ : پس مراد کو پہنچا وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَآ : دنیا اِلَّا : سوائے مَتَاعُ : سودا لْغُرُوْرِ : دھوکہ
ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تو جو شخص آتش جہنم سے دور رکھا گیا اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔
آیت نمبر : 185۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) جب اللہ تعالیٰ نے بخل کرنے والوں اور ان کے کفر کے بارے ان کے اس قول میں خبر دی : (آیت) ” ان اللہ فقیر ونحن اغنیآء “ اور مومنین کو ان کی اذیت پر صبر کرنے کے بارے میں اپنے اس قول میں حکم ارشاد فرمایا ” لتبلون “۔ الآیہ “۔ (تو پھر) بیان کیا کہ وہ ختم ہوجانے والی چیزوں میں سے ہے اور وہ ہمیشہ نہیں رہے گا، کیونکہ دنیا کی انتہا اور اختتام قریب ہے اور قیامت کا دن یوم جزا (بدلے کا دن) ہے (آیت) ” ذائقۃ الموت “۔ یہ ذوق سے ماخوذ ہے اور یہ (موت) ایسی شے ہے جس سے انسان کو پناہ نہیں، اور نہ ہی اس سے کوئی حیوان الگ اور جدا ہے (یعنی ہر ذی روح کو موت آنا یقینی ہے) امیہ بن ابی الصلت نے کہا : من لم یمت عبطۃ یمت ھرما للموت کاس والمرذائقھا : جو عین عالم شباب میں نہیں مرتا اسے بڑھاپے میں موت آجاتی ہے موت تو (شراب سے بھرا ہوا) ایک جام اور آدمی اس کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : الموت باب وکل الناس داخلہ فلیت شعری بعد الباب مالدار : موت ایک دروازہ ہے اور تمام لوگ اس سے داخل ہونے والے ہیں اے کاش مجھے علم ہوتا اس دروازے کے بعد گھر کون سا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) عام قرات (آیت) ” ذآئقۃ الموت “۔ اضافت کے ساتھ ہے اور اعمش، یحی اور ابی اسحاق نے ذائقۃ الموت “۔ یعنی ذائقۃ کو تنوین کے ساتھ اور الموت کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 550 دارالکتب العلمیہ) انہوں نے کہا ہے : کیونکہ موت بعدتو کوئی ذائقہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ اسم فاعل کی دو قسمیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بمعنی ماضی ہو۔ اور دوسری یہ کہ وہ بمعنی استقبال ہو، پس اگر تو پہلا معنی مراد لے گا تو اس میں تو صرف مابعد کی طرف اضافت ہی ہے، جیسے تیرا یہ قول ہے : ھذا ضارب زیدا مس اور قاتل بکر امس، کیونکہ اسے اسم جامد کے قائم مقام رکھا جاتا ہے اور وہ علم ہے، جیسا غلام زید اور صاحب بکر۔ شاعر نے کہا ہے : الحافظوعورۃ العشیرۃ لایا تیھم من ورائھم وکف : (اس میں الحافظ اسم مابعد کی طرف مضاف ہو کر استعمال ہو رہا ہے) اور اگر دوسرا معنی مراد لیں تو جر جائز ہے اور نصب اور تنوین کی بھی ہی صورت ہے اور یہی اصل ہے، کیونکہ یہ (اسم فاعل) قائم مقام فعل مضارع کے ہوتا ہے اور اگر فعل غیر متعدی ہو، تو پھر یہ متعدی نہیں ہوتا جیسے قائم زید اور اگر وہ متعدی ہو تو تو اسے متعدی بنائے اور اس کے ساتھ نصب دے اور یہ کہے : زید ضارب عمروا ‘ بمعنی یضرب عمروا۔ اور تخفیف کے لئے تنوین کا حذف اور اضافت جائز ہوتی ہے۔ جیسا کہ المراز نے کہا ہے : سل الھوم بکل معطی راسہ فاج مخالط صھبۃ متعیس : مغتال احبلہ مبین عنقہ فی منکب زین المطی عرندس : تنوین کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے اور اصل میں : معط راسہ تنوین اور نصب کے ساتھ ہے اور اس کی مثل قرآن کریم میں بھی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ھل ھن کاشفات ضرہ “۔ اور اس کی مثل نہیں۔ مسئلہ نمبر : (3) پھر تو جان کہ موت کے کچھ اسباب اور اس کی کچھ علامات ہیں، پس بندہ مومن کی موت کی علامات میں سے پیشانی پر پسینہ کا آنا ہے، اسے نسائی نے حضرت بریدہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بندہ مومن پیشانی کے عرق آلود ہونے کے ساتھ فوت ہوتا ہے۔ (1) (سنن نسائی الجنائز، جلد 1، صفحہ 259 ) ۔ اور ہم نے اسے ” التذکرہ “ میں بیان کیا ہے اور جب وہ قریب المرغ ہو تو اسے شہادت کی تلقین کی جائے، کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ” لقنوا موتا کم لا الہ الا اللہ “۔ (2) (صحیح مسلم، الجناز، جلد 1، صفحہ 300) (اپنے مرنے والوں کو ” لا الہ الا اللہ “ کی تلقین کرو) تاکہ یہ اس کا آخری کلام ہو اور اس کی زندگی کا اختتام کلمہ شہادت کے ساتھ ہو اور اس پر باربار اس کا اعادہ نہ کیا جائے تاکہ وہ پریشان اور تنگ نہ ہوجائے۔ اور اس وقت سورة یسین پڑھنا مستحب ہوتا ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : اقرؤ یس علی موتاکم “۔ (3) (اپنے مرنے والوں پر یسین پڑھو) اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے، اور علامہ الآجری نے کتاب النصیحہ میں حضرت ام درداء ؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ما من میت یقرء عندہ سورة یسن الاھون علیہ الموت “۔ (1) (الفردوس بما ثور الخطاب، جلد 4، صفحہ 32) (جس مرنے والے کے پاس سورة یسین پڑھی جاتی ہے اس پر موت آسان کردی جاتی ہے) پس جب روح قبض کی جاتی ہے اور نگاہ روح کی اتباع اور پیچھا کرتی ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے خبر دی ہے اور صحیح مسلم میں ہے اور عبادات اٹھ جاتی ہیں اور پابندی (تکلیف) ختم ہوجاتی ہے، تو زندوں پر کچھ احکام لازم ہوتے ہیں، ان میں سے اس کی آنکھیں بند کرنا، اور اس کے نیک اور صالح بھائیوں دوستوں کو اس کی موت کی خبر دینا ہے، اور ایک قوم نے اسے مکروہ کہا ہے اور کہا ہے یہ موت کی خبر اور اعلان ہے، اور پہلا زیادہ صحیح ہے، ہم نے اسے کسی دوسرے مقام پر بیان کیا ہے اور ان احکام میں سے غسل ودفن کے ساتھ اس کی تیاری کرنا بھی ہے تاکہ اس میں تغیر اور تبدیلی نہ آجائے، حضور نبی مکرم ﷺ نے اس قوم سے کہا جنہوں نے میتوں کو دفن کرنے میں تاخیر کی : عجلوا بدفن جیفتکم اپنے مردوں کو دفن کرنے میں جلدی کرو) اور مزید فرمایا : اسرعوا بالجنازۃ الحدیث (جنازہ لے جانے میں جلدی کرو) اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (4) اور رہا میت کے غسل کا مسئلہ تو یہ سوائے شہید کے تمام مسلمانوں کے لئے سنت ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ میت کو غسل دینا واجب ہے، قاضی عبدالوہاب نے یہی کہا ہے۔ اور پہلا کتاب کا مذہب ہے، اور ان دونوں قولوں پر علماء کا عمل ہے اور اختلاف کا سبب حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جو آپ نے ام عطیہ کو اپنی بیٹی زینب کو غسل دینے کے بارے میں فرمایا، جیسا کہ وہ مسلم میں موجود ہے، اور بعض نے کہا ہے : وہ حضرت ام کلثوم تھیں، جیسا کہ ابو داؤد کی کتاب میں موجود ہے : ” تم انہیں تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار غسل دینا اگر تم اسے دیکھو (2) (سنن ابی داؤد، الجنائز، جلد 2، صفحہ 92، ایضا صحیح بخاری، باب غسل المیت ووضونہ بالماء والسدر، حدیث نمبر 1175، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث علماء کے نزدیک میت کو غسل دینے کے بارے میں اصل ہے، پس کہا گیا ہے کہ اس امر سے مراد غسل کا حکم بیان کرنا ہے کہ وہ واجب ہے اور بعض نے کہا ہے : اس سے مقصود غسل کی کیفیت کی تعلیم ہے لہذا اس میں کوئی ایسی شے نہیں ہے جو غسل کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہو، وہ کہتے ہیں کہ اس پر آپ ﷺ کا قول ” ان رایتن ذالک “ دلالت کرتا ہے اور یہ امر کے ظاہر کو وجوب سے نکالنے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے اسے ان کی نظر وفکر کے سپرد کردیا۔ ان کو کہا گیا : اس میں یہ بعد اور دوری ہے، کیونکہ تمہارا ان رایتن کو امر کی طرف لوٹانا، یہ فہم میں جلدی آنے والا نہیں ہے بلکہ یہ بالفور اس شرط کو مذکورہ (مفہوم کے) اقرب کی طرف لوٹانے کا ذریعہ ہے اور وہ اس سے اکثر اور زیادہ ہے “ یا پھر اعداد میں تخیر کی طرف لوٹاتا ہے۔ المختصر اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ میت کو غسل دینا مشروع ہے شریعت میں اس پر عمل کیا گیا ہے اسے (کبھی) نہیں چھوڑا جائے گا اور اس کا طریقہ غسل جنابت کے طریقہ کی طرح ہے جیسا کہ معروف ہے، اور بالاجماع ایک میت کو غسل دینے میں سات بار غسل سے تجاوز نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ اسے ابو عمر نے بیان کیا ہے، اگر ساتویں بار غسل دینے کے بعد اس سے کوئی شے خارج ہو تو صرف اس مخصوص جگہ کو دھو ڈالا جائے گا، اور اس کا حکم جنبی کے حکم کی طرح ہے جبکہ اسے غسل کے بعد حدث لاحق ہوجائے جب میت کے غسل سے فارغ ہوجائے تو اسے اس کے کپڑوں میں کفن دو اور وہ یہ ہیں۔ عام علماء کے نزدیک کفن دینا واجب ہے، پس اگر اس کا مال ہو تو پھر عام علماء کے نزدیک اس کے رأس المال سے کفن دیا جائے گا، مگر طاؤس نے یہ کہا ہے کہ اس کا مال تھوڑا ہو یا زیادہ اس کے تیسرے حصہ سے ہی کفن دیا جائے گا۔ اور اگر میت ان میں ہو کہ اس کا نفقہ اس کی زندگی میں ہی کسی اور کے ذمہ لازم ہو مثلا آقا کے ذمہ۔۔۔۔ اگر وہ غلام ہو۔۔۔۔ یا باپ یا خاوند یا بیٹے کے ذمہ، تو بلاتفاق (کفن) ان پر ہی ہوگا، پھر بیت المال پر یا مسلمانوں کی جماعت پر کفن کفایہ ہوگا اور وہ شے جو اس میں سے تعین فرض کے ساتھ متعین ہوجاتی ہے وہ ستر عورت (شرمگاہ کو ڈھانپنا) ہے اور اگر اس میں فالتو اور اضافی کپڑا ہو لیکن وہ سارے بدن کو نہ ڈھانپ سکتا ہو تو پھر اس کے چہرہ کی تکریم میں اس کے سر اور چہرہ کو ڈھانپا جائے گا اور اس کے محاسن کی تبدیلی میں سے جو ظاہر ہو اسے ڈھانپ دیا جائے اور اس میں اصل حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا قصہ ہے، کیونکہ انہوں نے احد کے دن ایک کمبل چھوڑا جب آپ کے سر کو ڈھانپا جاتا تو آپ کے پاؤں اس سے نکل جاتے اور جب آپ کے پاؤں کو ڈھانپا جاتا تو آپ کا سر باہر نکل جاتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اسے ان کے سر پر ڈال دو اور ان کے پاؤں پر اذکر (گھاس) رکھ دو (1) (صحیح مسلم الجنائز، جلدا، صفحہ 305، ایضا صحیح بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر 1197، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور تمام علماء کے نزدیک کفن میں کپڑوں کا طاق (وتر) ہونا مستحب ہے، اور تمام کا اس پر اجماع ہے کہ اس میں کوئی مخصوص حد نہیں ہے اور پھر کپڑوں کا سفید ہونا مستحب ہے، حضور ﷺ نے فرمایا : البسوا من ثیابکم البیاض فانھا من خیر ثیابکم و کفنوا فیھا موتاکم (2) (سنن ابی داؤد، الطب جلد 2، صفحہ 185) (تم اپنے سفید کپڑے پہنو کیونکہ یہ لباس تمہارے کپڑوں میں سے بہترین ہے اور اسی میں تم اپنے مردوں کو کفن دو ) اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور حضور نبی ﷺ کو سحول کے بنے ہوئے روئی کے تین سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا اور کسی اور رنگ کے کپڑوں میں کفن دینا جائز ہے مگر یہ کہ وہ خالص ریشم یا اون ملا ریشمی کپڑا نہ ہو، اور اگر ورثاء کفن میں بخل سے کام لیں تو پھر ان میں جمعہ اور عیدین کے دنوں میں پہنے جانے والے لباس کی مثل کپڑا لازم کردیا جائے گا، حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اذا کفن احدکم اخاہ فلیحسن کفنہ “۔ (3) (صحیح مسلم، الجنائز، جلد 1، صفحہ 306) (جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اچھے کپڑے میں کفن دے) اسے مسلم نے روایت کیا ہے، مگر یہ کہ وہ اس سے کم کے بارے وصیت کرے، اور اگر اس نے اسراف (فضول خرچی) کی وصیت کی تو کہا گیا ہے : (ضرورت سے) زائد میں (اس کی وصیت) باطل ہوگی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ثلث میں نافذ ہوگی۔ (لیکن) پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے (آیت) ” ولا تسرفوا “۔ ترجمہ : اور تم فضول خرچی نہ کرو۔ اور ابوبکر نے کہا ہے : بیشک یہ میت کے بدن سے نکلنے والی پیپ کے لئے ہے، اور جب وہ اس کے غسل اور اسے کفن پہنانے سے فارغ ہوجائے، اور اسے چارپائی پر رکھ دیا جائے اور اسے آدمی اپنے کندھوں پر اٹھائیں تو اس کا حکم یہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) اس کے لئے حکم تیز چلنے کا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اسرعوا بالجنازۃ فان تک صالحۃ فخیر تقدمونھا الیہ وان تکن غیر ذالک فشر تضعونہ عن رقابکم (1) (صحیح مسلم، الجنائز، جلد 1، صفحہ 307۔ 306) (تم میت کو لے کرتیز چلو پس اگر وہ نیک اور صالح ہے تو اچھا اور بہتر ہے تم اسے اس تک جلدی پہنچا دو گے اور اگر وہ اس کے سوا ہے تو وہ برا ہے تم اسے جلدی اپنی گردنوں سے اتار دو گے) (2) (صحیح بخاری، باب السرعۃ بالجنازہ، حدیث 1231، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس طرح نہیں ہے جیسا کہ آج جاہل لوگ آہستہ آہستہ لے کر چلتے ہیں، اور باربار راستے میں ٹھہرتے ہیں اور ایسی سر اور آواز کے ساتھ قرآن کریم کی قرات کرتے ہیں جو حلال نہیں ہے اور وہ بھی جائز نہیں ہے جو مصری شہروں کے لوگ اپنے مردوں کے ساتھ کرتے ہیں، نسائی نے روایت کیا ہے کہ محمد بن عبدالاعلی نے ہمیں خبر دی ہے انہیں نے کہا ہے کہ خالد نے اور اسے عیینہ بن عبدالرحمن نے خبر دی ہے اور کہا ہے کہ مجھے میرے باپ نے بتایا ہے کہ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ کے جنازہ میں حاضر ہوا اور زیاد نکل کر چارپائی کے آگے آگے چلنے لگا اور عبدالرحمن کے خاندان کے لوگ اور ان کے موالی چارپائی اٹھا کر اپنی ایڑئیوں پر چل رہے تھے اور کہتے تھے : آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے : پس وہ رینگ رینگ کر چل رہے تھے (یعنی انتہائی آہستہ رفتار سے) یہاں تک کہ جب ہم مربد کا کچھ راستہ طے کرچکے تو ہمیں پیچھے سے خچر پر حضرت ابوبکر ؓ آ کر ملے، پس جب آپ نے انہیں وہ کرتے ہوئے دیکھا تو ان پر اپنے خچر سے حملہ کردیا اور ان پر کوڑا برسایا اور فرمایا تم چھوڑ دو ! قسم ہے سب سے مکرم ومحترم ابو القاسم ﷺ کے چہرہ اقدس کی ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتے تھے اور ہم میت کو لے کر دوڑتے چلے جاتے تھے تو اس سے قوم خوش ہوگئی (3) (سنن نسائی، الجنائز، جلد 1، صفحہ 271) اور ابو ماجدہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کہ انہوں نے بیان کیا ہم نے حضور نبی مکرم ﷺ سے جنازہ کے ساتھ چلنے کے بارے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ڈر کی چال سے ذرا کم ہو اگر وہ میت نیک اور صالح ہوئی تو بہتر ہے اسے اس تک جلدی پہنچا دیا جائے گا اور اگر وہ اس کے سوا ہوئی تو پھر اہل نار سے دور رہو (4) (ابو داؤد باب الاسراع باالجنازہ، حدیث 2769، ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ رحمۃ اللہ علیہالحدیث “۔ ابو عمر نے کہا ہے : اس مسئلہ میں جس پر علماء کی جماعت ہے (وہ یہ ہے) کہ عام عادت سے چال تھوڑی تیز ہو، اور تیزی ان کے نزدیک آہستہ چال سے زیادہ پسندیدہ ہے، اور ایسی تیزی جو ان کمزور اور ضعیف لوگوں کے لئے باعث مشقت ہو جو جنازہ کے پیچھے چل رہے ہیں وہ مکروہ ہے اور حضرت ابراہیم نخعی نے کہا ہے : میت کو لے کر تھوڑا آہستہ چلو (لیکن) یہود ونصاری کی طرح رینگ رینگ کر نہ چلو اور ایک قوم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں الاسراع کی تاویل یہ کہ ہے کہ اس سے مراد دفن میں جلدی کرنا ہے، نہ کہ چلنے میں اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کردی ہے، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (6) اور رہی میت پر نماز جنازہ تو یہ جہاد کی طرح واجب (فرض) علی الکفایہ ہے یہی علماء کا مشہور مذہب ہے، امام مالک (رح) اور دیگر کا بھی، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے نجاشی کے بارے میں فرمایا : قوموا فصلوا علی (تم اٹھوا اور اس پر نماز پڑھو) اور اصبغ نے کہا ہے : نماز جنازہ سنت ہے اور انہوں نے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے، اس بارے میں مزید بیان سورة براۃ میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (7) میت کو مٹی میں دفن کرنا، اس میں چھپانا اور اسے مٹی کے ساتھ ڈھانپ دینا یہ واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یواری سوءۃ اخیہ “۔ (المائدہ : 31) ترجمہ : پس بھیجا اللہ نے ایک کوا کھودتا تھا، زمین کو تاکہ دکھائے اسے کہ کس طرح چھپائے لاش اپنے بھائی کی۔ اس آیت کے تحت قبر بنانے کا حکم اور جو کچھ اس میں سے مستحب ہوتا ہے اور اس میں میت کو رکھنے کی کیفیت ذکر کی جائے گی اور اس پر مسجد بنانے کا حکم سورة ۃ ” الکہف “ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پس یہ مردوں سے متعلقہ احکام ہیں اور وہ جو زندوں پر ان کے لئے واجب ہوتے ہیں، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” مردوں کا گالیاں نہ دو کیونکہ وہ اس تک پہنچ چکے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا ہے (1) (سنن نسائی الجنائز، جلد 1، صفحہ 274، ایضا صحیح بخاری، باب ماینھی من سب الاموات، حدیث نمبر 1308، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور سنن نسائی میں آپ ہی سے روایت ہے کہ ام المؤمنین نے فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس ایک مرنے والے کا ذکر برائی کے ساتھ کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم اپنے ہلاک ہونے والوں کا ذکر نہ کرو مگر خیر اور بھلائی کے ساتھ (2) (سنن نسائی الجنائز، جلد 1، صفحہ 274، ایضا صحیح بخاری، باب ماینھی من سب الاموات، حدیث نمبر 1308، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وانماتوفون اجورکم یوم القیمۃ “۔ پس مومن کا اجر ثواب ہے، اور کافر کا اجر عقاب (سزا) ہے دنیا میں نعمتوں اور آزمائش ومصائب کو اجر اور جزا میں شمار نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ فنا ہونے والی ہیں۔ (آیت) ” فمن زحزح عن النار “۔ پس جسے آتش جہنم سے دور رکھا گیا۔ (آیت) ” وادخل الجنۃ فقد فاز “۔ اور اسے جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ اس کے ساتھ کامیاب ہوگیا جس کی وہ آرزو اور تمنا رکھتا ہے اور اس سے وہ نجات پا گیا جس سے وہ ڈرتا ہے، اور اعمش نے زید بن وہب سے، انہوں نے عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : من سرہ ان یزحزح عن النار وان یدخل الجنۃ فلتاتہ منیتہ وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویاتی الی الناس الذی یحب ان یوتی الیہ (3) (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، البروالصلۃ، جلد 6، صفحہ 340، حدیث نمبر 13669 ) ۔ (جسے یہ بات خوش کرتی ہے کہ اسے آتش جہنم سے دور رکھا جائے اور اسے جنت میں داخل کیا جائے تو چاہئے کہ اس کی موت اسے اس حال میں آئے کہ وہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور وہ لوگوں کے پاس وہ (شے) لے کر آئے جسے وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس کے پاس لائی جائے) اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جنت میں کوڑے (برابر) جگہ دینا اور اس میں موجود تمام چیزوں کی نسبت بہتر ہے اگر تم چاہو تو یہ پڑھ لو (آیت) ” فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز۔ (4) (المستدر التفسیر جلد 2، صفحہ 327، حدیث نمبر 3170، جامع ترمذی، کتاب تفسیر القرآن من رسول اللہ حدیث 2939 ضاء القرآن پبلی کیشنز) (آیت) ” وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور “۔ یعنی دنیا مومن کے ساتھ مکر کرتی ہے اور اسے دھوکہ دیتی ہے اور وہ اس کے طویل عرصہ تک باقی رہنے کا گمان کرنے لگتا ہے حالانکہ دنیا فانی ہے، اور متاع سے مراد ہر وہ شے ہے جس سے لطف اندوز ہوا جائے اور اس سے نفع اٹھایا جائے، جیسا کہ کلہاڑا، ہانڈی اور پیالہ پھر یہ زائل اور ختم ہوجاتا ہے، اور اس کی ملکیت باقی نہیں رہتی، اکثر مفسرین نے یہی کہا ہے۔ حسن نے کہا ہے : جیسا کہ سرسبز و شاداب نباتات اور بچیوں سے دل بہلانا اس کا کوئی حاصل اور نتیجہ نہیں۔ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا : یہ چھوڑا ہوا سازو سامان ہے ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں سمیت برباد اور تباہ ہوجائے لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس سامان سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبردای کے لئے اتنا لے لے جتنی وہ استطاعت رکھتا ہے۔ تحقیق کسی نے کتنا خوب اور اچھا کہا ہے : ھی الدار دار الاذی والقذی ودارلفناء ودارالغیر : یہ (دنیا) اذیتوں اور تکلیفوں کا گھر ہے اور یہ فناہ ہونے والا اور تکبر ونحوت کا گھر ہے۔ فلو نل تھا بحذا فیرھا لمت ولم تقض منھا الوطر : پس اگر تو اسے مکمل طور پر بھی پالے تو یقینا تجھے موت آئے گی اور تیرا مطلوب حاصل نہ ہوا ہوگا۔ ایامن یؤمل طول الخلود وطول الخلود علیہ ضرر : اے وہ جو اس سے طویل آرزوئیں وابستہ رکھتا ہے اس پر ہمیشہ کی آرزو رکھنا باعث ضرر ہے۔ اذا انت شبت وبان الشباب ولا خیر فی العیش بعد الکبر : جب تو بوڑھا ہوجائے گا اور جوانی ڈھل جائے گی تو پھر بڑھاپے کے بعد زندگی میں کوئی مزہ اور خیر نہیں۔ اور (آیت) ” الغرور “ (عین کے فتحہ کے ساتھ) اس کا معنی شیطان ہے، وہ لوگوں کو جھوٹے وعدوں اور تمناؤں کے ساتھ دھوکہ دیتا ہے، ابن عرفہ نے کہا ہے : غرور سے مراد وہ شے ہے جسے تو ظاہرا دیکھے تو تو اسے پسند کرے اور اس کا باطن مکروہ (ناپسندیدہ) یامجہول ہو، اور شیطان کمزور ہے، کیونکہ وہ نفس کی محبت پر ابھارتا ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ برا ہوتا ہے فرمایا : اس سے بیع الغرر بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ بیع کا ظاہر اسے دھوکہ دیتا ہے اور باطن مجہول ہوتا ہے۔
Top