Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 190
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
خَلْقِ
: پیدائش
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَاخْتِلَافِ
: اور آنا جانا
الَّيْلِ
: رات
وَالنَّھَارِ
: اور دن
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں ہیں
لِّاُولِي الْاَلْبَابِ
: عقل والوں کے لیے
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر :
190
تا
200
۔ اس میں پچیس : مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان فی خلق السموت والارض “۔ اس کا معنی سورة البقرہ میں کئی مقامات پر گزر کئی مقامات پر گزر چکا ہے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة کا اختتام ان آیات میں نظر و استدلال کے حکم کے ساتھ کیا، کیونکہ یہ پیدا نہیں ہو سکتے مگر اسی کی جانب سے جو حی وقیوم ہے قدرت والا ہے، پاک ہے، سلامت ومحفوط ہے، (ہر عیب اور کمزوری سے) اور کل جہاں سے بےنیاز اور غنی ہے، تاکہ انکا ایمان یقین کے ساتھ مستند ہوجائے نہ کہ فقط تقلید (پر اس کا انحصار ہو) (آیت) ” لایت لاولی الالباب “۔ یعنی ان کے لئے نشانیاں ہیں جو اپنی عقلوں کو دلائل میں غوروفکر کرنے میں استعمال کرتے ہیں، اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا : جب یہ آیت حضور نبی مکرم ﷺ پر نازل ہوئی آپ اٹھے نماز پڑھنے لگے، تو اتنے میں حضرت بلال ؓ حاضر وہ آپ کو نماز کے بارے (مراد جماعت کے لئے) عرض اٹھے پڑھنے لگے، تو انہوں نے آپ ﷺ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ رو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے بلال ! کیا میں شکر گزاربندہ نہ بنوں ؟ تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر آج کی رات یہ آیت نازل فرمائی ہے (آیت) ” ان فی خلق السموت والارض واختلاف الیل والنھار لایت الاولی الالباب “۔ پھر آپ نے فرمایا : اس کے لئے ہلاکت ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور وفکر نہ کیا (
1
) (الکشاف، جلد
1
، صفحہ
453
، مکتب الاعلام الاسلامی، ایضا صحیح بخاری، کتاب تفسیر سورة الفتح، حدیث نمبر
4460
، حدیث عائشہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
2
) علماء نے بیان کیا ہے، نیند سے بیدار ہونے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے چہرے پر (ہاتھ) پھیرے، اور حضور نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے ان دس آیات کی قرات سے اپنے قیام کا آغاز کرے، یہ صحیحین اور دیگر کتب میں ثابت ہے اور اس کا بیان آگے آئے گا، پھر وہ نماز ادا کرے، جو اس کے ذمہ فرض ہے، تو اس طرح وہ تفکر اور عمل دونوں کو جمع کرلے گا، اور یہی افضل عمل ہے جیسا کہ اس کا بیان اس کے بعد اسی آیت میں آئے گا اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رات سورة ” آل عمران “ کی آخری دس آیات پڑھتے تھے، اسے حافظ ابو نصر وائلی سجستانی نے کتاب ” الابانہ “ میں سلیمان بن موسیٰ عن مظاہر بن اسلم مخزوی عن المقبری عن ابی ہریرہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے اور سورة کی ابتدا میں حضرت عثمان ؓ کی روایت سے یہ پہلے گزر چکا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے آل عمران کی آخری آیات ہر رات پڑھیں اس کے لئے پوری رات قیام کرنے کا ثواب لکھ دیا گیا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الذین یذکرون اللہ قیما وقعودا وعلی جنوبھم “۔ اللہ تعالیٰ نے تین ہیئتیں ذکر فرمائی ہیں انسان اپنے غالب معاملات میں ان سے خالی نہیں ہوتا، تو گویا کہ یہ کیفیات اس کے جملہ اوقات کو محیط ہیں، اور اس معنی کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے، کان رسول اللہ ﷺ یذکر اللہ علی کل احیانہ۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحیض، جلد
1
صفحہ
162
) اسے مسلم نے روایت کیا ہے، پس اس میں بیت الخلا میں اور دوسرے مقامات پر ہونا سبھی داخل ہے حالانکہ علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے، اور عبداللہ بن عمر ؓ ابن سیرین اور نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے اسے جائز قرار دیا ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ حضرت عطاء اور حضرت شعبی (رح) نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، آیت اور حدیث کے عام ہونے کی بنا پر پہلا قول زیادہ صحیح ہے، حضرت نخعی رحمۃ اللہ علیہنے کہا ہے : بیت الخلا میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اوپر چڑھ جاتا ہے، اس کا معنی ہے کہ ملائکہ اس ذکر کو لے کر بلندیوں کی جانب چڑھ جاتے ہیں اس حال میں کہ وہ ان کے صحف میں لکھا ہوتا ہے، پس مضاف کو حذف کردیا گیا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید “۔ (ق) ترجمہ : نہیں نکالتا اپنی زبان سے کوئی بات مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار ہوتا ہے۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” وان علیکم لحفظین، کراما کاتبین “۔ (الانفطار) ترجمہ : حالانکہ تم پر نگران (فرشتے) مقرر ہیں جو معزز ہیں (حرف بحرف) لکھنے والے ہیں۔ اور اس لئے بھی کہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو ہر حال میں ذکر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور کوئی استثنی نہیں کی، پس فرمایا : (آیت) ” اذکروا اللہ ذکر کثیرا “۔ (الاحزاب) ترجمہ : یاد کیا کرو اللہ تعالیٰ کو کثرت سے۔ مزید فرمایا : (آیت) ” فاذکرونی اذکرکم (البقرہ ؛
152
) ترجمہ : سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا۔ اور فرمایا : : (آیت) ” انا لا نضیع اجر لا نضیع اجر من احسن عملا، (الکہف) ترجمہ : (تو ہمارا دستور ہے کہ) ہم ضائع نہیں کرتے کسی کا اجر جو عمدہ اور (مفید) کام کرتا ہے۔ پس یہ سب عام ہے۔ پس ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ماجور ہوگا اور اسے ثواب دیا جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور ابو نعیم نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر بن مالک بن مالک، عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علہیم نے ہمیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھے میرے باپ (مراد احمد بن حنبل (رح)) نے بتایا کہ وکیع نے بیان کیا ہے سفیان نے عطا بن ابی مروان سے انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت کعب الاحبار (رح) سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا (کہ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : ” اے میرے پروردگار ! کیا تو قریب ہے کہ میں تیرے ساتھ سرگوشی کروں یا تو بعید ہے کہ میں تجھے ندادوں تو رب کریم نے فرمایا : یا موسیٰ انا جلیس میں ذکرنی (اے موسیٰ (علیہ السلام) میں اس کا ہمنشین ہوتا ہوں جو میرا ذکر کرے) عرض کی : اے میرے رب ! بلاشبہ ہم تو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں (اور اس میں) ہم تجھے اس سے برتر اور عظیم تر سمجھتے ہیں کہ ہم اس میں تیرا ذکر کریں، رب کریم نے فرمایا : وہ کیا ہے ؟ عرض کی : وہ جنابت اور قضائے حاجت کی حالت ہے، رب کریم نے فرمایا : یا موسیٰ اذکرنی علی کل حال (٭) (حلیۃ الاولیاء ابو نعیم، جلد،
6
، صفحہ
42
) (اے موسیٰ ! تو ہر حال میں میرا ذکر کر) اور جنہوں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ان کے نزدیک کراہیت کا سبب یا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اس سے بلند اور منزہ ہے کہ وہ ایسی جگہوں میں کیا جائے جن میں اس کے ذکر سے اعراض برتا گیا ہے جیسے کہ حمام میں قرآن کریم کی قرات کا مکروہ ہونا، یا پھر کراما کاتبین پر اس بناء پر رحم کھانا ہے کہ وہ انہیں غلاظت اور نجاست کی جگہ پر اتارے تاکہ وہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو لکھیں، واللہ اعلم۔ اور (آیت) ” قیما وقعودا “۔ ترکیب کلام کلام میں حال ہونے کی بنا پر یہ منصوب ہیں۔ (آیت) ” وعلی جنوبھم “۔ یہ بھی حال کے محل میں ہے، یعنی بمنعی ومضطعین ہے۔ اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : دعانا لجنبہ او قاعدا او قائما اس میں ترتیب پہلی آیت کے برعکس ہے، بمعنی دعانا مضطجعا علی جنبہ۔ (اس نے ہم سے دعا مانگی اس حال میں کہ وہ اپنے پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھا۔ مفسرین کی ایک جماعت جن میں سے حسن وغیرہ ہیں وہ اس طرف گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا قول (آیت) ” یذکرون اللہ “۔ آخر تک اس میں ذکر سے مراد نماز ہے، یعنی وہ نماز ضائع نہیں کرتے، پس وہ عذر کی حالت میں بیٹھ کر یا اپنے پہلوؤں کے بل لیٹ کر نماز پڑھتے ہیں (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
554
دارالکتب العلمیہ) اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مثل ہے : (آیت) ” فاذا قضیتم الصلوۃ فاذکروا اللہ قیما وقعودا وعلی جنوبکم “۔ (النسائ :
103
) ترجمہ : جب تم ادا کر چکو نماز تو ذکر کرو اللہ تعالیٰ کا کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہوئے ) ۔ حضرت ابن مسعود ؓ کے قول میں اس کا بیان آرہا ہے اور جب آیت نماز کے بارے میں ہو تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان نماز پڑھتا ہے کھڑے ہو کر، اور اگر وہ استطاعت نہ رکھے تو بیٹھ کر اور اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو پھر اپنے پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھتا ہے، جیسا کہ حضرت عمران بن حصین سے ثابت ہے، انہوں نے بیان کیا : مجھے بواسیر تھی تو میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے نماز کے بارے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو کھڑے ہو کر نماز پڑھ اور اگر تو اس کی استطاعت نہ رکھے تو بیٹھ کر، اور اگر تو اس کی استطاعت بھی نہ رکھے تو پھر پہلو کے بل لیٹ کر (نماز پڑھ لے) (
2
) (سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
87
ایضا، ابن ماجہ، حدیث نمبر
1212
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ائمہ نے روایت کیا ہے، حضور نبی کریم ﷺ اپنے وصال سے ایک سال پہلے نفل نماز بیٹھ کر ادا فرماتے تھے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے اور نسائی نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ (
3
) ابو عبدالرحمن نے کہا ہے : میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس حدیث کو روایت کیا ہو سوائے ابو داؤد خضری کے اور وہ ثقہ روای ہے، اور اس حدیث کو خطا گمان کرتا ہوں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
4
) علماء نے مریض اور بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز کی کیفیت اور اس کی ہیئت میں اختلاف کیا ہے، پس ابن عبدالحکم نے مالک سے ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے قیام میں چار زانو بیٹھ سکتا ہے، البویطی نے امام شافعی (رح) سے یہی بیان کیا ہے اور جب وہ سجدہ کرنے کا ارادہ کرے تو وہ جس قدر طاقت رکھتا ہو وہ سجدہ کرنے کی تیاری اور کوشش کرے، فرمایا : اسی طرح نفل پڑھنے والے کا حکم بھی ہے، اور اسی طرح ثوری کا قول بھی ہے اور اسی طرح لیث، امام احمد (رح)، اسحاق، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے، اور امام شافعی (رح) نے مزنی کی روایت میں کہا ہے : وہ اپنی ساری نماز میں تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھ سکتا ہے اور یہی امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب سے روایت کیا گیا ہے، پہلا قول مشہور ہے اور یہی مدونہ کا ظاہر ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
554
دارالکتب العلمیہ) اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور امام زفر (رح) نے کہا ہے : وہ تشہد میں بیٹھنے کی طرح وہ رکوع اور سجود بھی کرے گا۔ مسئلہ نمبر : (
5
) فرمایا : اگر وہ بیٹھنے کی استطاعت نہ رکھے تو وہ اپنے پہلو کے بل یا اپنی پیٹھ کے بل لیٹ کر نماز پڑھے یہ اسے اختیار ہے، یہی مدونہ کا مذہب ہے اور ابن حبیب نے ابن قاسم سے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی پیٹھ کے بل لیٹ کر نماز پڑھے، اور اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر (اور اگر اس پر قادر نہ ہو) تو پھر اپنے بائیں پہلو پر لیٹ کر نماز پڑھے۔ اور ابن المواز کی کتاب میں اس کے برعکس ہے، (یعنی) وہ اپنے دائیں پہلو پر نماز پڑھے ورنہ اپنے بائیں پہلو پر نماز پڑھے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ پیٹھ کے بل لیٹ کر نماز پڑھے، اور سحنون نے کہا ہے : وہ دائیں پہلو پر نماز پڑھے گا جس طرح اسے اپنی لحد میں رکھا جائے گا، اور اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو پھر اپنی پیٹھ پر لیٹ کر نماز پڑھ لے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر بائیں پہلو پر نماز پڑھے گا (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
554
دارالکتب العلمیہ) اور امام مالک (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے ؛: جب وہ چت لیٹ کر نماز پڑھے تو اس کے دونوں پاؤں قبلہ سمت ہوں گے اور امام شافعی (رح) اور ثوری (رح) نے کا ہ ہے : وہ اپنے پہلو پر نماز پڑھے گا اور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اور اگر وہ مرض کم ہونے کی وجہ سے قوی اور طاقتور ہوجائے درآنحالیکہ وہ نماز میں ہو، تو اس کے بارے ابن القاسم نے کہا ہے : وہ اپنی بابقی نماز میں کھڑا ہوجائے گا اور اپنی پہلی نماز پر ہی اس کی بنا کرے گا، یہی قول امام شافع، زفر اور طبری رحمۃ اللہ علہیم کا ہے، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے صاحبین یعقوب اور امام محمد رحمۃ اللہ علہیم نے اس کے بارے میں کہا ہے : جس نے ایک رکعت لیٹ کر نماز پر ھی پھر وہ تندرست ہوگیا وہ اپنی نماز نئے سرے سے پڑے گا، اور اگر وہ بیٹھ کر رکوع و سجود کر رہا ہے، پھر وہ تندرست ہوجائے تو امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے قول کے مطابق وہ اسی پر بنا کرے اور امام محمد (رح) کے قول کے مطابق وہ بنا نہ کرے، اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : جب کسی نے کھڑے ہو کر نماز شروع کی پھر وہ اشارے کی حد تک پہنچ گیا تو اسے بنا کر لینی چاہیے، اور امام ابو یوسف (رح) سے بھی یہی مروی ہے۔ اور امام مالک (رح) نے ایسے مریض کے بارے میں کہا ہے جو رکوع اور سجود کی استطاعت نہ رکھتا ہو حالانکہ وہ کھڑا ہونے اور بیٹھنے کی قدرت رکھتا ہو کہ وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے گا اور رکوع کیلئے اشارہ کرے گا اور جب سجدہ کرنے کا ارادہ کرے تو بیٹھ جائے اور سجود کے لئے اشارہ کرے، اور یہی امام ابو یوسف کا قول ہے اور امام شافعی (رح) کے قول کا قیاس ہے، اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : وہ بیٹھ کر نماز پڑھے گا۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اور جہاں تک تندرست لیٹ کر پڑھنے والے کی نماز کا تعلق ہے تو عمران بن حصین کی حدیث سے یہ زیادتی مروی ہے جو کسی اور کی روایت میں موجود نہیں، اور وہ یہ ہے صلاۃ الراقد مثل نصف صلاۃ القاعد (
1
) (صحیح بخاری، تقصیر الصلوۃ، جلد
1
، صفحہ
150
، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر
1048
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (لیٹ کر پڑھنے والے کی نماز بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کے نصف کی مثل ہے) ابو عمر نے کہا ہے کہ جمہور اہل علم نفلی نماز لیٹ کر پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے، اور وہ حدیث ہے جسے حسین المعلم کے سوا کسی نے روایت نہیں کیا اور وہ حسین ابن ذکوان ہے جس نے عبداللہ بن بریدہ سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی سند اور متن میں حسین پر ایسا اختلاف کیا گیا ہے جو اس کے بارے توقف کو ثابت کرتا ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو میں نہیں جانتا اس کی وجہ کیا ہے، پس اگر اہل علم میں سے کسی ایک نے ایسے آدمی کے لئے نفل نماز لیٹ کر پڑھنے کی اجازت دی ہے جو بیٹھنے پر قادر ہو یا قیام پر قادر ہو تو پھر اس کی وجہ یہی زیادتی ہے جو اس حدیث میں ہے اور یہی اس کی حجت اور دلیل ہے جس نے یہ موقف اختیار کیا ہے اور اگر انہوں نے ایسے آدمی کے لئے جو بیٹھنے یا کھڑا ہونے پر قادر ہو لیٹ کر نفل نماز پڑھنے کے مکروہ ہونے پر اجماع کیا ہے تو پھر حسین کی یہ حدیث یا غلط ہے یا پھر منسوخ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو (آیت) ” خلق السموت والارض “۔ سے اس پر استدلال کرتے ہیں کہ تبدیل ہونے والے کیلئے تبدیل کرنے والے کا ہونا ضروری ہے، اور اس تبدیلی لانے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قدرت کاملہ رکھتا ہو، اور اس کا اختیار ہو کہ وہ رسل (علیہم السلام) مبعوث فرمائے، پس اگر وہ کوئی رسول مبعوث فرمائے اور اس کی صداقت پر ایک معجزہ کے ساتھ دلیل بھی بیان کر دے تو پھر کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا، پس یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویتفکروں فی خلق السموت والارض “۔ تحقیق ہم نے ویذکرون کا معنی بیان کردیا ہے اور اس سے مراد یا تو زبان کا ذکر ہے یا پھر فرضی اور نفلی نماز ہے تو اللہ تعالیٰ نے دوسری عبادت کو ان میں سے ایک پر دوسری عبادت کے ساتھ عطف کیا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں اور اس کی مخلوقات میں غور وفکر کرنا اور لوگوں کی اس جماعت میں غور وفکر کرنا جو بکھری ہوئی ہے، تاکہ ان کی بصیرت میں اضافہ کرے : وفی کل شیء لہ ایۃ تدل علی انہ واحد : اور ہر شے میں اس کے لئے نشانی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ وہ یکتا ہے : اور یہ بھی کہا گیا ہے : یتفکرون “۔ کا حال پر عطف ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ منقطع ہے، پہلا قول زیادہ مناسب ہے اور فکر کا معنی ہے : تردو القلب فی الشیء (کسی شے میں دل کا متردد ہونا) کہا جاتا ہے : تفکر، اور رجل فکیر یعنی ایسا آدمی جو بہت زیادہ فکر کرنے والا ہو، حضور نبی مکرم ﷺ ایک قوم کے پاس سے گزرے وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غور وفکر کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : تفکروا فی الخلق ولا تتفکروا فی الخالق فانہ لا تقدررون قدرہ (
2
) (کنزالعمال، التفکر، جلد
3
، صفحہ
108
، حدیث نمبر
5706
) (تم مخلوق میں غور وفکر کرو اور خالق میں غور وفکر نہ کرو کیونکہ تم اس کی قدرت اور عظمت (کو پہنچاننے) کی قدرت نہیں رکھتے) بلاشبہ تفکر مخلوقات میں غور وفکر کرنا اور ذہن کو اس میں گھمانا ہے جیسا کہ فرمایا : (آیت) ” ویتفکروں فی خلق السموت والارض “۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سفیان ثوری نے مقام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں، پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، اور جب ستاروں کو دیکھا تو آپ پر غشی طاری ہوگئی، اور انتہائی حزن وغم اور فکر کی وجہ سے پیشان میں خون بہنے لگا، اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس اثنا میں کہ آدمی اپنے بستر پر لیٹا ہوا ہوا اور وہ ستاروں اور آسمان کی طرف دیکھے اور پھر یہ کہے ” اشھد ان لک ربا وخالقا اللھم اغفرلی فنظر اللہ الیہ فغفرلہ (
1
) (الکشاف، جلد
2
، صفحہ
454
) (میں شہادت دیتا ہوں کہ تمہارا رب اور خالق ہے اے اللہ ! میری مغفرت فرما پس اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر (رحمت) فرماتا ہے اور اسے بخشش دیتا ہے) اور آپ ﷺ نے فرمایا : لاعبادۃ کتفکر (
2
) (تاریخ ابن عساکر، جلد
4
، صفحہ
221
، دارالمسیرہ بیروت) (فکر کرنے کی طرح کوئی عبادت نہیں) اور حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا : تفکر ساعۃ خیر من عبادۃ سنۃ (
3
) (الاسرار المرفوعۃ الاخبار الموضوعۃ صفحہ
175
، حدیث نمبر
114
) (ایک ساعت کی غور وفکر ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے) اور ابن القاسم نے حضرت امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : حضرت ام الدرداء ؓ سے پوچھا گیا، حضرت ابو الدرداء ؓ کا زیادہ تر عمل کیا تھا :؟ تو انہوں نے بتایا : ان کا اکثر عمل غور وفکر میں مشغول رہنا تھا، تو ان سے پوچھا گیا : کیا آپ تفکر کو اعمال میں سے ایک عمل گمان کرتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں یہ تو یقین ہے حضرت ابن مسیب سے ظہر اور عصر کے درمیان نماز کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : یہ عبادت نہیں ہے، بلاشبہ عبادت اس عمل سے بچنا اور دور رہنا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، درتفکر (غور وفکر کرنا) اللہ تعالیٰ کے امر میں داخل ہے۔ اور حسن (رح) نے بیان کیا ہے : ایک ساعت کی غور وفکر رات بھر قیام کرنے سے بہتر ہے، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابو الدرداء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے یہی کہا ہے (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
555
دارالکتب العلمیہ) اور حسن (رح) نے کہا ہے : فکر کرنا مومن کا آئینہ ہے جس میں وہ انپی نیکیوں اور اپنی برائیوں کو دیکھتا ہے، اور ان میں سے جن میں وہ غور وفکر کرتا ہے آخرت کے خوف ہیں مثلا حشر ونشر، جنت اور اس کی نعمتیں اور جہنم اور اس کا عذاب اور یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ ابو سلیمان دارانی ؓ نے پانی کا برتن اٹھایا تاکہ آپ رات کی نماز کے لئے وضو کریں اور ان کے پاس ایک مہمان بھی تھا، تو اس نے آپ کو دیکھا کہ جب اپنا ہاتھ کو زے کے دستے پر رکھا تو اسی طرح غور وفکر کرتے ہوئے کھڑے رہے یہاں تک فجر طلوع ہوگئی تو اس نے ان سے کہا ؛ اے ابا سلیمان یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : جب میں نے اپنا ہاتھ کو زے کے دستے پر رکھا تو میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور وفکر کرنے لگا۔ (آیت) ” اذالاغلل فی اعناقھم والسلسل یسحبون “۔ (المومن) جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں، انہیں گھسیٹ کرلے جایا جائے گا) تو میں اپنی حالت کے بارے میں سوچنے لگا میں طوق سے ملوں گا اگر قیامت کے دن میری گردن میں ڈال دیا گیا، پس میں یہی سوچتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی، ابن عطیہ نے کہا ہے : ” یہ خوف کی انتہا ہے، اور امور میں بہتر میانہ روی ہے، اور امت کے علماء وہ نہیں ہیں جو اس راستے پر حجت ہیں، اللہ تعالیٰ کی کتاب کا علم اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے معانی اس کے لئے پڑھنا اور سیکھنا جو سمجھ سکتا ہو اور اس کے لئے نفع کی امید کی جاسکتی ہو اس سے افضل ہے “ ابن العربی نے کہا ہے : لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ دونوں عملوں میں سے کون سا افضل ہے فکر کرنا یا نماز پڑھنا، صوفیہ کا نظریہ یہ ہے کہ فکر کرنا افضل ہے، کیونکہ اس کا پھل اور نتیجہ معرفت ہے اور یہ مقامات شرعیہ میں سے افضل مقام ہے۔ اور فقہاء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ نماز افضل ہے، کیونکہ حدیث طیبہ میں اس پر برانگیختہ کرنا، اس کی طرف دعوت دینے اور اس کی ترغیب دلانے کا ذکر موجود ہے اور صحیحین میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر گزاری، ار آپ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت اٹھے اور آپ نے اپنے چہرہ اقدس سے نیند جھاڑی پھر سورة آل عمران کی آخری دس آیات پڑھیں، اور لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس کھڑے ہوئے اور خفیف سا وضو فرمایا، اور پھر تیرہ رکعتیں نماز ادا فرمائی (
1
) (صحیح بخاری، التفسیر جلد
2
۔ ، صفحہ
651
، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر
177
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الحدیث، تم پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے تم آپ ﷺ کے اس عمل کی طرف دیکھو تو یہ مخلوقات میں تفکر اور پھر اس کے بعد آپ کی نماز کی طرف متوجہ ہونے کا مجموعہ ہے، اور یہی وہ سنت ہے جس پر اعتماد کیا جاتا ہے، پس رہا صوفیہ کا طریقہ کہ ان میں سے ایک شیخ دن، رات اور مہینہ فکر کرنے والا ہوتا ہے وہ سست اور ڈھیلا نہیں پڑتا، لیکن یہ طریقہ راہ صواب سے بہت دور ہے عام انسان کے لائق اور مناسب نہیں ہے اور نہ آدمی اس پر مسلسل عمل پیرا رہ سکتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : میرے باپ نے مجھے بعض علماء مشرق سے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ میں ایک رات مصر کی مسجد الاقدام میں تھا، میں نے عشاء کی نماز پڑھی تو میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اپنے اوپر ہر طرف سے کمبل لپیٹ کر لیٹا ہوا ہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، اور ہم نے اس رات نماز (تہجد) پڑھی، پس جب صبح کی نماز کھڑی ہوئی تو وہ آدمی اٹھا، قبلہ شریف کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھی، میں نے یہ اس کی بہت بڑی جرات قرار دی کہ اس نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی ہے، چناچہ جب میں نماز سے فارغ ہوا اور وہ باہر نکلا تو میں بھی اس کے پیچھے چل پڑا تاکہ میں اسے نصیحت کروں پس جب میں اس کے قریب ہوا تو میں نے اسے یہ شعر کہتے ہوئے سنا : مسجی الجسم غائب حاضر منتبہ القلب صامت ذاکر : جسم کو ڈھانپنے والا غائب بھی ہے اور حاضر بھی اس کا دل بیدار ہے وہ خاموش بھی ہے اور ذاکر بھی۔ منقبض فی الغیوب منبسط کذاک من کان عارفا ذاکر : وہ غیب کے پردوں میں سمٹنے والا بھی ہے اور پھیلنے والا بھی اسی طرح وہ ہوتا ہے جو عارف ذاکر ہو۔ یبیت فی لیلہ اخافکر فھو مدی اللیل نائم ساھر : وہ اپنی رات فکر کرتے ہوئے گزار دیتا ہے پس وہ رات کے وقت سونے والا جاگ رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا : پس میں جان گیا کہ یہ ان میں سے ہے جو فکر کے ساتھ عبادت کرتے ہیں تو پھر میں اس سے واپس چلا گیا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
555
دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (
9
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا “۔ یعنی وہ عرض کرتے ہیں : تو نے کسی شے کو عبث اور بےکار پیدا نہیں کیا بلکہ تو نے اسے اپنی قدرت اور اپنی حکمت پر بطور دلیل پیدا کیا ہے اور باطل کا معنی زائل ہونے والی اور ختم ہونے والی ہے۔ اور اسی سے لبید کا قول ہے : الا کل شی ماخلا اللہ باطل : خبردار جان لو ! اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے فنا ہونے والی اور ختم ہونے والی ہے، اس میں باطل بمعنی زائل ہے۔ اور ” باطلا “ کو نصب دی گئی ہے کیونکہ وہ مصدر محذوف کی صفت ہے، یعنی اصل میں خلقا باطلا “ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حرف جر کے حذف ہونے کی بنا پر منصوب ہے، یعنی یہ ما خلق تھا للباطل تھا، اور یہ قول بھی ہے کہ یہ مفعول ثانی ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور خلق بمعنی جعل ہوگا۔ ” سبحنک “ نحاس نے موسیٰ بن طلحہ سے مسند روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے سبحان اللہ کے معنی کے بارے عرض کی گئی، تو آپ نے فرمایا : تنزیہ اللہ عن السوء (
2
) (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد والاذکار جلد
10
، صفحہ
102
، حدیث نمبر
16849
) (ہر عیب اور کمزوری سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا) اس کے بارے مکمل بحث سورة البقرہ میں گزر چکی ہے۔ (آیت) ” فقنا عذاب النار “۔ اور ہمیں جہنم کے عذاب سے پناہ عطا فرما، اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ “۔ (اے ہمارے رب بیشک تو نے جسے آگ میں داخل کردیا) تو تو نے اسے ذلیل ورسوا کردیا، اور مفضل نے کہا ہے : تو تو نے اسے ہلاک وبرباد کردیا۔ اور انہوں نے یہ شعر بھی کہا ہے : اخزی الالہ من الصلیب عبیدہ واللابسین قلائس الرھبان : اللہ تعالیٰ نے صلیب سے اپنے بندوں کو ہلاک کیا ہے حالانکہ وہ راہبوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا ہے (کہ اخزیتہ کا معنی ہے) تو نے اسے رسوا کردیا ہے اور تو نے اسے دور کردیا ہے کہا جاتا ہے : اخزاہ اللہ، اللہ تعالیٰ نے اسے دور کردیا اور اسے ہلاک کردیا۔ اور اس سے اسم الخزی ہے۔ ابن السکیت نے کہا ہے : خزی یخزی خزیا “ جب کوئی کسی آزمائش اور مصیبت میں پڑجائے واقع ہوجائے، اصحاب وعید نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے : جسے آتش جہنم میں داخل کیا جائے گا (اس کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہوگا) کہ وہ مومن نہ ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” فقد اخزیتہ “ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” وم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ “۔ (التحریم :
8
) ترجمہ : اس روز رسوا نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ (اپنے) نبی کو اور ان لوگوں کو جو آپ کے ساتھ ایمان لائے۔ اور جو کچھ انہوں نے کہا ہے مردود ہے کیونکہ اس پر دلائل قائم ہیں کہ جس نے گناہ کبیرہ کا اتکاب کیا اس سے ایمان کا اسم زائل نہ ہوگا۔ (یعنی گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا مومن باقی رہتا ہے) جیسا کہ اس کے بارے کچھ گزر چکا ہے اور کچھ آگے آئے گا۔ لہذا قول باری تعالیٰ : (آیت) ” من تدخل النار “ سے مراد وہ ہے جو ہمیشہ جہنم میں رہے گا (
1
) حضرت انس بن مالک (رح) نے یہی کہا ہے اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : تدخل تخلد کا مقلوب ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
5560
دارالکتب العلمیہ) اور ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح ہل حروراء نے کہا۔ اور حضرت سعید بن مسیب ؓ نے کہا ہے : یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں خاص ہے جنہیں آگ سے نہیں نکالا جائے گا (
3
) (زاد المسیر، جلد
1
۔
2
، صفحہ
418
) اسی لئے یہ فرمایا ہے : (آیت) ” وما للظلمین من انصار “۔ یعنی کفار کا کوئی مددگار نہیں ہے اور اہل معانی نے کہا ہے : الخزی یہ احتما رکھتا ہے کہ یہ حیاء کے معنی میں ہو، کہا جاتا ہے : خزی یخزی خزایۃ جب وہ شرم اور حیا محسوس کرے، فھو خذیان “۔ (شرمندہ ہونے والا) ذوالرمہ نے کہا ہے : خزایۃ ادرکتہ عند جو لتہ من جانب الحبل مخلوطا بھا الغضب : اس میں خزایۃ شرم وحیاء کے معنی میں ذکر کیا گیا ہے۔ پس اس دن خزی المومنین سے مراد تمام اہل ادیان کے سامنے ان کا دخول نار میں شرم وحیاء محسوس کرنا ہے یہاں تک کہ وہ اس سے باہر نکل آئیں۔ اور خزی اللکافرین سے مراد اللہ تعالیٰ کا انہیں بغیر موت کے جہنم میں ہلاک اور برباد کرنا ہے اور مومنین مرجائیں گے، تو اس طرح دونوں فریق جدا جدا ہوگئے، صحیح سنت میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے اسی طرح ثابت ہے، اسے مسلم نے روایت کیا ہے، یہ پہلے بھی گزر چکا ہے اور آگے بھی رہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان “۔ اس میں منادی سے مراد حضور نبی رحمت ﷺ کی ذات اقدس ہے، حضرت ابن مسعود ؓ حضرت ابن عباس ؓ اور اکثر مفسرین نے یہی کہا ہے (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
556
دارالکتب العلمیہ) اور حضرت قتادہ ؓ اور محمد بن کعب القرظی ؓ نے کہا ہے : اس سے مراد قرآن ہے، کیونکہ ان تمام نے تو رسول اللہ ﷺ سے سماع نہیں کیا (
5
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
556
دارالکتب العلمیہ) اس قول کی دلیل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے جنوں کے بارے میں خبر دی ہے جبکہ انہوں نے کہا : (آیت) ” انا سمعنا قرانا عجبا، یھدی الرشد “۔ (الجن) ترجمہ ؛ کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے راہ دکھاتا ہے ہدایت کی۔ اور پہلے قول والوں نے جواب دیا اور کہا : جنہوں نے قرآن کریم سنا گویا انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی، اور یہ معنوی طور پر صحیح ہے، اور ان امنوا میں ان حرف جر حذف ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے، یعنی یہ اصل میں بان امنوا ہے اور کلام میں تقدیم وتاخیر ہے یعنی سمعنا منادیاللایمان ینادی، یہ ابو عیبدہ سے منقول ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لام بمعنی الی ہے۔ یعنی ” للایمان “ سے مراد الی الایمان “ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ثم یعودون لما نھوا عنہ “۔ ) (المجادلہ :
8
) اور یہ ارشاد گرامی : (آیت) ” بان ربک اوحی لھا “۔ (الزلزلۃ :
5
) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” الحمد للہ الذی ھدنا لھذا “۔ (الاعراف :
43
) یعنی مراد لی ھذا ہے اور اس کی مثالیں کثیر ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لام اجل ہے یعنی مراد لاجل الایمان ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیاتنا “۔ یہ دعا میں تاکید اور مبالغہ ہے اور دونوں لفظوں کا معنی ایک ہے، کیونکہ غفر ار کفر دنوں کا معنی ستر (ڈھانپنا اور چھپانا) ہے، وتوفنا مع الابرار یعنی ہمیں موت دے نیکیاں کرنے والے انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ، یعنی ان کے گروہ اور زمرہ میں، ابرار کی واحد برا اور بار ہے اور اس کی اصل الاتساع (وسعت ہونا) سے ہے فکان البر متسع فی طاعۃ اللہ ومتعۃ لاہ رحمۃ اللہ، یعنی گویا کہ نیکی کرنیوالا اللہ تعالیٰ کی طاعت عبادت میں وسیع ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے لئے وسیع ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک “۔ یعنی علی السنۃ رسلک (اے ہمارے رب ہمیں وہ عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولون کی زبانوں سے ہمارے ساتھ وعدہ فرمایا) یعنی یہ وسئل القریۃ (یوسف
82
) ای اھل القریۃ کی مثل ہے، اعمش اور زہری نے تخفیف کے ساتھ رسلک پڑھا ہے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
556
دارالکتب العلمیہ) اور اس سے مراد وہ ہے جو کچھ مومنین کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور ملائکہ کے استغفار کرنے کے بارے ذکر کیا گیا ہے اور ملائکہ زمین میں رہنے والوں کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں اور وہ مراد ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا مومنین کے لئے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضور نبی مکرم ﷺ کا اپنی امت کے لئے استغفار کرنے کے بارے کیا گیا ہے، (آیت) ” ولا تحزنا “ یعنی تو ہمیں عذاب نہ دے اور تو ہمیں ہلاک نہ کر اور تو ہمیں رسوا نہ کر، اور تو ہمیں ذلیل نہ کر، اور تو ہمیں دور نہ کر اور تو ہمیں قیامت کے دن ناپسند نہ کر۔ (آیت) ” انک لا تخلف المیعاد “۔ اگر کہا جائے، ان کے اس قول کی وجہ کیا ہے، ربنا واتنا ماوعدتنا علی رسلک حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا، تو اس کے جواب کی تین وجوہ ہیں : (
1
) بیشک اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے، پس انہوں نے سوال کیا کہ وہ ان میں سے ہوجائیں جن کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا ہے نہ کہ ان کے ساتھ جس سے رسوائی، ذلت اور سزا کا وعدہ کیا گیا ہے۔ (
2
) کہ انہوں نے یہ دعا عبادت اور خضوع کی جہت پر مانگی، اور دعا عبادت کا مغز ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرح ہے : (آیت) ” قل رب احکم بالحق “۔ (الانبیائ :
112
) ترجمہ : آپ نے عرض کی میرے رب فیصلہ فرما دے (ہمارے درمیان) حق کے ساتھ) اگرچہ وہ حق کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ (
3
) انہوں نے یہ التجا کی کہ انہیں وہ کچھ جلدی عطا کیا جائے جو دشمن کے خلاف ان کی مدد ونصرت کا وعدہ ان کے ساتھ کیا گیا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کے صحابہ کرام کے بارے میں یہ بیان ہے کہ انہوں نے دین کے غلبے کے لئے یہ التجا کی۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس سے اللہ تعالیٰ نے کسی عمل پر ثواب کا وعدہ فرمایا ہے تو وہ بطور رحمت کے اس کے لئے اسے پورا کرے گا اور جس کے لئے کسی عمل پر سزا کا وعدہ کیا ہے تو اس میں اس کا اختیار اور مرضی ہے (
1
) (مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، جلد
3
، صفحہ
180
، حدیث نمبر
3303
) عرب وعدہ خلافی پر مذمت کرتے ہیں اور وعیدخلافی میں مدح اور تعریف کرتے ہیں یہاں کہ ان میں سے کسی نے کہا ہے : ولا یرھب ابن العم ما عشمت صولتی ولا اختفی من خشیۃ المتھدد : ابن العم کو کوئی خوف نہ ہوگا جب تک میں رعب وسطوت کے ساتھ زندہ رہا اور میں کسی ڈرانے والے کے خوف سے نہیں چھپتا۔ وانی متی اوعدتہ او وعدتہ لمخلف ایعادی ومنجز موعدی : اور میں نے جب اسے دھمکایا یا اس سے وعدہ کیا تو وہ میری وعید کے خلاف کرتا ہے اور وعدہ کو پورا کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
14
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاستجات لھم ربھم “۔ پس ان کے رب نے ان کی دعا کو قبول کرلیا۔ حسن نے کہا ہے : وہ مسلسل کہتے رہے۔ ربنا ربنا (اے ہمارے رب، اے ہمارے رب) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔ اور امام جعفر صادق (رح) نے بیان کیا ہے : جسے کوئی مہم درپیش ہو (یا کسی کو غم لاحق ہو) تو وہ پانچ مرتبہ کہے ربنا تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے نجات عطا فرما دے گا جس سے وہ ڈر رہا ہے اور وہ کچھ اسے عطا فرما دے جس کا وہ ارادہ رکھتا ہے آپ سے عرض کی گئی : یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو (آیت) ” الذین یذکرون اللہ قیما وقعودا ولی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار، ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ، وما للظلمین من انصار، ربنا انناسمعنا منادیاینادی للایمان ان امنو بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار، ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک ولا تخزنا یوم القیمۃ انک لا تخلف المیعاد : مسئلہ نمبر : (
15
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” انی یہ اصل میں بانی تھا اور عیسیٰ بن عمر نے انی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے یعنی پس کہا : (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
557
دارالکتب العلمیہ) اور حاکم ابو عبداللہ نے اپنی صحیح میں حضرت ام سلمہ ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بارے میں کسی شی کے ساتھ عورتوں کا ذکر نہیں کیا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” فاستجاب لھم ربھم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر اوانثنی الآیہ (
3
) (المستدرک التفسیر جل
2
، صفحہ
328
، حدیث نمبر
3174
، ایضا جامع ترمذی، باب من سورة النساء، حدیث
2949
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسے ترمذی نے بیان کیا ہے اور من تاکید کے لئے داخل ہے، کیونکہ اس سے پہلے حرف نفی ہے، اور کو فیوں نے کہا ہے : یہ تفسیر کے لئے ہے اور اس کا حذف جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اس معنی کے لئے داخل ہے جو اس کے بغیر کلام ادا نہیں کرسکتی اور اسے حذف کیا جاسکتا جب یہ نفی کی تاکید کے لئے ہوتا، (آیت) ” بعضکم من بعض “۔ یہ مبتدا خبر ہے، یعنی تمہارا دین ایک ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : تم میں سے بعض بعض کی جز ہیں ثواب میں، احکام میں، اور مدد ونصرت اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں اور حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہنے کہا ہے : تمہارے مرد طاعت میں تمہاری عورتوں کی مثل ہیں، اور تمہاری عورتیں طاعت (و عبادت) میں تمہارے مردوں کے مشابہ ہیں، اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” والمؤمنون والمؤمنت بعضھم اولیآء بعض (التوبہ :
71
) (نیز مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں) اور کہا جاتا ہے : فلان منی، یعنی فلاں میرے مذہب اور میرے اخلاق پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فالذین ھاجروا “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے، یعنی جنہوں نے اپنے وطنوں کو چھوڑا اور مدینہ طیبہ کی طرف چلے گئے (آیت) ” واخرجوا من دیارھم “ اور وہ اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت کے سبب اپنے گھروں سے نکالے گئے، (آیت) ” وقتلوا “۔ اور انہوں نے میرے دشمنو کے خلاف جنگ کی۔ (آیت) ” وقتلوا “۔ اور میری راہ میں قتل کردیئے گئے، ابن کثیر اور ابن عامر نے پڑھا ہے ” وقاتلوا وقتلوا “۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
557
دارالکتب العلمیہ) کثرت کی بنا پر۔ اور اعمش نے قرات کی ہے ” وقتلوا وقاتلوا “ کیونکہ واؤد اس معنی پر دلالت نہیں کرتی کہ دوسرا پہلے کے بعد ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : کلام میں قد مضمر ہے یعنی ” قتلوا وقد قاتلوا “۔ اور اسی معنی شاعر کا قول ہے : تصابی وامسی علاہ الکبر : یہ اصل میں وقد علاہ الکبر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ” وقد قاتل من بقی منھم “۔ (جوان سے باقی بچا اس نے قتال کیا) عرب کہتے ہیں : قتلنا بنی تمیم “۔ ہم نے بنی تمیم کو قتل کیا، اور بلاشبہ ان میں سے بعض قتل کئے گئے اور امرؤالقیس نے کہا ہے : ” فان تقتلونا نقتلکم “۔ (پس اگر تم ہمارے ساتھ لڑو گے تو ہم تمہیں قتل کردیں گے) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ” وقتلوا وقتلوا “۔ بغیر الف کے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ (آیت) ” لا اکفرنا عنھم سیاتھم “۔ یعنی میں آخرت میں ان پر ان کے گناہوں کو چھپا دوں گا پس میں انہیں ان کے سبب زجر وتوبیخ نہ کروں گا اور نہ ان پر انہیں کوئی سزا دوں گا (آیت) ” ثوابا من عنداللہ “۔ بصریوں کے نزدیک یہ مصدر مؤکد ہے، کیونکہ ” میں انہیں ضرور داخل کروں گا ایسے باغات میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی “ کا معنی یہ ہے میں انہیں ضرور ضرور ثواب عطا کروں گا، کسائی نے کہا ہے : یہ قطعا منصوب ہے اور فراء نے کہا ہے : یہ بطور تفسیر منصوب ہے۔ (آیت) ” واللہ عندہ حسن الثواب “۔ یعنی یہ اچھی جزا ہے اللہ تعالیٰ کے پاس اور اس سے مراد وہ (اجر وثواب) ہے جو عامل کی طرف اس کے عمل کی جزا کے طور پر لوٹے گا، اور یہ ثاب یثوب “ سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (
17
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد “۔ کہا گیا ہے کہ یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے اور مراد امت ہے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
558
دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ خطاب تمام کو ہے اور وہ اس طرح کہ مسلمانوں نے کہا : یہ کفار ہیں ان کے لئے سامان تجارت بھی ہے اور اموال بھی اور ان کا ملکوں میں گھومنا پھرنا بھی ہے، اور ہماری حالت یہ ہے ہم بھوک سے ہلاک ہوگئے، تب یہ آیت نازل ہوئی، یعنی تمہیں ان کا سلامتی کے ساتھ اپنے سفروں میں گھومنا پھرنا دھوکہ میں نہ ڈالے، (آیت) ” متاع قلیل “ یعنی ان کا یہ گھومنا پھرنا تھوڑی مدت کے لئے ہے، اور یعقوب نے نون ساکنہ کے ساتھ یغرنک پڑھا ہے۔ اور شاعر نے کہا ہے : لا یغزنک عشاء ساکن قد یوافی بالمنیات السحر : اس میں بھی لایغزنک نون ساکنہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس آیت کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فلا یغررک تقلبھم فی البلاد “۔ (المومن) ترجمہ : پس نہ دھوکہ میں ڈالے تمہیں ان لوگوں کا (بڑے کروفر سے) آنا جانا مختلف شہروں میں۔ اور متاع سے مراد وہ شے ہے جس سے جلدی نفع حاصل کیا جاسکتا ہو، اور اس کا نام قلیل اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ (سامان دنیا) فناہ ہونے والا ہے، اور ہر فناہ ہونے والی شے اگرچہ کثیر ہو وہ قلیل ہوتی ہے، اور صحیح ترمذی میں مستور فہری ؓ سے منقول ہے انہوں نے بیان کیا ہے : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” آخرت میں دنیا کی مثال اس طرح ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے، پھر وہ اس (پانی) کی طرف دیکھے جو وہ اس کے ساتھ نکالتا ہے “ (یعنی اس انگلی کے ساتھ لگنے والے پانی کو جو نسبت سمندر کے ساتھ ہے وہی دنیا کو آخرت کے ساتھ ہے) کہا گیا ہے : کہ اس حدیث میں لفظ ” یرجع “ یا اور تا دونوں کے ساتھ ہے۔ (حدیث طیبہ کے الفاظ یہ ہیں) ما الدنیا فی الآخرۃ الا مثل ما یجعل احدکم اصبعہ فی الیم، فلینظر بما ذا یرجع۔ (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد
2
، صفحہ
56
، ایضا جامع ترمذی، حدیث نمبر
2245
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (آیت) ” وبئس المہاد “۔ یعنی کتنا برا وہ ٹھکانا جو انہوں نے اپنے کفر کے سبب اپنے لئے بنایا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے انکے لئے جہنم میں سے ٹھکانا بنایا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) اس آیت میں اور اس طرح کی دیگر آیات میں مثلا قول باری تعالیٰ (آیت) ” انما نملی لھم خیر ا “۔ الآیہ (العمران :
178
) (کہ ہم جو مہلت دے رہے ہیں انہیں یہ بہتر ہے ان کے لئے) (آیت) ” واملی لھم، ان کیدی متین “۔ (القلم) ترجمہ : اور میں نے (سردست) انہیں مہلت دے رکھی ہے میری (خفیہ) تدبیر بڑی پختہ ہے۔ (آیت) ” ایحسبون انما نمدھم بہ من مال وبنین “ ، (المومنون) ترجمہ : کیا یہ تفرقہ باز خیال کرتے ہیں کہ ہم جو ان کی مدد کر رہے ہیں مال واولاد کی کثرت سے۔ (آیت) ” سنستدرجھم من حیث لا یعلمون “۔ (الاعراف) ترجمہ : تو ہم آہستہ آہستہ پستی میں گرا دیں گے انہیں اس طرح کہ انہیں علم تک نہ ہوگا۔ اس پر دلیل موجود ہے کہ کفار پر دنیا میں کوئی انعام نہیں کیا گیا، کیونکہ حقیقی نعمت وہ جو دنیا اور آخرت کے ضرر کی آمیزش سے پاک ہو، اور کفار کی نعمتوں میں درد و آلام اور عذاب وسزا کی آمیزش ہے، پس یہ اس آدمی کی طرح ہیں جس کے سامنے کسی کی طرف سے شہد کا حلوہ رکھا جائے جس میں زہر کی آمیزش ہو، پس اگرچہ کھانیی والا لطف اندوز ہوا لیکن اسے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس پر انعام کیا گیا، کیونکہ اس میں اس کی جان کی ہلاکت ہے، علماء کی ایک جماعت اسی طرف گئی ہے اور یہی شیخ ابو الحسن اشعری (رح) کا قول ہے، اور ان میں سے ایک جماعت سیف السنۃ ولسان الامۃ القاضی ابوبکر نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انہیں نعمتیں عطا کی ہیں، انہوں نے کہا ہے : نعمت کا اصل نعمۃ فتح النون سے ہے، اور اس کا معنی ہے خوشحال زندگی، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے : (آیت) ” ونعمۃ کانوا فیھا فکھین “۔ (الدخان) ترجمہ : اور بہت سارا سازوسامان جس سے وہ عیش کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے : دقیق ناعم، جب آٹا بہت باریک پسا ہوا ہو اور اچھے طریقے سے گوندھا جاسکتا ہو۔ یعنی معنی صحیح ہو اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار پر اور تمام مکلفین پر واجب قرار دیا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور فرمایا ہے : (آیت) ” فاذکروا الآء اللہ “۔ (اعراف :
69
) ترجمہ : پس تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرو۔ یعنی شکر ادا کرنے کے لئے اور فرمایا : واشکرو اللہ “۔ (اور تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو) اور شکر صرف نعمت پر ہی ہوتا ہے۔ اور فرمایا : (آیت) ” واحسن کما احسن اللہ الیک “۔ (القصص :
77
) (اور احسان کیا کر (غریبوں پر) جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان فرمایا ہے) یہ خطاب قارون کو ہے اور ارشاد فرمایا : (آیت) ” وضرب اللہ مثلا قریۃ کا نت امنۃ مطمئنۃ “۔ (النحل :
112
) ترجمہ : اور بیان فرمائی ہے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال وہ یہ کہ ایک بستی تھی جو امن (اور) چین سے (آباد) تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا کہ اس نے انہیں دنیوی نعمتیں عطا فرمائیں تو انہوں نے ان کا انکار کردیا، اور مزید فرمایا : (آیت) ” یعرفون نعمت اللہ ثم ینکرونھا “۔ (النحل :
83
) ترجمہ : وہ پہچانتے ہیں اللہ تعالیٰ کی نعمت کو (اس کے باوجود) وہ انکار کرتے ہیں اس کا۔ اور مزید فرمایا : (آیت) ” یایھا الناس اذکروا نعمت اللہ علیکم “۔ (فاطر :
3
) ترجمہ : اے لوگو ! یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جو اس نے تم پر فرمائی۔ یہ (حکم) کفار اور دوسروں کے لئے عام ہے، لیکن جب کوئی کسی دوسرے کو کھانا پیش کرے جس میں زہر کی آمیزش ہو تو فی الحال اس نے اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا کیونکہ اس نے اسے خالص زہر نہیں پلائی بلکہ اس نے اسے حلاوۃ (مٹھاس) میں چھپا دیا لہذا یہ بعید نہیں کہ یہ کہا جائے : تحقیق اس نے اس پر انعام کیا، اور جب یہ ثابت ہوگیا تو پھر نعمت کی دو قسمیں ہیں نفع پہنچانے والی نعمتیں، اور دفاع کرنے والی نعمتیں، پس نفع بخش نعمتیں وہ ہیں جو فنون لذات میں سے ان تک پہنچیں، اور دفاع کرنے والی نعمتیں وہ ہیں جو ان سے طرح طرح کی آفات کو پھیر دیں تو اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے کفار کو دفاع کی نعمتیں عطا فرمائیں یہ ایک قول ہے، اور وہ یہ کہ ان سے درد وآلام اور بیماریوں کو دور ہٹا دیا گیا۔ اور ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو نعمت دینیہ عطا نہیں فرمائی : والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (
19
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لکن الذین اتقوا ربھم “۔ یہ استدراک ہے اس کلام کے بعد جس میں نفی کا معنی پہلے گزر چکا ہے، کیونکہ سابقہ کلام کا معنی یہ ہے کہ ان کے لئے ملکوں کے چکر کاٹنے اور گھومنے پھرنے میں کوئی بڑا فائدہ نہیں ہے، لیکن متقی لوگوں کے لئے بہت بڑا نفع ہے اور ہمیشہ کی بقا ہے، لکن “ مبتدا ہونے کے سبب محل رفع میں ہے اور یزید بن قعقاع نے لکن نون کو تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” نزلا من عندا للہ “۔ بصریوں کے نزدیک ” نزلا ‘ ثوابا “ کی مثل ہے اور کسائی کے نزدیک یہ مصدر ہوگا اور فراء نے کہا ہے : یہ مفسر ہے، اور حسن اور نخعی نے نزلا زا کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ دو ضمے ثقیل ہوتے ہیں اور باقیوں نے اسے ثقیل قرار دیا ہے، اور النزل ‘ سے مراد وہ شے ہے جو مہمان کے لئے تیار کی جاتی ہے۔ نزیل کا معنی مہمان ہے۔ شاعر نے کہا ہے : نزیل القوم اعظمھم حقوقا وحق اللہ فی حق النزیل : قوم کا مہمان حقوق کے اعتبار سے ان سب سے بڑھ کر ہے اور مہمان کے حق میں اللہ تعالیٰ کا حق بھی ہے۔ اس کی جمع انزال ہے اور حظ نزیل کا معنی اکٹھ اور اجتماع ہے اور النزل کا معنی بھی کثرت اور زیادتی ہے، کہا جاتا ہے، طعام کثیر النزل والنزل، (وافر مقدار کھانا) مسئلہ نمبر : (
21
) میں (مفسر) کہتا ہوں : شاید النزل۔۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ وہی ہے جو صحیح مسلم میں حضرت ثوبان مولی رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے اس عالم کے قصہ میں آیا ہے جس نے حضور نبی مکرم ﷺ سے پوچھا : اس دن لوگ کہاں ہوں گے جس دن زمین کو غیر ارض سے اور آسمانوں کو بدل دیا جائے گا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” وہ پل کے قریب اندھیرے میں ہوں گے۔ “ تو اس نے پوچھا : لوگوں میں سے پہلے کس کو اجازت ہوگی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” مہاجرین فقراء کو “ یہودی نے کہا ” ان کا کیا تحفہ ہوگا، جب وہ جنت میں داخل ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ” مچھلی کے جگر کی کثیر مقدار “۔ پھر پوچھا : اس کے بعد ان کی غذا کیا ہوگی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” انکے لئے جنت کا وہ بیل ذبح کیا جائے گا جو اس کی اطراف کھاتا رہتا ہے۔ “ پھر عرض کی : اس پر ان کا مشروب کیا ہوگا ؟ فرمایا ” جنت کے ایک چشمہ سے (وہ سیراب ہوں گے) جس کا نام سلسبیل ہے (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحیض جلد
1
، صفحہ
146
) اور آگے حدیث ذکر کی۔ اہل لغت نے کہا ہے : التحفۃ سے مراد وہ شے ہے جسے پھلوں وغیرہ میں سے انسان بطور ہدیہ اور تحفہ پیش کرتا ہے اور طرف سے مراد اس کے محاسن اور لطف اندوز ہونے کی جگہیں ہیں، اور یہ اس مفہوم کے مطابق ہے جو ہم نے نزل کے بیان میں ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور زیادۃ الکبد سے مراد جگر کا ٹکڑا ہے جو انگلی کی طرح ہو، ہر وی نے کہا ہے : (آیت) ” نزلا من عنداللہ “ یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ثواب ہے اور بعض نے کہا ہے اسکا معنی رزق ہے۔ (آیت) ” وما عنداللہ خیر اللابرار “۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے پاس نیکوکاروں کے لئے ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کے ساتھ کفار دنیا میں لوٹ پوٹ (اور لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں) واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
22
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان من اھل الکتب لمن یمؤمن باللہ “۔ الآیہ۔ حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت انس، حضرت ابن عباس، حضرت قتادہ، اور حضرت حسن رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب وہ فوت ہوا اور حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے اس کی موت کی خبر رسول اللہ ﷺ کو دی، تو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کو ارشاد فرمایا : قوموا فصلوا علی اخیکم النجاشی “۔ (اٹھو اور اپنے بھائی نجاشی کی نماز جنازہ ادا کرو) تو ان میں سے بعض نے بعض کو کہا : آپ ﷺ ہمیں حکم ارشاد فرما رہے ہیں کہ ہم حبشہ کے کافروں میں سے ایک بڑے کافر پر نماز جنازہ پڑھیں (
2
) (معالم التنزیل، جلد
1
صفحہ
609
) تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” وان من اھل الکتب لمن یمؤمن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم “۔ حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : (آیت) ” وما انزل الیکم “ سے مراد قرآن کریم ہیں، اور (آیت) ” وما انزل الیھم “۔ سے مراد تورات اور انجیل ہیں، اور قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” اولئک یؤتون اجرھم مرتین “۔ (القصص :
54
) ترجمہ : یہ لوگ ہیں جنہیں دیا جائے گا ان کا اجر دو مرتبہ۔ اور صحیح مسلم میں ہے ” تین قسم کے (لوگ) ہیں جنہیں دوباراجر دیا جائے گا۔۔۔۔۔ پھر بیان فرمایا۔۔۔۔ اہل کتاب میں سے ایسا آدمی جو اپنے نبی (علیہ السلام) کے ساتھ ایمان لایا پھر اس نے حضور نبی رحمت ﷺ کو پایا اور آپ ﷺ کے ساتھ ایمان لے آیا اور آپ کی اتباع وپیروی کی اور آپ کی تصدیق کی تو اس کے لئے دو اجر ہوں گے۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد
1
صفحہ
86
، ایضا صحیح بخاری، باب تعلیم الرجل امتہ وابلہ، حدیث نمبر
95
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “۔ اور آگے حدیث ذکر کی اور نجاشی پر نماز کے بارے بحث سورة البقرہ میں گزر چکی ہے اور غائب میت پر نماز جنازہ کے بارے علماء کا اختلاف بھی گزر چکا ہے لہذا اسے دوبارہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت مجاہد ابن جریج، اور ابن زید رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : یہ آیت اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی، اور یہ عام لے اور نجاشی ان میں سے ایک۔ اور اس کا نام اصحمہ تھا اور وہ عربی میں عطیہ ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
559
دارالکتب العلمیہ) اور خاشعین “ کا معنی ہے عجزو انکساری کرنے والے، اور ترکیب کلام میں یہ یؤمن میں مضمر ضمیر سے حال ہونے کی بناء پر منصوب ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ الیھم یا الیکم “ کی ضمیر سے حال ہے اور جو کچھ آیات میں ہے وہ بالکل بین اور واضح ہے اور پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
23
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اصبروا “۔ الآیہ “۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة کا اختتام ایسی نصیحت کے ساتھ کیا ہے جسے یہ دسویں آیت متضمن ہے اور یہ ان نصیحتوں میں سے ہے جو دنیا میں دشمنوں پر غالب آنے اور اخروی نعمتوں کے ساتھ کامیاب ہونے کو جامع ہے، اور طاعات پر ڈٹے رہنے اور شہوات سے اجتناب کرنے پر برانگیختہ کیا ہے اور صبر کا معنی رکنا ہے اور سورة البقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مصابرہ کا حکم دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مصابرہ کا معنی ہے دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور صبر میں ان پر غالب آنا، زید بن اسلم نے یہی کہا ہے (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
559
دارالکتب العلمیہ) اور حسن نے کہا ہے : پانچ نمازوں کی ادائیگی پر ثابت قدم رہنا اور یہ بھی کہا گیا ہے ،: ہمیشہ نفس کی مخالفت کرنا شہوات کی پیروی میں کہ وہ انکی طرف دعوت دیتا ہے اور یہ ان سے دور ہے اور حضرت عطا (رح) اور قرظی نے کہا ہے : تم اس وعدہ پر ثابت قدم رہو جو تم سے کیا گیا ہے، یعنی تم مایوس اور ناامید نہ ہو اور وسعت و خوشحالی کا انتظار کرو۔ (
4
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
559
دارالکتب العلمیہ) حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ” صبر کے ساتھ کشادگی اور وسعت کا انتظار کرنا عبادت ہے (
5
) (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، جلد
2
، صفحہ
197
) اس قول کو ابو عمر رحمۃ اللہ علیہنے اختیار کیا ہے، اور پہلا قول جمہور کا ہے۔ اور اسی کے مطابق عشرہ کا قول ہے : فلم ارحیا صابروا مثل صبرنا ولا کا فحوا مثل الزین نکافح : میں نے کوئی زندہ نہیں دیکھا جنہوں نے ہمارے صبر کی مثل صبر کیا ہو اور نہ ہی (وہ دیکھے ہیں) جنہوں نے ان کی مثل کا دفاع کیا ہو جن کا دفاع ہم کرتے ہیں۔ ان کے قول صابروا مثل صبرنا “۔ کا معنی ہے وہ میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے اور ان میں کوئی بزدلی اور کمزوری ظاہر نہ ہوئی، اور مکافحۃ کا معنی ہے، جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونا اور بالمقابل ہونا، اسی لئے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ورابطوا “۔ کے معنی میں اختلاف ہے، پس جمہور الامہ نے کہا ہے : تم اپنے دشمن کے سامنے مختلف حیلوں کے ساتھ کمر بستہ رہو، یعنی تم جنگ کے لئے اس طرح تیار رہو جس طرح تمہارا دشمن اس کی تیاری کرتا ہے، اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ومن رباط الخیل (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
559
دارالکتب العلمیہ) (اور گھوڑے باندھنے کے ساتھ) اور مؤطا میں امام مالک (رح) نے حضرت زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف خط لکھا اور اس میں روم کے لشکر کا ذکر کیا اور اس کا جو ان سے خوف اور خطرہ تھا، تو حضرت عمر ؓ نے ان کی طرف لکھا : اما بعد، جہاں کہیں بندہ مومن پر اللہ تعالیٰ شدید تکلیف اور پریشانی نازل کرتا ہے تو اس کے بعد اسے اللہ تعالیٰ کشادگی بھی عطا فرما دیتا ہے، کیونکہ ایک تنگی دو آسانیوں پر ہر گز غالب نہیں آسکتی، اور اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اصبروا وصابروا ورابطو، واتقوا اللہ لعلکم تفلحون “۔ (
2
) (مؤطا امام مالک، کتاب الجہاد، صفحہ
464
) اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا ہے : یہ آیت ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کے بارے میں ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کوئی غزوہ نہ تھا جس میں لشکر سرحدوں پر آمنے سامنے بیٹھتے ہوں، اسے حاکم ابو عبداللہ (
3
) (المستدرک التفسیر جلد
2
، صفحہ
329
، حدیث نمبر
3177
) نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور ابو سلمہ ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : ” کیا میں تمہاری اس پر راہنمائی نہ کروں جس کے سبب اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا ڈالتا ہیی، اور درجات کو بلند فرماتا ہے (وہ) مشقت اور مصائب میں اچھے طریقہ سے وضو کرنا ہے، اور مساجد کی طرف کثرت سے چل کر جانا ہے، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ہے پس تم پر اسے پکڑنا لازم ہے “ آپ نے اسے تین بار فرمایا، اسے امام مالکرحمۃ اللہ علیہنے روایت کیا ہے۔ (
4
) (موطا امام مالک، قصر الصلوۃ فی السفر، صفحہ
145
) ابن عطیہ نے کہا ہے : صحیح قول یہ ہے کہ رباط کا معنی : الملازمۃ فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ کو لازم پکڑنا) ہے، اس کی اصل ربط الخیل (گھوڑا باندھنا) سے ہے، پھر اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کو ہر لازم پکڑنا والے کا نام مرابط رکھ دیا گیا ہے، چاہے وہ گھوڑ سوار ہو یا پیدل ہو، اور یہ لفظ الربط سے ماخوذ ہے، اور حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد فذالکم الرباط بلاشبہ یہ رباط فی سبیل اللہ کے ساتھ تشبیہ ہے، اور رباط کا لغوی معنی وہی پہلا ہے، اور یہ اس قول کی طرح ہے : لیس الشدید بالصرعۃ (
1
) (صحیح مسلم، البر والصلۃ والادب جلد
2
، صفحہ
326
) (طاقتور پچھار دینے کے ساتھ ثابت نہیں ہوتا) اور اس قول کی طرح ہے : لیس المسکین بھذا الطواف (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد
1
صفحہ
333
) (اس شکر لگانے کے ساتھ مسکین ثابت نہیں ہوتا) اسی طرح کے اور اقوال بھی ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ان کا قول ” رباط کا لغوی معنی وہی پہلا ہی ہے ‘ یہ مسلم نہیں ہے، کیونکہ خلیل بن احمد ائمہ لغت میں سے ایک ہیں اور ثقہ ہیں۔ انہوں نے کہا ہے : رباط کا معنی سرحدوں کو لازم پکڑنا اور ان پر بیٹھے رہنا ہے اور نماز کے لئے مواظبت اختیار کرنا بھی ہے، پس اس سے ثابت ہوگیا کہ نماز کا انتظار کرنا بھی حقیقتا رباط کا لغوی معنی ہی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : اور اس سے زیادہ وہ ہے جو شیبانی نے بیان کیا ہے کہ کہا جاتا ہے : ماء مترابط ای دائم لاینزح، یعنی ماء مترابط اس ہمیشہ رہنے والے پانی کو کہا جاتا ہے جو ختم نہ ہوتا ہو، اسے ابن فارس نے بیان کیا ہے اور یہ لغۃ رباط کے اس کے سوا معنی کی طرف متعدی ہونے کا تقاضا کرتا ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے کیونکہ اہل عرب کے نزدیک میرا بطہ کسی شے پر ایسی گرہ لگانا ہے جو کھل نہ سکتی ہو، پس یہ اس کی طرف راجع ہے جس پر آدمی ڈٹ جائے اور صبر کریی، اور وہ دل کو اچھی نیت پر اور جسم کو فعل طاعت پر روک لینا اور لگا لینا ہے، اور اس کا عظیم تر اور اہم ترین معنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد کے لئے) گھوڑے کو باندھنا (تیار کرنا) ہے، جیسا کہ اس پر قرآن کریم میں نص موجود ہے : ومن رباط الخیل اس کا بیان آگے آئے گا اور نفس کو نمازوں پر لگانا اور متوجہ کرنا ہے جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا ہے، اسے حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے اور شادی کے بعد خوشبو کی ضرورت نہیں ہوتی، ولا عطر بعد عروس۔ مسئلہ نمبر : (
24
) فقہاء کے نزدیک المرابط فی سبیل وہ ہے جو سرحدوں میں سے ایک سرحد کو معین کرلیتا ہے تاکہ وہ اس کی حفاظت کے لئے ایک مدت تک اس پر ثابت قدم رہے، اور اسے محمد بن مواز نے بیان کیا ہے (اور اسے روایت کیا ہے) اور رہے وہ لوگ جو سرحدوں پر اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں وہی وہ آباد ہوتے ہیں اور وہی کاروبار کرتے ہیں، پس اگر وہ وہاں محفوظ ہوں تو وہ مربطین میں سے نہیں ہیں، ابن عطیہ نے یہی کہا ہے : (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
1
، صفحہ
560
دارالکتب العلمیہ) ابن خویز منداد نے کہا ہے : رباط کی دو حالتیں ہیں : ایک حالت یہ ہے کہ سرحد مامون اور محفوظ ہوتی ہے اور وہاں اہل و عیال کے ساتھ سکونت اختیار کرنا جائز ہوتا ہے اور اگر وہ مامون و محفوظ نہ ہو تو پھر جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کو تو وہیں کمربستہ رکھے بشرطیکہ وہ جنگ لڑنے والوں میں سے ہو، اور وہ اپنے اہل و عیال کو وہاں منتقل نہ کرے تاکہ ایسا نہ ہو کہ دشمن غالب آجائے اور وہ قید کرلے اور غلام بنا لے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
25
) رباط کی فضیلت میں کثیر احادیث موجود ہیں، ان میں سے وہ ہے جسے امام بخاری (رح) نے حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن سرحد پر (حفاظت کے لئے) رہنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا ومافیہا سے بہتر ہے، (
4
) (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد
1
، صفحہ
405
، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر
2678
، ضیاء القرآن پبلیکیشنز) اور صحیح مسلم میں حضرت سلیمان ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” ایک دن اور ایک رات سرحد پر ثابت قدم رہنا ایک مہینہ روزے رکھنے اور قیام کرنے سے بہتر ہے اور اگر وہ فوت ہوگیا تو اس کا وہ عمل جاری رہے گا جو وہ کر رہا تھا اور اس کا رزق بھی اسے عطا کیا جائے گا اور شیاطین سے محفوظ رکھا جائے گا (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، جلد
2
، صفحہ
142
) “ ابو داؤد نے اپنی سنن میں حضرت فضالہ بن عبید سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہر میت کا عمل ختم کردیا جاتا ہے سوائے مرابط (سرحد پر ثابت قدم رہنے والے) کے کیونکہ اس کا عمل یوم قیامت تک بڑھتا رہے گا اور وہ قبر کے فتنہ سے مامون و محفوظ رہے گا (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد جلد
1
صفحہ
338
) “ ان دونوں حدیثوں میں اس پر دلیل موجود ہے کہ رباط ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن کا ثواب موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے جیسا کہ حضرت علا بن عبدالرحمن کی حدیث میں انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الامن ثلاثۃ الا من صدقۃ جاریۃ او علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعولہ (
3
) (صحیح مسلم کتاب الوصیۃ جلد
2
صفحہ
41
) (جب آدمی فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین کے (اور) سوائے صدقہ جاریہ کے یا اس علم کے جس سے نفع اٹھایا جاتا ہے یا نیک اور صالح بچے کے جو اس کے لئے دعا کرتا ہو) یہ حدیث صحیح ہے اور اسے روایت کرنے میں مسلم منفرد ہیں اور بلاشبہ صدقہ جاریہ، نفع دینے والا علم اور وہ صالح بیٹا جو اپنے والدین کے لئے دعا کرتا ہے یہ (اعمال) صدقات کے ختم ہونے علم ضائع ہوجانے، اور بیٹے کی موت کے سبب منقطع ہوجاتے ہیں، اور رباط کا اجر یوم قیامت تک کئی گنا کردیا جاتا ہے، کیونکہ نماء کا معنی سوائے دو گناہ کرنے کے اور کوئی نہیں ہے اور یہ کسی سبب پر موقوف نہیں کہ اس کے مقطع ہونے کے سبب یہ بھی منقطع ہوجائے، بلکہ یہ یوم قیامت تک اللہ تعالیٰ کی جانب سے دائمی فضل ہے، اور یہ اس لئے کہ نیکی کے تمام اعمال پر قدرت تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب دشمن سے امن وسلامتی حاصل ہو او دین کے نور کی حفاظت اور شعائر اسلام کو قائم کرنے کے سبب دشمن سے مکمل تحفظ اور بچاؤ حاصل ہو اور یہ وہ عمل ہے جس پر ثواب جاری رہتا ہے (اور) یہ ان اعمال صالحہ میں سے ہے جو وہ کرتا رہتا ہے، اسے ابن ماجہ نے صحیح اسناد کے ساتھ حضرت ابویرہرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من مات مرابطا فی سبیل اللہ اجری علیہ اجر عملہ الصالح الذین کان یعمل واجری علیہ رزقہ وامن من الفتان وبعثہ اللہ یوم القیامۃ امنا من الفزع “۔ (
4
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد جلد
1
صفحہ
203
) (وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوگیا تو اس پر اس کے اس عمل صالح کا اجر جاری رہتا ہے جو وہ کرتا ہے اور اس پر اس کا رزق بھی جاری رکھا جاتا ہے اور اسے شیاطین سے محفوظ رکھا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اٹھائے گا اس حال میں کہ وہ گھبراہٹ سے پرامن اور محفوط ہوگا) اس حدیث میں ایک دوسری قید ہے اور وہ حالت رباط میں موت کا آجانا۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : ” جس نے ایک رات اللہ تعالیٰ کی راہ میں سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے گزاری تو وہ اس کے لئے ہزار (دن اور) رات کے روزوں اور قیام کی مثل ہے (
1
) (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر
2755
، ضیاء القرآن پبلی کشنز) اور حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مسلمانوں کے خوفزدہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن رمضان المبارک کے مہنے کے علاوہ پورے اخلاص کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لئے کمر بستہ ہونا اجر وثواب میں ایک سال کے روزوں اور قیام کی عبادت سے زیادہ اور افضل ہے اور رمضان المبارک کے مہینے میں ایک دن مسلمانوں کے خوف کی صورت میں پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سرحد پر ڈٹ جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجرو ثواب میں ایک ہزار برس کے روزوں اور قیامت کی عبادت سے افضل اور زیادہ ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے اسے صحیح سالم اپنے گھر والوں کی طرف لوٹا دیا تو اس پر ہزار برس کے گناہ نہیں لکھے جائیں گے اور اس کے لئے نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے لئے رباط کا اجر قیامت کے دن تک جاری رکھا جائے گا (
2
) (ایضا، ابن ماجہ کتاب الجہاد، حدیث نمبر
2759
، ضیاء القرآن پبلی کشنز) یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ایک دن (دشمن کے مقابلے میں) سرحد پر ڈٹ جانا دائمی ثواب کے حصول کا سبب بنتا ہے اگرچہ وہ اسی حال میں مرجائے۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : ”’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک رات پہرہ دینا ایک آدمی کے اپنے گھر میں ہزار برس روزے رکھنے اور قیام کرنے سے افضل ہے (ان میں) ایک سال تین سوساٹھ دن کا ہے اور ایک دن ہزار برس کا ہے۔ “۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کے برے میں بھی یہ موجود ہے کہ وہ بھی رباط ہے، اور نمازوں کا انتظار کرنے والے کو وہی فضیلت حاصل ہو سکتی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے، ابو نعیم الحافظ نے روایت نقل کی ہے کہ سلیمان بن احمد، علی بن عبدالعزیز، حجاج بن منہال، دوسری سند ابوبکر بن مالک (رح)، عبداللہ بن احمد بن حنبل (رح) نے بیان کیا ہے کہ مجھے میرے باپ نے بتایا اور کہا کہ مجھے حسن بن موسیٰ نے بیان کیا ہے کہ حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے اور انہوں نے ابو ایوب ازدی سے، انہوں نے نوف بکالی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ایک رات مغرب کی نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کی معیت میں نماز پڑھی پس پیچھے رہ گیا جو پیچھے رہا اور واپس لوٹ گیا جو لوٹ گیا (یعنی کچھ لوگ وہیں پیچھے رہ گئے اور کچھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے) پس رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز عشاء کے لئے تثویب کرنے سے پہلے تشریف لائے۔ پس آپ اپنی انگلی اٹھاتے ہوئے آئے حالانکہ لوگ آپ کے پاس حاضر تھے اور آپ نے سبابہ انگلی کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتیس گنے اور اپنا کپڑا اپنے گھٹنوں سے اوپر چڑھا لیا اور آپ کہنے لگے :” اے مسلمانوں کے گروہ تمہیں بشارت ہو یہ تمہارا رب ہے اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ملائکہ پر اظہار فخر کر رہا ہے وہ کہہ رہا ہے اے میرے ملائکہ ! تم میرے ان بندوں کی طرف دیکھو یہ ایک فریضہ ادا کرچکے ہیں اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں (
1
) (حلیۃ الاولیاء طبقات الاصفیاء جلد
6
صفحہ
54
، مکتبۃ الخانجی مصر) اور اسے حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے اور انہوں نے مطرف بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ نوف اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ دونوں اکٹھے ہوئے تو نوف ؓ نے تورات سے (یہ) بیان کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث بیان کی (آیت) ” واتقوا اللہ “ یعنی تمہیں بغیر تقوی کے جہاد کے بارے حکم نہیں دیا گیا۔ (آیت) ” لعلکم تفلحون “۔ تاکہ تم فلاح و کامرانی کے امیداوار ہوجاؤ، کہا گیا ہے : کہ لعل بمعنی لکی (تاکہ) ہے اور فلاح بمعنی بقاء (باقی رہنا) ہے یہ سب سورة البقرہ میں مکمل طور پر گزر چکا ہے۔ تمت بالخیر : اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فضل و احسان سے آج مورخہ
22
جنوری
2007
، بمطابق
2
محرم الحرام
1428
ھ بروز پیر دس بجے شب سورة آل عمران کی تفسیر کا ترجمہ اختتام پذیر ہوا۔ یہ بندہ پر تقصیر اپنے کریم رب کی بارگاہ میں سراپا التجا ہے کہ اے میرے کریم پروردگار اس کرم اور عنایت کو بار بار فرمانا، اپنی توفیقات سے نوازتے رہنا، اور تا دم واپسیں اپنی بندگی کا ذوق، اپنے محبوب ﷺ کی غلامی کا شرف اور اپنے دین متین کی خدمت کی سعادت سے بہرہ ور فرمائے رکھنا، امین بجاہ نبیک الکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم ثم الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی الہ و اصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔ محمد انور مگھالوی
Top