Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 31
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تُحِبُّوْنَ : محبت رکھتے اللّٰهَ : اللہ فَاتَّبِعُوْنِيْ : تو میری پیروی کرو يُحْبِبْكُمُ : تم سے محبت کریگا اللّٰهُ : اللہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ : اور تمہیں بخشدے گا ذُنُوْبَكُمْ : گناہ تمہارے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میر پیروی کرو خدا بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر : 31۔ الحب کا معنی ہے محبت اور اسی طرح الحب بالکسر بھی ہے اور الحب بمعنی الحبیب بھی ہے جیسا کہ الخدن اور الخدین (دوست) ہے، کہا جاتا ہے، احبہ فھو محب اور حبۃ یحبہ (بالکسر) فھو محبوب (یعنی پہلا محبت کرنے والا اور دوسرا جس سے محبت کی جائے) جوہری نے کہا ہے : یہ شاذ ہے، کیونکہ مصاعف میں یفعل بالکسر نہیں آتا۔ ابو الفتح نے کہا ہے : اس میں حبب ہے جیسا کہ ظرف پھر با کو ساکن کیا گیا اور اسے دوسری با میں مدغم کردیا گیا، ابن الدہان سعید نے کہا ہے : حبب میں دو لغتیں ہیں : حب اور احب اور اس بنا میں حب اصل میں حبب تھا جیسا کہ ظرفہ اس پر ان کا یہ قول دلالت کرتا ہے، : حببت۔ اور فعل سے صفت کا صیغہ اکثر فعیل کے وزن پر آتا ہے، ابوالفتح نے کہا ہے : اور احب پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : یحبھم ویحبونہ یہ یا کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ اور (آیت) ” فاتبعونی یحببکم اللہ “ اور حب فعل کے وزن پر آتا ہے کیونکہ اس کا قول ہے حبب اور فعل کے وزن پر آتا ہے جیسا کہ ان کا قول محبوب ہے : حب معتدی سے اسم فاعل نہیں آتا، پس یہ نہیں کہا جاتا : انا حاب اور فعل سے اسم مفعول بہت کم آتا ہے۔ جیس اس کہ کسی کا قول ہے : منی بمنزلۃ المحب المکرم (میرے نزدیک معزز محبوب کے قائم مقام ہے) اور ابو زید نے بیان کیا ہے : حببتہ احبہ۔ اور شعر بیان کیا : فو اللہ لو لا تمرۃ ما حببۃ ولا کان ادنی من عویف وھاشم لعمرک اننی وطلاب مصر لکالمزداد مما حبب بعدا : اصمعی نے بیان کیا ہے : حرف مضارع کو فتحہ دیا گیا ہے درآنحالیکہ بااکیلی ہے، اور الحب الحابیہ فارسی سے عربی بنایا گیا ہے۔ اور اس کی جمع حباب اور حببۃ آتی ہے، اسے جوہری نے بیان کیا ہے، اور یہ آیت وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی، جب انہوں نے یہ گمان کیا کہ انہوں نے جو کچھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں دعوی کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہے، محمد بن جعفر بن زبیر نے یہی کہا ہے (2) (اسباب النزول للواحدی، جلد 1، صفحہ 66) اور حسن اور ابن جریج نے بیان کیا ہے : یہ آیت اہل کتاب کی ایک جماعت کے بارے نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا : نحن الذین نحب ربنا۔ (1) (اسباب النزول للواحدی، جلد 1، صفحہ 66) ہم وہ ہیں جو اپنے رب سے محبت کرتے ہیں۔ اور روایت ہے کہ مسلمانوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ واللہ انا لنحب ربنا قسم بخدا ! ہم اپنے رب سے محبت کرتے ہیں تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی “۔ (2) (جامع البیان للبطری، جلد 4، صفحہ 272) ابن عرفہ نے کہا ہے : عربوں کے نزدیک محبۃ کا معنی ہے ” ارادۃ الشیء علی قصدلہ “ کسی شے کا قصد کرتے ہوئے اس کا ارادہ کرنا، اور ازہری نے کہا ہے : بندے کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کا معنی اس کا ان دونوں کی اطاعت کرنا اور ان کے حکم کی اتباع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی “۔ اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ محبت کا معنی اس کا ان پر غفران اور بخشش کے ساتھ انعام فرمانا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ان اللہ لا یحب الکافرین “۔ یعنی وہ ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ اور سہل بن عبداللہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت قرآن کی محبت ہے اور قرآن کریم کی محبت کی علامت حضور نبی مکرم ﷺ کی محبت ہے اور حضور نبی کریم ﷺ کی محبت کی علامت سنت کی محبت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرآن کی محبت اور حضور نبی مکرم ﷺ کی محبت اور سنت کی محبت کی علامت آخرت کی محبت ہے اور آخرت کی محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ سے محبت کرے اور اپنے نفس سے محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا سے مغض رکھے اور دنیا کے بغض کی علامت یہ ہے کہ وہ اس سے صرف زاد راہ اور گزارے کی مقدار حاصل کرے۔ حضرت ابو الدرداء ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے قول باری تعالیٰ (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے فرمایا :”(کہ تم میری اتباع کرو) نیکی، تقوی، تواضع اور ذلۃ النفس میں “ اسے ابو عبداللہ ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے (3) (نوادر الاصول فی معرفۃ احادیث الرسول قل ان کنتم تحبون صفحہ 199) اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : من اراد ان یحبہ اللہ فعلیہ بصدق الحدیث واداء الامانۃ والایؤذی جارہ۔ جو یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ سچ بولے، امانت ادا کرے اور یہ کہ وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے، اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرمانے لگتا ہے تو وہ جبریل امین (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے : بلاشبہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ (4) (صحیح بخاری ذکر الملائکۃ، حدیث نمبر 2970، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) بھی اس سے محبت فرمانے لگتا ہے : پھر وہ آسمان میں ندا دیتا ہے اور کہتا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے سو تم بھی اس سے محبت کرو تو پھر اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں فرمایا پھر اسے زمین میں قبول عام عطا فرما دیا جاتا ہے اور جب وہ کسی بندے کو مبغوض جانے تو جبرئیل امین (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے : بلاشبہ میں فلاں کو ناپسند کرتا ہوں پس تو بھی اسے ناپسند کر پھر جبرئیل امین (علیہ السلام) بھی اسے ناپسند کرتے ہیں پھر آسمان کے باسیوں میں اعلان کردیتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ فلاں کو ناپسند کرتا ہے تو تم بھی اسے مبغوض جانو۔۔۔۔ فرمایا۔۔۔۔ پس وہ بھی اسے مبغوض جانتے ہیں پھر زمین میں اس کے لئے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، جلد صفحہ 331) اس کے بارے مزید بیان سورة مریم کے آخر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ابو رجا العطاردی نے (آیت) ” فاتبعونی “۔ باکو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ویغفرلکم کا عطف ” یحببکم “ پر کیا ہے، اور محبوب نے ابو عمرو بن علاء سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے یغفر کی را کو لکم کی لام میں مدغم کردیا ہے، نحاس نے کہا ہے : امام خلیل اور سیبویہ را کو ادغام کرنے کی اجازت نہیں دیتے اور ابو عمرو نے اس طرح کی غلطی کرنے سے صرف نظر کیا ہے شاید وہ حرکت کو مخفی کردیتے ہیں جیسا کہ وہ کثیر اشیاء میں ایسا کرتے ہیں۔
Top