Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ : جب قَالَتِ : کہا امْرَاَتُ عِمْرٰنَ : بی بی عمران رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں نَذَرْتُ : میں نے نذر کیا لَكَ : تیرے لیے مَا : جو فِيْ بَطْنِىْ : میرے پیٹ میں مُحَرَّرًا : آزاد کیا ہوا فَتَقَبَّلْ : سو تو قبول کرلے مِنِّىْ : مجھ سے اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھونگی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
آیت نمبر : 35 تا 36۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اذ قالت امرات عمرن “۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے : اذ، زائدہ ہے اور محمد بن یزید نے کہا ہے : تقدیر کلام ہے اذکر اذ۔ اور زجاج نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اصطفی آل اذ قالت امرات عمرن “۔ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کو چن لیا جب عمران کی بیوی نے عرض کی، اور یہ حنہ بنت فاقود بن قنبل حضرت مریم (علیہا السلام) کی ماں اور حضرت عسی (علیہ السلام) کی داد تھی، یہ عربی نام نہیں ہے اور نہ ہی عربی میں کسی عورت کا نام حنہ معروف ہے۔ عربی میں ابو حنہ البدری ہے۔ اور اس میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابو حبہ ہے اور یہی اصح ہے اور اس کا نام عامر ہے۔ اور حنہ کی خانقاہ شام میں ہے اور ایک دوسری بھی ہے اسے بھی دیر حنہ ہی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابو نواس نے کہا ہے : یا دیر حنۃ من ذات الاکیراح من یصح عنک فانی لست بالصاحی : اس میں یا دیر حنہ سے اشتہاد کیا گیا ہے۔ اور عرب میں حبہ تو کثیر ہیں، ان میں سے ایک ابو حبہ انصاری ہیں اور ابو السنابل بن بعکک جو کہ حدیث سبیعہ میں مذکور ہیں (1) (صحیح بخاری، باب فضل من شھد بدرا، حدیث نمبر 3691، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) وہ بھی حبہ ہیں اور خنہ خاء مجمہ کے ساتھ تو کوئی معروف نہیں سوائے بنت یحییٰ بن اکثم القاضی کے اور یہ محمد بن نصر کی ماں ہے اور جنہ تو کوئی معروف نہیں سوائے ابو جنہ کے اور یہ ذی الرمہ شاعر کا ماموں ہے یہ سب ابن ماکولا کی کتاب سے لیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا “۔ نذر کا معنی پہلے گزر چکا ہے اور یہ (نذر) بندے پر لازم نہیں ہوتی مگر اس طرح کہ بندہ خود اسے اپنے اوپر لازم کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ جب حاملہ ہوئیں تو انہوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات عطا فرمائی اور میں نے اسے جنا جو میرے پیٹ میں ہے تو میں اسے (سب کاموں سے) آزاد کر دوں گی، اور لک کا معنی ہے لعبادتک یعنی تیری عبادت کے لئے اور محررا حال ہونے کی بناء پر منصوب ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ مفعول محذوف کی صفت ہے یعنی انی نذرت لک ما فی بطنی غلاما محررا تفسیر، سیاق کلام اور اعراب (ترکیب) کے اعتبار سے پہلا مفہوم زیادہ اولی اور بہتر ہے، کیونکہ جہاں تک ترکیب کا تعلق ہے تو نعت کو منعوت کے قائم مقام رکھنا کئی مقامات پر جائز نہیں ہوتا اور کئی دوسرے مقامات پر مجازی طور پر جائز ہوتا ہے اور رہی تفسیر تو کہا گیا ہے کہ عمران کی بیوی کے اس قول کا سبب یہ ہے کہ وہ عمر رسیدہ تھی بچے کو جنم نہ دے سکتی تھی۔ اور یہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں رہ رہے تھے اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی تو اس نے ایک پرندے کو دیکھا وہ اپنے بچے کو چوگ دے رہا تھا تو اس وجہ سے اس کے دل میں بھی اضطراب اور حرکت پیدا ہوئی اور اس نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ وہ اسے بچہ عطا فرمائے اور نذر مانی کہ اگر اس نے (بچہ) جنا تو وہ اسے (ہر کام سے) آزاد کر دے گی، یعنی وہ خالصۃ اللہ تعالیٰ کے لئے آزاد ہوگا، عبادت گاہ کا خادم ہوگا، اور اسی کے لئے وقف ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ ہوگا اور ایسا کرنا ان کی شریعت میں جائز تھا اور ان کی اولاد پر لازم تھا کہ وہ ان کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، پس جب اس نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو جنم دیا تو کہا : (آیت) ” رب انی وضعتھا انثی “۔ اے رب، میں نے ایک لڑکی کو جنم دیا ہے۔ یعنی لڑکی تو کنیسہ کی خدمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کہا گیا ہے یا اس وجہ سے کہ اسے حیض اور دیگر تکلیفیں لاحق ہوتی رہتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : (یا اس وجہ سے) کہ وہ مردوں کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی صلاحیت نہیں رکھتی اور وہ امید کر رہی تھی کہ وہ بچہ ہوگا پس اسی وجہ سے اس نے اسے آزاد کردیا۔ مسئلہ نمبر : (3) ابن عربی نے کہا : ” اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عمران کی بیوی کے حمل تک نذر کوئی راستہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ آزاد تھی۔ اور اگر اس کی بیوی کنیز ہوتی تو بھی کوئی اختلاف نہیں کہ آدمی کے لئے اپنے بچے کے بارے میں نذر ماننا صحیح نہیں ہوتا تو کیونکر اس نے اس کی حالت میں تصرف کرلیا، کیونکہ اگر نذر ماننے والا غلام ہو تو اس بارے میں اس کا کوئی قول مضبوط اور پختہ نہیں، اور اگر آزاد ہو تو یہ صحیح نہیں کہ وہ اس کا مملوک ہو۔ اور عورت بھی اسی طرح ہے تو پھر اس بارے میں نذر کی وجہ کیا ہے ؟ بلاشبہ اس کا حقیقی معنی تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بیشک آدمی اپنے بچے کا ارادہ کرتا ہے تاکہ وہ اس سے انس حاصل کرے، اس سے مدد لے اور اس کے ساتھ اطمینان اور تسلی پائے، پس اس عورت نے بھی بچے سے انس حاصل کرنے اور سکون اور راحت پانے کے لئے بچے کی خواہش اور طلب کی تو جب اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان فرما دیا تو اس نے نذر مانی کہ وہ اس سے انس حاصل کرنے کے اپنے حصہ سے دستبردار ہوتی ہے اور وہ خالصۃ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہوگا، اور یہ نیکوکار آزاد لوگوں کی نذر ہے۔ اور اس نے اس سے ارادہ یہ کیا ہے کہ وہ میری جانب سے آزاد ہوگا اور دنیا کی غلامی اور اس کی مشغولیت سے آزاد ہوگا، صوفیاء میں سے ایک آدمی نے اپنی ماں کو کہا : اے ماں ! تو مجھے اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑ دے میں اس کی عبادت کروں گا اور علم حاصل کروں گا تو ماں نے کہا : ہاں (میں نے تجھے چھوڑ دیا) پس ہو چلا گیا یہاں تک کہ اس نے غور فکر کیا تو پھر ماں کی طرف واپس لوٹ کر آیا اور دروازے پر دستک دی تو ماں نے پوچھا : کون ہے ؟ اس نے جواب دیا میں تیرا فلاں بیٹا ہوں، تو ماں نے کہا : ہم نے تجھے اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اور ہم تجھے واپس نہیں لوٹائیں گے (1) (احکام القرآن للجصاص، جلد 1، صفحہ 270) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” محررا “۔ یہ ماخوذ ہے اس حریۃ (آزادی) سے جو عبودیۃ (غلامی) کیضد ہے اسی سے تحریر الکتاب ہے اور وہ اسے اضطراب اور فساد سے خالص (خالی) کرنا ہے اور خصیف نے حضرت عکرمہ اور حضرت مجاہد سے روایت کیا ہے کہ محرر وہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور امور دنیا میں سے کسی شے کی اس میں آمیزش نہ ہو، اور لغت میں یہ معروف ہے کہ ہر شے جو خالص ہو اسے حر (آزاد) کہا جاتا ہے اور محرر اسی معنی میں ہے۔ جیسا کہ ذوالرمہ نے بھی کہا ہے : والقرط فی حرۃ الذفری معلقہ تباعد الحبل منہ فھو یضطرب۔ اور طین حرہ وہ مٹی جس میں ریت نہ ہو، باتت فلانۃ بلیلۃ حرۃ (یہ تب کہا جاتا ہے) جب پہلی رات خاوند عورت کے پاس نہ آئے اور اگر وہ اس پر قدرت پالے تو پھر اس کی رات لیلۃ شیباء کہلائے گی۔ مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلما وضعتھا قالت رب انی وضعتھا انثی “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس نے یہ کہا ہے کہ کیونکہ نذر میں صرف مذکر قبول کیا جاتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو قبول فرما لیا، اور ترکیب کلام میں انثی حال ہے اور اگر چاہے تو اسے بدل بنا لے، اور کہا گیا ہے کہ اس نے ان کی تربیت اور پرورش کی یہاں تک وہ جوان ہوگئی تو اس وقت انہیں (آزاد) چھوڑ دیا، اشہب نے اسے مالک سے روایت کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹا اور مسجد چھوڑ آئی اور اپنی نذر کو پورا کردیا اور اس سے برات اختیار کرلی، شاید ان میں حجاب (پردہ) نہیں تھا جیسا کہ ابتدائے اسلام میں تھا اور بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ کے عہد میں ایک سیاہ رنگ کی عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی اور وہ فوت ہوگئی۔ الحدیث۔ (1) (صحیح بخاری، باب کنس المسجد والتقاط الخرق والقذی والعیدان، حدیث نمبر 438، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واللہ اعلم بما وضعت “۔ یہ اس کی قرات کے مطابق ہے جس نے وضعت تا کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ من جملہ اس کا کلام ہے، کیونکہ کلام متصل ہے اور یہ ابوبکر اور ابن عامر کی قرات ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا اور اس کے لئے خضوع اور پاکی بیان کرنے کا معنی ہے۔ (اس سے کہ اس پر کوئی شے مخفی ہے) اور اس نے یہ بطریق اخبار نہیں کہا کیونکہ مومن کے طریقہ پر کہا ہے۔ اور جمہور کی قرات کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہے جو پہلے لایا گیا ہے اور اس کی تقدیر یہ ہے کہ یہ (آیت) ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “۔ سے موخر ہو، واللہ اعلم بما وضعت “۔ مہدوی نے یہی کہا ہے اور مکی نے کہا ہے : یہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے تثبیت کے طریقہ پر اطلاع ہے پس فرمایا : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس کے بارے جو مریم کی ماں نے جنا وہ اس کے بارے کچھ کہے یا نہ کہے، اور اسے اس سے بھی قوت حاصل ہوتی ہے کہ اگر یہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی ماں کے کلام سے ہوتا تو کلام کا انداز یہ ہوتا ؛ وانت اعلم بما وضعت ‘ (اور تو بہتر جانتا ہے اس کے بارے میں جو میں نے جنا) کیونکہ اس نے اپنے قول میں پہلا کلام اس طرح پکارا ہے : (آیت) ” رب انی وضعتھا انثی “۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے بما وضعت تا کے کسرہ کے ساتھ مروی ہے، یعنی اسے یہ کہا گیا۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولیس الذکر کالانثی “۔ بعض شافعیہ نے اس سے اس پر استدلال کیا ہے کہ رمضان المبارک میں دن کے وقت وطی کے سلسلہ میں عورت اپنے خاوند کی پیروی اور مطاوعت اختیار کرے تو وجوب کفارہ میں مرد عورت کے مساوی نہیں ہوگا۔ ابن عربی نے کہا ہے : اور یہ ان کی طرف سے غفلت ہے، کیونکہ یہ خبر ہم سے پہلے والوں کی شریعت میں سے ہے اور وہ اس طرح کا قول نہیں کرتے تھے، اور اس صالحہ عورت نے اپنے کلام کے ساتھ اس کا قصد کیا ہے جس کے بارے میں اس کی ظاہر حالت اور اس کے کلام کا مقطع شہادت دیتا ہے، کیونکہ اس نے اپنے بچے کے لئے مسجد کی خدمت کرنے کی نذر مانی تھی پس جب اس نے اسے بچی دیکھا جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتی تو چونکہ وہ عورت ہے تو اس نے اپنے مقصود کے خلاف پائے جانے کی وجہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں معذرت پیش کی اور ” مریم “ غیر منصرف ہے کیونکہ یہ مونث معرفہ ہے اور یہ عجمی بھی ہے نحاس نے اسی طرح کہا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وانی سمیتھا مریم “۔ ان کی لغت میں مریم کا معنی خادم الرب ہے، (آیت) ” وانی اعیذھا بک “ اس میں ھا ضمیر سے مراد مریم ہے، (آیت) ” وذریتھا “ مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ کبھی ذریت کا اطلاق صرف بیٹے پر ہوتا ہے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث نمبر 3177، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے شیطان اسے کچوکا لگاتا ہے اور وہ شیطان کے کچوکا لگانے سے چیخ کر روتا ہے سوائے ابن مریم اور ان کی ماں کے۔ “ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : اگر تم یہ پڑھ لو (آیت) ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : پس اس حدیث نے یہ فائدہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ کی دعا کو قبول فرما لیا ہے، کیونکہ شیطان سوائے مریم اور ان کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے تمام اولاد آدم کو حتی کہ انبیاء اور اولیاء کو بھی کچوکے لگاتا ہے۔ حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیا ہے : ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پہلو میں کچوکا لگاتا ہے سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی ماں کے، ان دونوں کے درمیان حجاب ڈال دیا گیا پس اس کا کچوکا حجاب پر لگا اور دونوں کے لئے اس سے کوئی شے پار نہ ہوئی (2) (صحیح بخاری، باب صفۃ ابلیس و جنودہ حدیث نمبر 3044، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ہمارے علماء نے کہا ہے : اگر اس طرح نہ ہو تو ان دونوں کی خصوصیت باطل ہوجاتی ہے، اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیطان کے کچوکا لگانے سے جسکو مس کیا گیا ہے اس کو گمراہ کرنا اور بھٹکانا اس سے لازم آتا ہے، کیونکہ یہ ظن فاسد ہے، پس کتنے انبیاء اور اولیاء ہیں کہ شیطان نے فساد اور بھٹکانے کے طرح طرح کے طریقوں سے ان سے تعرض کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے محفوظ ومامون رکھا جو شیطان کا ارادہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ (آیت) ” ان عبادی لیس لک علیھم سلطن “۔ (الحجر : 42) ترجمہ : بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ بنی آدم میں سے ہر ایک کو شیاطین میں سے اس کے ساتھی کے حوالے کیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (3) (مسند امام احمد، حدیث نمبر 2323) پس حضرت مریم اور ان کا بیٹا اگرچہ دونوں شیطان کے کچوکے سے بچا لئے گئے ہیں لیکن ان دونوں کو اس کی ملازمت اور مقارنت سے محفوظ نہیں رکھا گیا۔ واللہ اعلم۔
Top