Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 35
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اِذْ
: جب
قَالَتِ
: کہا
امْرَاَتُ عِمْرٰنَ
: بی بی عمران
رَبِّ
: اے میرے رب
اِنِّىْ
: بیشک میں
نَذَرْتُ
: میں نے نذر کیا
لَكَ
: تیرے لیے
مَا
: جو
فِيْ بَطْنِىْ
: میرے پیٹ میں
مُحَرَّرًا
: آزاد کیا ہوا
فَتَقَبَّلْ
: سو تو قبول کرلے
مِنِّىْ
: مجھ سے
اِنَّكَ
: بیشک تو
اَنْتَ
: تو
السَّمِيْعُ
: سننے والا
الْعَلِيْمُ
: جاننے والا
وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھونگی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما تو تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
آیت نمبر :
35
تا
36
۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اذ قالت امرات عمرن “۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے : اذ، زائدہ ہے اور محمد بن یزید نے کہا ہے : تقدیر کلام ہے اذکر اذ۔ اور زجاج نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اصطفی آل اذ قالت امرات عمرن “۔ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کو چن لیا جب عمران کی بیوی نے عرض کی، اور یہ حنہ بنت فاقود بن قنبل حضرت مریم (علیہا السلام) کی ماں اور حضرت عسی (علیہ السلام) کی داد تھی، یہ عربی نام نہیں ہے اور نہ ہی عربی میں کسی عورت کا نام حنہ معروف ہے۔ عربی میں ابو حنہ البدری ہے۔ اور اس میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابو حبہ ہے اور یہی اصح ہے اور اس کا نام عامر ہے۔ اور حنہ کی خانقاہ شام میں ہے اور ایک دوسری بھی ہے اسے بھی دیر حنہ ہی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابو نواس نے کہا ہے : یا دیر حنۃ من ذات الاکیراح من یصح عنک فانی لست بالصاحی : اس میں یا دیر حنہ سے اشتہاد کیا گیا ہے۔ اور عرب میں حبہ تو کثیر ہیں، ان میں سے ایک ابو حبہ انصاری ہیں اور ابو السنابل بن بعکک جو کہ حدیث سبیعہ میں مذکور ہیں (
1
) (صحیح بخاری، باب فضل من شھد بدرا، حدیث نمبر
3691
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) وہ بھی حبہ ہیں اور خنہ خاء مجمہ کے ساتھ تو کوئی معروف نہیں سوائے بنت یحییٰ بن اکثم القاضی کے اور یہ محمد بن نصر کی ماں ہے اور جنہ تو کوئی معروف نہیں سوائے ابو جنہ کے اور یہ ذی الرمہ شاعر کا ماموں ہے یہ سب ابن ماکولا کی کتاب سے لیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا “۔ نذر کا معنی پہلے گزر چکا ہے اور یہ (نذر) بندے پر لازم نہیں ہوتی مگر اس طرح کہ بندہ خود اسے اپنے اوپر لازم کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ جب حاملہ ہوئیں تو انہوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نجات عطا فرمائی اور میں نے اسے جنا جو میرے پیٹ میں ہے تو میں اسے (سب کاموں سے) آزاد کر دوں گی، اور لک کا معنی ہے لعبادتک یعنی تیری عبادت کے لئے اور محررا حال ہونے کی بناء پر منصوب ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ مفعول محذوف کی صفت ہے یعنی انی نذرت لک ما فی بطنی غلاما محررا تفسیر، سیاق کلام اور اعراب (ترکیب) کے اعتبار سے پہلا مفہوم زیادہ اولی اور بہتر ہے، کیونکہ جہاں تک ترکیب کا تعلق ہے تو نعت کو منعوت کے قائم مقام رکھنا کئی مقامات پر جائز نہیں ہوتا اور کئی دوسرے مقامات پر مجازی طور پر جائز ہوتا ہے اور رہی تفسیر تو کہا گیا ہے کہ عمران کی بیوی کے اس قول کا سبب یہ ہے کہ وہ عمر رسیدہ تھی بچے کو جنم نہ دے سکتی تھی۔ اور یہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں رہ رہے تھے اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی تو اس نے ایک پرندے کو دیکھا وہ اپنے بچے کو چوگ دے رہا تھا تو اس وجہ سے اس کے دل میں بھی اضطراب اور حرکت پیدا ہوئی اور اس نے اپنے رب سے دعا مانگی کہ وہ اسے بچہ عطا فرمائے اور نذر مانی کہ اگر اس نے (بچہ) جنا تو وہ اسے (ہر کام سے) آزاد کر دے گی، یعنی وہ خالصۃ اللہ تعالیٰ کے لئے آزاد ہوگا، عبادت گاہ کا خادم ہوگا، اور اسی کے لئے وقف ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے فارغ ہوگا اور ایسا کرنا ان کی شریعت میں جائز تھا اور ان کی اولاد پر لازم تھا کہ وہ ان کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، پس جب اس نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو جنم دیا تو کہا : (آیت) ” رب انی وضعتھا انثی “۔ اے رب، میں نے ایک لڑکی کو جنم دیا ہے۔ یعنی لڑکی تو کنیسہ کی خدمت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کہا گیا ہے یا اس وجہ سے کہ اسے حیض اور دیگر تکلیفیں لاحق ہوتی رہتی ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : (یا اس وجہ سے) کہ وہ مردوں کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی صلاحیت نہیں رکھتی اور وہ امید کر رہی تھی کہ وہ بچہ ہوگا پس اسی وجہ سے اس نے اسے آزاد کردیا۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ابن عربی نے کہا : ” اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عمران کی بیوی کے حمل تک نذر کوئی راستہ نہیں پاسکتی کیونکہ وہ آزاد تھی۔ اور اگر اس کی بیوی کنیز ہوتی تو بھی کوئی اختلاف نہیں کہ آدمی کے لئے اپنے بچے کے بارے میں نذر ماننا صحیح نہیں ہوتا تو کیونکر اس نے اس کی حالت میں تصرف کرلیا، کیونکہ اگر نذر ماننے والا غلام ہو تو اس بارے میں اس کا کوئی قول مضبوط اور پختہ نہیں، اور اگر آزاد ہو تو یہ صحیح نہیں کہ وہ اس کا مملوک ہو۔ اور عورت بھی اسی طرح ہے تو پھر اس بارے میں نذر کی وجہ کیا ہے ؟ بلاشبہ اس کا حقیقی معنی تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بیشک آدمی اپنے بچے کا ارادہ کرتا ہے تاکہ وہ اس سے انس حاصل کرے، اس سے مدد لے اور اس کے ساتھ اطمینان اور تسلی پائے، پس اس عورت نے بھی بچے سے انس حاصل کرنے اور سکون اور راحت پانے کے لئے بچے کی خواہش اور طلب کی تو جب اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان فرما دیا تو اس نے نذر مانی کہ وہ اس سے انس حاصل کرنے کے اپنے حصہ سے دستبردار ہوتی ہے اور وہ خالصۃ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہوگا، اور یہ نیکوکار آزاد لوگوں کی نذر ہے۔ اور اس نے اس سے ارادہ یہ کیا ہے کہ وہ میری جانب سے آزاد ہوگا اور دنیا کی غلامی اور اس کی مشغولیت سے آزاد ہوگا، صوفیاء میں سے ایک آدمی نے اپنی ماں کو کہا : اے ماں ! تو مجھے اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑ دے میں اس کی عبادت کروں گا اور علم حاصل کروں گا تو ماں نے کہا : ہاں (میں نے تجھے چھوڑ دیا) پس ہو چلا گیا یہاں تک کہ اس نے غور فکر کیا تو پھر ماں کی طرف واپس لوٹ کر آیا اور دروازے پر دستک دی تو ماں نے پوچھا : کون ہے ؟ اس نے جواب دیا میں تیرا فلاں بیٹا ہوں، تو ماں نے کہا : ہم نے تجھے اللہ تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اور ہم تجھے واپس نہیں لوٹائیں گے (
1
) (احکام القرآن للجصاص، جلد
1
، صفحہ
270
) مسئلہ نمبر : (
4
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” محررا “۔ یہ ماخوذ ہے اس حریۃ (آزادی) سے جو عبودیۃ (غلامی) کیضد ہے اسی سے تحریر الکتاب ہے اور وہ اسے اضطراب اور فساد سے خالص (خالی) کرنا ہے اور خصیف نے حضرت عکرمہ اور حضرت مجاہد سے روایت کیا ہے کہ محرر وہ ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور امور دنیا میں سے کسی شے کی اس میں آمیزش نہ ہو، اور لغت میں یہ معروف ہے کہ ہر شے جو خالص ہو اسے حر (آزاد) کہا جاتا ہے اور محرر اسی معنی میں ہے۔ جیسا کہ ذوالرمہ نے بھی کہا ہے : والقرط فی حرۃ الذفری معلقہ تباعد الحبل منہ فھو یضطرب۔ اور طین حرہ وہ مٹی جس میں ریت نہ ہو، باتت فلانۃ بلیلۃ حرۃ (یہ تب کہا جاتا ہے) جب پہلی رات خاوند عورت کے پاس نہ آئے اور اگر وہ اس پر قدرت پالے تو پھر اس کی رات لیلۃ شیباء کہلائے گی۔ مسئلہ نمبر : (
5
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلما وضعتھا قالت رب انی وضعتھا انثی “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس نے یہ کہا ہے کہ کیونکہ نذر میں صرف مذکر قبول کیا جاتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو قبول فرما لیا، اور ترکیب کلام میں انثی حال ہے اور اگر چاہے تو اسے بدل بنا لے، اور کہا گیا ہے کہ اس نے ان کی تربیت اور پرورش کی یہاں تک وہ جوان ہوگئی تو اس وقت انہیں (آزاد) چھوڑ دیا، اشہب نے اسے مالک سے روایت کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹا اور مسجد چھوڑ آئی اور اپنی نذر کو پورا کردیا اور اس سے برات اختیار کرلی، شاید ان میں حجاب (پردہ) نہیں تھا جیسا کہ ابتدائے اسلام میں تھا اور بخاری اور مسلم میں ہے کہ رسول اللہ کے عہد میں ایک سیاہ رنگ کی عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی اور وہ فوت ہوگئی۔ الحدیث۔ (
1
) (صحیح بخاری، باب کنس المسجد والتقاط الخرق والقذی والعیدان، حدیث نمبر
438
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
6
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واللہ اعلم بما وضعت “۔ یہ اس کی قرات کے مطابق ہے جس نے وضعت تا کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ من جملہ اس کا کلام ہے، کیونکہ کلام متصل ہے اور یہ ابوبکر اور ابن عامر کی قرات ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا اور اس کے لئے خضوع اور پاکی بیان کرنے کا معنی ہے۔ (اس سے کہ اس پر کوئی شے مخفی ہے) اور اس نے یہ بطریق اخبار نہیں کہا کیونکہ مومن کے طریقہ پر کہا ہے۔ اور جمہور کی قرات کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ہے جو پہلے لایا گیا ہے اور اس کی تقدیر یہ ہے کہ یہ (آیت) ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “۔ سے موخر ہو، واللہ اعلم بما وضعت “۔ مہدوی نے یہی کہا ہے اور مکی نے کہا ہے : یہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے تثبیت کے طریقہ پر اطلاع ہے پس فرمایا : اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اس کے بارے جو مریم کی ماں نے جنا وہ اس کے بارے کچھ کہے یا نہ کہے، اور اسے اس سے بھی قوت حاصل ہوتی ہے کہ اگر یہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی ماں کے کلام سے ہوتا تو کلام کا انداز یہ ہوتا ؛ وانت اعلم بما وضعت ‘ (اور تو بہتر جانتا ہے اس کے بارے میں جو میں نے جنا) کیونکہ اس نے اپنے قول میں پہلا کلام اس طرح پکارا ہے : (آیت) ” رب انی وضعتھا انثی “۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے بما وضعت تا کے کسرہ کے ساتھ مروی ہے، یعنی اسے یہ کہا گیا۔ مسئلہ نمبر : (
7
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولیس الذکر کالانثی “۔ بعض شافعیہ نے اس سے اس پر استدلال کیا ہے کہ رمضان المبارک میں دن کے وقت وطی کے سلسلہ میں عورت اپنے خاوند کی پیروی اور مطاوعت اختیار کرے تو وجوب کفارہ میں مرد عورت کے مساوی نہیں ہوگا۔ ابن عربی نے کہا ہے : اور یہ ان کی طرف سے غفلت ہے، کیونکہ یہ خبر ہم سے پہلے والوں کی شریعت میں سے ہے اور وہ اس طرح کا قول نہیں کرتے تھے، اور اس صالحہ عورت نے اپنے کلام کے ساتھ اس کا قصد کیا ہے جس کے بارے میں اس کی ظاہر حالت اور اس کے کلام کا مقطع شہادت دیتا ہے، کیونکہ اس نے اپنے بچے کے لئے مسجد کی خدمت کرنے کی نذر مانی تھی پس جب اس نے اسے بچی دیکھا جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتی تو چونکہ وہ عورت ہے تو اس نے اپنے مقصود کے خلاف پائے جانے کی وجہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں معذرت پیش کی اور ” مریم “ غیر منصرف ہے کیونکہ یہ مونث معرفہ ہے اور یہ عجمی بھی ہے نحاس نے اسی طرح کہا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم مسئلہ نمبر : (
8
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وانی سمیتھا مریم “۔ ان کی لغت میں مریم کا معنی خادم الرب ہے، (آیت) ” وانی اعیذھا بک “ اس میں ھا ضمیر سے مراد مریم ہے، (آیت) ” وذریتھا “ مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ کبھی ذریت کا اطلاق صرف بیٹے پر ہوتا ہے۔ (
1
) (صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث نمبر
3177
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے شیطان اسے کچوکا لگاتا ہے اور وہ شیطان کے کچوکا لگانے سے چیخ کر روتا ہے سوائے ابن مریم اور ان کی ماں کے۔ “ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : اگر تم یہ پڑھ لو (آیت) ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : پس اس حدیث نے یہ فائدہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ کی دعا کو قبول فرما لیا ہے، کیونکہ شیطان سوائے مریم اور ان کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے تمام اولاد آدم کو حتی کہ انبیاء اور اولیاء کو بھی کچوکے لگاتا ہے۔ حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیا ہے : ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے پہلو میں کچوکا لگاتا ہے سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی ماں کے، ان دونوں کے درمیان حجاب ڈال دیا گیا پس اس کا کچوکا حجاب پر لگا اور دونوں کے لئے اس سے کوئی شے پار نہ ہوئی (
2
) (صحیح بخاری، باب صفۃ ابلیس و جنودہ حدیث نمبر
3044
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ہمارے علماء نے کہا ہے : اگر اس طرح نہ ہو تو ان دونوں کی خصوصیت باطل ہوجاتی ہے، اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ شیطان کے کچوکا لگانے سے جسکو مس کیا گیا ہے اس کو گمراہ کرنا اور بھٹکانا اس سے لازم آتا ہے، کیونکہ یہ ظن فاسد ہے، پس کتنے انبیاء اور اولیاء ہیں کہ شیطان نے فساد اور بھٹکانے کے طرح طرح کے طریقوں سے ان سے تعرض کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے محفوظ ومامون رکھا جو شیطان کا ارادہ تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ (آیت) ” ان عبادی لیس لک علیھم سلطن “۔ (الحجر :
42
) ترجمہ : بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ بنی آدم میں سے ہر ایک کو شیاطین میں سے اس کے ساتھی کے حوالے کیا گیا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (
3
) (مسند امام احمد، حدیث نمبر
2323
) پس حضرت مریم اور ان کا بیٹا اگرچہ دونوں شیطان کے کچوکے سے بچا لئے گئے ہیں لیکن ان دونوں کو اس کی ملازمت اور مقارنت سے محفوظ نہیں رکھا گیا۔ واللہ اعلم۔
Top