Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
(اے محمد ﷺ یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی انکے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑے رہے تھے
آیت نمبر :44 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ذالک من انبآء الغیب “۔ یعنی یہ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہم السلام) کے واقعات ہم نے ذکر کئے ہیں یہ اخبار غیب میں سے ہیں، (آیت) ” نوحیہ الیک “۔ اس میں حضور نبی رحمت محمد مصفطی (علیہ السلام) کی نبوت پر دلیل ہے اس حیثیت سے کہ آپ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہما السلام) کے واقعیہ کی خبر دی حالانکہ آپ ﷺ نے کتابوں میں نہیں پڑھا تھا : آپ ﷺ نے اسے بیان فرمایا اور اہل کتاب نے اس بارے آپ کی تصدیق کی، پس اسی لئے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” نوحیہ الیک “۔ میں ضمیر کو ذالک کی طرف لوٹایا گیا ہے اور اسی کی یاد دلائی گئی ہے اور الایحاء یہاں نبی کریم ﷺ کی طرف کچھ بھیجنے کے معنی میں ہے، اور وحی الہام، اشارہ اور کئی دوسرے طریقوں سے ہوتی ہے، اور لغت میں اس کی اصل خفیۃ کسی شے سے آگاہ کرنا ہے، اسی وجہ سے الہام کو بھی وحی کا نام دیا جاتا ہے اور اسی سے ہے (آیت) ” واذ اوحیت الی حواریین “ اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” واوحی رب الی النحل “۔ اور کہا گیا ہے (آیت) ” اوحیت الی الحواریین “۔ کا معنی ہے ” میں نے انہیں حکم دیا کہا جاتا ہے : وحی اور اوحی، رہی اور آرمی یہ ہم معنی ہیں، عجاج نے کہا ہے : اوحی لھا القرار فاستقرت یعنی اس نے زمین کو قرار پکڑنے کا حکم دیا پس وہ قرار پذیر ہوگئی، اور حدیث میں ہے : الوحی الوحی مراد انتہائی سرعت اور تیزی ہے اور اس سے فعل توحیت توحیا ہے، ابن فارس نے کہا ہے : الوحی کا معنی اشارہ، کتابت اور رسالۃ (بھیجنا) ہے۔ اور ہر وہ شے جسے تو کسی غیر کی طرف القاء کرے یہاں تک کہ وہ اسے جان لے وہی وحی ہے وہ جیسے بھی ہو، اور الوحی کا معنی السریع ہے اور الوحی کا معنی الصوت آواز ہے، اور کہا جاتا ہے : استوحیناھم “ یعنی ہم نے ان کی مدد طلب کی۔ کسی نے کہا : اوحیت میمونا لھاوالرزراق : مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وما کنت لدیھم “۔ یعنی اے محمد ﷺ آپ ان کے پاس موجود نہ تھے، (آیت) ” اذ یلقون اقلامھم “۔ اقلام قلم کی جمع ہے، یہ قلمہ سے ہے اس کا معنی ہے : فلاں نے اسے کاٹ دیا کہا گیا ہے : قداحم وسھامھم یعنی مراد ان کے تیر ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے : انکی وہ قلمیں مراد ہیں جن سے وہ تورات لکھتے تھے اور یہی عمدہ معنی ہے، کیونکہ ازلام (جوئے کے تیر) سے تو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے (آیت) ” ذالکم فسق “۔ مگر وہ ان کی اجازت دیتا ہے اس طور پر کہ وہ انہیں اس طرز پر استعمال نہ کریں جس طرح دور جاہلیت میں کرتے تھے، (آیت) ” ایھم یکفل مریم “۔ یعنی کون مریم کی پرورش اور تربیت کرے گا ؟ تو حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا : میں اس کا زیادہ حق رکھتا ہوں کیونکہ اس کی خالہ میرے گھر ہے اور ان کا نکاح میں اشیع بنت فاقودتھی جو کہ مریم کی ماں حنہ بنت فاقود کی بہن تھی، بنی اسرائیل نے کہا : ہم اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے عالم کی بیٹی ہے، پس انہوں نے اس پر قرعہ اندازی کی اور ہر ایک اپنی قلم لے کر آیا اور انہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ وہ قلم جاری پانی میں ڈالیں گے پس جس کا قلم ٹھہر گیا اور پانی اسے بہا کر نہ لے گیا تو وہ اس کی پرورش اور تربیت کرے گا، حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : پس قلم بہہ گئے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کا قلم اوپر بلند ہوگیا۔ “ اور یہ آپ کی نشانی اور معجزہ تھا، کیونکہ آپ نبی تھے اور معجزات اور علامات آپ کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے تھے، اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں۔ اور (آیت) ” ایھم یکفل مریم “۔ یہ مبتدا اور خبر اس فعل مضمر کے سبب محل نصب میں واقع ہیں جس پر کلام دلالت کرتی ہے، تقدیر کلام ہے : ینظرون ایم یکفل مریم اور فعل لفظ ای میں کوئی عمل نہیں کرتا کیونکہ وہ برائے استفہام ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) ہمارے بعض علماء نے اس آیت سے قرعہ اندازی کے اثبات پر استدلال کیا ہے اور ہماری شریعت میں یہی اصل اور بنیاد ہے ہر اس کے لئے جو تقسیم میں عدل و انصاف کرنا چاہے اور جمہور فقہاء کے نزدیک دو مساوی حجتوں میں یہی سنت ہے تاکہ انکے درمیان عدل ہوسکے اور ان کے دل مطمئن ہوجائیں اور اس آدمی کے بارے میں وہم و گمان اٹھ جائے جو ان کی تقسیم کا والی بنتا ہے، اور ان میں سے کسی کو اس کے ساتھی پر فضیلت نہ دی جائے گی جبکہ مقسوم ایک جنس سے ہو یہی کتاب وسنت کی اتباع ہے، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے قرعہ اندازی پر عمل کرنے کو رد کردیا ہے اور انہوں نے اس بارے میں وارد ہونے والی احادیث کو بھی رد کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ ان کا کوئی معنی اور حقیقت نہیں اور انہوں نے اس بارے میں وارد ہونے والی احادیث کو بھی رد کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ انکا کوئی معنی اور حقیقت نہیں اور یہ جوئے کا ے ان تیروں کے مشابہ ہے جن سے اللہ تعالیٰ منع فرمایا ہے، اور ابن منذر نے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے بیان کیا ہے کہ آپ نے اسے (قرعہ اندازی کو) جائز قرار دیا ہے، اور فرمایا ہے : قیاس کے مطابق قرعہ صحیح نہیں ہوتا لیکن ہم نے اس مسئلہ میں قیاس کو چھوڑ دیا ہے، اور ہم نے آثار اور سنت کو پکڑ لیا ہے۔ ابو عبید نے کہا ہے : قرعہ اندازی کے مطابق تین انبیاء نے عمل کیا ہے : مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ، حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں، ابن منذر نے کہا ہے : جو شے شرکاء کے مابین تقسیم کی جاتی ہے اس میں قرعہ اندازی پر عمل کرنا ایسا ہے گویا اس پر اہل علم کا اجماع ہے اور جس نے اس کا رد کیا ہے اس کے قول کا کوئی معنی اور حقیقت نہیں، امام بخاری نے کتاب الشہادات کے آخر میں یہ عنوان ذکر کیا ہے باب القرعۃ فی المشکلات وقول اللہ عزوجل، (آیت) ” اذ یلقون اقلامھم “۔ اور حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث بیان کی ہے :” حدود اللہ پر قائم رہنے والے اور ان میں واقع ہونے والے کی مثال اس قوم کی مثل ہے جنہوں نے کشتی پر قرعہ اندازی کی (1) (صحیح بخاری، باب القرعۃ فی المشکلات، حدیث 2489، ضیا القرآن پبلی کیشنز) الحدیث ‘ عنقریب اس کا بیان سورة الانفال اور سورة الزخرف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، اور ام العلاء کی حدیث بیان کی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون کا حصہ رہائش میں ان کے لئے تقسیم ہوگیا جب انصار نے مہاجرین کی رہائش کے لئے قرعہ اندازی کی (2) (ایضا حدیث 2490، ضیا القرآن پبلی کیشنز) ” الحدیث، اور الم المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث کی انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب سفر کا ارادہ فرماتے تھے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے اور جس کسی کے نام پر قرعہ نکلتا اسے ساتھ لے جاتے، آگے حدیث ذکر کی۔ (1) (صحیح بخاری، باب القرعۃ فی المشکلات حدیث 2491، ضیا القرآن پبلی کیشنز) اس بارے میں احادیث کثیر ہیں، قرعہ اندازی کی کیفیت اور اختلاف کتب فقہ میں مذکور ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہنے ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ازواج النبی ﷺ کی شان میں قرعہ اندازی ان میں سے ہے کہ اگر تم اس پر بغیر قرعہ اندازی کے راضی ہوجاؤ تو وہ جائز ہے، ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ” یہ ضعیف ہے، کیونکہ قرعہ اندازی کا فائدہ ہی یہ ہے کہ باہم اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں کسی مخفی حکم کو نکالنا اور ظاہر کرنا اور رہا وہ حکم جو اس میں رضا مندی کے ساتھ نکالا جاتا ہے وہ ایک دوسراباب ہے اور کسی کے لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ قرعہ باہم رضا مندی کے محل میں ڈالا جاتا ہے کیونکہ یہ کبھی بھی باہم رضا مندی کے ساتھ نہیں ہوتا ، “ یہ ہوتا ہی ان چیزون میں ہے جن میں لوگوں کے مابین اختلاف اور جھگڑا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بخل کیا جاتا ہے۔ امام شافعی (رح) اور جنہوں نے اس کے بارے کہا ہے ان کے نزدیک قرعہ اندازی کا طریقہ یہ ہے کہ کاغذ کے مساوی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ لئے جائیں اور ہر ٹکڑے پر حصہ دار کا نام لکھ دیا جائے پھر انہیں مٹی کی ایسی گولیوں میں رکھ دیا جائے جو مساوی ہوں ان میں کوئی تفاوت نہ ہو۔ پھر وہ تھوڑی تھوڑی خشک کرلی جائیں پھر وہ کسی آدمی کے کپڑے میں ڈال دی جائیں جو وہاں حاضر نہ ہو، اور انہیں کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے پھر وہ اپنا ہاتھ اس میں داخل کرے اور ایک نکال لے اور جس آدمی کا نام لے اسے وہ جزا اور حصہ دے دے جس پر قرعہ اندازی کی گئی۔ مسئلہ نمبر : (4) یہ آیت اس پر بھی دال ہے کہ سوائے دادی کے تمام قرابتداروں کی نسبت خالہ کے لئے حق پرورش زیادہ ہے، اور تحقیق حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا حضرت امیر حمزہ ؓ کی بیٹی کا فیصلہ حضرت جعفر ؓ کے لئے فرمایا تھا اور ان کے نکاح میں انکی خالہ تھی، اور فرمایا ” بلاشبہ خالہ ماں کے قائم مقام ہے (3) (ایضا کتاب الصلح، حدیث نمبر 2501، ایضا) یہ مسئلہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے، ابو داؤد نے حضرت علی ؓ سے حدیث نقل کی ہے۔ (4) (ابی داؤدباب من احق بالولد حدیث نمبر 1940، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہوں نے بیان فرمایا : حضرت زید بن حارثہ ؓ مکہ مکرمہ گئے اور حضرت امیر حمزہ ؓ کی بیٹی کو لے آئے تو حضرت جعفر ؓ نے کہا : اسے میں لوں گا، میں اپنے چچا کی بیٹی کا زیادہ حق رکھتا ہوں کیونکہ اس کی خالہ میرے پاس ہے اور بلاشبہ خالہ ماں ہی ہوتی ہے، اور حضرت علی ؓ نے کہا : میں اپنے چچا کی بیٹی کا زیادہ حق رکھتا ہوں کیونکہ میرے عقد میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ہے اور وہ اس کی زیادہ حقدار ہے، اور حضرت زید ؓ نے کہا ؛ میں اس کا زیادہ حق رکھتا ہوں، کیونکہ میں اس کی طرف گیا، میں نے سفر کیا اور اسے ساتھ لے کر آیا، پس حضور نبی مکرم ﷺ تشریف لائے اور حدیث ذکر کی فرمایا : ” جہاں تک بچی کا ذکر ہے تو میں حضرت جعفر کے حق میں اس کا فیصلہ کرتا ہوں یہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی بلاشبہ خالہ ماں ہوتی ہے ، “ ابن ابی خیثمہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ ؓ حضرت امیر حمزہ ؓ کے وصی تھے، پس اس بنا پر خالہ وصی کی نسبت بھی زیادہ حق رکھتی ہے، اور چچا کا بیٹا جب خاوند ہو تو وہ خالہ کے حق حضانت کو ختم نہیں کرتا اگرچہ وہ اس کا محرم نہ ہو۔
Top