Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں
آیت نمبر : 61۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فمن حاجک فیہ “ یعنی اے محمد ﷺ جو شخص آپ سے جھگڑا کرے ” فیہ “ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں (آیت) ” من بعد ما جآئک من العلم “۔ اس کے بعد کہ آپ کے پاس اس بارے میں یقینی علم آگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (آیت) ” فقل تعالوا “۔ یعنی تعالوا “ بمعنی اقبلوا ہے، تو آپ کہہ دیجئے کہ آؤ یہ لفظ وضع تو اس کے لئے کیا گیا ہے جس کی کوئی قدر ومنزل اور رفعت وشان ہوا اور پھر ہر آنے اور متوجہ ہونے کی دعوت دینے والے کے لئے استعمال ہونے لگا، اس کا مزید بیان سورة الانعام میں آئے گا، ندع یہ محل جزم میں ہے (آیت) ” ابنآء نا “ یہ اس پر دلیل ہے کہ بیٹیوں کے بیٹوں کو ابناء کا نام دیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ حضور نبی مکرم ﷺ امام حسن، امام حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو ساتھ لے کر آئے اور حضرت فاطمہ ؓ آپ ﷺ کے پیچھے چل رہی تھیں اور حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ کے پیچھے تھے اور آپ ﷺ انہیں فرما رہے تھے : ” اگر میں دعا کروں تو تم امین کہنا ، “ اور یہ اس ارشاد کا معنی ہے (آیت) ” ثم نبتھل “ یعنی ہم دعا میں انتہائی عجز و انکساری اختیار کریں، حضرت ابن عباس ؓ سے یہی مروی ہے، ابو عبیدہ اور کسائی نے کہا ہے کہ نبتھل بمعنی نلتعن ہے اور ابتھال کا اصل معنی یہی ہے کہ دعا میں لعن وغیرہ کے ساتھ انتہائی کوشش کرنا۔ لبید نے کہا ہے : فی کھول سادۃ من قومہ نظر الدھر الیھم فابتھل : یعنی زمانے نے انہیں ہلاک کرنے میں پوری کوشش کی، کہا جاتا ہے : بھلہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی اور البھل کا معنی لعن ہے۔ اور البھل کا معنی ماء قلیل (تھوڑا پانی) بھی ہے اور ابھلتہ “ تب کہا جاتا ہے جب تو اسے اور اس کے ارادہ کو چھوڑ دے، اور بھلتہ کا بھی یہی معنی ہے، اور ابو عبیدہ نے بیان کیا ہے : بھلہ اللہ یبھلہ بھلۃ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس پر لعنت کی، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ اہل نجران تھے : ان کے رؤساء میں قابل ذکر، عاقب اور ابن حارث تھے۔ (آیت) ” فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین “۔ (پھر ہم جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجیں) مسئلہ نمبر : (2) یہ آیت حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت کی علامت میں سے ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی اور انہوں نے اس سے انکار کیا اور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے اس کے بعد کہ ان کے بڑے سردار عاقب نے انہیں بتایا کہ اگر انہوں نے آپ سے مباہلہ کیا تو ان پر یہ وادی آگ سے بھڑک اٹھے گی، کیونکہ حضرت محمد ﷺ نبی مرسل ہیں، اور تحقیق تم جانتے ہو کہ وہ تمہارے پاس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں تفصیل لے کر آئے ہیں، تو انہوں نے مباہلہ ترک کردیا اور اپنے شہروں کی طرف واپس چلے گئے اس شرط پر کہ وہ ہر سال ایک ہزار حلہ صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار حلہ رجب کے مہینہ میں ادا کریں گے تو رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے بدلے اسی پر ان سے صلح کرلی۔ مسئلہ نمبر : (3) بہت سے علماء نے کہا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کا مباہلہ کے وقت امام حسن و حسین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے یہ قول (آیت) ” ندع ابنآء نا وابنآء کم “ اور امام حسن ؓ کے بارے آپ کا یہ ارشاد ” ان ابنی ھذا سید (1) (صحیح بخاری کتاب الصلح، حدیث نمبر 2505، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام حسن و حسین، ؓ کے ساتھ مخصوص ہے کہ ان دونوں کو حضور نبی کریم ﷺ کا بیٹا ہونے کا نام دیا گیا، ان کے سوا کسی کے لئے یہ حکم نہیں ہے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ” قیامت کے دن ہر سبب ونسب کٹ جائے گا سوائے میرے نسب و سبب کے “ اسی لئے بعض اصحاب شافعی نے ایسے آدمی کے بارے میں کہا ہے جس نے فلاں کے بیٹے کے لئے وصیت کی اور اس کا صلبی بیٹا نہ تھا اور اس کے بیٹے کا بیٹا اور بیٹی کا بیٹا تھا، بلاشبہ وہ وصیت بیٹے کے بیٹے کے لئے ہوگی نہ بیٹی کے بیٹے کے لئے اور یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے، اس کے بارے مزید بیان سورة الانعام اور۔۔۔۔ حرف میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top