Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور (پہلے) اس بات کی گواہی دے چکے کہ یہ پیغمبر برحق ہیں ؟ اور انکے پاس دلائل بھی آگئے اور خدا بےانصافوں کو ہدایت نہیں دیتا
آیت نمبر : 86۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا کہ انصار میں سے ایک آدمی نے اسلام قبول کیا پھر وہ مرتد ہوگیا اور مشرکین سے جا ملا، بعد ازاں وہ اپنے کئے پر نادم ہوا تو اس نے اپنی قوم کی طرف پیغام بھیجا تو میرے لئے رسول اللہ ﷺ سے عرض کرو کیا میرے لئے توبہ ہے ؟ تو اس کی قوم رسول اللہ ﷺ کی بارہ گاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی کیا اس کی توبہ (قبول) ہوسکتی ہے ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” کیف یھدی اللہ قوما کفروا بعد ایمانھم وشھدوا ان الرسول حق وجآء ھم البینت واللہ لا یھدی القوم الظلمین، اولئک جزآؤھم ان علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس جمعین، خلدین فیھا لا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون، الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا فان اللہ غفور رحیم “۔ پس آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا تو اس نے اسلام قبول کرلیا، اسے نسائی نے نقل کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی مرتد ہوگیا اور مشرکین سے جا ملا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” کیف یھدی اللہ قوما کفروا بعد ایمانھم وشھدوا ان الرسول حق وجآء ھم البینت واللہ لا یھدی القوم الظلمین، اولئک جزآؤھم ان علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس جمعین، خلدین فیھا لا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون، الا الذین تابوا “۔ (آل عمران) کیسے ہو سکتا ہے کہ ہدایت دے اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ایمان لے آنے کے بعد مگر وہ لوگ جنہوں نے سچے دل سے توبہ کرلی) پس اس کی قوم نے اسے اس کی طرف بھیج دیا، تو جب اس پر یہ آیت پڑھی گئی تو اس نے کہا : قسم بخدا میری قوم نے رسول اللہ ﷺ کے پاس مجھے جھٹلایا نہیں اور نہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے بارے میں جھوٹا سمجھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تینوں کو سچا قرار دیا ہے، چناچہ وہ تائب ہو کر واپس لوٹ آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے توبہ کو قبول فرما لیا اور اسے چھوڑ دیا، اور حسن نے کہا ہے : یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے بارے میں بشارت دیتے تھے اور کفر کرنے والوں کے خلاف آپ کے وسیلہ سے فتح کی دعا مانگتے تھے، لیکن جب آپ ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے سرکشی کی اور کفر اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” اولئک جزآؤھم ان علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس جمعین “ (آل عمران) ترجمہ : ایسوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر پھٹکار پڑتی رہے اللہ کی فرشتوں کی اور سب انسانوں کی۔ پھر کہا گیا ہے : کیف لفظ استفہام ہے اور اس کا معنی انکار ہے۔ یعنی لا یھدی اللہ اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا، اور اسی کی مثل یہ ارشاد بھی ہے : کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ وعند رسولہ یعنی لایکون لھم عھد (انکے لئے کوئی عہد نہیں ہو سکتا) ۔ اور شاعر نے کہا ہے : کیف نومی سے علی الفراش ولما یشمل القوم غارۃ شعواء : اس میں بھی کیف نومی سے مراد ہے لا نوم لی یعنی میرے لئے کوئی نیند نہیں۔ (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الظلمین “ کہا جاتا ہے کہ ظاہر آیت یہ ہے کہ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد کفر اختیار کیا اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دے گا اور جو کوئی ظالم ہوا، اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دے گا، حالانکہ ہم نے بہت سے مرتدین کو دیکھا کہ وہ اسلام لائے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا فرمائی اور کثیر ظالموں کو دیکھا انہوں نے اپنے ظلم سے توبہ کرلی تو اسے کہا جائے گا اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نہیں دے گا جب تک وہ اپنے کفر اور اپنے ظلم پر قائم رہے اور انہوں نے اسلام قبول نہ کیا، لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور توبہ کرلی تو اس کے بارے اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں توفیق دی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top