Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور جب ان میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے لئے (ٹھہرنے کا) مقام نہیں تو لوٹ چلو اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے
آیت واذ قالت طائفۃ منھم یاھل یثرب لا مقام لکم فارجعوا طائفہ کا لفظ ایک اور اس سے زائد افراد پر صادق آتا ہے یہاں اس سے مراد اوس بن قیظی ہے جو عرابہ بن اوس کا والد تھا جس کے بارے میں شماح کہتا تھا : اذامارایۃ رفعتلمجدتلقاھا عرابۃ بالیمین بزرگی کے لیے جب بھی کوئی جھنڈا اٹھایا جاتا ہے تو عرابہ اسے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ یثرب سے مراد مدینہ طیبہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام طیبہ اور طابہ رکھا۔ ابو عبید نے کہا : یثرب ایک علاقہ کا نام ہے مدینہ اس کی ایک جانب واقع تھا (1) ۔ سہیل نے کہا : اس کو یثرب نام اس لیے دیا گیا کیونکہ عمالقہ میں سے جو یہاں آکر اترا اس کا نام یثرت بن عمیل بن مہلائیل بن عوض بن عملاق بن لاوز بن ارم تھا۔ ان اسماء میں سے بعض میں اختلاف ہے۔ بنو عمیل وہ ہیں جو جحفہ میں سکونت پزیر ہوئے تھے۔ اور سیلاب انہیں بہالے گیا تھا اسی وجہ سے اسے جحفہ کا نام دیا گیا۔ آیت لامقام لکم عام قراءت میم کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ حفص، سلمی، حجدری اور ابو حیوہ نے میم کے ضمہ کے ساتھ قراءت کی ہے۔ یہ اقام یقیم سے مصدر میمی ہے، یعنی یہاں کوئی اقامت نہیں یا یہاں کوئی جگہ نہیں جس میں تم ٹھہر سکو۔ جس نے میم کو فتحہ دیا اس کے نزدیک یہ اسم مکان ہے یعنی یہاں کوئی جگہ نہیں جس میں تم ٹھہر سکو۔ آیت فارجعوا اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جائو۔ انہیں حکم دیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے لشکر سے بھاگ جائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہودیوں نے عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے منافق ساتھیوں سے کہا : کون سی چیز تمہیں بر انگیختہ کرتی ہے کہ تم اپنے آپ کو ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں سے ہلاک کرو ؟ مدینہ کی طرف لوٹ جائو۔ بیشک ہم ان احزاب کے ساتھ ہیں پس تم امان میں ہو (1) ۔ آیت ویستاذن فریق منھم النبی ایک فریق نے مدینہ میں اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جانے کی اجازت طلب کی۔ حضرت ابن عباس ؓ کے قول میں وہ بنو حارثہ بن حارث تھے (2) ۔ یزید بن رومان نے کہا : یہ بات اوس بن قیظی نے اپنی قوم کے سرداروں سے کی تھی۔ آیت یقولون ان بیوتنا عورۃ الگ تھلگ اور ضائع ہونے والے ہیں وہ قلعہ میں نہیں۔ یہ اس گھر کو کہتے ہیں جو دشمنوں کے سامنے ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : چوروں کے لیے وہاں چوری کرنا ممکن ہے کیونکہ وہ گھر مردوں سے خالی تھے۔ یہ کہا جاتا ہے : دار معورۃ وذات عورۃ ایسے گھر کے لیے بولتے ہیں جب اس میں داخل ہونا آسان ہو جملہ کہا جاتا ہے : عور المکان عورافھو عور، بیوت عورۃ واعور فھو معور ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عورۃ ہے جس کا معنی ذات عورۃ ہے ہر وہ مکان جہاں جانے میں رکاوٹ نہ ہو اور کوئی پردہ نہ ہو تو وہ عورۃ کہلاتا ہے ؛ یہ ہر وی کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، عکرمہ، مجاہد اور ابو رجا عطاروی نے پڑھا (3) عورۃ یعنی جس کی دیواریں چھوٹی اور ان میں سوراخ ہوں۔ عرب کہتے ہیں : دار فلان عورۃ جب وہ قلعہ نمانہ ہو۔ قد اعورالفارس جب تلوار کا وار کرنے اور نیزہ مارنے میں کوئی نقص ظاہر ہو۔ شاعر نے کہا : متیتلقھملمتلقفی البیت معورا ولا الضیفمفجوعا والا الجامرملا جب تو انہیں ملے گا تو تو انہیں گھر میں معور نہیں ملے گا، یعنی اس کے دار میں کچھ نقص نہ ہوگا۔ جوہری نے کہا : عورۃ اس کجی کو کہتے ہیں جس سے ڈرا جاتا ہو خواہ وہ سرحد میں ہو یا جنگ میں ہو۔ نحاس نے کہا : یہ جملہ بولا جاتا ہے اعورالمکان جب اس میں کوئی خلل واقع ہو۔ اعور الفارس جب اس میں نقص کی جگہ واضح ہو۔ مہدوی نے کہا : جس نے عورۃ میں وائو کو کسرہ دیا تو یہ شاذ ہے۔ اس کی مثل ان کا قول ہے رجل عور یعنی اس کے لیے کوئی چیز نہیں۔ قیاس تو یہ تھا کہ اس میں تعلیل کی جاتی تو کہا جاتا : عار، کیوم راح، ورجل مال یہ اصل میں روح اور مول تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت وماھی بعورۃ انہوں نے جو کچھ ذکر کیا ان کو جھٹلانے اور ان کا رد کرنے کے لیے یہ کہا۔ آیت ان یریدون الا فرارا وہ بھاگ جانے کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہیں کرتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ قتل سے بھاگنا چاہتے ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ دین سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ نقاش نے کہا : یہ آیت انصار کے دو قبیلوں کے بارے میں نازل ہوئی، بنو حارثہ اور بنو سلمہ (4) ۔ انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ وہ غزوہ خندق کے موقع پر اپنے مراکز کو ترک کردیں۔ انہیں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا آیت اذ ھمت طاء فتان منکم ان تفشلا (آل عمران : 122) جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے کہا : ہم نے جو ارادہ کیا تھا وہ ہمیں کوئی دکھ نہیں دیتا جب اللہ تعالیٰ ہمارا ولی ہے۔ سدی نے کہا : جن لوگوں نے اجازت طلب کی تھی ان میں دوآدمی انصار میں سے بنو حارث سے تعلق رکھتے تھے (1) ابو عرابہ بن اوس (2) اوس بن قیظی۔ ضحاک نے کہا : اسی آدمی بغیر اجازت کے لوٹ آئے تھے (1) ۔
Top