Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 23
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ١ۖ٘ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ
مِنَ : سے (میں) الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) رِجَالٌ : ایسے آدمی صَدَقُوْا : انہوں نے یہ سچ کر دکھایا مَا عَاهَدُوا : جو انہوں نے عہد کیا اللّٰهَ : اللہ عَلَيْهِ ۚ : اس پر فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے مَّنْ : جو قَضٰى : پورا کرچکا نَحْبَهٗ : نذر اپنی وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو يَّنْتَظِرُ ڮ : انتظار میں ہے وَمَا بَدَّلُوْا : اور انہوں نے تبدیلی نہیں کی تَبْدِيْلًا : کچھ بھی تبدیلی
مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار انہوں نے خدا سے کیا تھا اسکو سچ کر دکھایا تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا
آیت من المومنین رجال رجال مبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہے نکرہ ہونے کے باوجود مبتدا ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ آیت صدقوا اس کی صفت ہے۔ آیت فمنھم من قضی نحبہ، من محل رفع میں ہے کیونکہ یہ مبتدا ہے۔ اسی طرح آیت ومنھم من ینتظر میں من ہے اور خبرجار مجرور ہے۔ نحب کا معنی نذر اور عہد ہے تو اس باب کا یوں ذکر کرتا ہے : نحبت انحب یعنی عین کلمہ پر ضمہ ہے۔ شاعر نے کہا : واذانحبت کلب علیالناس انھم احق بتاج الماجد المتکرم (1) جب بنو کلب لوگوں پر عہد کریں تو وہ بزرگی اور کرم کے تاج کے زیادہ حقدار ہیں۔ ایک اور شاعر نے یہ لفظ یوں استعمال کیا۔ قد نحب المجدعلینا نحبا بزرگی نے ہمارے ساتھ عہد کیا۔ ایک اور شاعر نے کہا : انحب فیقضی ام ضلال وباطل کیا کوئی وعدہ ہے جو پورا کیا جائے یا یہ قول باطل ہے۔ امام بخاری، امام مسلم اور امام ترمذی نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے (2) کہا : میرے چچا حضرت انس بن نضر نے کہا ان کا بھی یہی کام تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ان پر یہ معاملہ بڑا شاق گزرا تھا۔ انہوں نے کہا : پہلی جنگ جس میں رسول اللہ ﷺ شامل ہوئے تھے میں اس سے غائب رہا۔ خبردار ! اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں غزوہ دکھایا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ کہا : وہ اس سے ڈرے کہ اس کے علاوہ کوئی اور کلمہ کہیں۔ اگلے سال وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ احد میں شامل ہوئے۔ حضرت سعد بن مالک انہیں ملے۔ پوچھا : اے ابو عمر و کہاں ؟ جواب دیا : جنت کی ہوا کیا ہی خوب ہے۔ میں اسے احد کی جانب سے پاتا ہوں۔ انہوں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ان کے جسم پر اسی سے زائد زخم، تلوار، نیزہ اور تیر کے پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے کہا : میں نے اپنے بھائی کو اس کے پوروں سے پہچانا اور یہ آیت رجال صدقو ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا نازل ہوئی (1) ۔ الفاظ ترمذی کے ہیں۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ڈٹے رہے یہاں تک کہ ان کا ہاتھ شل ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اوجب طلحہ الجنۃ (2) حضرت طلحہ نے ایسا کام کیا ہے جس کے بدلہ میں حضرت طلحہ کے لیے جنت ثابت ہوگئی ہے۔ ان سے ترمذی شریف میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے ایک جاہل بدو سے کہا : نبی کریم ﷺ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھئے جس نے اپنا وعدہ پورا کیا ؟ صحابہ کرام حضور ﷺ سے سوال کرنے کی جرأت نہیں کیا کرتے تھے۔ صحابہ حضور ﷺ کے وقار کا لحاظ رکھتے تھے اور ڈرا کرتے تھے۔ اس بدو نے حضور ﷺ سے سوال کیا تو حضور ﷺ نے اس سے اعراض کیا۔ اس نے پھر سوال کیا تو حضور ﷺ نے اعراض کیا۔ پھر میں مسجد کے دروازے سے ظاہر ہوا جب کہ میرے جسم پر سبز لباس تھا۔ جب نبی کریم ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا : ” وہ سائل کہاں ہے جو یہ پوچھ رہا تھا کہ کس نے وعدے کا حق ادا کیا ہے ؟ “ بدو نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میں حاضر ہوں۔ فرمایا : ” یہ ان میں سے ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کیا “۔ کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے یونس بن بکیر کی حدیث سے جانتے ہیں (3) ۔ بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب احد سے واپس لوٹے تو حضرت مصعب بن عمیر کے پاس سے گزرے جب کہ وہ آپ ﷺ کے راستہ میں شہید پڑے تھے۔ آپ ﷺ ان پر کھڑے ہوئے اور ان کے حق میں دعا کی، پھر اس آیت کو تلاوت کیا : آیت من المومنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ پھر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت کے روز یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید ہوں گے ان کے پاس آئو اور ان کی زیارت کرو مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! قیامت تک ان پر کوئی سلام پیش نہیں کرے گا مگر یہ اس کا جواب دیں گے “ (4) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : نحب کا معنی موت ہے (5) جس پر عید کیا اسی پر موت آئی۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : نحب کا معنی وقت اور مدت ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : قضی فلان نحبہ جب وہ فوت ہوجائے۔ ذورمہ نے کہا : عشیہ فر الحارثیون بعدما قضی نحبہ فی ملتقی الخیلہوبر (6) اس شام حارثی بھاگ گئے بعد اس کے کہ ہوبر گھوڑوں کی جنگ کے دوران فوت ہوا۔ نحب کا معنی حاجت ہے۔ ایک قائل کہتا ہے۔ مالی عندھم نحب ان کے ہاں میرا کوئی کام نہیں۔ آیت سے یہ مراد نہیں۔ یہاں نحب سے مراد نذر ہے جس طرح ہم نے پہلے کہا، یعنی ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وعدہ نبھانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرلیں یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے جس طرح حضرت حمزہ، حضرت سعد بن معاذ، حضرت انس بن نضر وغیرہ۔ ان میں سے کچھ اپنی شہادت کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد اور نذر میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے قراءت کی : آیت فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر ومنھم من بدل تبدیلا۔ ابوبکر انباری نے کہا : اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مروی ہے کیونکہ اجماع اس کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ان مومنوں اور لوگوں پر لعن ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے مدح کی، صدق اور وفا سے شرف بخشا۔ ان میں کوئی تبدیلی والا معروف نہ ہوا اور نہ ان کی جماعت میں تبدیلی کرنے والا پایا گیا۔ آیت لیجزی اللہ الصادقین بصدقھم۔ اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا تاکہ آخرت میں سچوں کے ان کے سچ پر جزادے آیت ویعذب المنفقین اور آخرت میں منافقوں کو عذا ب دے۔ ان شاء اگر چاہے گا کہ انہیں عذاب دے تو انہیں توبہ کی توفیق نہیں دے گا۔ اگر ان کو عذاب دینا نہیں چاہے گا تو موت سے قبل ان پر نظر کرم فرمائے گا۔ آیت ان اللہ کان غفورا رحیما بیشک اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔
Top