Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اے پیغمبر کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول اللہ کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی اس کو دونی سزا دی جائے گی اور یہ بات خدا کو آسان ہے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ علماء نے کہا : جب نبی کریم ﷺ کی بیویوں نے رسول اللہ ﷺ کے اختیار کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی فضیلت کا ذکر کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی تکریم کے لیے ارشاد فرمایا : آیت لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج اور ان کا حکم دوسروں سے جدا کردیا فرمایا : آیت وما کان لکم ان تو ذو رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان کی طاعت کا ثواب اور ان کی معصیت کا عقاب دوسروں سے زیادہ کردیا۔ فرمایا : آیت یانساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضعف لھا العذاب ضعفین اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج میں سے جو فاحشہ لائی ( اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے رسول اللہ ﷺ کو اس سے محفوظ رکھنے والی ہے جس طرح حدیث افک میں گزرچکا ہے) اللہ تعالیٰ ان کے لیے عذاب کو دگنا کر دے گا۔ یہ ان کے مقام کے شرف اور درجہ کی فضیلت کی وجہ سے ہے۔ اور ان کے دوسری تمام عورتوں پر تقدم کی وجہ سے یہ حکم لگا یا۔ شریعت نے یہ بیان کیا جس کا ذکر کئی مواقع پر گزرچکا ہے جس طرح اس کی وضاحت میں گزرچکا ہے کہ جب حرمتیں اور عزتیں زیادہ ہوں گی تو پھر ان کو پامال کیا جائے تو عقوبتیں بھی کئی گناہوں گی۔ اسی وجہ سے غلام کے بدلہ میں آزاد اور باکرہ کے مقابلہ میں ثیبہ کی حد دگنی ہوتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب نبی کریم ﷺ کی ازواج وحی کے نازل ہونے کی جگہ رہتی تھیں اور اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کے نازل ہونے کی جگہ رہتی تھیں تو ان پر معاملہ قوی ہوگیا تو ان کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ان پر ایسی چیز لازم ہوگی جو اس سے زائد ہوگی جو ان کے علاوہ پر لازم ہوگا (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے کی وجہ ان کے جرائم کا ضرر بڑھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینے کی وجہ سے ان کا جرم اتنا بڑا ہوگیا تو عقوبت بھی اس پر اسی قدر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت ان الذین یو ذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرۃ اس قول کو طبری نے پسند کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ ایک قوم کا کہنا ہے : اگر ان میں سے کسی ایک سے بدکاری واقع ہوئی جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اس جرم سے محفوظ رکھا تو عظمت شان کی وجہ سے اس کی دو حدیں جاری کی جاتیں، جس طرح آزاد عورت کو لونڈی کے مقابلہ میں زیادہ کوڑوں کی صورت میں حد جاری کی جاتی ہے۔ یہاں عذاب حد کے معنی میں ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت ولیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین (النور) اس اعتبار سے ضعفین کا معنی مثلین یا مرتین ہے ابو عبیدہ نے کہا : ضعف الشیء سے مراد دو چیزیں ہیں یہاں تک کہ وہ تین ہوجائیں (2) ۔ ابو عمر و نے یہ قول کیا جو طبری نے اس سے حکایت بیان کی ہے تو اس کی طرف دو عذابوں کو منسوب کیا جائے جو دونوں اس کی مثل ہوں گے تو یہ تین عذاب ہوجائیں گے۔ طبری نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اس طرح یہ غیر صحیح ہے، اگرچہ الفاظ کے اعتبار سے اس کا احتمال موجود ہے۔ اجر کا دو دفعہ ہونا اس قول کو فاسد کردیتا ہے، کیونکہ فاحشہ میں عذاب، طاعت میں اجر کے مقابل ہے ؛ یہ ابن عطیہ کا قول ہے (3) ۔ نحاس نے کہا : ابو عمر و نے یضاعف اور یضعف میں فرق کیا ہے۔ کہا : یضاعف کئی دفعہ کے لیے ہے اور یضعف دو دفعہ کے لیے بو لا جاتا ہے، اسی وجہ سے اسے یضعف پڑھا گیا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : آیت یضعف لھا العذاب اس کو تین عذاب بنا دیا جائے گا (4) ۔ نحاس نے کہا : ابو عمرو اور ابو عبیدہ نے جو فرق بیان کیا ہے جن علماء لغت کو میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی بھی اسے نہیں پہچانتا۔ یضاعف اور یضعف کا معنی ایک ہی ہے یعنی اسے دو گنا کردیا جائے گا، جس طرح تو کہتا ہے : ان دفعت الی درھما دفعت الیک ضعفیہ یعنہ اگر تو نے مجھے ایک درہم دیا تو میں تجھے دو درہم دوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت نوئتھا اجرھا مرتین دلالت کرتا ہے۔ عذاب اجر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ایک اور موقع پر فرمایا : آیت اتھم ضعفین من العذاب یہاں بھی دو مثل ہے۔ معمر نے قتادہ سے آیت یضعف لھا العذاب ضعفین کی یہ تعبیر روایت کی ہے کہ دنیا کا عذاب اور آخرت کا عذاب۔ قشیری ابو نصر نے کہا : ظاہر یہ ہے کہ ضعفین سے مراد دو مثل ہیں، کیونکہ ارشاد فرمایا : آیت نوئتھا اجرھا مرتین وصایہ میں ہے۔ اگر کسی انسان نے کسی انسان کے حق میں اپنے بچے کے حصہ سے دو ضعف وصیت کی تو یہ اس امر کی وصیت ہوگی کہ اس آدمی کو بچے کے حصہ سے تین گنا دیا جائے گا، کیونکہ وصیتیں عرف کے مطابق جاری ہوتی ہے، اور کلام اللہ کی تفسیر کلام عرب کی طرف پھیری جاتی ہے۔ اور کلام میں ضعف کا لفظ مثل اور مازاد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ دو مثل متصور نہیں۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : ھذا ضعف ھذا یعنی یہ اس کی مثل ہے۔ ھذا ضعفاہ یہ اس کی مثل ہے۔ اصل میں ضعف اس زیادتی کے لیے بولا جاتا ہے جو غیر محصور ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت فاولئک لھم جزاء الضعف (سبا : 37) اس سے ایک مثل یا دو مثل کا ارادہ نہیں کیا، یہ سب ازہری کا قول ہے۔ سورة نور میں وہ اختلاف گزرچکا ہے جو اس آدمی پر حد کے بارے میں ہے جو ان میں سے کسی پر تہمت لگاتا ہے۔ الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر 3۔ ابو رافع نے کہا : حضرت عمر ؓ اکثر صبح کی نماز میں سورة یوسف اور سورة احزاب کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ جب آپ اس آیت ینساء النبی پر پہنچتے تو اپنی آواز کو بلند کرتے۔ اس سے بارے میں آپ سے عرض کی گئی تو فرمایا : میں انہیں وعدہ یاد دلاتا ہوں (1) ۔ جمہور نے من یائت قراءت کی اسی طرح من یقنت کو من کے لفظ پر محمول کیا ہے۔ القنوت کا معنی طاعت ہے۔ یہ بحث گزر چکی ہے۔ یعقوب نے من تائت اور تقنت تاء کے ساتھ پڑھا ہے وہ معنی پر محمول کرتے ہیں۔ ایک قوم نے کہا : فاحشہ کا لفظ جب معرفہ وارد ہو تو اس سے مراد زنا اور لواطت ہے (2) ۔ جب یہ نکرہ ہو تو اس سے مراد باقی ماندہ معاصی ہیں۔ جب یہ بطور منعوت واقع ہو تو اس سے مراد یہاں بیوی کی ناچاقی اور حسن معاشرت کا نہ ہونا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : بلکہ اس کا فرمان بفاحشۃ مبینہ تمام معاصی کو عام ہے (3) ۔ اسی الفاحشۃ کا لفظ جس طرح بھی وارد ہو۔ ابن کثیر نے مبینۃ یاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ نافع اور ابو عمر و نے اسے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ایک جماعت نے یضاعف عین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں فعل اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہوگا۔ ابو عمرو نے خارجہ کی روایت میں نضاعف نون مضموم اور العذاب کے نصب کے ساتھ قراءت کی ہے، یہ ابن محصین کی قراءت ہے۔ یہ ایک فرد کی جانب سے باب مفاعلہ کا اظہار ہے، جس طرح طارقت النعل عاقبت الص میں باب مفاعلہ ایک فاعل کے لیے ہے۔ نافع، حمزہ اور کسائی نے یضاعف کو یاء اور عین کے فتحہ کے ساتھ پڑ ھا ہے اور العذاب کو مرفوع پڑھا ہے ؛ یہ حضرت حسن بصری، ابن کثیر اور عیسیٰ کی قراءت کی ہے۔ ابن کثیر اور ابن عامر نے نضعف کو نون اور عین مشددہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور العذاب کو منصوب پڑھا ہے۔ مقاتل نے کہا : عذاب میں یہ تضعیف آخرت میں ہوگی ؛ کیونکہ اجر کا دو دفعہ ہونا آخرت میں ہوگا۔ یہ حسن ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ کی ازواج ایسا جرم نہیں کریں گی جو حد کو واجب کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نبی کی بیوی نے کبھی بھی بدکاری نہیں کی۔ انہوں نے ایمان اور طاعت میں خیانت کی۔ بعض مفسرین نے کہا : وہ عذاب جس کے دگنا ہونے کی انہیں دھمکی دی گئی وہ دنیا اور آخرت کا عذاب ہے (1) ۔ اسی طرح اجر ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول ضعیف ہے (2) ، مگر اس صورت میں کہ نبی کریم ﷺ کو ازواج سے دنیا کی حد ودان سے آخرت کے عذاب کو ختم نہ کریں، جیسا کہ لوگوں کا حال ہے جو حضرت عبادہ بن صامت کی حدیث سے ثابت ہے۔ یہ ایسا امر ہے جو نبی کریم ﷺ سے مروی نہیں اور نہ اس کے ثبوت کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اہل تفسیر کا قول ہے کہ رزق کریم سے مراد جنت ہے، نحاس نے اس کا ذکر کیا ہے۔
Top