Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠   ۧ
وَاذْكُرْنَ : اور تم یاد رکھو مَا يُتْلٰى : جو پڑھا جاتا ہے فِيْ : میں بُيُوْتِكُنَّ : تمہارے گھر (جمع) مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں وَالْحِكْمَةِ ۭ : اور حکمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے لَطِيْفًا : باریک بین خَبِيْرًا : باخبر
اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو بیشک خدا باریک بین اور باخبر ہے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ آیت واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ یہ الفاظ یہ معنی دیتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد حضور ﷺ کی ازواج ہیں۔ اہل علم نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ اہل بیت کون ہیں ؟ (1) ۔ عطا، عکرمہ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : مراد صرف آپ کی ازواج ہیں ان کے ساتھ کوئی مرد اہل بیت میں شامل نہیں۔ وہ اس طرف گئے ہیں کہ بیت سے مراد حضور ﷺ کے مسکن ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت واذکرن مایتلی فی بیوتکن، ایک فرقہ نے کہا : جن میں کلبی ہیں : مراد حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ ہیں (1) ۔ اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے کئی احادیث مروی ہیں۔ انہوں نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے آیت لیذہب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم اگر یہ خاص کر عورتوں کے لیے حکم ہوتا تو یوں ارشاد ہوتا عنکن ویطھر کن مگر یہ احتمال موجود ہے کہ کم ضمیر لفظ اہل کے اعتبار سے ہو، جس طرح ایک آدمی اپنے ساتھی سے کہتا ہے : کیف اھلک مراد ہوتا ہے تیری بیوی یا تیری بیویاں کیسی ہیں ؟ وہ کہتا ہے : ھم بخیر وہ اچھی ہیں۔ محل استدلال ھم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت ( ہود : 73) آیت سے جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ آیت تمام اہل بیت کو عام ہے، وہ بیویاں ہوں یا اور۔ فرمایا : آیت ویطھرکم کیونکہ رسول اللہ ﷺ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ ان میں شامل تھے۔ جب مذکر اور مونث جمع ہوجائیں تو مذکر کو غلبہ دیا جاتا ہے۔ آیت تقاضا کرتی ہے کہ بیویاں اہل بیت سے ہیں، کیونکہ انہیں کے متعلق ہے اور ان کو ہی خطاب کیا جا رہا ہے۔ اسی پر سیاق کلام بھی دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ جہاں تک ام سلمہ کا تعلق ہے انہوں نے کہا : یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کو بلایا رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ خیبر کی بنی چادر میں داخل ہوگئے۔ فرمایا : ” یہ میرے اہل بیت ہیں “۔ اور آیت کو پڑھا۔ دعا کی۔ ” اے اللہ ! ان سے رجس کو دور کردے اور انہیں پاکیزہ بنا دے “۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ فرمایا : انت علی مکانک وانت علی خیر تو اپنے مرتبہ پر ہے اور تو بھلائی پر ہے۔ امام ترمذی اور دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔ کہا : یہ حدیث غریب ہے (2) ۔ قشیری نے کہا : حضرت ام سلمہ ؓ نے کہا : میں نے اپنا سر چادر میں داخل کیا اور عرض کی : یارسول اللہ ! میں ؟ فرمایا : ” ہاں “۔ ثعلبی نے کہا : اہل بیت سے مراد بنو ہاشم ہیں (3) ۔ یہ تعبیر دلالت کرتی ہے کہ بیت سے مراد نسب کا بیت ہے تو حضرت عباس، حضور ﷺ کے چچے اور ان کی اولاد اس میں شامل ہوں گے، اس کی مثل حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے۔ کلبی کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت واذکرن اللہ تعالیٰ کے خطاب کی ابتدا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے امر کا خطاب نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو ہو رہا ہے (4) ۔ یہ نصیحت کے انداز میں اور اس نعمت کو شمار کرنے کے انداز میں ہے وہ نعمت جو ان کے گھروں میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور حکمت کی باتیں کی جاتی ہیں۔ علماء تاویل کہتے ہیں کہ آیات اللہ سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت واذکرن ماقبل کے ساتھ متعلق ہے۔ عنکم اھل کی وجہ سے فرمایا پس اہل مذکر ہے، اگرچہ وہ مونث ہیں پھر بھی انہیں مذکر کے ساتھ یاد کیا اس وجہ سے عنکم ہوگیا کلبی اور اس جیسے لوگوں کے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس تفسیر میں ایسی اشیاء پائی جاتی ہیں اگر سلف صالحین کے زمانہ میں پائی جاتیں تو وہ اسے اس سے روک دیتے اور اس پر حجر کا حکم لگا دیتے۔ تمام آیات یایھا النبی قل لازواجک سے لے کر آیت ان اللہ کان لطیفا خبیرا تک سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ درمیان میں کوئی ایسی کلام ہو جو منفصل ہو اور غیر کے لیے ہو۔ بیشک یہ احادیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کو بلایا تو نبی کریم ﷺ نے ایک چادر کا قصد کیا۔ اسے ان پر لپیٹا، پھر اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا : ” اے میرے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں، اے اللہ ! ان سے رجس کو دور فرما دے اور انہیں پاکیزہ کر دے “ (1) ۔ آیت کے نازل ہونے کے بعدنبی کریم ﷺ نے انہیں بلایا، تو آپ نے پسند کیا کہ انہیں بھی اس آیت کے حکم میں داخل کردیں جس کے ساتھ ازواج کو خطاب کیا گیا تھا۔ کلبی اور ان کی موافقت کرنے والے اس طرف گئے ہیں اور اس آیت کو ان کے لیے خاص کیا ہے جب کہ ان کے حق میں دعا کرنا تنزیل کے حکم سے خارج ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ ذکر کا لفظ تین معانی کا احتمال رکھتا ہے : (1) وہ نعمت کے محل کو یاد کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے گھروں والا بنادیا جن میں اللہ تعالیٰ کی آیات اور حکمت کو تلاوت کیا جاتا ہے۔ (2) وہ اللہ تعالیٰ کی آیات یاد کریں اور ان کی قدر پہچانیں اور ان میں غورو فکر کریں یہاں تک کہ تم میں سے ہر ایک ایسی حالت پر ہو تم اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں سے نصیحت حاصل کرو جس کا یہ حال ہو اس کے لیے مناسب ہے کہ اس کے افعال اچھے ہوں۔ مسئلہ نمبر 3۔ آیت واذکرن کا معنی ہے تم یاد کرو، انہیں پڑ ھو اور زبانوں پر اسے لازم کرو۔ گویا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کو یاد رکھو۔ یہی وہ چیز ہے جن کی تمہارے گھروں میں اللہ تعالیٰ کی آیات کی صورت میں تلاوت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ جو قرآن حکیم ان کے گھروں میں نازل ہوتا ہے اس کی خبر دیں اور جو نبی کریم ﷺ کے افعال دیکھتی ہیں اور آپ ﷺ کے جو اقوال سنتی ہیں اس کی خبر دیں تاکہ یہ لوگوں تک پہنچیں تو لوگ ان پر عمل کریں اور اس کی اقتدا کریں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ دین کے معاملہ میں مردوں اور عورتوں کی جانب سے خبر واحد قبول کی جائے گی۔ (3) ابن عربی نے کہا : اس آیت میں عمدہ مسئلہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ ﷺ پر جو قرآن نازل کیا جائے اس کی تبلیغ کریں اور دین میں سے جن امور سے آگاہ ہوں اس کی تعلیم دیں (2) ۔ جب آپ ﷺ کسی ایک پر آیت پڑھ دیتے یا کوئی اتفاقا اس کو سن لیتا تو آپ ﷺ سے فرض ساقط ہوجاتا تو اسے جو سنتا اس پر لازم تھا کہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔ آپ ﷺ پر یہ لازم نہیں تھا کہ آپ ﷺ سب صحابہ کو یہ ذکر کریں۔ اسی طرح جب آپ کی بیویاں اس کو جان لیں تو حضرت علی ؓ پر یہ لازم نہیں تھا کہ لوگوں کی طرف نکلیں اور انہیں کہیں : فلاں حکم نازل ہوا اور یہ نازل نہیں ہوا اسی وجہ سے ہم یہ کہتے ہیں : شرمگاہ کے چھونے سے وضو کے وجوب کے حکم پر عمل کرنا جائز سمجھتے ہیں (3) وہ بسرہ بنت صفوان سے مروی ہے کیونکہ انہوں نے وہی روایت کیا جو انہوں نے سنا اور اسی کو آگے پہنچایا جو انہوں نے یاد کیا یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حکم مردوں تک پہنچتا، جس طرح امام ابوحنیفہ (1) نے کہا کیونکہ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابن عمرؓ سے روایات نقل کی ہے۔
Top