Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 45
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ : بیشک ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈر سنانے والا
اے پیغمبر ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے
اس آیت میں نبی کریم ﷺ اور مومنوں کے لیے انس پیدا کیا جا رہا ہے اور ان سب کی تکریم کی جا رہی ہے۔ یہ آیت نبی کریم ﷺ کے چھ اسماء کے اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ اور ہمارے نبی کے کثیر اسماء ہیں اور جلیل القدر علامات ہیں۔ ان کا ذکر کتاب، سنت اور متقدم کتب میں وارد ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے اسماء میں سے محمد اور احمد کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ ثقہ اور عادل لوگوں نے جو آپ سے روایات نقل کی ہیں ان میں ہے۔ ” میرے پانچ نام ہیں میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں اللہ میرے ساتھ کفر کو مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں لوگ میرے قدم پر اٹھیں گے اور میں عاقب ہوں “ (1) ۔ ٓصحیح مسلم میں حضرت جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام رئوف اور رحیم رکھا (2) ۔ اس میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے : حضور ﷺ میرے لیے اپنے ناموں کا ذکر کرتے۔ آپ فرماتے : ” میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں مقفی ہوں، میں حاشر ہوں، میں نبی توبہ ہوں اور میں نبی رحمت ہوں “ (3) ۔ قاضی ابو الفضل عیاض نے اپنی کتاب جس کا نام ” الشفاء “ ہے اس میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ جو اسماء کتاب اللہ میں آتے ہیں، جو رسول اللہ کی سنت میں ہیں، جو کتب مقدمہ میں منقول ہوں اور امت نے جو کثیر اسماء اور مختلف صفات کا ذکر کیا ہے۔ یہ مسمیات حضور ﷺ پر صادق آتے ہیں اور آپ کی ذات میں ان کے معانی پائے گئے ہیں۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے احکام میں اس آیت کی تفسیر میں نبی کریم ﷺ کے 67 ناموں کا ذکر کیا ہے اور وسیلۃ المتعبدین ا کی متابعہ سید المرسلین کے مصنف نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ذکر کی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کے ایک سو اسی نام ہیں۔ جو ان کی طلب رکھتا ہے وہ ان کو وہاں پا لے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی اور حضرت معاذ کو بلایا اور دونوں کو یمن طرف بھیجا اور فرمایا : ” دونوں جائو دونوں بشارت دینا، متنفر نہ کرنا، سہولت پیدا کرنا، سختی نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ نازل کیا ہے اور اس آیت کی تلاوت کی “ (1) َ آیت شاھدا سعید نے قتادہ سے روایت نقل کی ہے : آپ اپنی امت پر شاہد ہیں کہ آپ نے انہیں تبلیغ کی اور تمام امتوں پر گواہ ہیں کہ ان کے انبیاء نے انہیں تبلیغ کی (2) ۔ اسی طرح دوسرے اقوال ہیں۔ آیت مبشرا اس کا معنی ہے مومنوں کو اللہ کی رحمت اور جنت کی بشارت دینے والے ہیں۔ آیت ونذیرا اس کا معنی ہے نافرمانوں اور جھٹلانے والوں کو آگ اور دائمی عذاب سے خبر دار کرنے والے ہیں۔ آیت وداعیا الی اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کا مطلب یہ ہے توحید کی تبلیغ کرنا، اس کو اپنانا اور کفار سے جہاد کرنا۔ آیت باذنہ یہاں اس کا معنی ہے اس کا تجھے حکم دینا اور اس کا اس کے وقت اور اس کے حالات میں مقدر کرنا۔ آیت وسراجا منیرا یہاں یہ اس نور سے مجاز ہے جسے آپ کی شرع اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آیت وسراجا سے مراد گمراہی کی تاریکی سے ہدایت دینے والے ہیں جب کہ آپ روشن چراغ کی طرح ہیں۔ یہاں انارہ کے ساتھ صفت ذکر کی کیونکہ چراغوں میں سے کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو روشنی نہیں دیتے جب ان کا تیل کم ہو اور اس کی بٹ باریک ہو۔ ان میں سے بعض کی کلام میں ہے : تین چیزیں کمزور کردیتی ہیں سست قاصد، چراغ جو روشنی نہ دے اور ایسا دستر خوان جس کا آنے والا انتظار کرے، ان میں سے بعض سے ان چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا جس سے وحشت محسوس کی جاتی ہے۔ فرمایا : ایسی تاریکی جو ہر طرف سے ڈھانپے ہوئے ہو اور ایسا چراغ جو روشنی نہ دے (3) ۔ نحاس نے سند بیان کی۔ محمد بن ابراہیم رازی، عبدالرحمن بن صالح ازدی سے وہ عبد الرحمن بن محمد محاربی سے وہ شیبان نحوی سے وہ قتادہ سے وہ عکرمہ سے اور وہ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت نقل کرتے ہیں : جب یہ آیت یا ایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشراو نذیراوداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا نازل ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی اور حضرت معاذ ؓ کو بلایا، فرمایا : ” دونوں جا ئو بشارت دینا اور سختی نہ کرنا، کیونکہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایک آیت نازل کی ہے۔ یا ایھا النبی انا ارسلنک شاھدا ومبشراو نذیرا “ یعنی آگ سے ڈرانے والا
Top