Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 53
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُ١ۙ وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ١٘ وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ١ؕ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ١ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ١ؕ وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَدْخُلُوْا : تم نہ داخل ہو بُيُوْتَ : گھر (جمع) النَّبِيِّ : نبی اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يُّؤْذَنَ : اجازت دی جائے لَكُمْ : تمہارے لیے اِلٰى : طرف (لیے) طَعَامٍ : کھانا غَيْرَ نٰظِرِيْنَ : نہ راہ تکو اِنٰىهُ ۙ : اس کا پکنا وَلٰكِنْ : اور لیکن اِذَا : جب دُعِيْتُمْ : تمہیں بلایا جائے فَادْخُلُوْا : تو تم داخل ہو فَاِذَا : پھر جب طَعِمْتُمْ : تم کھالو فَانْتَشِرُوْا : تو تم منتشر ہوجایا کرو وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ : اور نہ جی لگا کر بیٹھے رہو لِحَدِيْثٍ ۭ : باتوں کے لیے اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : یہ تمہاری بات كَانَ يُؤْذِي : ایذا دیتی ہے النَّبِيَّ : نبی فَيَسْتَحْيٖ : پس وہ شرماتے ہیں مِنْكُمْ ۡ : تم سے وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَسْتَحْيٖ : نہیں شرماتا مِنَ الْحَقِّ ۭ : حق (بات) سے وَاِذَا : اور جب سَاَلْتُمُوْهُنَّ : تم ان سے مانگو مَتَاعًا : کوئی شے فَسْئَلُوْهُنَّ : تو ان سے مانگو مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ۭ : پردہ کے پیچھے سے ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات اَطْهَرُ : زیادہ پاکیزگی لِقُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں کے لیے وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ : اور ان کے دل وَمَا كَانَ : اور (جائز) نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تُؤْذُوْا : کہ تم ایذا دو رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول وَلَآ : اور نہ اَنْ تَنْكِحُوْٓا : یہ کہ تم نکاح کرو اَزْوَاجَهٗ : اس کی بیبیاں مِنْۢ بَعْدِهٖٓ : ان کے بعد اَبَدًا ۭ : کبھی اِنَّ : بیشک ذٰلِكُمْ : تمہاری یہ بات كَانَ : ہے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک عَظِيْمًا : بڑا
مومنو ! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر اس صورت میں کہ تم کو کھانے کے لئے اجازت دی جائے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے لیکن جب تمہاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے تھے (اور کہتے نہیں تھے) لیکن خدا سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو یہ تمہارے اور انکے (دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے) اور تم کو یہ شایان نہیں کہ پیغمبر خدا کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ انکی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو بیشک یہ خدا کے نزدیک بڑا گناہ (کا کام) ہے
اس میں سولہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ آیت لا تدخلو بیوت النبی الا ان یوذن لکم، ان محل نصب میں ہے۔ یہ اس معنی میں ہے آیت الا ان یوذن لکم یعنی جار کے حذف کے ساتھ منصوب ہے یہ استثناء اول یعنی بیوت النبی سے نہیں ( بلکہ لاتدخلو کی ضمیر سے ہے) آیت الی طعام غیر ناظرین اناہ غیر یہ حال ہونے کی حیثیت سے منصوب ہے یعنی تم اس حال میں دخل نہ ہو۔ غیر میں جر طعام کی صفت ہونے کے اعتبار سے درست نہیں کیونکہ اگر یہ نعت ہوتی تو فاعل کا ظاہر کرنا ضروری تھا تو ارشاد ہوتا : غیر ناظرین اناہ انتم اسی کی مثل علم نحو میں ہے ھذا رجل مع رجل ملازم لہ اگر تو چاہے تو کہے : ھذا رجل مع رجل ملازم لہ ھو۔ یہ آیت دو قصوں کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے : (1) کھانے اور بیٹھنے کا آداب (2) حجاب کا حکم۔ حماد بن زید نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے آپ کو پریشان کیا تھا۔ پہلا قصہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے، اس کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت زینب بنت جحش جو حضرت زید کی مطلقہ تھیں سے شادی کی تو اس پر دعوت ولیمہ کی۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بلایا، جب وہ کھانا کھاچکے تو ان میں سے کچھ لوگ مختلف حلقے بنا کر بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ کے گھر میں باتیں کرنے لگے جب رسول اللہ ﷺ کی اہلیہ اپنا منہ دیوار کی طرف کیے ہوئے تھی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو پریشان کردیا۔ حضرت انس نے کہا : میں نہیں جانتا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو بتایا کہ لوگ جا چکے ہیں یا آپ ﷺ نے مجھے خبر دی۔ کہا : آپ چلے یہاں تک کہ گھر میں داخل ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ داخل ہونے لگا تو آپ ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور حجاب کا حکم نازل ہوا (1) کہا : حضور ﷺ نے لوگوں کو نصیحت کی جن امور کے ساتھ نصیحت کی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : آیت یا ایھا الذین امنوا لاتدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم ای طعام غیر ناظرین اناہ ولکن اذا دعیتم فادخلوا فا ذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیثان ذالکم کان یوذی النبی فیستحی منکم واللہ لا یستحیی من الحقواذا سالتموھن متاعا فسئلو ھن من وراء حجابذالکم اطھر لقلوبکم وقلوبھنوما کان لکم ان توء ذو رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذالکم کان عنداللہ عظیما اسے صحیح نقل کیا ہے۔ قتادہ اور مقاتل نے کتاب الثعلبی میں کہا : یہ واقعہ حضرت ام سلمہ کے گھر میں واقع ہوا (2) جب کہ پہلا قول صحیح ہے جس طرح صحیح نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : یہ آیت مومنوں میں سے چند افراد کے بارے میں نازل ہوئی (3) ، وہ نبی کریم ﷺ کے کھانے کے وقت کا انتظار کرتے اور حضور ﷺ کے کھانا شروع کرنے سے قبل گھر میں داخل ہوجاتے وہ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ آپ کھانا پاتے، پھر کھاتے اور گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ اسماعیل بن حکیم نے کہا : یہ ادب ہے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو سکھایا جو پریشانی کا باعث بنا کرتے (4) ۔ ابن ابی عائشہ نے کتاب الثعلبی میں کہا : ثقلاء ( پریشانی کا باعث بننے والے) کے لیے یہی کافی ہے کہ شرع نے انہیں برداشت نہیں کیا (5) ۔ جہاں تک حجاب کے قصہ کا تعلق ہے تو حضرت انس بن مالک ؓ اور ایک جماعت نے کہا : اس کا سبب زینب کا ابھی گزرنے والا واقعہ ہے (6) ۔ حضرت عائشہ ؓ اور ایک جماعت نے کہا : اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کہا : میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ آپ کی ازواج مطہرات کے ہاں نیک اور برے لوگ آتے ہیں۔ کاش ! آپ انہیں حجاب کا حکم دیتے، تو یہ آیت نازل ہوئی (7) ۔ صحیح نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہا : میں نے اپنے رب سے تین امور میں موافقت کی ہے (8) ۔ مقام ابرہیم، حجاب اور بدر کے قیدیوں میں۔ حجاب کے بارے میں جو بھی اقوال ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے یہ صحیح ترین ہے۔ ان دو اقوال کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں سب کے سب کمزور ہیں، کوئی بھی اصل پر قائم نہیں۔ ان میں سے کمزور ترین وہ روایت ہے جو حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو حجاب کا حکم دیا، تو حضرت زینب بنت جحش نے کہا : اے ابن خطاب ! تم ہمارے بارے میں غیرت کھاتے ہو جب کہ ہمارے گھروں میں وحی نازل ہوتی ہے (1) ، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : آیت واذا سالتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب یہ روایت باطل ہے کیونکہ حجاب کا حکم اس روز نازل ہوا جب نبی کریم ﷺ نے حضرت زینب کو حرم میں داخل کیا۔ جس طرح ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اور دوسرے علماء نے اس نقل کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کہ رسول اللہ ﷺ کھانا کھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے ساتھ چند صحابہ بھی کھانا کھا رہے تھے۔ ان صحابہ میں سے ایک کا ہاتھ حضرت عائشہ صدیقہ کے ہاتھ کو جا لگا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے ناپسند کیا تو یہ آیت حجاب نازل ہوئی (2) ۔ ابن عطیہ نے کہا : قوم کا معمول یہ تھا جب ان کے لیے دعوت ولیمہ یا اس طرح کی کوئی دعوت ہوتی جو چاہتا جلدی پہنچ جاتا وہ کھانا پکنے کا انتظار نہ کرتا (3) ، اسی طرح جب کھانے سے فارغ ہوتے تو اسی طرح بیٹھے رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے گھر میں مومنوں کو اس قسم کا طرز عمل اپنانے سے منع کیا۔ اسی نہی میں سارے مومن داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جو ادب سکھایا وہ تمام لوگوں کا لازم ہوگیا۔ انہیں گھر میں داخل ہونے سے منع کردیا مگر کھانے کے وقت جب اجازت دی جائے، نہ کہ اس سے قبل کہ تم کھانا پکنے کا انتظار کرو۔ مسئلہ نمبر 2۔ آیت بیوت النبی یہ اس امر پر دلیل ہے کہ بیت مرد کا ہوتا ہے۔ اور اس کا اسی کے حکم میں فیصلہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیت کی نسبت مرد کی طرف کی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایات اللہ والحکمۃ ان اللہ کان لطیفا خبیرا ہم کہیں گے : بیوت کی نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت ملکیت کے اعتبار سے ہے اور بیوت کی ازواج کی طرف نسبت محل کے اعتبار سے ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اجازت دینے کا اختیار نبی کریم ﷺ کو دیا گیا ہے، اجازت دینے کا حق مالک کو ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ نبی کریم ﷺ کے گھروں کے بارے میں اختلاف ہے جب آپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کے اہل اس میں مقیم تھے کیا یہ گھر ان اہل کی ملکیت ہوں گے یا ملکیت نہیں ہوں گے ؟ اس کے بارے میں دو قول ہیں : (1) ایک طائفہ کا قول ہے : یہ گھر ان ازواج مطہرات کے ملکیت ہوں گے، اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ ازواج مطہرات نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد اپنی وفات تک ان میں سکونت پذیر رہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں یہ گھر اپنی حیات میں عطا کردیئے تھے۔ (2) یہ صرف رہائش رکھنے کے لیے تھے جس طرح کوئی آدمی اپنے گھر والوں کو اس میں رکھتا ہے، یہ ہبہ نہیں ہوتے، موت تک ان کی رہائش ان گھروں میں ہی رہی (4) ؛ یہ ہی صحیح قول ہے۔ یہی وہ قول ہے جسے ابو عمر بن عبد البر، ابن عربی اور دوسرے علماء نے پسند کیا ہے، کیونکہ ان کی ذمہ داریوں میں سے ایسی ذمہ داری تھی رسول اللہ ﷺ نے جن کی استثناء کردی تھی، جس طرح حضور ﷺ نے ان کے نفقات کو مستثنی کردیا تھا جب فرمایا : ” میرے ورثاء میرے ورثہ کو دینار اور درہم کی صورت میں تقسیم نہیں کریں گے جو کچھ میں نے چھوڑا ہے وہ میرے اہل کے نفقہ اور عامل کی مزدوری کے بعد صدقہ ہے “ (1) ۔ اہل علم نے اسی طرح کہا ہے۔ انہوں نے کہا : اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ ان گھروں کے مالک ان ازواج مطہرات کے وارث مالک نہیں بنے تھے۔ انہوں نے کہا : اگر یہ گھر ان ازواج مطہرات کی ملکیت ہوتے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ازواج مطہرات کے ورثاء ان گھروں کے مالک بھی ہوتے۔ علماء نے کہا : جب ان کے وارثوں نے ان گھروں کا چھوڑ دیا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یہ ان کی ملکیت نہ تھی۔ یہ صرف ایسے گھر تھے جن میں وہ اپنی زندگی تک رہائش رکھ سکتی تھیں۔ جب ان کا وصال ہوگیا تو ان گھروں کو مسجد میں شامل کرلیا گیا جس مسجد کا نفع تمام مسلمانوں کو حاصل ہے، جس طرح رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں سے جسے ان کے نفقہ کے لیے مختص کیا گیا تھا جب ان ازواج کا وصال ہوگیا تو اسے واپس اصل مال میں شامل کرلیا گیا اور تمام مسلمانوں کے منافع کے لیے اسے صرف کیا گیا جس کا نفع تمام کو عام تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ آیت غیر ناظرین اناہ وہ اس کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کر رہے ہوں۔ اناہ الف مقصورہ کے ساتھ ہے اس میں کئی لغتیں ہیں۔ انی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ شیبانی نے کہا : وکسریاذاتقسمہبنوہیاسیافکما اقتماللحام تمخضت المنون لہبیوم انی ولکل حاملۃ تمام کسری، جب اس کے بیٹوں نے اس کی بادشاہت کو تلواروں سے تقسیم کیا جس طرح گوشت تقسیم کیا جاتا ہے لوگوں نے اسے اس دن کے قریب کردیا جو پہنچنے والا تھا اور ہر حاملہ کے لیے مکمل تھا۔ ابن ابی عبلہ آیت غیر ناظرین اناہ طعام کی صفت بناتے ہوئے غیر کو مجرور پڑھا ہے۔ زمحشری نے کہا : یہ توجیہ درست نہیں کیونکہ یہ صفت غیر حقیقی ہے۔ حقیقت میں یہ جس کی طرف منسوب ہے اس ضمیر کا لفظوں میں ظاہر ہونا ضروری ہے تو پھر کہا جاتا : غیر ناظرین اناہ انتم جس طرح تیرا قول ہے : ھند زید ضاربتہ ھی۔ انی ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ اور اناء ہمزہ کے فتحہ اور الف ممدودہ کے ساتھ بھی ہے۔ حطیہ نے کہا : واخرت العشاء الیسھیل اوالشعریفطالبیالاناء رات کے کھانے کو سہیل ستارہ یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک موخر کیا گیا پس میرا فارغ ہونا طویل ہوگیا۔ مراد سہیل ستارہ کا طلوع ہونا ہے۔ انا یہ انی الشی یانی کا مصدر ہے جب وہ فارغ ہوجائے اس کا وقت ہوجائے اور پالے۔ مسئلہ نمبر 4۔ آیت ولکن اذا دعیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا منع کرنے کو موکد کیا اور دخول کے وقت کو خاص کیا کہ یہ اجازت کے ساتھ ہونا چاہیے اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور اس حاضری کو ناپسندیدہ طوالت سے بچایا جائے۔ ابن عربی نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے، لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے اور تمہیں داخل ہونے کی دعوت دی جائے تو داخل ہو جائو ورنہ صرف دعوت داخل ہونے کے لیے کافی اجازت نہیں۔ اذا کے جواب میں فاء ضروری ہے کیونکہ اس میں جزا کا معنی موجود ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ آیت فاذا طعمتم فانتشروا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کھانا کھانے کے بعد سب الگ الگ ہوجائیں اور منتشر ہوجائیں۔ مراد یہ ہے کہ جب کھانے کا مقصود پورا ہوجائے تو گھر سے نکل آنا ان پر لازم ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ داخل ہونا حرام ہے۔ داخل ہونا صرف اس وقت جائز تھا جب کھانا کھانا ہو۔ کب کھانا ختم ہوچکا تو اس کو مباح کرنے والا سبب زائل ہوگیا اور حرمت اپنے اصل کی طرف لوٹ آئی۔ مسئلہ نمبر 6۔ اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ مہمان میزبان کی ملکیت کی بنا پر کھانا کھاتا ہے وہ کھانا اپنی ملکیت ہوتے ہوئے نہیں کھاتا کیونکہ فرمایا : آیت فاذا طعمتم فانتشروا اس مہمان کے لیے کھانے کے سوا کچھ نہیں اور کھانے کو ان کی طرف مضاف نہیں کیا اور ملکیت اپنے اصل پر باقی رہی۔ مسئلہ نمبر 7۔ آیت ولا مستانسین لحدیث اس کا عطف غیر ناظرین پر ہے۔ غیر، لکم ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ تقدیر کلام یہ ہوگی غیر ناظرین ولا مستانسین یعنی مقصود یہ ہے بات چیت میں دلچسپی رکھتے ہوئے وہاں نہ رک جائے جس طرح رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے حضرت زینب کے ولیمہ میں کیا تھا۔ آیت ان ذالکم کان یوذی النبی فیستحی منکم واللہ لا یستحیی من الحق یعنی حق کے بیان اور اس کے اظہار سے نہیں رہتا۔ جب یہ رکنا انسان سے حیا کی بنا پر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس علت کی نفی کردی جو انسان میں اس کا سبب تھی۔ صحیح میں حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلیم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس نے عرض کی (رح) : یارسول اللہ ! ﷺ اللہ تعالیٰ حق سے حیا نہیں کرتا، جب عورت کو احتلام ہو تو کیا اس پر غسل کرنا لازم ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جب وہ پانی دیکھے “ (1) ۔ مسئلہ نمبر 8۔ آیت واذا سالتموھن متاعا ابو دائود طیالسی نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میں نے چار امور میں اپنے رب سے موافقت کی ہے (2) ۔ اس میں ہے میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کاش آپ اپنی ازواج پر حجاب کو لازم کرلیں، کیونکہ ان کے پاس نیک اور بدکار داخل ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ سامان کے بارے میں سوال کرنے میں اختلاف کیا گیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ایسی چیز جس کو عام طور پر لیا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فتوی پوچھا جاسکتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : قرآن کا صحیفہ مانگا جاسکتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ اجازت ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جس کا مطالبہ کیا جاتا ہے خواہ وہ روز مرہ ضرورت کی چیز ہو یا دین و دنیا کے منافع کی چیز ہو۔ مسئلہ نمبر 9۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ ضرورت کے وقت پردہ کے پیچھے سے ان سے سوال کیا جاسکتا ہے یا ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاسکتا ہے۔ اس میں معنوی اعتبار سے تمام عورتیں داخل ہیں اور اصل شریعہ جس چیز کو اپنے ضمن میں لیے ہو اس اعتبار سے بھی تمام عورتیں شامل ہیں کہ عورت کا تمام بدن پردہ کرنے کا محل ہے۔ اس کا بدن اور اس کی آواز بھی، جس طرح پہلے گزرچکا ہے ضرورت کے بغیر اس کا ظاہر کرنا جائز نہیں جس طرح اس پر گوہی دینی ہو یا اس کے جسم میں کوئی بیماری ہو یا کوئی سوال جو عارض آجائے اور اس کے ہاں متعین ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 10۔ بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ لوگ نبی کریم ﷺ کی ازواج سے پردہ کے پیچھے سے چیز لے سکتے ہیں کیونکہ اعمی (نابینا) کی شہادت جائز ہے اور نابینا آدمی اپنی بیوی سے وطی کرتا ہے محض اس کی گفتگو سے پہچان کرلیتا ہے۔ اور اکثر علماء نے نابینا کی شہادت کو جائز قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور دوسرے علماء نے اسے جائز قرار نہیں دیا۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : نسب میں شہادت جائز ہے۔ امام شافعی نے کہا : نابینا کی شہادت نہیں مگر اس کے بارے میں جس کو اس نے نظر جانے سے پہلے دیکھا ہو۔ مسئلہ نمبر 11۔ آیت ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن اس سے ان وساوس کا ارادہ کیا ہے جو مردوں کے دلوں میں عورتوں کے متعلق لاحق ہوتے ہیں اور عورتوں کے دلوں میں مردوں کے متعلق لاحق ہوتے ہیں۔ یہ شک کی زیادہ نفی کرنے والا، تہمت کو زیادہ دور کرنے والا اور حفاظت میں زیادہ قوی ہے۔ یہ اس امر پر دال ہے کہ کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ خلوت میں اپنی ذات پر اعتماد کرے جو عورت اس کے لیے حلال نہیں، کیونکہ ایسی عورت سے الگ تھلگ رہنا اس کی حالت کے لیے زیادہ اچھا، اس کے نفس کے لیے زیادہ حفاظت کرنے والا اور اس کی عصمت کے لیے زیادہ مکمل ہے۔ مسئلہ نمبر12۔ آیت وما کان لکم ان توء ذو رسول اللہ یہ علت کا تکرار ہے اور اس کے حکم کی تاکید ہے۔ علت کو موکد کرنا احکام میں زیادہ قوت کا باعث ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 13۔ آیت ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا اسماعیل بن اسحاق، محمد بن عبید سے وہ محمد بن ثور سے وہ معمر سے وہ قتادہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوگیا تو میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے نکاح کروں گا، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور آیت وازواجہ امھاتھم کو نازل کیا۔ قشیری ابو نصر عبد الرحمن نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : قریش کے دس سرداروں میں سے ایک نے دل میں کہا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حراء پر تھے : اگر رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوگیا تو میں حضرت عائشہ سے نکاح کروں گا کیونکہ وہ میری چچا زاد ہے۔ مقاتل نے کہا : وہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے (1) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : وہ آدمی اس پر شرمندہ ہوا جو اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا۔ وہ پیدل مکہ مکرمہ کی طرف گیا اور جہاد میں دس مجاہدین کو گھوڑے پر سوار کیا، ایک غلام کو آزاد کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خطا کو بخش دیا۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ روایت کی گئی ہے (2) کہ یہ آیت اس لیے نازل ہوئی کہ کسی صحابی نے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو میں حضرت عائشہ صدیقہ سے عقد نکاح کروں گا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے صحابی کا کنایۃ ذکر کیا ہے۔ مکی نے معمر سے روایت نقل کی ہے کہ وہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ تھے۔ میں کہتا ہوں : نحاس نے معمر سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد حضرت طلحہ تھے، یہ صحیح نہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : اللہ تعالیٰ حضرت ابن عباس کا بھلا کرے (1) ۔ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت طلحہ بن عبید اللہ لینا صحیح نہیں۔ ہمارے شیخ ابو العباس نے کہا : یہ قول بعض فاضل صحابہ سے مروی ہے، ان فاضل صحابہ سے ایسی بات واقع ہونا بہت ہی بعید ہے اور اس کا نقل کرنا سراسر جھوٹ ہے۔ اس قسم کا قول منافق اور جاہل ہی کرسکتا ہے۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک منافق نے کہا جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو سلمہ کے بعد حضرت ام سلمہ سے شادی کی اور خنیس بن حذافہ کے بعد حضرت حفصہ سے شادی کی : حضرت محمد ﷺ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہماری عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں اللہ کی قسم ! اگر آپ کا وصال ہوا تو ہم بھی آپ کی ازواج سے شادیاں کریں گے۔ اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو ماں کا حکم دے دیا (2) ۔ یہ حضور ﷺ کے خصائص میں سے ہے مقصد آپ کی شرافت کو ممتاز کرنا اور آپ کے مرتبہ پر آگاہ کرنا ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا : وہ ازواج مطہرات جو اس وقت آپ ﷺ کے عقد نکاح میں تھیں جب حضور ﷺ کا وصال ہوا ان کے ساتھ نکاح کرنا کسی کے لیے بھی حلال نہیں، کیونکہ جنت میں بھی یہی آپ کی بیویاں ہیں۔ بیشک جنت میں ایک عورت اس کی بیوی ہوگی دنیا میں جس آخری مرد کے ساتھ اس کا نکاح ہوا تھا۔ حضرت حذیفہ نے اپنی بیوی سے کہا : اگر تجھے یہ بات خوش کرے تو جنت میں بھی میری بیوی ہو اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں جمع کرے تو میرے بعد کسی سے عقد نکاح نہ کرنا کیونکہ عورت اپنے آخری خاوند کے ساتھ ہوگی (3) ہم علماء کی جو اس بارے میں آراء ہیں وہ کتاب ” التذکرہ “ میں جنت کے ابواب میں ذکر کرچکے ہیں۔ مسئلہ نمبر 14۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کیا آپ کی بیویاں رہی ہیں یا موت کے ساتھ نکاح زائل ہوچکا ہے ؟ جب موت کے ساتھ نکاح زائل ہوگیا کیا ان پر عدت ہوگی یا عدت نہیں ہوگی ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان پر کوئی عدت نہیں۔ عدت انتظار کی مدت ہوتی ہے عورت کے مباح ہونے کے لیے اس کا انتظار کیا جاتا ہے، یہی صحیح قول ہے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” جو میں نے چھوڑا ہے وہ میرے بعد میرے اہل و عیال کا نفقہ ہے “ (4) ۔ عیال کے لیے اہل کا لفظ بھی مذکور ہے۔ یہ لفظ زوجیت کے ساتھ خاص ہے۔ حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کی زندگی تک ان کے لیے نفقہ اور سکنی باقی رکھا ہے، کیونکہ یہ تو قطعی بات ہے کہ یہ آخرت میں حضور ﷺ کی بیویاں ہیں باقی ماندہ لوگوں کا معاملہ مختلف ہے، کیونکہ کوئی آدمی یہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے اہل کے ساتھ ایک ہی گھر میں ہوں گے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک جنت میں ہو اور دوسرا جہنم میں ہو تمام مخلوق کے حق میں یہ سبب منقطع ہوچکا ہے اور نبی کریم ﷺ کے حق میں یہ سبب باقی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دنیا میں جو میری بیویاں ہیں وہ آخرت میں بھی میری بیویاں ہیں “ (1) ۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر سبب اور نسب ختم ہوجائے گا مگر میرا سبب اور نسب باقی رہے گا کیونکہ یہ قیامت تک باقی ہے “ (2) ۔ فرع : جہاں تک ان ازواج کا تعلق ہے جن سے حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی جدائی اختیار کرلی تھی جیسے کلبیہ اور دوسری عورتیں کیا کسی اور کے لیے ان سے نکاح کرنا جائز ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ جائز ہے کیونکہ یہ روایت کی گئی ہے کہ کلبیہ سے رسول اللہ ﷺ نے علیحد گی اختیار کی تھی تو حضرت عکرمہ بن ابی جہل نے اس سے شادی کی جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اشعث بن قیس کندی نے اس سے شادی کی۔ قاضی ابو طیب نے کہا : اس سے مہاجر بن ابی امیہ نے شادی کی اور اس کا کسی نے انکار نہیں کیا جو اس بات پر دال ہے کہ یہ اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر 15۔ آیت ان ذالکم کان عند اللہ عظیما یعنی رسول اللہ ﷺ کو اذیت دینا اور آپ کی بیویوں سے نکاح کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم ہے۔ اسے گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے اور اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔ مسئلہ نمبر 16۔ ہم حضرت انس کی حدیث اور حضرت عمر ؓ کے قول سے حجاب کے نزول کا سبب بیان کرچکے ہیں۔ حضرت عمر، حضرت سودہ ؓ سے کہا کرتے جب وہ باہر نکلتیں جب کہ وہ طویل قد کی تھیں : اے سودہ ! ہم نے آپ کو دیکھ لیا ہے (3) ۔ آپ یہ بات اس امر کے حریص ہونے کے لیے کرتے کہ حجاب کا حکم نازل ہو تو اللہ تعالیٰ نے حجاب کا حکم نازل کردیا۔ یہ بات حقیقت سے کوئی بعید نہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے یہ سبب اسباب ہوں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے مگر حضرت زینب بنت حجش کا وصال ہوا تو حضرت عمر نے فرمایا (رح) : اس کے جنازہ میں ذو محرم کے علاوہ کوئی حاضر نہ ہو (4) ۔ مقصود اس حجاب کو ملحوظ خاطر رکھنا تھا جن کی وجہ سے حجاب کا حکم نازل ہوا تھا۔ حضرت اسماء بنت عمیس نے حضرت عمر کی رہنمائی کی کہ ان کی چارپائی پر قبہ نما پردہ ڈالا جائے اور حضرت عمر کو یہ بھی بتایا کہ آپ نے حبشہ کے علاقہ میں اسے دیکھا تھا تو حضرت عمر نے ایسا ہی کیا۔ یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ جو نبی کریم ﷺ کی بیٹی تھی ان کے جنازہ میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔
Top