Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 57
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول لَعَنَهُمُ : ان پر لعنت کی اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا مُّهِيْنًا : رسوا کرنے والا عذاب
اور جو لوگ خدا اور اسکے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اذیت دینے سے کیا مراد ہے ؟ علماء میں سے جمہور نے کہا : اس کا معنی ہے اس کے ساتھ کفر کرنا، بیوی، بچے اور شریک کو اس کی طرف منسوب کرنا اور اس کی ایسی صفت ذکر کرنا جو اس کے شایان نہ ہو (3) ، جس طرح یہودی نے کہا : اللہ تعالیٰ ان پر لعنت کرے۔ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کے ہاتھ جکڑے ہوئے ہیں۔ نصاری نے کہا : حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ نعوذباللہ۔ مشرکوں نے کہا : فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور بت اس کے شریک ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” ابن آدم نے مجھے جھٹلایا اسے یہ حق نہ تھا، اس نے مجھے گالی دی اور اسے یہ حق نہ تھا “ (4) ۔ سورت مریم میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ ” اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے وہ کہتا ہے یاخیبۃ الدھر تم میں سے کوئی بھی یا خیبۃ الدھر نہ کہے بیشک میں ہی دھر ہوں، میں ہی اس کے دن اور رات کو لوٹاتا ہوں۔ جب میں چاہتا ہوں ان دونوں کو قبض کر لیتاہوں “ (1) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک موقوف حدیث اسی طرح آئی ہے۔ ان سے ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے۔ ” ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے میں زمانہ ہوں میں ہی دن اور رات کو الٹتاہوں “ (2) ۔ اسے امام مسلم نے بھی نقل کیا ہے۔ عکرمہ نے کہا : اس کا معنی ہے وہ تصویر بناکر اور ایسا فعل کرکے جسے اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے جس طرح چھیل کر تصویریں بنانا اور اس کے علاوہ دوسرے امور۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ مصوروں پر لعنت کرے “ (3) ۔ میں کہتا ہوں : یہ ان چیزوں میں ہے جو مجاہد کے قول کو تقویت باہم پہنچاتی ہے کہ وہ درخت اور دوسری چیزوں کی تصویر بنانے سے منع کرتے، کیونکہ یہ سب اختراع کی صفت اور اللہ تعالیٰ کے فعل کے ساتھ تشبہ ہے جس فعل میں اللہ تعالیٰ کی ذات منفرد ہے۔ سورة نمل میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ الحمد للہ۔ ایک فرقہ نے کہا : یہ مضاف کی حذف کی بنا پر ہے۔ اس کی تقدیر یہ ہے یوذون اولیاء اللہ (4) ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کو اذیت دیتے ہیں۔ جہاں تک اس کے رسول ﷺ کو اذیت دینے کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ تمام اقوال ہیں جو آپ ﷺ کو اذیت دیتے ہیں اور ایسے افعال بھی ہوسکتے ہیں جو آپ کو اذیت دیتے ہیں جہاں تک ان کو قول کا تعلق ہے : وہ ساحر، شاعر، کاہن، مجنوں۔ جہاں تک ان کے فعل کا تعلق ہے وہ غزوہ احد کے موقع پر آپ ﷺ کی رباعیہ کو توڑنا اور آپ کے چہرہ کو زخمی کرنا ہے۔ اور مکہ مکرمہ میں جب سجدہ کی حالت میں تھے اس وقت آپ پر اوجھ پھینک دینا، اس کے علاوہ دوسرے افعال۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے آپ ﷺ پر اس وقت طعن کیا تھا جب آپ نے حضرت صفیہ بنت حیی کو اپنے حرم میں لیا تھا (5) ۔ اللہ تعالیٰ کو اذیت اور اس کے رسول کی اذیت کو مطلق ذکر کیا اور مومنوں اور مومنات کی اذیت کو مقید کیا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت ہمیشہ ناحق ہوتی ہے اور مومنوں اور مومنات کو اذیت کبھی ناحق اور کبھی حق کے ساتھ ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ ہمارے علماء نے کہا : حضرت اسامہ بن زید ؓ کو جب حضور ﷺ نے لشکرکا امیر بنایا تو اس پر طعن یہ بھی حضور ﷺ کو اذیت ہے (6) ۔ صحیح نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا، اس پر حضرت اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر کیا لوگوں نے ان کی امارت پر طعن کیا (7) ۔ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے فرمایا : ” اگر تم اس کی امارت پر طعن کرتے ہو تو تم نے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی طعن کیا تھا، اللہ کی قسم ! یہ امارت کا مستحق ہے یہ مجھے لوگوں میں سے محبوب ترین ہے یہ اس کے بعد مجھے لوگوں میں سے محبوب ترین ہوگا “۔ یہ لشکر اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے وہی تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ کے لیے تیار کیا تھا ان پر حضرت اسامہ کو امیر بنایا تھا اور حضرت اسامہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ” ابنی “ پر حملہ کرے یہ وہ بستی تھی جو موتہ کے قریب تھی جہاں حضرت زید کو شہید کیا گیا تھا ساتھ ہی حضرت جعفر طیار اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ شہید ہوئے تھے۔ حضور ﷺ نے حضرت اسامہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے باپ کا بدلہ لے تو جس کے دل میں کچھ شک تھا اس نے آپ کی امارت پر طعن کیا تھا، کیونکہ یہ غلاموں میں سے تھے، یعنی غلام کے بیٹے تھے۔ اور اس لیے بھی کہ یہ چھوٹی عمر کے تھے، کیونکہ اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ نبی کریم ﷺ کا وصال ہوگیا جب کہ یہ لشکر مدینہ طیبہ سے باہر نکل چکا تھا لیکن ابھی دور نہیں گیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بعد اس امر کو نافذ کیا۔ مسئلہ نمبر 3۔ اس حدیث میں یہ واضح دلیل موجود ہے کہ مولی اور مفضول کی امامت ان کے غیر پر جائز ہے مگر امامت کبری جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قبا میں حضرت سالم جو ابو حذیفہ کے غلام تھے انہیں نماز کے لیے امام بنایا۔ حضرت سالم ان کی امامت کرتے جن کہ صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور دوسرے کبار قریش ہوتے تھے۔ صحیح عامر بن واثلہ سے روایت کرتی ہے کہ حضرت نافع بن عبد الحارث حضرت عمر ؓ کو عسفان میں ملے حضرت عمر ؓ نے انہیں مکہ مکرمہ پر عامل بنایا ہوا تھا، پوچھا : تو نے اس وادی پر کس کو عامل بنایا ہے ؟ انہوں نے عرض کی : ابن ابزی کو۔ پوچھا ابن ابزی کون ہے ؟ عرض کی : ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام۔ پوچھا : تو نے غلاموں میں سے ایک غلام کو ان پر عامل بنایا ہے ؟ عرض کی : وہ کتاب اللہ کا قاری ہے، وہ علم فرائض کو جانتا ہے۔ فرمایا : خبردار ! تمہارے نبی کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کئی لوگوں کو بلند فرماتا ہے اور کئی کو پست کرتا ہے “ (1) ۔ مسئلہ نمبر 4۔ حضرت اسامہ ؓ محبوب تھے محبوب کے بیٹے تھے۔ اسی لقب سے بلائے جاتے تھے۔ ان کا رنگ شدید سیاہ تھا ان کے والد روئی سے بھی زیادہ سفید تھے۔ ابو دائود نے احمد بن صالح سے اسی طرح ذکر کیا ہے۔ احمد کے علاوہ نے کہا (رح) : حضرت زید چمکیلے رنگ والے تھے اور حضرت اسامہ شدید قسم کے گندم گوں تھے۔ یہ بھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ حضرت اسامہ کو بناتے سنوارتے جبکہ وہ چھوٹے تھے ان کے ریشہ کو صاف کرتے اور ان کی ناک کو صاف کرتے اور فرماتے : ” اگر اسامہ بچی ہوتی تو ہم اس کو مزین کرتے، اس کا بنائو سنگھار کرتے اور ہم اسے مرد خاوندوں کے لیے محبوب بنادیتے “ یہ ذکر کیا گیا ہے نبی کریم ﷺ کے بعد عربوں کا ارتداد کا سبب ان کا یہ گستاخانہ کلام تھا۔ جب حضور ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جبل عرفہ پر عرفہ کی شام روانگی کے وقت تھے حضرت اسامہ کی وجہ سے تھوڑا وقت رکے یہاں تک کہ حضرت اسامہ آگئے انہوں نے کہا : آپ صرف اس کے لیے رکے ہیں۔ انہوں نے یہ بات حضرت اسامہ کی حقارت بیان کرنے کے لیے کی تھی۔ ان کا یہی گستاخانہ قول ان کی حقارت کا سبب بنا۔ امام بخاری نے اس کا ہم معنی قول نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ حضرت عمر ؓ حضرت اسامہ کے لیے عطیہ میں پانچ ہزار اور اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ کے لیے دو ہزار معین کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ نے عرض کی : آپ ﷺ نے حضرت اسامہ کو فضیلت دی جب کہ میں ایسی جنگوں میں شریک ہوا ہوں جن میں حضرت اسامہ شریک نہیں ہوئے ؟ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : حضرت اسامہ تیری بنسبت رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب تھے اور ان کے والد حضرت زید تیرے والد کی بنسبت رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب تھے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے محبوب پر رسول اللہ ﷺ کے محبوب کو ترجیح دی۔ اسی طرح لازم ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس سے محبت کریں اس سے محبت رکھی جائے اور جس سے بغض رکھیں اس سے بغض کیا جائے (1) ۔ مروان نے اس محبت کے برعکس رویہ اپنایا اس کی صورت یہ ہوئی کہ مروان حضرت اسامہ بن زید کے پاس سے گزرا جب کہ حضرت اسامہ نبی کریم ﷺ کے گھر کے دروازے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ مروان نے آپ سے کہا : تو نے ارادہ کیا کہ ہم تیرے مقام و مرتبہ کو دیکھیں پس ہم نے تیرے مقام و مرتبہ کو دیکھا ہے اللہ تعالیٰ نے جو تیرے ساتھ سلوک کیا ہے اور اس نے قبیح قول کیا۔ حضرت اسامہ نے اسے کہا : تو نے مجھے اذیت دی ہے تو فاحش متفحش ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ” اللہ تعالیٰ فاحش متفاحش کو ناپسند کرتا ہے “ دونوں رویوں کو دیکھو دونوں افراد کو دیکھو بنو امیہ نے حضور ﷺ کے محبوبوں میں نبی کریم ﷺ کو اذیت دی اور آپ ﷺ کے محبوبوں کی شان کم کرنے کی کوشش کی۔ (آیت) لعنھم اللہ انہیں ہر بھلائی سے دور کردیا گیا۔ لغت میں لعن سے مراد دور کرنا ہے اسی سے لعان ہے۔ (آیت) واعد لھم عذابا مھینا اس کا معنی کئی دفعہ گزرچکا ہے۔ (آیت) الحمد للہ رب العالمین
Top