Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 59
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں کو وَبَنٰتِكَ : اور بیٹیوں کو وَنِسَآءِ : اور عورتوں کو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں يُدْنِيْنَ : ڈال لیا کریں عَلَيْهِنَّ : اپنے اوپر مِنْ : سے جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ : اپنی چادریں ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَنْ : کہ يُّعْرَفْنَ : ان کی پہچان ہوجائے فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ : تو انہیں نہ ستایا جائے وَكَانَ اللّٰهُ : اور اللہ ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا کر (گھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی انکو ایذا نہ دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 (آیت) قل لازواجک وبنتک حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کی ایک ایک فضیلت کے بارے میں کلام گزرچکی ہے۔ قتادہ نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ کا وصال ہو اتو اس وقت آپ ﷺ کے حرم میں نو ازواج تھیں۔ پانچ قریش کے خاندان سے حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت سودہ اور حضرت ام سلمہ ؓ تین عام عربوں میں سے تھیں حضرت میمونہ، حضرت زینب بنت حجش اور حضرت جویریہ ؓ اور ایک حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نسل سے تھی حضرت صفیہ ؓ جہاں تک حضور ﷺ کی اولاد کا تعلق ہے تو نبی کریم ﷺ کی اولاد میں مذکر اور مونث بھی تھے۔ مذکر اولاد میں سے حضرت قاسم، ان کی والدہ حضرت خدیجۃ الکبری تھیں۔ آپ کے نام سے ہی سرور دوعالم ﷺ کی کنیت تھی حضور ﷺ کی اولاد میں سے سب سے پہلے یہی فوت ہوئے۔ آپ دو سال تک زندہ رہے۔ حضرت عروہ نے کہا : حضرت خدیجۃ الکبری سے حضور ﷺ کے چار بیٹے ہوئے : حضرت قاسم، حضرت طاہر، حضرت عبداللہ اور حضرت طیب۔ ابوبکر برقی نے کہا : یہ قول بھی کیا جاتا ہے طاہر سے مراد طیب ہے اور وہی عبد اللہ ہے حضرت ابرہیم ان کی والدہ ماجدہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں۔ حضرت ابراہیم کی ولادت آٹھ ہجری ذی الحجہ میں ہوئی۔ یہ سولہ ماہ کے تھے تو ان کا وصال ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کی عمر اٹھارہ ماہ تھی (2) ۔ دار قطنی نے اسے ذکر کیا ہے۔ اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ان کی دودھ پلانے والی تھی جو ان کی رضاعت جنت میں پوری کرے گی “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجۃ الکبری سے تھی آپ ﷺ کی تمام اولاد آپ ﷺ کی زندگی میں وصال کرگئی صرف حضرت فاطمہ ؓ باقی تھیں۔ جہاں تک آپ ﷺ کی اولاد میں بچیوں کا تعلق ہے ان میں حضرت فاطمہ زہرہ بنت خدیجہ ؓ ہیں۔ حضرت خدیجۃ الکبری کے ہاں ان کی ولادت ہوئی جب قریش بیت اللہ شریف کی تعمیر کر رہے تھے یعنی اعلان نبوت سے پانچ سال قبل ان کی ولادت ہوئی یہ حضور ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں حضرت علی شیر خدا ؓ نے 2 ھ میں رمضان میں ان سے شادی کی اور ذی الحجہ میں انہیں گھر لائے۔ ایک قول یہ کیا گیا : رجب میں ان سے شادی کی۔ اور رسول اللہ ﷺ کے وصال کے تھوڑا عرصہ بعد ان کا وصال ہوا اہل بیت میں سے سب سے پہلے حضور ﷺ کو لاحق ہونے والی تھیں۔ ان میں حضرت زینب تھیں جن کی والدہ حضرت خدیجۃ الکبری تھیں۔ ان سے ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع نے شادی کی۔ عاص کی ماں ہالہ بنت خویلد تھیں جو حضرت خدیجۃ الکبری کی ہمشیرہ تھیں۔ ابو لعاص کا نام لقیط تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا نام ہاشم تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا نام ہشیم تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا نام مقسم تھا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی بڑی بیٹی تھیں ان کا وصال 8 ھ میں ہوا۔ رسول اللہ ﷺ ان کی قبر میں خود اترے۔ ان میں حضرت رقیہ بھی تھیں۔ ان کی والدہ ماجدہ بھی حضرت خدیجۃ الکبری تھیں۔ اعلان نبوت سے قبل عتبہ بن ابی لہب سے ان کی نسبت ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث کیا اور آپ ﷺ پر اس آیت کو نازل فرمایا : (آیت) تبت یدا ابی لہب (الہب : 1) ابو لہب نے اپنے بیٹے سے کہا : اگر تو نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو طلاق نہ دی تو میرا سر تیرے سر پر حرام ہے۔ عتبہ نے حضرت رقیہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور وہ آپ کو اپنے گھر نہیں لایا تھا۔ حضرت رقیہ اس وقت اسلام لے آئی تھیں جب ان کی والدہ حضرت خدیجۃ الکبری اسلام لائی تھیں۔ حضرت رقیہ اور ان کی بہنوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کی جب عورتوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضرت عثمان بن عفان نے ان سے شادی کی۔ جب حضرت عثمان نے ان سے شادی کی تو قریش کی عورتیں کہتی تھیں : احسن شخصین رای انسان رقیۃ وبعلھاعثمان دونوں ذاتوں میں سے بہترین جسے کوئی انسان دیکھے وہ حضرت رقیہ ہیں اور ان کے خاوند حضرت عثمان ہیں۔ حضرت رقیہ ؓ نے حضرت عثمان کے ساتھ حبشہ کے علاقہ کی جانب دوہجرتیں کیں۔ حضرت عثمان سے ان کا ایک نامکمل بچہ پیدا ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد حضرت عبد اللہ کی ولادت ہوئی۔ حضرت عثمان ؓ حالت اسلام میں ان کے نام سے اپنی کنیت ذکر کرتے۔ ان کی عمر چھ سال ہوئی تو مرغ نے ان کے چہرے پر چونچ ماری تو ان کا وصال ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے ہاں کوئی ولادت نہ ہوئی۔ انہوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی، بیمار ہوئیں جب کہ رسول اللہ ﷺ غزوئہ بدر کی تیاری کررہے تھے رسول اللہ ﷺ نے حضرت رقیہ کی خدمت کے لیے انہیں پیچھے چھوڑا ان کا وصال ہوگیا جب کہ رسول اللہ ﷺ بدر میں تھے۔ ہجرت کو ستر ماہ گزرچکے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ بدر سے خوشخبری دینے کے لیے آئے یہ مدینہ طیبہ میں اس وقت پہنچے جب حضرت رقیہ کی قبرپرمٹی درست کی جارہی تھی۔ ان کے دفن پر رسول اللہ ﷺ موجود نہ تھے۔ ان میں حضرت ام کلثوم ؓ بھی تھیں، ان کی والدہ حضرت خدیجۃ الکبری تھیں عتیبہ بن ابی لہب کی ان سے نسبت ہوئی جو عتبہ کا بھائی تھا یہ اعلان نبوت سے قبل ہوا۔ اس کو ابو لہب نے حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو چھوڑدے اسی مذکورہ سبب سے جس کی وجہ سے حضرت رقیہ کو عتبہ نے چھوڑا تھا۔ عتیبہ انہیں اپنے گھر نہیں لے گیا تھا یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں رہیں۔ جب ان کی والدہ حضرت خدیجۃ الکبری ایمان لائیں تو یہ بھی ایمان لے آئیں۔ جب عورتوں نے رسول اللہ ﷺ کی ہاتھ پر بیعت کی تو اپنی بہنوں کے ساتھ انہوں نے بھی بیعت کی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو انہوں نے بھی ہجرت کی۔ جب حضرت رقیہ کا وصال ہوا تو حضرت عثمان نے ان سے شادی کی۔ اسی وجہ سے حضرت عثمان کا لقب ذوالنورین ہے یہ نو ہجری کو شعبان کے مہینہ میں فوت ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کی قبر پر بیٹھے۔ ان کی قبر میں حضرت علی، حضرت فضل اور حضرت اسامہ اترے۔ زبیر بن بکار نے ذکر کیا ہے حضور ﷺ کے سب سے بڑے بیٹے حضرت قاسم پھر حضرت زینب پھر حضرت عبداللہ انہیں ہی طیب اور طاہر کہا جاتا تھا۔ یہ اعلان نبوت کے بعد پیدا ہوئے اور چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ پھر حضرت ام کلثوم، پھر حضرت فاطمہ، پھر حضرت رقیہ، حضرت قاسم مکہ مکرمہ میں فوت ہوئے پھر حضرت عبد اللہ فوت ہوئے۔ مسئلہ نمبر 2۔ عربی عورتوں کا معمول تھا کہ وہ وقار سے گری ہوئی حرکتیں کرتیں وہ اپنے چہرے کو کھلارکھتیں جس طرح لونڈیاں کھلارکھتی ہیں۔ یہ اس امر کا سبب تھا کہ مرد انہیں دیکھیں اور ان کے بارے میں فکر پراگندہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ ان عورتوں کو حکم دیں کہ وہ پنی چادروں کے پلو لٹکا کر رکھیں جب وہ اپنی ضروریات کے لیے نکلنے کا اردہ کریں۔ لیٹرینیں بنائے جانے سے قبل وہ صحراء میں قضائے حاجت کے لیے جایا کرتی تھیں۔ اس طرح آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے درمیان فرق ہوجاتا۔ آزاد عورتیں اپنے پردہ کی وجہ سے پہچان لی جاتی تھیں تو جو آوارہ یا نوجوان ہوتا وہ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے رک جاتا۔ مومنوں کی عورتوں میں سے کوئی ایک اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے پنی ضرورت کے لیے نکلتی بعض فجار ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے وہ خیال کرتے کہ یہ لونڈیاں ہیں وہ عورت اس پر چلاتی تو وہ چلے جاتے۔ لوگوں نے اس بارے میں نبی کریم ﷺ سے شکایت کی۔ یہ آیت اس سبب سے نازل ہوئی ؛ یہ معنی حسن بصری اور دوسرے علماء نے کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ (آیت) من جلابیبھن، جلابیب، جلباب کی جمع ہے۔ یہ اوڑھنی سے بڑا کپڑا ہوتا ہے (1) ۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسود ؓ سے مروی ہے : اس سے مراد ردا ہے (2) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد قناع ہے (جس سے سر ڈھانپا جاتا ہے ) ۔ صحیح قول یہ کہ جلباب سے مراد ایسا کپڑا ہے جس کے ساتھ سارا بدن ڈھانپا جاتا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ام عطیہ ؓ سے مروی ہے میں نے عرض کی : یارسول اللہ ! جلباب نہیں ہوتا فرمایا : ” اس کی بہن اسے اپنا جلباب (چادر) دے دے “ (3) ۔ مسئلہ نمبر 4۔ چادر کے لٹکانے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عبیدہ سلمانی نے کہا : اس کی صورت یہ ہے کہ عورت اسے یوں لپیٹ لے کہ عورت کی صرف ایک آنکھ دکھائی کے جس کے ساتھ وہ دیکھے (1) ۔ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ نے کہا : اس کی صورت یہ ہے کہ پیشانی کے اوپر سے لپیٹے اور اسے باندھ دے پھر اسے اپنی ناک پر جھکا دے اگرچہ اس کی آنکھیں ظاہر ہوں، وہ سینہ اور چہرے کا اکثر حصہ چھپاکررکھے (2) ۔ حضرت حسن بصری نے کہا : وہ اپنے نصف چہرے کو ڈھانپ کر رکھے۔ مسئلہ نمبر 5۔ اللہ تعالیٰ نے تمام عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا پردہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی جلد کو عیاں نہ کرے ہاں جب ہو اپنے خاوند کے پاس ہو تو جو چاہے لباس پہنے، کیونکہ مرد کو حق حاصل ہے کہ جیسے چاہے لطف اندوز ہو۔ یہ امر ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار ہوئے تو کہا : سبحان اللہ سبحان اللہ ماانزل اللیلۃ من الفتن وماذافتح من الخزائن من یوقظ صواحب لحجررب کا سیۃ فی الدنیاعاریۃ فی الاخرۃ “ سبحان اللہ آج رات کتنے فتنے نازل ہوئے اور آج رات کتنے خزانے کھولے گئے آج حجرے والوں کو کان بیدار کرے گا دنیا میں کچھ لباس زیب تن کرنے والے آخرت میں ننگے ہوں گے۔ یہ روایت کی گئی ہے کہ حضرت دحیہ کلبی جب ہرقل کے پاس سے واپس آئے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں کتان سے بنا کپڑا عطا فرمایا۔ فرمایا : ” اس کے نصف سے قمیص بنالو اور اپنی بیوی کو نصف دے دو وہ اس سے اوڑھنی بنالے “ (3) ۔ پھر حضور ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا :” اپنی بیوی کو حکم دینا کہ وہ اس کے نیچے کوئی چیزلگالے تاکہ یہ کپڑا اسکے جسم کی بناوٹ کو ظاہر نہ کرے “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے عورتوں کے لیے باریک کپڑے کا ذکر کیا تو فرمایا : لباس پہننے والیاں، ننگے بدن والیاں، اور خوشحال عورتیں بدبخت عورتیں۔ بنو تمیم کی عورتیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس آئیں جن پر باریک لباس تھا، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنہانے کہا : اگر تم مومن ہو تو یہ لباس مومن عورتوں کا نہیں اگر تم غیر مومن ہو تو تم اس سے لطف اندوز ہولو۔ ایک دلہن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس پر کتان سے بنی اوڑھنی تھی جس کو عصفر سے رنگا گیا تھا۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ نے اسے دیکھاتو فرمایا : تو سورة نور پر ایمان نہیں رکھتی۔ ایک عورت یہ لباس پہنتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے یہ ثابت ہے : ” ایسی عورتیں جو لباس پہنتی ہیں ان کے جسم ننگے ہوتے ہیں وہ جھکنے والی ہوتی ہیں جھکانے والی ہیں ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوتے ہیں وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور اس کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی “ (4) ۔ حضرت عمر نے کہا : مسلمان عورتوں کو کیا چیز روکتی ہے جب اسے کام ہو تو وہ بوسیدہ کپڑے میں نکلے یا اپنی پڑوسن کے بوسیدہ کپڑوں میں نکلے وہ اپنے آپ کو پوشیدہ رکھے ہوئے ہو اسے کوئی بھی نہ جانے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے۔ مسئلہ نمبر 6۔ (آیت) ذالک ادنی ان یعرفن یہ زیادہ مناسب ہے کہ آزاد عورتیں پہچانی جائیں تاکہ وہ لونڈیوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہوں۔ جب ان کو پہچان لیا جائے گا تو ادنی تعرض کے لیے ان کے سامنے نہ آیا جائے گا یہ ان کے مرتبہ حریت کو پیش نظر رکھنے کی وجہ سے ہوگا۔ تو ان سے ہر قسم کی طمع ختم ہوجائے گا۔ ان تعرف المراۃ کا معنی یہ نہیں کہ یہ جانا جائے کہ وہ کون ہے۔ حضرت عمر ؓ جب کسی لونڈی کو دیکھتے کہ اس نے پردہ کیا ہوا ہے تو اسے درہ سے مارتے اصل میں آپ آزاد عورتوں کے لباس کی حفاظت کے لیے اس طرح کرتے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے (رح) : اب ہر آزاد اور لونڈی کے حق میں پردہ اور سر کا ڈھانپنا واجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا تھا جب کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد تھا : ” اللہ کی باندیوں کے اللہ تعالیٰ کی مساجد سے نہ روکو “ (1) ۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنہانے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ ہمارے اس وقت تک زندہ رہتے تو آپ عورتوں کو مساجد میں داخل ہونے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا تھا۔ (آیت) وکان اللہ غفورارحیما اس امر مشروع سے قبل عورتیں جو جلابیب کو ترک کرتی رہیں ان کے بارے میں عورتوں کو مانوس کیا جارہا ہے۔
Top