Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 61
مَّلْعُوْنِیْنَ١ۛۚ اَیْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا
مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ : پھٹکارے ہوئے اَيْنَمَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں گے اُخِذُوْا : پکڑے جائیں گے وَقُتِّلُوْا : اور مارے جائیں گے تَقْتِيْلًا : بری طرح مارا جانا
(وہ بھی) پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور جان سے مار ڈالے گئے
مسئلہ نمبر 3۔ (آیت) ثم لایجاورون فیھا، ھاضمیر سے مراد مدینہ طیبہ ہے۔ لاقلیلایہ یجاورونک کی ضمیر سے حال ہے۔ اور اس طرح ہوگا جس طرح اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کیونکہ وہ تھوڑے ہی تھے۔ یہ فراء کے دو جوابوں میں سے ایک جواب ہے۔ اس کے نزدیک یہی اولی ہے۔ وہ آپ کے پاس نہیں رہتے مگر اپنے قلیل ہونے کی حالت میں۔ دوسرا جواب ہے معنی ہو الاوقتا قلیلا مگر تھوڑاوقت، یعنی تیرے ساتھ تھوڑاوقت ہی رہیں گے، یعنی وہ اس میں تھوڑا عرصہ رہیں گے یہاں تک کہ ہلاک ہوجائیں گے۔ تو یہ محذوف مصدر محذوف ظرف کی صفت ہوگا۔ یہ اس پر دال ہے کہ جو مدینہ طیبہ میں آپ کے ساتھ رہ رہا ہے تو وہ ” جار “ ہے۔ سورة النساء میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ (آیت) ملعونین محمد بن یزید کے ہاں اس پر کلام مکمل ہوتی ہے۔ یہ حال ہونے کی حیثیت سے منصوب ہے۔ ابن انباری نے کہا : (آیت) قلیلا ملعونین اس پر وقف کرنا اچھا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ جائز ہے کہ الا قلیلا پر کلام مکمل ہو اور ملعونین کو نصب شتم (گالی) کے طور پر ہو۔ جس طرح عیسیٰ بن عمر نے قراءت کی ہے۔ (آیت) وامراتہ حما لۃ الحطب (لہب) ایک نحوی سے یہ مروی ہے اس نے کہا : معنی ہے جہاں بھی ہوں گے ملعون ہونے کی حیثیت میں پکڑے جائیں گے یہ غلط ہے کیونکہ ما مجازات کا معنی رکھتے ہوئے ماقبل میں عمل نہیں کرتا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آیت کا معنی ہے اگر وہ نفاق پر اصرار کرے تو انہیں مدینہ میں ٹھہرنے کا کوئی حق نہیں اگر وہ رہیں گے تو دھت کارے ہوئے ملعون رہیں گے۔ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا، کیونکہ جب سورة براءت نازل ہوئی تو ہو جمع ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے فلاں ! اٹھ اور نکل جاکیون کہ تو منافق ہے، اے فلاں اٹھ “ ان کے مسلمان بھائی اٹھے اور مسجد سے انہیں نکالنے کے ذمہ داربنے۔
Top