Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
مومنو ! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو (عیب لگا کر) رنج پہنچایا تو خدا نے ان کو بےعیب ثابت کیا اور وہ خدا کے نزدیک آبرو والے تھے
جب اللہ تعالیٰ نے منافقوں اور کفار کا ذکر کیا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور مومنوں کو اذیت دی مقصود مومنوں کو ایسی چیزوں سے خبردار کرنا تھا جو اذیت کا باعث ہوتی ہیں اور بنی اسرائیل کے ساتھ مشابہت سے مومنوں کو منع کیا جنہوں نے اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی تھی۔ علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کس طرح اذیت دیتے تھے ؟ نقاش نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو ان کی اذیت یہ تھی کہ وہ یہ قول کرتے تھے : زید بن محمد۔ ابو وائل نے کہا : حضور ﷺ کو اذیت دی گئی کہ حضور ﷺ نے مال تقسیم کیا تو ایک انصاری نے کہا : یہ ایسی تقسیم ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ کے لیے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ ناراض ہوئے۔ فرمایا : ” اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے انہیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی تو انہوں نے صبر کیا “ (1) ۔ جہاں تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دینے کا تعلق ہے تو حضرت ابن عباس اور ایک جماعت نے کہا : اس سے مراد وہ ہے جسے حضرت ابوہریرہ کی حدیث اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بنو اسرائیل ننگے غسل کیا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پردہ کا بہت زیادہ اہتمام کرتے اور اپنے بدن کو چھپاتے۔ کچھ لوگوں نے کہا : ان کے خصیتین سوجے ہوئے ہیں، انہیں برص کا مرض ہے یا کوئی اور آفت ہے ایک روز آپ شام کے علاقہ میں ایک چشمہ پر غسل کرنے کے لیے گئے اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھے وہ پتھر آپ کے کپڑوں کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بےلباس اس کے پیچھے دوڑے آپ کہتے : اے پتھر ! میرے کپڑے اے پتھر میرے کپڑے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں جاپہنچا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا جب آپ کی بناوٹ میں خوبصورت ترین اور سب سے معتدل صورت پر تھے۔ آپ میں ایسا عارضہ نہیں تھا جس کا انہیں نے تذکرہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : (آیت) فبراہ اللہ مما قالوا کا یہی مفہوم ہے “ امام بخاری اور امام مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے۔ الفاظ مسلم شریف کے ہیں۔ ” بنو اسرائیل ننگے غسل کیا کرتے تھے وہ ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) الگ تھلگ غسل کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی چیز نہیں روکتی کہ ہمارے ساتھ غسل کریں مگر یہ کہ ان کو ادرہ (خصیتین کا سوج جانا) کی بیماری ہے۔ ایک روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غسل کرنے کے لیے گئے آپ نے اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھے وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پیچھے تیزی سے دوڑے آپ کہتے : اے پتھر ! میرے کپڑے، اے پتھر ! میرے کپڑے، یہاں تک کہ بنو اسرائیل نے آپ کی شرمگاہ کو دیکھ لیا۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں تو کوئی بیماری نہیں۔ پتھر ٹھہر گیا یہاں تک کہ آپ کو دیکھ لیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے لے لیے اور پتھر کو مارنے لگے “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مارنے سے پتھر میں چھ یا سات نشان تھے۔ یہ ایک قول ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت نقل کی ہے کہا : بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی کہ انہوں نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے (2) ۔ وہ واقعہ یوں ظاہر ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) تیہ کے ذرعی علاقہ سے پہاڑی علاقہ کی طرف نکلے حضرت ہارون (علیہ السلام) وہاں ہی فوت ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : آپ نے اسے قتل کردیا ہے۔ وہ آپ کی بنسبت ہمارے لیے نرم اور زیادہ محبت کرنے والے تھے۔ اس طرح بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی لاش کو ان پر گھمائیں۔ انہوں نے ایک عظیم نشانی دیکھی جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت پر ان کی راہنمائی کی۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی لاش میں قتل کی کوئی علامت نہ تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فرشتوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی موت کے بارے میں کلام کی ان کی قبر کی جگہ کو رخم (گدھ) کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے اسے بہرہ اور گونگا بنادیا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تیہ میں فوت ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تیہ کا عرصہ گزرنے سے دو ماہ پہلے ہی فوت ہوگئے تھے۔ قشیری نے کہا : حضرت علی شیر خدا سے روایت نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو زندہ کیا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انہیں خبر دی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں قتل نہیں کیا۔ پھر وہ فوت ہوگئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی اذیت یہ تھی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو اور جنون کا الزام لگایا (1) ۔ صحیح پہلاقول ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے یہسب کام کیے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سب امور سے بری کیا۔ مسئلہ : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پتھر پر کپڑے رکھنا اور پانی میں ننگے داخل ہونے میں اس امر کے جائز ہونے کی دلیل ہے ؛ یہ جمہور کا مذہب ہے۔ ابن ابی لیلی نے اس سے منع کیا ہے اور ایسی حدیث سے استدلال کیا ہے جو صحیح نہیں۔ وہ یہ ارشاد ہے ـ:” پانی میں داخل نہ ہو مگر تہبند کے ساتھ کیونکہ پانی میں بھی رہنے والا ہوتا ہے “۔ قاضی عیاض نے کہا : یہ اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں : پردہ کرنا مستحب ہے کیونہ اسرائیل عبد الاعلی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی ؓ ایک جوہڑ میں داخل ہوئے جب کہ آپ کے جسم پر چادر تھی جس کو آپ لپیٹے ہوئے تھے۔ جب آپ باہر نکلے تو ان سے اس بارے میں عرض کی گئی، فرمایا : میں نے اس پردہ کیا ہے جو مجھے دیکھتا ہے اور میں اسے نہیں دیکھتا، یعنی اپنے رب اور فرشتوں سے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو ایسی نداکیوں کی جو ذوالعقول کو ندا کی جاتی ہے ؟ ایک جواب یہ دیا جاتا ہے : پتھر سے ایسا عمل صادر ہوا تھا جو ذوالعقول سے صادر ہوتا ہے۔ حجر یہ منادی مفرد ہے جس کا حرف ندامحذوف ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت) یوسف اعرض عن ھذا (یوسف : 29) ثوبی فعل مضمر کے ساتھ منصوب ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے اعطنی ثوبی، اترک ثوبی فعل کو حذف کردیا گیا کیونکہ حال اس پر دلالت کرتا ہے۔ (آیت) وکان عند اللہ وجیھا، وجیہ سے مراد عظیم ہے۔ عربوں کے ہاں وجیہ سے مراد وہ ہوتا ہے جو عظیم قدر والا اور بلند مقام والا ہوتا ہے۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرتے تو اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرمادیتے۔ حضرت ابن مسعود نے یہ قراءت کی وکان عبد اللہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وجیھا کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا۔ ابو بکر انباری نے کتاب الرد میں کہا : جنہوں نے قرآن میں طعن کیا ہے انہوں نے کہا : مسلمان نے قرآن میں تصحیف کی (آیت) وکان عند اللہ وجیہاجب کہ صحیح یہ ہے وکان عبد اللہ وجیہا یہ چیز اس کے مقصد کے ضعف، فہم کے نقصان اور قلت علم پر دال ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت کو اگر اس کے قول پر محمول کیا جائے اور اسے پڑھا جائے : وکان عبدا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ثنا میں نقص واقع ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجیہا اہل دنیا، اس کے اہل زمان اور اہل آخرت کے ہاں ذیشان ہوتا ہے۔ یہ مکاں مدح پر آگاہ نہ کرے گا، کیونکہ اگر وہ دنیا کے لوگوں کے ہاں ذیشان ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ثناواضح نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے مدح کے محل کو اپنے اس ارشاد کے ساتھ واضح کیا : (آیت) وکان عنداللہ وجیہا آپ شرف اور عظیم رفعت کے مستحق ہوئے کیونکہ ان کی وجاہت اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے۔ جس نے ایک لفظ میں تبدیلی کی اس نے اللہ تعالیٰ کے نبی سے سب سے قابل فخر ثنا اور سب سے عظیم مدح کو دور کردیا۔
Top