Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھا لیا بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا
جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں احکام کو بیان کیا جن احکام کو بھی بیان کیا تو اوامر کے التزام کا حکم دیا۔ امانت صحیح قول کے مطابق دین کے تمام فرائض کو عام ہے ؛ یہ جمہورکا قول ہے۔ ترمذی حکیم ابو عبداللہ نے اسماعیل بن نصر سے وہ صالح بن عبداللہ سے وہ محمد بن یزیدبن جوہر سے وہ ضحاک سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا : اے آدم ! میں نے آسمانوں اور زمین پر امانت کو پیش کیا تو وہ اس کو نہ اٹھاسکے کیا تو اس کو اٹھا سکتا ہے جو کچھ اس میں ہے ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے رب ! اس میں کیا ہے ؟ فرمایا : اگر تو نے اس کو اٹھالیاتو تمہیں اجر دیا جائے گا اور اگر تو نے ضائع کردیا تو تجھے عذاب دیا جائے گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے اٹھالیا اس چیز کے ساتھ جو اس میں ہے۔ تو حضرت آدم (علیہ السلام) جنت میں اتنے عرصہ ہی ٹھہرے جتنا عرصہ پہلی نماز سے لے کر عصر کی نماز کا وقت ہوتا ہے، یہاں تک کہ شیطان نے آپ کو جنت سے نکال دیا “ (1) ۔ امانت سے مراد وہ فرائض ہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جن پر امین بنایا۔ ان میں سے بعض کی تفاصیل اقوال ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : یہ اموال کی امانتیں ہیں جس طرح ودیعت وغیرہ (2) ۔ ان میں یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ تمام فرائض ہیں ان میں سے شدیدترین مال کی امانت ہے۔ حضرت ابی بن کعب نے کہا : یہ بھی امانت میں سے ہے کہ عورت اپنی شرمگاہ پر امین رہے۔ حضرت ابو درداء ؓ نے کہا : جنابت کا غسل بھی امانت ہے (1) ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دین میں سے اس کے علاوہ کسی اور امر پر امین نہیں بنایا۔ حدیث مرفوع میں ہے : ” امانت سے مراد نماز ہے اگر تو چاہے تو کہے میں نے نماز پڑھ لی ہے اگر تو چاہے تو تو کہے میں نے نماز نہیں پڑھی۔ روزے اور غسل جنابت بھی اسی طرح ہے “۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انسان کے اعضاء میں سب سے پہلے اس کی شرمگاہ بنائی۔ فرمایا : یہ امانت ہے جو میں تجھے ودیعت کرتا ہوں۔ اسے استعمال نہ کر مگر حق کے ساتھ۔ اگر تو نے اس کی حفاظت کی تو یہ تیری حفاظت کرے گی۔ شرمگاہ امانت ہے، کان امانت ہے، آنکھ امانت ہے، زبان امانت ہے، بطن امانت ہے، ہاتھ امانت ہے، پائوں امانت ہے۔ جس میں صفت امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ سدی نے کہا : اس سے مراد ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے قابیل کو اپنی اولاد اور اہل پر امین بنایا۔ قابیل کی حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ یہ خیانت تھی کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے فرمایا : (رح) اے آدم ! کیا تو جانتا ہے کہ زمین میں میرا ایک گھر ہے ؟ عرض کی : اے میرے اللہ ! نہیں۔ فرمایا : میرا مکہ مکرمہ میں ایک گھر ہے۔ اس میں آئو۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے آسمان سے کہا : امانت کے طور پر میرے بچے کی حفاظت کرو، تو اس نے انکار کردیا۔ زمین سے کہا : امانت کے طور پر میرے بچے کی حفاظت کیجئے۔ اس نے انکار کردیا۔ پہاڑوں سے فرمایا : انہوں نے بھی انکار کردیا، قابیل سے فرمایا : امانت کے طور پر میرے بچے کی حفاظت کرو۔ قابیل نے کہا : ٹھیک ہے آپ جائیں، آپ واپس آئیں تو آپ بچے کو پائیں گے جس طرح وہ تجھے خوش کرے گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) لوٹے تو اس پایا کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : (آیت) اناعرضناالامانۃ علی السموات والارض والجبال فابین ان یحملنھاکا یہی مقصود ہے۔ معمر نے حضرت حسن بصری (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ امانت آسمان، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی گئی انہوں نے پوچھا : اس میں کیا ہے ؟ انہیں کہا گیا : اگر تو نے اچھا کیا تو تجھے جزا دی جائے گی اور اگر تو نے برائی کی تو تجھے سزادی جائے گی۔ انہوں نے کہا : نہیں (2) ۔ مجاہد نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو امانت اس پر پیش کی حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : اگر تو اچھا کرے گا تو میں تجھے اگر دوں گا اور اگر تو برا عمل کرے گا تو میں تجھے عذاب دوں گا۔ عرض کی : اے میرے رب ! میں نے اس کو اٹھا لیا ہے۔ مجاہد نے کہا : جس وقت حضرت آدم (علیہ السلام) نے امانت اٹھائی تو اتنا وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ انہیں جنت سے نکال دیا گیا جتنا وقت ظہر اور عصر کی نماز کے درمیان ہوتا ہے۔ علی بن طلحہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ امانت سے مراد فرائض ہیں (3) ، اللہ تعالیٰ نے جن کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ اگر وہ فرائض کو ادا کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں بدلہ عطا فرمائے گا اگر وہ ضائع کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دے گا۔ انہوں نے معصیت کے بغیر اسے ناپسند کیا اور ڈر گئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی تعظیم کی خاطر انہوں نے ایسا کیا کہ وہ اس کو بجانہ لاسکیں گے پھر اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم (علیہ السلام) پر پیش کیا تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے قبول کر لیاجو کچھ اس میں تھا۔ نحاس نے کہا : یہ ایسا قول ہے جس پر اہل تفسیر کا اتفاق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب حضرت آدم (علیہ السلام) پر وفات کا وقت آیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ امانت کو مخلوق پر پیش کریں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے امانت پیش کردی تو آپ کے بیٹوں کے سوا کسی نے بھی اس کو قبول نہ کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ وہ امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین، پہاڑوں اور مخلوق میں اپنی ربوبیت پر دلائل کی صورت میں ودیعت کی ہے کہ وہ ان دلائل کو ظاہر کریں تو انہوں نے ان کو ظاہر کردیامگر انسان نے ان دلائل کو چھپایا اور ان کا انکار کردیا ؛ یہ قول بعض متکلمین کا ہے۔ عرضنا کا معنی اظھرنا ہے جس طرح تو کہتا ہے : عرضت الجاریۃ علی البیع میں نے لونڈی کو بیع کے لیے پیش کیا۔ معنی ہے ہم نے امانت اور اس کے ضیاع کو اہل آسمان اور اہل زمین جو فرشتے، انسان اور جن ہیں ان پر پیش کیا۔ (آیت) فابین ان یحملنھاتو انہوں نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت) ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم (العنکبوت : 13) (آیت) وحملھا الانسان حضرت حسن بصری نے کہا : الانسان سے مراد کافر اور منافق ہے (1) (آیت) انہ کان ظلوما جھولاوہ اپنی ذات پر ظلم کرنے ولا اور اپنے رب سے جاہل تھا۔ اس تعبیر کی بنا پر جواب مجازا ہوگا، جس طرح (آیت) وسئل القریۃ (یوسف : 82) ہے۔ اس میں ایک جواب بھی ہے کہ یہ کلام اپنے حقیقی معنی میں ہو کہ واقعی امانت اور اس پر ثواب و عقاب کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے س امر کو ان کے لیے ظاہر کیا ہو۔ انہوں نے اس کا بوجھ نہ اٹھایا اور ڈر گئے اور عرض کی : ہم ثواب اور عقاب کو نہیں چاہتے۔ ہر کوئی کہہ رہا تھا : ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے، ہم تیرے حکم کو سنتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا اور جس کے لیے انہیں مسخر کیا گیا ؛ یہ حضرت حسن بصری اور دوسرے علماء نے کہا۔ علماء نے کہا : یہ بات تو معلوم ہے کہ جمادات نہ سنتے ہیں اور نہ ہی جواب دیتے ہیں۔ دوسرے قول کی بنا پر ان میں زندگی کو مقدر کرنا ضروری ہے۔ یہ پیشی اختیاری تھی لازمی نہیں تھی۔ انسان پر پیشی لازمی تھی۔ قفال اور دوسرے علماء نے کہا : اس آیت میں پیشی ضرب المثل ہے۔ آسمان اور زمین اپنی بڑی جسامت کے باوجود اگر انہیں مکلف بناناجائز ہوتا تو انہیں شریعتوں کا مکلف بنا دیا جاتا کیونکہ ان میں ثواب و عقاب ہے، یعنی مکلف بنانا ایسا امر ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس سے آسمان، زمین اور پہاڑ عاجز آگئے۔ انسان کو اس کا مکلف بنایا گیا اگر یہ سمجھتا تو یہ ظلوم جہول ہوتا، یہ ارشاد اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (آیت) لوانزلناھذالقرآن علی جبل (الحشر : 21) پھر فرمایا : (آیت) وتلک الامثال نضربھا للنا۔ قفال نے کہا : جب یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرب الامثال بیان فرماتا ہے اور ہم پر ایسی خبر وارد ہو جو ضرب المثل کے طور پر آتی ہے تو اس کا حمل ضرب المثل پر کرنا ضروری ہے۔ ایک قوم نے کہا : آیت مجاز میں سے ہے۔ جب ہم نے امانت کے بوجھ کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کی قوت کے ساتھ موزنہ کیا تو ہم نے دیکھا کہ وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر یہ چیزیں کلام کرتیں تو انکار کر دیتیں اور ڈر جاتیں۔ اس معنی کو اپنے اس ارشاد کے ساتھ تعبیر کیا (آیت) انا عرضنا الامانۃ یہ اسی طرح ہے جس طرح تیرا قول ہے : عرضت الحمل علی البعیرفاباہ میں نے بوجھ اونٹ پر پیش کیا تو اس نے اٹھانے سے انکار کردیا، جب کہ تو یہ ارادہ رکھتاہو کہ تو نے اس کی قوت کو سامان کے بوجھ کے ساتھ موازنہ کیا تو تو نے دیکھا کہ وہ اس سے قاصر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عرضنا یہ عارضنا الامانۃ بالسموات والارض والجبال کے معنی میں ہے۔ یہ اشیاء امانت سے ضعیف ہوگئیں۔ اور امانت اپنے ثقل کی وجہ سے ان پر راجح ہوگئی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر امانت کا پیش کرنا حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف سے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان کی اولاد پر خلیفہ بنایا اور زمین میں جو بھی جانور، پرندے اور وحشی ہیں سب پر ان کو مسلط کردیا اور ان سے عہد لیا جس میں انہیں حکم دیا، انہیں منع کیا، کچھ چیزوں کو حرام کیا اور کچھ چیزوں کو حلال کیا حضرت آدم (علیہ السلام) نے اسے قبول تو کرلیا اور ہمیشہ اس پر عامل رہے جب ان کی وفات کا وقت آیا اللہ تعالیٰ نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ آگاہ کریں کس کو وہ بعد میں خلیفہ بنائے گا اور کس کو امانت سپرد کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ وہ اس امانت کو اسی شرط کے ساتھ آسمانوں پر پیش کرے جو شرط اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ لگائی ہے اگر اطاعت کرے تو ثواب حاصل ہوگا اگر نافرمانی کرے گا تو سزا ملے گی تو انہوں نے عذاب کے ڈر سے اسے قبول کرنے سے انکار کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ وہ امانت زمین پر پیش کرے اور تمام پہاڑوں پر پیش کرے تو دونوں نے انکار کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس امانت کو اپنی اولاد پر پیش کرے تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے امانت اپنی اولاد پر پیش کی تو اولاد نے شرط کے ساتھ اسے قبول کرلیا، ابن آدم اس چیز سے خوفزدہ نہ ہوا جس چیز سے آسمان، زمین اور پہاڑ خوفزدہ ہوئے۔ وہ اپنی ذات پر ظلم کرنے والا اور اپنے رب کے لیے جس امر کو قلادہ بنانے ولا تھا اس کے انجام سے جاہل تھا۔ ترمذی حکیم ابو عبداللہ محمد بن علی نے کہا : میں اس قول کرنے والے پر تعجب کا اظہار کرتا ہوں، وہ یہ قصہ کہاں سے لے آیا۔ اگر ہم آثار کو دیکھیں تو اس نے جو کہا تھا ہم اس کے برعکس پاتے ہیں۔ اگر ہم اس کے ظاہر کو دیکھیں تو ہم اسے اس کے برعکس پاتے ہیں جو اس نے کہا، اگر ہم اس کے باطن کو دیکھیں تو جو اس نے کہا اس سے بہت ہی بعید پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امانت کے ذکر کو مکرر ذکر کیا اور یہ ذکر نہیں کیا کہ امانت کیا ہے مگر وہ اپنے مقام میں اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں جو کچھ ہے اس پر مسلط کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سے عہد لیا ہے جس میں امر، نہی، حلت اور حرمت کے احکام ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ اسے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کرے۔ آسمان، زمین اور پہاڑحلال و حرام سے کیا کریں گے ؟ چوپائیوں، پرندوں اور وحشیوں پر اس کے تسلط کا کیا معنی ہے ؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس امانت کو اپنی اولاد پر پیش کیا اس نے اسے قبول کیا اور مابعد کی ذریت پر اسے نافذ کردیا ؟ قرآن کریم میں واقعہ کی ابتدا میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا یہاں تک کہ ان سے انکار ظاہر ہوا۔ پھر اس کا ذکر کیا کہ انسان نے اس کو اٹھالیا، یعنی اپنی جانب سے اس کو اٹھا لیا نہ کہ اس پر اسے لازم کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ظلوما کا نام دیا کیونکہ وہ اپنی ذات پر ظلم کرنے والا ہے اور جھولانام دیا کیونکہ جو اس امانت میں تھا اس سے ناواقف تھا۔ جہاں تک ان آثار کا تعلق ہے جو اس کے برعکس ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ میرے والد فیض بن فیض کو فی سے وہ سری بن اسماعیل سے وہ عامرشعبی سے وہ مسروق سے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے امانت کو پیدا کیا تو اسے چٹان سے تشبیہ دی پھر جہاں چاہا اسے رکھ دیا۔ پھر اس کو اٹھانے کے لیے آسمان، زمین اور پہاڑوں کو دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : یہ امانت ہے اس پر ثواب و عقاب ہے۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے رب ! ہم میں اس کے اٹھانے کی کوئی طاقت نہیں۔ انسان دعوت دیئے جانے سے قبل ہی متوجہ ہوا اس نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں سے کہا : تم کیوں رک گئے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : ہمارے رب نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کو اٹھا لیں ہم اس سے ڈر گئے ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ انسان نے اپنے ہاتھ سے اسے ہلایا اور کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں چاہوں کہ میں اس کو اٹھا ئوں تو میں اس کو اٹھا سکتا ہوں۔ انسان نے اس کو اٹھایا یہاں تک کہ اسے اپنے گھٹنوں تک لے گیا، پھر اسے رکھ دیا۔ عرض کی : اللہ کی قسم ! میں چاہوں کہ میں اس سے زائد اٹھائوں تو میں اس کو مزید اٹھا سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا : اٹھائو۔ انسان نے اس کو اٹھایا یہاں تک کہ اسے ڈھاکوں تک پہنچایا۔ پھر اسے رکھ دیا کہا : اللہ کی قسم ! اگر میں چاہوں کہ میں اس کو مزید اٹھائوں تو میں اس کو مزید اٹھا سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا : اٹھائو۔ انسان نے اس کو اٹھایا یہاں تک کہ اسے اپنے کندھے پر رکھا۔ جب انسان اسے رکھنے کے لیے جھکاتو انہوں نے کہا : اپنی جگہ پر ہی رہو۔ یہ امانت ہے اس پر ثواب بھی ہے اور عقاب بھی ہے۔ ہمارے رب نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس کو ٹھائیں تو ہم اس سے ڈر گئے، تو نے اس کو اٹھا لیا جب کہ تجھے اس کی دعوت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اب یہ تیری گردن میں ہے اور قیامت تک تیری اولاد کی گردن پر ہے۔ بیشک تو ظلوم و جہول ہے۔ اور کئی واقعات صحابہ اور تابعین سے نقل کیے جن میں سے اکثر کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔ (آیت) وحملھا الانسان اس کے حقوق بجالانے کو لازم کرلیا وہ اس میں اپنے آپ پر ظلم کرنے والا تھا۔ قتادہ نے کہا : وہ امانت کے بارے میں ناواقف تھا کہ اس میں کیا کچھ داخل ہے ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور ابن جبیر کا قول ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : وہ اپنے رب کے بارے میں ناواقف ہے۔ کہا : حملھا کا معنی ہے اس میں خیانت کی۔ زجاج نے کہا : اس تاویل کی بنا پر یہ آیت کافر، منافق اور نافرمانوں کے بارے میں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ، ان کے اصحاب، ضحاک وغیرہ نے کہا : انسان سے مراد حضرت آدمی (علیہ السلام) ہیں آپ نے امانت اٹھائی ایک دن بھی مکمل نہ ہوا یہاں تک کہ ایسی نافرمانی کی جس نے اسے جنت سے نکال دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے فرمایا : کیا تو اس امانت کو اٹھاتا ہے جو کچھ اس میں ہے۔ عرض کی : اس میں کیا ہے ؟ فرمایا : اگر تو نے اچھائی کی تو تجھے جزادی جائے گی اگر تو نے برائی کی تو تجھے سزادی دی جائے گی۔ عرض کی : اس میں جو کچھ ہے میں اسے اپنے کانوں اور کندھوں کے درمیان میں اٹھالیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ارشاد فرمایا : میں تیری مدد کروں گا، میں نے تیری آنکھ کے لیے حجاب بنایا ہے اسے اس کے لیے بند رکھنا جو تیرے لیے حلال نہ ہو اور تیری شرمگاہ کے لیے لباس بنایا ہے اسے نہ کھولنامگر اسی پر جو میں نے تیرے لیے حلال کیا ہے۔ ایک قوم نے کہا : انسان سے مراد تمام نوع ہے۔ یہ اچھی تعبیر ہے کہ امانت میں عموم پایا جاتا ہے، جس طرح ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ سدی نے کہا : انسان سے مراد قابیل ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
Top