Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
مومنو ! خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اس نے) تم پر (اس وقت کی) جب فوجیں تم پر حملہ کرنے کو) آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل) کئے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان کو دیکھ رہا ہے
مراد غزوہ خندق، احزاب اور غزوہ بنی قریظہ ہے یہ سخت ترین حالات تھے جس کے بعد نعمت، خوشحالی اور سرور کی کیفیت تھی یہ کثیر احکامات اور آیات واضحہ اور غالبہ کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دس مسائل میں ایسی بحث کریں گے جو کافی متاثر ہوگی۔ مسئلہ نمبر 1۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ کس سال واقعہ ہوا ؟ ابن اسحاق نے کہا : یہ پانچ ہجری شوال میں ہوا تھا۔ ابن وہب اور ابن قاسم نے امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت نقل کی ہے : غزوہ خندق کا واقعہ 4 ھ میں ہوا تھا۔ یہ اور غزوہ بنو قریظہ اسی دن ہوا تھا۔ بنو قریظہ اور بنو نصیر کے واقعہ کے درمیان چار سال کے عرصہ حائل ہے۔ ابن وہب نے کہا : میں نے امام مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ میں جہاد کا حکم دیا گیا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : آیت اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر (الاحزاب : 10) کہا : (رح) یہ غزوہ خندق کا موقع تھا قریش اس جانب سے، یہودی اس جانب سے اور نجدی یہاں سے آئے تھے۔ امام مالک ارادہ کرتے ہیں۔ آیت اذ جاء وکم من فوقکم سے مراد بنو قریظہ ہیں۔ آیت من اسفل منکم سے مراد قریش و غطفان ہیں (1) اس کا سبب یہ ہوا کہ یہودیوں کی ایک جماعت جن میں کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق، سلام بن ابی الحقیق، سلام بن مشکم، حیی بن اخطب نضری، ہوذہ بن قیس، ابو عمار، بنو حلال سے یہ سب یہودی تھے یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ان لشکروں کو بلایا تھا، انہیں دعوت دی اور انہیں جمع کیا تھا۔ یہ لوگ بنو نظیر کی جماعت اور بنو وائل کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے یہ مکہ مکرمہ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی اور اپنی جانب سے وعدہ کیا کہ وہ ہر ممکن ان کی مدد کریں گے۔ اہل مکہ نے ان کی آواز پر لبیک کہی۔ پھر یہی یہودی غطفان کی طرف گئے انہیں بھی ایسی ہی دعوت دی تو انہوں نے بھی ان کی بات کو تسلیم کرلیا۔ قریش نکلے ان کی قیادت ابو سفیان کر رہا تھا غطفان نکلے ان کا قائد عینیہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر فزاری جو فزارہ کا سردار تھا، حارث بن عوف مری جو بنو مرہ کا قائد تھا، مسعود بن رحیلہ جو اشجع کا سردار تھا جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے اجتماع اور اپنے علاقوں سے چل پڑنے کے بارے میں سنا تو اپنے صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت سلیمان فارسی نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا حضور ﷺ ان کے مشورہ پر راضی ہوگئے مہاجرین نے اس روز کہا : سلمان ہم میں سے ہے۔ انصار نے کہا : سلمان ہم میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہے “ (2) ۔ غزوہ خندق وہ پہلا غزوہ تھا جس روز حضرت سلمان فارسی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے وہ اس روز آزاد تھے۔ عرض کی (رح) : یارسول اللہ ! جب ہم محاصرہ میں آجائیں تو ہم خندق کھودتے ہیں مسلمانوں نے خندق کھودنے میں بڑی محنت کی۔ منافقین نے کمزوری کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کی اوٹ میں کھسکنے لگے تو ان کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں جن کا ابن اسحاق اور دوسرے علماء نے ذکر کیا ہے مسلمانوں میں سے جو اپنے حصہ سے فارغ ہوگیا تو اس نے دوسرے کی مدد کی یہاں تک کہ خندق مکمل ہوگئی اس میں واضح نشانیاں اور نبوت کی علامات تھیں۔ میں کہتا ہوں : یہ خبر جو ہم نے ذکر کی ہے اس میں فقہی مسئلہ ہے، یہی دوسرا مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ سلطان کا اپنے ساتھیوں اور اپنے خاص لوگوں سے قتال کے بارے میں مشورہ کرنا۔ یہ بحث سورة آل عمران اور سورة النمل میں گزرچکی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ دشمن سے حفاظت کا اہتمام کرنا چاہیے جس قدر اسباب اور ان کا استعمال ممکن ہو۔ یہ بحث کئی مواقع پر گزرچکی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ خندق کا کھودنا لوگوں پر تقسیم کردیا گیا تھا۔ ان میں سے جو فارغ ہوا اس نے اس کی مدد کی جو فارغ نہ ہوا تھا۔ مسلمان دوسروں کے مقابلہ میں ایک ہاتھ تھے۔ بخاری اور مسلم میں حضرت براء بن عازب سے مروی ہے (1) : جب غزوہ احزاب کا موقع تھا اور رسول اللہ ﷺ خندق کھود رہے تھے میں نے آپ کو دیکھا آپ خندق سے مٹی نکال رہے تھے یہاں تک کہ مٹی نے آپ کے بطن کی جلد کو مجھ سے چھپادیا تھا آپ کے جسم پر کثیر بال تھے اور میں نے آپ کو حضرت ابن رواحہ کے کلمات کے ساتھ رجز پڑھتے ہوئے سنا اور آپ کہہ رہے تھے۔ اللھم لولاانتما اھتیدیناولاتصدقناولا صلینا فانزلنسکینۃ علینا وثبت الاقدام ان لاقینا اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ھدایت نہ پاتے، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے۔ ہم پر سکینہ کو نازل فرما اگر ہماری دشمنوں سے مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اس واقعہ میں جو نشانیاں ہیں وہ یہ ہیں۔ مسئلہ نمبر 3۔ نسائی نے ابی سکینہ سے جو جہنم کی آگ سے آزاد کیے گئے لوگوں میں سے تھے نے رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی سے روایت نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو ان کے سامنے ایک چٹان آئی جو صحابہ اور خندق کھودنے کے درمیان حائل ہوئی رسول اللہ ﷺ اٹھے کدال لی اپنی چادر خندق کے ایک کونے پر رکھی، فرمایا : آیت وتمت کلمت ربک صدقا (الانعام 115) تو ایک تہائی پتھر ٹوٹ گیا جب کہ حضرت سلمان فارسی کھڑے دیکھ رہے تھے رسول اللہ ﷺ کی ضرب کے ساتھ بجلی چمکی پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی، زبان سے کہا : وتمت، تو تیسرا حصہ ٹوٹ گرا بجلی چمکی جسے حضرت سلمان فارسی نے دیکھا پھر آپ ﷺ نے تیسری ضرب لگائی، زبان سے کہا : آیت وتمت کلمت ربک صدقا، تو باقی ماندہ تیسرا حصہ بھی ٹوٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ باہر نکلے اور اپنی چادر لی اور بیٹھ گئے۔ حضرت سلمان نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ میں نے آپ کو دیکھا جب آپ نے ضرب لگائی۔ آپ ضرب نہیں لگاتے تھے مگر اس کے ساتھ بجلی نکلتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے سلیمان ! تو نے وہ دیکھا ؟ “ عرض کی : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! یارسول اللہ ! فرمایا : ” جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو میرے لیے کسری کے مدائن کو بلند کیا گیا اور اس کے ارد گرد بیشمار شہر تھے یہاں تک کہ میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا “۔ جو صحابہ آپ کے پاس حاضر تھے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر ان شہروں کو فتح کرے، ان کے بچے ہمیں مال غنیمت کے طور پر دے اور ہمارے ہاتھوں سے ان کے شہروں کو برباد کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی، پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو میرے لیے قیصر کے شہر اور اس کے ارد گرد جو شہر تھے وہ بلند کیے گئے یہاں تک کہ میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کے وہ انہیں ہم پر فتح کرے اور ہمیں ان کے بچے مال غنیمت کے طور پر دے۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی۔ پھر میں نے تیسری ضرب لگائی تو میرے لیے حبشہ کے شہر اور اس کے ارد گرد کے شہر بلند کیے گئے یہاں تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جب تک اہل حبشہ تمہیں چھوڑے رہیں تم انہیں چھوڑے رکھو اور ترکوں کو چھوڑے رکھو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں “ (1) ۔ حضرت براء نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ کہا : جب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا تو ایک چٹان ہمارے سامنے آگئی ہماری کدالیں اس میں کوئی نفع نہ دے رہیں تھیں۔ ہم نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی رسول اللہ ﷺ تشریف لائے آپ نے چادر رکھی اور کدال لی اور فرمایا : ” بسم اللہ “ آپ نے ایک ضرب لگائی تو چٹان کا تیسر حصہ ٹوٹ گیا۔ پھر فرمایا : ” اللہ اکبر مجھے شام کی چابیاں دے دی گئیں اللہ کی قسم ! میں اس جگہ سے اس کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں “۔ پھر آپ ﷺ نے دوسری ضرب لگائی فرمایا : ” باسم اللہ “ تو ایک تہائی چٹان کو توڑ دیا پھر فرمایا : ” اللہ اکبر مجھے فارس کی چابیاں دے دی گئیں۔ اللہ کی قسم ! میں مدائن کے سفید محل دیکھ رہا ہوں “۔ پھر آپ نے تیسری ضرب لگائی۔ فرمایا : ” بسم اللہ “ آپ نے پتھر توڑ دیا اور فرمایا : ” اللہ اکبر مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئیں، اللہ کی قسم ! میں صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں “ ابو محمد عبد الحق نے اس کی تصحیح کی ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ جب رسول اللہ ﷺ خندق کھودنے سے فارغ ہوگئے قریش دس ہزار کے لشکر کے ساتھ آئے ان کے ساتھ بنو کنانہ اور اہل تہامہ موجود تھے۔ غطفان اہل نجد کے ساتھ آئے یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کی ایک جانب اترے۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان سلع پہاڑ کو پشت پر رکھتے ہوئے تین ہزار کی تعداد میں نکلے۔ اپنے لشکر کو ترتیب دیا جب کہ خندق ان کے درمیان اور مشرکوں کے درمیان تھی۔ حضور ﷺ نے حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم کو مدینہ طیبہ پر عامل مقرر کیا، یہ ابن شہاب کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ اللہ کا دشمن حیی بن اخطب نضری نکلا یہاں تک کہ کعب بن اسد قرظی کے پاس پہنچا وہ بنو قریظہ کی جانب سے معاہدہ کرنے والا اور ان کا رئیس تھا۔ اسی نے رسول اللہ ﷺ سے معاہدہ کیا تھا۔ جب کعب بن اسد نے حیی بن اخطب کے بارے میں سنا تو اپنے قلعہ کا دروازہ اس پر بند کرلیا اور دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ حیی نے کہا : اے میرے بھائی ! میرے لیے دروازہ کھولو۔ کعب نے کہا : میں تیرے لیے دروازہ نہیں کھولوں گا تو منحوس آدمی ہے۔ تو مجھے حضرت محمد ﷺ سے وعدہ توڑنے کے لیے کہے گا جب کہ میں نے ان سے معاہدہ کیا ہے۔ میں نے ان سے وفا اور سچائی ہی دیکھی ہے۔ میرے اور آپ کے درمیان جو معاہدہ ہے میں اسے توڑنے والا نہیں۔ حیی نے کہا : میرے لیے دروازہ کھولو یہاں تک کہ میں تجھ سے بات کروں اور تیرے پاس سے واپس چلا جائوں۔ کعب نے کہا : میں ایسا نہیں کروں گا۔ حیی نے کہا : تو اس سے ڈرتا ہے یہ میں تیرے ساتھ تیرا دلیا کھائوں گا۔ کعب غصے ہوگیا اور دروازہ کھول دیا۔ حیی نے کہا : اے کعب ! میں تیرے پاس زمانہ کی عزت لایا ہوں۔ میں تیرے پاس قریش اور اس کے سردار لایا ہوں۔ میں تیرے پاس غطفان اور ان کے سردار لایا ہوں انہوں نے باہم معاہدہ کیا ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے جڑ سے اکھیڑ دیں۔ کعب نے اسے کہا : اللہ کی قسم ! تو میرے پاس زمانہ کی ذلت لایا ہے تو ایسا بادل لایا ہے جس میں بارش نہیں، تجھ پر افسوس اے حیی ! مجھے چھوڑ دے۔ میں وہ کام کرنے والا نہیں جس کی طرف تو مجھے دعوت دیتا ہے۔ حیی لگاتار کعب سے وعدہ، وعید کرتا رہا اسے دھوکہ دیتا رہا یہاں تک کہ کعب نے اس کی طرف رجوع کرلیا اور اس نے حیی سے اس امر پر معاہدہ کرلیا کہ وہ حضرت محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ دے گا اور حیی کا ساتھ دے گا۔ حیی بن اخطب نے کعب سے کہا : اگر قریش اور غطفان واپس چلے گئے تو میں ان یہودیوں کے ساتھ تیرے پاس آجائوں گا جو میرے ساتھ ہیں۔ جب کعب اور حیی کی خبر نبی کریم ﷺ تک پہنچی۔ حضور ﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ جو خزرج کے سردار تھے اور حضرت سعد بن معاذ جو اوس کے سردار تھے کو بھیجا ان دونوں کے ساتھ حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت خوات بن جبیر کو بھی بھیجا رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” بنو قریظہ کی طرف جائو اگر وہ بات درست ہو جو ہم سے کی گئی ہے تو ذومعنی انداز میں ہم سے بات کرنا اور لوگوں کی قوت کو منتشر نہ کرنا اگر وہ بات جھوٹ ہو تو اعلانیہ بات کرنا “ وہ صحابہ چلے یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچے تو ان کو اس سے ابتر حالت میں پایا جو ان کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ اور جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بات سنی تھی۔ انہوں نے کہا : ہمارے ہاں رسول اللہ ﷺ کے لیے کوئی عہد نہیں۔ حضرت سعد بن معاذ نے انہیں برا بھلا کہا اور انہوں نے حضرت سعد بن معاذ کو برابھلا کہا۔ ان میں بات تیز ہونے لگی۔ حضرت سعدبن عبادہ نے حضرت سعد سے کہا : ان کو برا بھلا نہ کہو ہمارے اور ان کے درمیان معاملہ اس سے آگے بڑھ چکا ہے پھر حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ واپس آئے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مسلمانوں کی جماعت میں پہنچے دونوں نے عرض کی : عضل والقارہ دونوں عضل اور قارہ کے دھوکہ کا اشارۃ ذکر کررہے تھے جو اصحاب رجیع حبیب اور اس کے ساتھی تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے مسلمانوں کی جماعت ! تمہیں بشارت ہو “ اس موقعہ پر آزمائش بڑھ گئی اور خوف شدید ہوگیا۔ مسلمانوں پر دشمن انکی اوپر کی جانب سے یعنی مشرق کی جانب سے وادی کے اوپر سے اور ان کے نیچے کی جانب سے یعنی وادی کے بطن سے مغرب کی جانب سے آگیا، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمانات کرنے لگے اور منافقوں نے وہ کچھ ظاہر کردیا جس کو وہ پہلے چھپائے ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ نے کہا : ہمارے گھر الگ تھلگ ہیں ہم ان کی طرف جاتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے بارے میں خوف ہے۔ جس نے یہ بات کی وہ اوس بن قیظی تھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا : حضرت محمد ﷺ ہم سے کسری و قیصر کے خزانوں کے فتح ہونے وعدہ کرتے ہیں اور آج ہم میں سے ایک قضائے حاجت کو جانے کے لیے محفوظ نہیں جس نے یہ کہا : وہ معقب بن قشیری جو بنی عمر بن عوف میں سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور مشرکین بیس دن سے اوپر تقریبا ایک ماہ تک مقیم رہے ان کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوئی مگر تیر اندازی اور پتھر برسائے جاتے رہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ مسلمانوں پر آزمائش سخت ہوگئی ہے تو آپ نے عینیہ بن حصن فرازی اور حارث بن عوف مری کی طرف پیغام بھیجا یہ دونوں غطفان کے قائد تھے انہیں مدینہ طیبہ کی فصل کا ایک تہائی دینے کا وعدہ کیا تاکہ وہ لوگوں کو لے کر چلے جائیں اور قریش کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ ان سے واپس چلے جائیں۔ یہ گفتگو بہلانے پھسلانے کے لیے تھی یہ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ انہوں نے رجوع کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ دونوں راضی ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ کے پاس آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر ان دونوں سے کیا اور ان سے مشورہ کیا۔ دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ ایسا امر ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں تو آپ کی رضا کے لیے ایسا کرلیں گے یا ایسی شی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے تو ہم اس کے پسند اور اطاعت کریں یا یہ ایسا امر ہے جو آپ ہماری سہولت کے لیے کرنا چاہتے ہیں ؟ فرمایا : ” بلکہ یہ ایسا امر ہے جسے میں تمہارے لیے کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ کی قسم ! میں ایسا نہیں کروں گا مگر اسی وقت جب میں عربوں کو دیکھوں کہ وہ سب تمہیں ایک کمان سے تیر مار رہے ہیں “۔ حضرت سعد بن معاذ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ اللہ کی قسم ! ہم اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے، بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے تھے، ہم اس کی پہچان نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے کبھی اس کی طمع بھی نہیں کی کہ وہ ہمارے پھل کو حاصل کریں مگر خرید کر یا ضیافت کے طور پر۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام سے نوازا ہماری اس کی طرف رہنمائی کی اور آپ کے ساتھ عزت بخشی تو ہم انہیں اپنے مال نہیں دیں گے مگر تلوار کے ساتھ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ رسول اللہ ﷺ اس سے خوش ہوگئے فرمایا :” انتم ذاک “ تمہیں اختیار ہے وہی کرو جو تمہیں پسند ہے۔ آپ نے عیینہ اور حارث سے فرمایا : ” دونوں واپس چلے جائو تمہارے لیے ہمارے پاس تلوار کے سوا کچھ نہیں “۔ حضرت سعد نے صحیفہ لیا اس میں کوئی شہادت نہیں تھی تو آپ نے اسے مٹاد یا۔ رسول اللہ ﷺ اور مشرک اسی حال پر رہے مشرک ان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے ان کے درمیان کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہو رہی تھی، مگر قریش کے شاہسوار جن میں عمرو بن عبدود عامری جو بنو عامر بن لوی سے تعلق رکھتا تھا، عکرمہ بن ابی جہل، ہبیرہ بن ابی وہب، ضرار بن خطاب فہری یہ قریش کے شاہسوار اور ان کے بہادر لوگ تھے وہ آئے اور آکر خندق پر کھڑے ہوگئے۔ جب انہوں نے خندق کو دیکھا انہوں نے کہا : یہ تو خفیہ تدبیر ہے عرب تو خفیہ تدبیر نہیں کرتے تھے۔ پھر انہوں نے خندق کی تنگ جگہ کا قصد کیا انہوں نے گھڑ سواروں کے دوڑایا گھوڑے انہیں لے کر اس میں داخل ہوئے اور انہوں نے خندق کو عبور کرلیا اور یہ لوگ خندق اور سلع پہاڑ کے درمیان آئے حضرت علی بن ابی طالب ؓ مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ انہیں اس آسان راستہ (جگہ) پر آلیا جہاں سے وہ داخل ہوئے تھے شاہسوار ان کی طرف متوجہ ہوئے عمرو ابن عبدود کو غزوہ بدر کے موقع پر زخم لگا تھا اور وہ غزوہ احد میں حاضر نہ تھا۔ اس نے غزوئہ خندق کے موقع پر ارادہ کیا کہ اس کے مقام و مرتبہ کو دیکھا جائے۔ جب وہ اور اس کا گھوڑا کھڑا ہوا تو اس نے آواز دی : کون مقابلہ کرے گا ؟ حضرت علی شیر خدا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ اسے فرمایا : اے عمرو ! جو ہمیں خبر پہنچی ہے کہ تو نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہے کہ تجھے دو باتوں میں ایک کی دعوت دی جائے گی تو ان دونوں میں سے ایک کو ضرور اپنا لے گا۔ اس نے کہا : ہاں۔ فرمایا : میں تجھے اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ اس نے کہا : مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔ فرمایا : میں تجھے مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں۔ اس نے کہا : اے بھتیجے ! اللہ کی قسم ! میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میں تجھے قتل کروں اس کی وجہ میرے اور تیرے والد کے درمیان تعلقات تھے۔ حضرت علی شیر خدا نے اسے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں تجھے قتل کرنا پسند کرتا ہوں۔ عمر بن عبدود کو غیرت آئی اور وہ گھوڑے سے اتر آیا۔ اور اس کی کونچیں کاٹ دیں اور حضرت علی شیر خدا کی طرف چلا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نیچے اترنے کو کہا۔ دونوں نے چکر لگایا، دونوں کے درمیان غبار اڑا یہاں تک کہ غبار دونوں کے درمیان حائل ہوگیا۔ غبار نہ چھٹا یہاں تک کہ حضرت علی شیر خدا کو دیکھا گیا کہ آپ عمرو کے سینہ پر ہیں اور اس کا سر کاٹ رہے ہیں۔ جب عمر و کے ساتھیوں نے دیکھا کہ حضرت علی شیر خدا نے اسے قتل کردیا ہے تو ہو شکست کھا کر بھاگتے ہوئے اپنے گھوڑوں کے ساتھ آسان راستہ سے داخل ہوتے ہوئے نکل گئے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے اس بارے میں کہا : نصر الحجارۃ من سفاھۃ رایہونصر تدین محمد بضراب نازلتہ فترکتہم تجدلاکالجذع بیندکادک و روابی و عففت عنا ثوابہولواننی کنت المقطربزنی اثوابی لا تحسبن اللہ خاذلدینہ و نبی ہیامعشر الاحزاب (1) اس نے اپنی بیوقوفی کی وجہ سے پتھر کی مدد کی اور میں نے وار کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کے دین کی مدد کی۔ میں نے اسے دعوت مبارزت دی اور میں نے اسے یوں چھوڑا کہ وہ زین کے ساتھ لگا ہوا تھا جس طرح تنا ہوتا ہے نرم ریت اور اٹھی ہوئی زمین کے درمیان۔ میں نے اس کے لباس سے اپنا ہاتھ کھینچے رکھا اگر میں زمین پر پہلو کے بل گرا ہوتا تو وہ میرے کپڑے چھین لیتا۔ تم اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمان نہ کرو کہ وہ اپنے دین اور اپنے نبی کو بےیارو مددگار چھوڑ دے گا اے مختلف جماعتوں کے گروہ ! ابن ہشام نے کہا : اکثر اہل علم ان اشعار کی حضرت علی شیر خدا ؓ کی طرف نسبت کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ ابن ہشام نے کہا : عکرمہ بن ابی جہل نے اس روز اپنا نیزہ پھینکا جب کہ وہ عمر و کو چھوڑ کر بھاگنے والا تھا۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ نے اس بارے میں کہا : فر والقا لنا رمحہ لعلک عکرملمتفعل وولیتتعدو کعدوالظلیم ماان تجور عنالمعدل ولمتلقظھرک مستانسا کان قفاکقفا فرعل وہ بھاگا اور اس نے ہمارے لیے اپنا نیزہ پھینک دیا اے عکرمہ ! شاید تو نے ایسا نہیں کیا تو ظلیم کی طرح بھاگتے ہوئے مڑ گیا تو معدل پھرنے کی جگہ سے نہیں بھاگتا تھا۔ تو اپنی پشت خوشی سے سامنے نہیں کرتا گویا تیری گدی فرعل کی گدی ہے۔ ابن ہشام نے کہا : فرعل چھوٹا بجو ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بنی حارثہ کے قلعہ میں تھیں حضرت سعد بن معاذ کی والدہ آپ کے ساتھ تھیں حضرت سعد نے ایسی ذرہ زیب تن کر رکھی تھی جو بڑی گھنی تھی۔ اس سے آپ کا بازو باہر تھا ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا نیزہ تھا۔ وہ کہہ رہے تھے : لبثتقلیلایلحقالھیجا حمللاباس بالموت اذا کان الاجل (1) اس روز حضرت سعد بن معاذ کو ایک تیر مارا گیا جس نے ان کے بازو کی درمیانی رگ کو کاٹ دیا جس نے تیر مارا اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حبان بن قیس بن عرفہ نے تیر مارا جو بنی عامربن لئوی کا ایک فرد تھا۔ جب اس نے تیر مارا تو اس سے کہا : خذھا وانا ابن العرفہ اسے لو میں ابن عرفہ ہوں۔ حضرت سعد نے اسے کہا : عرق اللہ وجہک فی النار اللہ تعالیٰ تیرے چہرے کو آگ میں شرابور کرے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس شخص نے آپ کو تیر مارا وہ خفاجہ بن عاصم بن حبان تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس نے آپ کو تیر مارا وہ ابو اسامہ جشمی تھا، جو بنو مخزوم کا حلیف تھا۔ حضرت حسان کی حضرت صفیہ بنت عبد المطلب کے ساتھ ایک دلچسب گفتگو ہے جسے ابن اسحاق اور دوسرے علماء نے بیان کیا ہے۔ حضرت صفیہ بنت عبد المطلب ؓ نے کہا : ہم غزوئہ احزاب کے موقع پر حضرت حسان بن ثابت ؓ کے قلعہ میں تھے۔ حضرت حسان ہمارے ساتھ عورتوں اور بچوں میں تھے جب کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ دشمن کے سامنے تھے وہ ہماری طرف نہیں آسکتے تھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک یہودی وہاں چکر لگا رہا ہے۔ میں نے حضرت حسان سے کہا : اس کی طرف جائو اور اسے قتل کردو، انہوں نے کہا : اے بنت عبدالمطلب ! میں اس کام کے لائق نہیں ہوں۔ حضرت صفیہ نے خیمہ کے ستون کی ایک لکڑی لی آپ نیچے اتریں اور اسے قتل کردیا۔ میں نے کہا : اے حسان ! نیچے جائو اور اس کالباس چھین لو مجھے کوئی چیز اس کا لباس واسلحہ چھیننے سے نہیں روکتی تھی مگر یہ کہ وہ ایک مرد ہے۔ حضرت حسان نے کہا : اے بنت عبد المطلب ! مجھے اس کے کپڑے چھیننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تو میں نیچے اتری اور اس کا اسلحہ وغیرہ لے لیا۔ ابو عمر بن عبد البر نے کہا : اہل سیر میں سے ایک جماعت نے اس کا انکار کیا انہوں نے کہا : اگر حضرت حسان میں وہ بزدلی ہوتی جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو اس بارے میں وہ لوگ ان کو ہجو کرتے جن کی حضرت حسان دور جاہلیت اور دور اسلام میں ہجو کیا کرتے تھے۔ اور اس وجہ سے ان کے بیٹے عبدالرحمن کی ہجو کی جاتی کیونکہ حضرت حسان عرب شعراء میں سے کثیر لوگوں کی ہجو کیا کرتے تھے جس طرح نجاشی وغیرہ۔ مسئلہ نمبر 6۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں نعیم بن مسعود بن عامر اشجعی حاضر ہوا عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ میں مسلمان ہوچکا ہوں میری قوم میرے اسلام لانے سے آگاہ نہیں مجھے جو چاہیں حکم دیں رسول اللہ ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا : ” تو غطفان کا ایک آدمی ہے اگر تو چلا جائے اور ہم سے الگ تھلگ ہوجائے اگر تو طاقت رکھے تو یہ امر ہمارے نزدیک تیرے ہمارے ساتھ باقی رہنے سے زیادہ پسندیدہ ہے تو چلا جا بیشک جنگ ایک چال ہے “ (2) ۔ نعیم بن مسعود وہاں سے نکلے اور بنو قریظہ کے پاس آئے یہ دور جاہلیت میں ان کے دوست تھے کہا : اے بنو قریظہ ! تم اپنے لیے میری محبت کو پہچانتے ہو۔ اور میرے اور تمہارے درمیان جو تعلقات ہیں انہیں بھی جانتے ہو۔ انہوں نے کہا : کہو جو کچھ کہنا چاہتے ہو تو ہمارے نزدیک ایسا نہیں جس پر تہمت لگائی جائے۔ نعیم بن مسعود نے انہیں کہا : قریش اور غطفان ان کی حالت اس طرح نہیں جس طرح تمہاری حالت ہے ملک تمہارا ہے اس میں تمہاری اولادیں، تمہارے بیٹے اور تمہاری عورتیں ہیں۔ قریش اور غطفان حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ سے جنگ کرنے کے لیے آئے ہیں جب کہ تم نے ان کی مدد کی ہے مگر انہوں نے کوئی موقع پایا تو وہ اس سے فائدہ اٹھا لیں گے اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوا تو وہ اپنے اپنے ملکوں کو چلے جائیں گے اور تمہارے اور اس ہستی کے درمیان میدان خالی چھوڑ دیں گے، جب کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمہارے پاس طاقت نہیں تم قوم کہ ساتھ ملکر جنگ نہ کرو یہاں تک کہ تم ان سے کوئی چیز رہن رکھو۔ پھر وہ وہاں سے نکلے اور قریش کے پاس آئے ان سے کہا : اے قریش کی جماعت ! تم اپنے لیے میری محبت کو جانتے ہو۔ اور حضرت محمد سے جو میری جدائی اور دوری ہے اسے بھی جانتے ہو۔ مجھے ایک خبر پہنچی ہے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ اخلاص کے تعلقات کی بنا پر تم تک وہ پیغام پہنچائوں۔ اسے اپنی ذات تک رکھنا۔ قریش نے کہا : ہم ایسا ہی کریں گے۔ کیا تم جانتے ہو یہودی اس بات پر شرمندہ ہیں جو انہوں نے حضرت محمد ﷺ کے ساتھ معاہدہ توڑا ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ کی طرف پیغام بھیجا ہے ہم اپنے کیے پر نادم ہیں کیا یہ بات آپ کو خوش کرتی ہے کہ ہم قریش و غطفان میں سے اشراف کے پکڑیں اور آپ کے حوالے کردیں اور آپ ﷺ ان کی گردنیں اڑادیں۔ پھر ہم آپ کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ ان لوگوں کو نیست و نابود کردیں۔ پھر وہ غطفان کے پاس آئے اور اسی قسم کی گفتگو کی جب ہفتہ کی رات تھی یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے رسول اور مومنوں کے لیے بڑا احسان ہوا کہ ابو سفیان نے عکرمہ بن ابی جہل کو قریش اور غطفان کے چند افراد کے ساتھ بنو قریظہ کی طرف بھیجا تاکہ انہیں کہیں : ہم اپنے گھر بیٹھے ہوئے نہیں۔ اونٹ اور گھوڑے ہلاک ہو رہے ہیں۔ اگلے روز جنگ کے لیے نکلو تاکہ ہم (حضرت) محمد ﷺ سے اپنا حساب بےباک کریں۔ بنو قریظہ نے ان کی طرف پیغام بھیجا : یہ دن تو ہفتہ کا دن ہے تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جس نے ہفتہ کو حد سے تجاوز کیا اس وجہ سے ہمیں کیا مصیبت آئی۔ ساتھ ہی ساتھ ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے یہاں تک کہ تم ہمیں کوئی چیز رہن کے طور پر دو ۔ جب قاصد اس پیغام کے ساتھ واپس آیا تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! نعیم بن مسعود نے ہم سے سچ کہا۔ اور قاصد ان کی طرف واپس بھیجے اور کہا : اللہ کی قسم ! ہم کبھی بھی تمہیں رہن کے طور پر کوئی چیز نہیں دیں گے اگر چاہو تو ہماری مدد کے لیے جنگ کے لیے نکلو ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ بنو قریظہ نے کہا : اللہ کی قسم ! نعیم بن مسعود نے سچ بولا۔ اللہ تعالیٰ نے سخت سردی کی راتوں میں تیز ہوا بھیجی ہوا ان کے برتنوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی اور ان کی ہانڈیوں کو الٹا رہی تھی۔ مسئلہ نمبر 7۔ جب رسول اللہ ﷺ کے ان کے اختلاف کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان کو بھیجا تاکہ ان کی خبر لے آئیں۔ حضرت حذیفہ ان کے پاس آئے اور ان کی انبوہ میں چھپ گئے۔ حضرت حذیفہ نے ابو سفیان کو یہ کہتے ہوئے سنا : اے قریش کی جماعت ! ہر آدمی اپنے ساتھی کی پہچان کرلے۔ حضرت حذیفہ نے کہا : میں نے اپنے ساتھ بیٹھنے والے کا ہاتھ پکڑا اور کہا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں فلاں بن فلاں ہوں پھر ابو سفیان نے کہا : اے قریش کی جماعت ! تم ہلاک ہو۔ اللہ کی قسم ! تم اپنے گھروں میں نہیں ہو۔ گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں۔ بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ اور ہم نے یہ ہوا پائی ہے جسے تم دیکھ رہے ہو ہمارے لیے نہ خیمہ قائم رہتا ہے نہ ہنڈیا چولھے پر ٹھہرتی ہے اور نہ ہی ہماری آگ جلتی ہے۔ چلو کوچ کرو میں تو کوچ کرنے والا ہوں۔ اپنے اونٹ پر سوار ہوگیا اور اس کا ڈھنگانہ کھولا مگر کھڑے کھڑے۔ حضرت حذیفہ ؓ نے کہا : اگر رسول اللہ ﷺ کا عہد ملحوظ نہ ہوتا جو حضور ﷺ نے مجھ سے بھیجتے وقت لیا تھا مجھے فرمایا تھا : ” قوم کی طرف جائو، جس حالت پر وہ ہیں ان کو جانو اور کوئی نیا کام نہ کرنا “۔ تو میں تیر سے اسے قتل کردیتا۔ پھر ان کے کوچ کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہوئے نماز پڑھتے ہوئے پایا آپ کے جسم پر آپ کی ازواج میں سے کسی کی منقش چادر تھی۔ ابن ہشام نے کہا ـ ـ : مراجل سے مراد یمن کی منقش چادروں میں سے ایک قسم کی چادر ہے (1) ۔ میں نے آپ کو خبر دی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی۔ میں کہتا ہوں : حضرت حذیفہ کا یہ واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے اس میں عظیم نشانیاں ہیں (2) اس واقعہ کو جریر نے اعمش سے وہ ابرہیم تیمی سے وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آدمی نے کہا : اگر میں رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پاتا تو میں آپ کی معیت میں جہاد کرتا اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا۔ حضرت حذیفہ نے کہا : تو ایسا کرتا۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لیلۃ الاحزاب کو اپنے آپ کو دیکھا ہمیں سخت آندھی اور ٹھنڈک نے آلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو میرے پاس قوم کی خبر لائے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے معیت عطا کرے گا “۔ ہم سب خاموش ہوگئے۔ اور ہم میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔ فرمایا : ” اے حذیفہ ! اٹھو اور ہمارے پاس قوم کی خبر لائو “۔ جب رسول اللہ ﷺ نے میرا نام لیا تو میرے لیے اٹھنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا۔ فرمایا : ” جائو اور قوم کی خبر میرے پاس لائو۔ انہیں خوف زدہ کرکے میری طرف متوجہ نہ کردینا “۔ کہا : جب میں آپ کے پاس سے اٹھا تو گویا میں حمام میں چل رہا تھا یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا میں نے ابو سفیان کو دیکھا جو آگ سے اپنی پشت کو تاپ رہا تھا میں نے تیر کمان پر چڑھایا تو میں نے اسے تیر مارنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد آگیا۔ ولا تذعرھم علی انہیں خوف زدہ کر کے میری طرف متوجہ نہ کرنا۔ اگر میں اس کو تیر مارتا تو اس کو مار سکتا تھا۔ میں واپس پلٹا میں اس طرح چل رہا تھا جس طرح حمام میں چلتا ہوں جب میں آپ ﷺ کے پاس آیا تو میں نے قوم کے معاملات کا بتایا۔ میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنا شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے باقی ماندہ چادر اڑھادی۔ جس میں آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں سویا رہا یہاں تک کہ میں نے صبح کی۔ جب میں نے صبح کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قم یا نومان اے سونے والے اٹھو۔ جب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی تو لشکر جا چکے تھے۔ آپ مدینہ طیبہ کی طرف لوٹے اور مسلمانوں نے اپنا اسلحہ رکھ دیا تو حضرت جبریل امین حضرت وحیہ کلبی کی صورت میں آئے آپ ایک خچر پر سوار تھے جس پر ریشم کا ایک کپڑا تھا حضرت جبریل امین نے آپ سے عرض کی : اے محمد ! اگر تم نے اپنا اسلحہ اتار دیا ہے تو فرشتوں نے اپنا اسلحہ نہیں اتارا۔ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ بنو قریظہ کی طرف نکلیں میں ان کی طرف جانے والا ہوں اور ان پر ان قلعوں کو جھنجھوڑ نے والا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک منادی کو حکم دیا، تو اس نے ندا کی یہی ؛ آٹھواں مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 8۔ کوئی آدمی بھی عصر کی نماز نہ پـڑھے مگر بنی قریظہ کے علاقے میں نماز پڑھے (1) ؛ کچھ لوگوں کو خوف ہوا کہ وقت فوت ہوجائے گا تو انہوں نے بنو قریظہ کے علاقہ سے پہلے ہی نماز پڑھ لی۔ دوسروں نے کہا : ہم عصر کی نماز نہیں پڑھیں گے مگر جب رسول اللہ ﷺ ہمیں حکم دیں اگرچہ وقت فوت ہوجائے رسول اللہ ﷺ نے کسی فریق کے بارے میں سختی نہ کی۔ اس میں یہ فقہی حکم ملتا ہے کہ مجتہد جس نتیجہ پر پہنچے وہ درست ہے۔ یہ بحث سورة الانبیاء میں گزرچکی ہے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کو جب تیر لگاتو آپ نے اپنے رب سے دعا کی عرض کی (رح) : اے اللہ ! اگر تو نے قریش کے ساتھ جنگ کو باقی رکھا ہے تو مجھے بھی اس کے لیے باقی رکھ کیونکہ کوئی ایسی قوم نہیں جس سے میں جہاد کرنا پسند کرتا ہوں اس قوم سے بڑھ کر جس نے تیرے رسول ﷺ کو جھٹلایا اور آپ کو آپ کے وطن سے نکالا۔ اے اللہ ! اگر تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کو ختم کردیا تو اسی زخم کو میرے لیے شہادت بنادے اور مجھے موت عطا نہ کر یہاں تک کہ بنو قریظہ سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں (2) ۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ حضرت سعد بن معاذ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس سے گزرے جب کی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ساتھ قلعہ فارع میں اور بھی عورتیں تھیں جب کہ آپ کے جسم پر گھنی بنی ہوئی زرہ تھی جس کی آستینیں چڑھائی ہوئی تھیں۔ آپ پر زردی کے آثار تھے اور آپ یہ رجز پڑھ رہے تھے : لبثقلیلا یدرکالھیجاحمللاباس بالموت اذا حانالاجل تھوڑاٹھہر کہ جنگ حمل کو پالے موت میں کوئی حرج نہیں جب اجل کا وقت آچکا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : حضرت سعد کے بارے میں مجھے یہی خوف تھا کہ آپ کی اطرف سے ہی کوئی تیر لگے گا تو آپ کی اکحل ( بازئوں کی درمیانی رگ) میں تیر لگا (3) ۔ ابن وہب اور ابن قاسم نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کے سوا حضرت سعد بن معاذ سے بڑھ کر کوئی خوبصورت مرد نہیں دیکھا۔ ان کی اکحل میں تیر لگا۔ آپ نے دعا کی : اگر قریظہ سے جنگ میں کوئی چیز باقی نہیں بچی تو مجھے قبض کرلے اگر کوئی چیز باقی ہے تو مجھے باقی رکھ یہاں تک کہ میں تیرے رسول کے ساتھ آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں۔ جب بنو قریظہ کا فیصلہ ہوچکا تو آپ کا وصال ہوگیا۔ لوگ خوش ہوئے اور کہا : ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ کی دعا قبول ہوئی (4) ۔ مسئلہ نمبر 9۔ جب مسلمان بنو قریظہ کی طرف نکلے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی شیر خدا کو جھنڈ عطا فرمایا اور مدینہ طیبہ پر حضرت ابن ام مکتوم کو اپنا نائب مقرر کیا حضرت علی شیر خدا اور ان کے ساتھ ایک طائفہ اٹھا یہاں تک کہ بنو قریظہ تک پہنچے اور انہیں اپنے قلعوں سے نیچے اترنے کا کہا اور انہوں نے سنا بنو قریظہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دے رہے ہیں۔ حضرت علی شیر خدا ؓ رسول اللہ ﷺ کی طرف واپس پلٹ آئے۔ عرض کی : ان تک نہ پہنچے اور اشارۃ بات کی رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی شیر خدا سے فرمایا : ” میرا گمان ہے تو نے ان سے سنا کہ وہ مجھے گالیاں دے رہے ہیں اگر وہ مجھے دیکھیں گے تو وہ اس چیز سے رک جائیں گے “ (1) آپ ان کی طرف اٹھے جب یہودیوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو وہ رک گئے۔ انہیں ارشاد فرمایا : ” اے بندروں کے بھائیو ! تم نے وعدہ خلافی کی ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلیل و رسوا کیا اور تم پر اپنا عذاب نازل کردیا “۔ انہوں نے کہا : تو جاہل نہیں اے محمد ! ہم پر جہالت کی باتیں نہ کرو۔ رسول اللہ ﷺ نے وہاں پڑائو ڈال دیا اور بیس سے اوپر دن ان کا محاصرہ کیا۔ بنو قریظہ کے سردار کعب نے ان پر تین باتیں پیش کیں تاکہ ان میں سے جو چاہے اپنا لیں۔ یا تو سب مسلمان ہو جائو اور حضرت محمد ﷺ کی پیروی کرو ان باتوں میں جو وہ پیغام لائے ہیں اور سلامتی پائیں کہا : اپنے احوال، اپنی عورتیں اور اپنے بچے محفوظ کرلو، اللہ کی قسم ! تم خوب جانتے ہو کہ یہ وہی ہے جسے تم اپنی کتابوں میں لکھا پاتے ہو۔ یا ہو اپنے بیٹوں اور اپنی عورتوں کو قتل کردیں پھر وہ مسلمانوں کی طرف آگے بڑھیں تو وہ قتال کریں گے یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی مر جائے یا ہفتہ کی رات مسلمانوں پر حملہ کردیں جس رات انہیں حملہ سے اطمینان ہوگا، تو ان سب کو قتل کر دو ۔ بنو قریظہ نے کعب سے کہا : جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو ہم اسلام نہیں لائیں گے اور تورات کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔ جہاں تک ہمارا اپنے بیٹوں اور عورتوں کے قتل کا تعلق ہے تو ہمارے قتل کرنے سے ان مسکینوں کو ہماری طرف سے کہا جزا ملے گی۔ اور ہم ہفتہ کے روز تو حد سے تجاوز نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے حضرت ابو لبابہ کو بلا بھیجا بنو قریظہ بنی عمرو بن عوف اور باقی اوس کے حلیف تھے۔ حضرت ابو لبابہ ان کے پاس آئے بنو قریظہ نے اپنے بیٹے، اپنی عورتوں اور اپنے مرد سب ان کے لیے جمع کردیے انہوں نے حضرت ابو لبابہ سے کہا : اے ابو لبابہ ! تمہاری کیا رائے ہے ہم حضرت محمد ﷺ کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے نیچے اتر آئیں ؟ حضرت ابو لبابہ نے فرمایا : ہاں۔ اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا کہ اگر تم ایسا کرو گے تو تمہیں ذبح کردیا جائے گا۔ پھر حضرت ابو لبابہ اس وقت شرمندہ ہوئے اور انہیں علم ہوگیا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی ہے اور یہ ایسا امر ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے مخفی نہیں رکھے گا۔ حضرت ابو لبابہ مدینہ طیبہ کی طرف چلے گئے اور نبی کریم ﷺ کی طرف نہ لوٹے اور اپنے آپ کو ستون کے ساتھ باندھ دیا اور قسم اٹھائی کہ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلے۔ ان کی بیوی ہر نماز کے وقت انہیں کھول دیتی۔ ابن عیینہ اور دوسرے علماء نے کہا : انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی آیت یا ایھا الذین امنو لا تخونو اللہ والرسول وخونوا امنتکم ( الانفال : 27) (2) اور یہ قسم اٹھائی کہ وہ بنو قریظہ کے علاقہ میں کبھی نہیں جائیں گے کیونکہ وہ ایسی جگہ ہے جہاں ان سے گناہ سرزد ہوا۔ جب نبی کریم ﷺ کو حضرت ابو لبابہ کے عمل کے بارے میں اطلاع ہوئی۔ فرمایا : ” خبر دار اگر وہ میرے پاس آتا تو میں اس کے حق میں بخشش طلب کرتا جب اس نے یہ فعل خود کیا ہے تو میں اسے نہیں کھولوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے آزاد کردے “ (1) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو لبابہ کے بارے میں اس آیت کو نازل فرمایا : آیت واخرون مرجون لامر اللہ اما یعذبھم واما یتوب علیہم (توبہ : 106) جب اس کے متعلق قرآن حکیم نازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ ؛ نے اس کے آزاد کرنے کا حکم دے دیا جب بنو قریظہ نے صبح کی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر قلعوں سے نیچے اتر آئے۔ قبیلہ اوس کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ پر بھیڑ کرلی۔ عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے حلیف ہیں آپ نے عبداللہ بن ابی سلول کی بنو نضیر کے بارے میں بات مانی جو خزرج کے حلیف تھے ہمارا حصہ ومقام کسی اور کے حصہ اور مقام سے کم نہیں یہ ہمارے حلیف ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اے قبیلہ اوس کی جماعت ! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں میں سے ایک آدمی ان کے بارے میں فیصلہ کرے “ (2) ۔ انہوں نے عرض کی : کیوں نہیں ؟ فرمایا : ” یہ معاملہ حضرت سعد بن معاذ کے سپرد ہے “۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں ان کے لیے خیمہ لگوایا تھا تاکہ وہ زخم جو انہیں غزوہ خندق میں لگا اس کی قریب سے تیمار داری کرسکیں۔ حضرت سعد نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان میں سے جو جنگ کے قابل ہیں ان کو قتل کردیا جائے۔ ان کے بچوں اور عورتوں کو قیدی بنالیا جائے اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کردیئے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تو نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے چوتھے آسمان پر کیا ہے “ (3) ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں حکم دیا تو انہیں اس جگہ کی طرف لے جایا گیا جہاں آج بازار ہے ( مراد حضرت ابن اسحاق کے زمانہ میں جہاں بازار تھا) وہاں خندقیں کھودیں گئیں پھر حضور ﷺ نے حکم دیا تو ان خندقوں میں ان کی گردنیں اڑادی گئیں۔ اس روز حیی بن اخطب اور کعب بن اسد کو قتل کردیا گیا۔ یہ دونوں قوم کے سردار تھے۔ ان لوگوں کی تعداد چھ سے سات سو تھی۔ حیی پر گلا بی رنگ کا حلہ تھا اس نے اس کو ہر جانب سے پوراپورا سوراخ کردیا تھا تاکہ اس کو اس کے جسم سے اتارا نہ جائے۔ جب اس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب اسے لایا گیا اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ رسی سے باندھے گئے تھے اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ کے ساتھ دشمنی پر اپنے آپ کو ملامت نہیں کرتا۔ ولکنہ من یخذل اللہ یخذل (4) لیکن جسے اللہ تعالیٰ بےیارو مددگار چھوڑ دے اس کو بےیارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پھر اس نے کہا : اے لوگو ! اللہ کے حکم کے سامنے کسی کو مجال نہیں کتاب، تقدیر اور ملحمہ قتل بنی اسرئیل پر لکھا جاچکا تھا۔ پھر وہ بیٹھا اور اس کی گردن اڑادی گئی۔ ان کی عورتوں میں سے صرف ایک عورت قتل کی گئی۔ یہ بنانہ تھی جو حکم قرظی کی بیوی تھی جس نے حضرت خلاد بن سوید پر چکی پھینکی تھی اور انہیں قتل کردیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بچوں میں سے ہر اس بچے کو قتل کرنے کا حکم دیا جس کے بال اگ آئے تھے اور جن کے بال نہیں اگے تھے ان کو چھوڑدیا۔ عطیہ قرظی کے بال نہیں اگے تھے رسول اللہ ﷺ نے اسے زندہ رہنے دیا۔ اس کا ذکر صحابہ میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو زبیر بن باطا کی اولاد ہبہ کی۔ انہوں نے انہیں زندہ رہنے دیا۔ ان میں عبدالرحمن بن زبیر مسلمان ہوا اور اس کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور ﷺ نے رفاعہ بن سموء ل قرظی، حضرت ام منذر سلمی بنت قیس کو ہبہ کیا جو سلیط بن قیس کی بہن تھی یہ بنو نجار میں سے تھا یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی نماز پڑھی حضرت رفاعہ مسلمان ہوئے انہیں صحابیت کا شرف حاصل ہے اور ان کی روایات بھی ہیں۔ ابن وہب اور ابن قاسم نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس، ابن باطا کے پاس آئے ابن باطا کا حضرت ثابت پر احسان تھا۔ کہا : میں نے تجھے رسول اللہ ﷺ سے اس لیے بطور ہبہ طلب کیا تھا، کیونکہ تیرا مجھ پر ایک احسان تھا۔ ابن باطا نے کہا : کریم، کریم کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا : ایک ایسا آدمی کس طرح زندگی بسر کرسکتا ہے جس کا نہ بچہ ہو اور نہ ہی بیوی ہو ؟ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس کے بارے اس امر کا ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابن باطاکو اس کے بچے اور اس کی بیوی واپس کردی۔ حضرت ثابت اس کے پاس آئے اور سب کچھ بتایا۔ اس نے کہا : ایک آدمی کیسے زندگی بسر کرسکتا ہے جس کے پاس مال ہی نہ ہو ؟ حضرت ثابت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مال کا مطالبہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے مال بھی دے دیا۔ حضرت ثابت اس کے پاس آئے اور اسے بتایا۔ اس نے پوچھا : ابن ابی حقیق کا کیا بنا جس کا چہرہ گویا چینی آئینہ تھا ؟ آپ نے فرمایا : اسے قتل کردیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا مجلسان یعنی بنی کعب بن قریظہ اور بنی عمرو بن قریظہ کا کیا ہوا ؟ فرمایا : وہ سب قتل کردیے گئے۔ اس نے پوچھا : دونوں جماعتوں کا کیا ہوا ؟ فرمایا : دونوں کو قتل کردیا گیا۔ اس نے کہا : میں تیرے ذمہ سے بری ہوں میں کبھی بھی کھجوروں کے باغ کو پانی نہیں دوں گا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ لاحق کر دو ۔ حضرت ثابت نے اسے قتل کرنے سے انکار کردیا تو اسے کسی اور نے قتل کردیا۔ ابن باطا کا حضرت ثابت پر جو احسان تھا وہ یہ کہ یوم بعاث کو ان کو قیدی بنالیا گیا ابن باطا نے ان کی پیشانی کے بال کاٹے اور انہیں آزاد کردیا۔ مسئلہ نمبر 0 ا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو قریظہ کے مال تقسیم کیے۔ آپ نے شاہسوار کو تین حصے اور پیدل کو ایک حصہ عطا فرمایا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : شاہسوار کے لیے دو اور پیدل کے لیے ایک حصہ۔ اس دن مسلمانوں کے تینتیس گھوڑے تھے۔ ان کے قیدیوں میں سے رسول اللہ ﷺ کے حصہ میں ریحانہ بنت عمرو بن جنافہ جو بنی عمرو بن قریظہ میں تھی آئی۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہی رہی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ وہ مال غنیمت تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے شاہسوار اور پیدل کے درمیان تقسیم کیا۔ یہ وہ پہلی غنیمت تھی جس میں خمس معین کیا۔ جب کہ یہ بحث پہلے گزرچکی ہے کہ پہلی غنیمت حضرت عبداللہ بن جحش کے لشکر سے حاصل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ابو عمرنے کہا : اس میں تطبیق کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آیت واعلموا انما غنمتم من شی فان للہ خمسہ ولرسول ( الانفال : 41) آیت کے نازل ہونے کے بعد بنو قریظہ کی پہلی غنیمت تھی جس میں خمس جاری ہوا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن جحش نے پہلے اپنی مہم میں حاصل ہونے والے مال سے خمس عطا کیا تھا۔ پھر قرآن کا حکم اس طرح نازل ہوا جس طرح انہوں نے کیا۔ یہ چیز ان کے فضائل سے تعلق رکھتی ہے۔ قریظہ کی فتح 5 ھ کے ذی قعدہ کے آخر اور ذی الحجہ کے آغاز میں ہوئی تھی۔ جب بنی قریظہ کا معاملہ مکمل ہوا تو فاضل، صالح حضرت سعد بن معاذ کی دعا قبول ہوئی ان کا زخم کھل گیا۔ ان کی رگ خون بہانے لگی۔ ان کا خون جاری ہوگیا اور وہ وصال کر گئے۔ یہی وہ ہستی ہیں جن کے بارے میں حدیث آئی ہے۔ اھتزلموتہ عرش الرحمن (1) یعنی عرش کے مکین یعنی فرشتے ان کی روح کی آنے کی وجہ سے خوش ہوگئے اور ان کی وجہ سے جھومنے لگے۔ ابن قسم نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے مجھے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا : حضرت سعد بن معاذ کے وصال پر ستر ہزار ایسے فرشتے نازل ہوئے جو اس سے قبل نازل نہیں ہوئے تھے (2) ۔ امام مالک نے کہا : غزوئہ خندق کے موقع پر چار یا پانچ مسلمان شہید ہوئے۔ میں کہتا ہوں : غزوئہ خندق کے موقع پر چھ مسلمان شہید ہوئے جن کا ذکر سیرت نگاروں نے کیا ہے۔ حضرت سعد بن معاذ، ابو عمرو جو بنو عبد الاشہل میں سے تھے، حضرت انس بن اوس بن عتیک، عبداللہ بن سہل یہ دونوں بنی عبد الاشہل میں سے تھے حضرت طفیل بن نعمان، حضرت ثعلبہ بن غنمہ دونوں بنی سلمہ سے تعلق رکھتے تھے حضرت کعب بن زید جو بنی دینار بن نجار سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک اجنبی تیر وہاں آپ کو لگا اور آپ کو قتل کردیا۔ ؓ کفار میں سے تین آدمی قتل ہوئے : منبہ بن عثمان بن عبید بن سباق بن عبدالدار۔ اسے ایک تیر لگا جس وجہ سے وہ مکہ مکرمہ میں مرگیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ عثمان بن امیہ بن منبہ بن عبید بن ساق تھا۔ نوفل بن عبد اللہ بن مغیرہ مخزومی۔ یہ خندق میں داخل ہوا اور اس میں پھنس گیا اور قتل ہوگیا۔ مسلمان اس کے جسم پر غالب آگئے۔ زہری نے روایت کی ہے کہ مشرکین نے اس کی لاش حاصل کرنے کے لیے دس ہزار درہم دیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہمیں اس کی لاش اور اس کی قیمت سے کوئی غرض نہیں “ (3) ۔ اور انہیں لاش لے جانے کی اجازت دے دی۔ عمرو بن عبدود جسے دعوت مبارزت کے بعد حضرت علی شیر خدا ؓ نے قتل کیا۔ یہ بحث پہلے گزرچکی ہے۔ غزوئہ قریظہ کے موقع پر مسلمانوں میں سے حضرت خلاد بن سوید بن ثعلبہ بن عمرو جو بنو حارث بن خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان پر بنو قریظہ کی ایک عورت نے چکی پھینکی دی تھی اور آپ کو قتل کردیا تھا۔ محاصرہ کے موقع پر حضرت ابو منان بن محصن بن حران اسدی، اخو عکاشہ بن محصن۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بنو قریظہ کے قبرستان میں دفن کیا جس میں مسلمان اپنی میتیں دفن کرتے ہیں جو وہاں آج رہتے ہیں۔ ان دو افراد کے علاوہ کوئی شہید نہ ہوا۔ غزوئہ خندق کے بعد قریش نے کفار نے مومنوں پر حملہ نہ کیا۔ دارمی ابو محمد نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ یزید بن ہارون، ابن ابی ذہب سے وہ مقبری سے وہ عبد الرحمن بن ابی اسید خدری سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ غزوئہ خندق کے موقع پر ہمارا محاصرہ کیا گیا یہاں تک کہ رات کا لمبا حصہ گزر گیا یہاں تک کہ ہماری کفایت کی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : آیت وکفی اللہ الموء منین القتال وکان اللہ قویا عزیزا ( الاحزاب) نبی کریم ﷺ نے حضرت بلال کو حکم دیا انہوں نے اقامت کہی تو حضور ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو اس کو اچھی طرح پڑھایا جس طرح وقت میں نماز پڑھایا کرتے تھے۔ پھر حضور ﷺ نے حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی تو حضور ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی پھر حضور ﷺ نے حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی اقامت کہی تو آپ ﷺ نے مغرب کی نماز پڑ ھائی پھر حضور ﷺ نے حکم دیا تو حضرت بلال نے عشاء کی اقامت کہی تو آپ نے نماز پڑھائی (1) ۔ یہ طریقہ اس سے قبل کا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی آیت فان خفتم فرجالا اور کبانا ( البقرہ : 239) امام نسائی نے بھی اسے نقل کیا ہے یہ مسئلہ سورة طہ میں گزرچکا ہے۔ ہم نے اس غزوہ کے دس مسائل میں بہت سے احکام ان لوگوں کے لیے ذکر کردیئے ہیں جو ان میں غورو فکر کریں۔ پھر ہم آیات کے ابتدائی حصہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ انیس آیات ہیں ان چیزوں کو ضمن میں لیے ہوئے ہیں جن کو ہم نے ذکر کیا ہے۔ آیت اذجاء تکم جنود جنود سے مراد احزاب ہیں۔ آیت فارسلنا علیہم ریحا مجاہد نے کہا : ریحا سے مراد صبا ہے۔ غزوئہ خندق کے موقع پر لشکروں پر ہوا بھیجی گئی یہاں تک کہ اس نے ان کی ہانڈیوں کو الٹ دیا اور ان کے خیموں کو اکھیڑ دیا۔ کہا : جنود سے مراد فرشتے ہیں۔ انہوں نے اس روز جنگ نہیں کی تھی (2) ۔ عکرمہ نے کہا : جنوب (ہوا) نے شمال (ہوا) سے احزاب والی رات کو کہا : نبی کریم ﷺ کی مدد کے لیے چل۔ شمال نے کہا : محوۃ (ہوا کا نام) رات کو نہیں چلتی۔ جو ہوا ان پر بھیجی گئی وہ صباتھی (3) ۔ حضرت سعد بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” صبا سے میری مدد کی گئی اور دبور (ہوا) سے قوم عاد کو ہلاک کیا گیا “ (4) ۔ یہ ہوا نبی کریم ﷺ کے لیے معجزہ ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اور مسلمان احزاب کے بالکل قریب تھے۔ مسلمان اور احزاب کے درمیان صرف خندق تھی۔ مسلمان اس سے محفوظ تھے اور مشرکوں پر جو کچھ گزر رہی تھی اس کی انہیں کچھ خبر نہ تھی۔ آیت وجنودالم تروھا اسے یا کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی مشرکوں نے انہیں نہیں دیکھا۔ مفسرین نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان پر فرشتے بھیجے۔ انہوں نے ان کی میخیں اکھیڑ دیں، خیموں کی رسیاں کاٹ دیں، آگ کو بجھادیا، ہانڈیوں کو الٹ دیا، گھوڑے ادھر ادھر گھومنے لگے، یہاں تک کہ ہر خیمہ کا سردار کہتا : اے بنو فلاں ! میری طرف آئو، جب ہو جمع ہوتے تو ہو کہتا : النجاء النجاء بچائو بچائو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب کو بھیج دیا (5) ۔ آیت وکان اللہ بما تعملون بصیرا اسے یا کے ساتھ یعلمون پڑھا گیا ہے، یہ غائب کا صیغہ ہے یہ ابو عمرو کی قراءت ہے باقی نے تاء کے ساتھ پڑھا ہے یعنی جس نے خندق کو کھودا اور دشمنوں سے بچائو کیا۔
Top