بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Faatir : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ؕ یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاطِرِ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین جَاعِلِ : بنانے والا الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے رُسُلًا : پیغامبر اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ : پروں والے مَّثْنٰى : دو دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ ۭ : اور چار چار يَزِيْدُ : زیادہ کردیتا ہے فِي الْخَلْقِ : پیدائش میں مَا يَشَآءُ ۭ : جو وہ چاہے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا ہے
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار ہے) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (اور) فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں وہ (اپنی) مخلوقات میں جو چاہتا ہے بڑھاتا ہے بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
آیت : الحمد للہ فاطر السموت والا رض، فاطر میں تین و جوہ ہیں : (1) (تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 461) جر یہ صفت ہونے کی بناء پر ہے (2) رفع یہ مبدا مضمر ہونے کی بناء پر ہے۔ (3) نصب مدح کی بنا پر ہے۔ سیبویہ نے یہ حکایت بیان کی ہے الحمد للہ اھل الحمد مثلہ اس طرح جاعل الملائکتہ میں تین اعراب ہو سکتے ہیں۔ فاطر سے مراد خالق ہے۔ سورة یوسف اور دوسری سورتوں میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ فطر سے مراد کسی شئے سے کسی چیز کو پھاڑنا۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : فطرتہ فانقطر میں نے اسے پھاڑا تو وہ پھٹ گیا۔ اسی سے یہ جملہ بولا جاتا ہے : فطر ناب البعیر اونٹ کی دارھ ظاہر ہوئی۔ بعیر فاطر جس اونٹ کی داڑھ ظاہر ہوچکی ہو۔ تفطر الشی شئے پھٹ گئی۔ سیف فطار ایسی تلوار جس میں دندانے پڑھ چکے ہو۔ عشرہ نے کہا : و سیفی کا لعقیقتہ فھو کئعی سلاحی لا افل ولا فطارا میری تلوار شعاع کی طرح ہے وہ میرا بستہ ہے میرا اسلحہ نہ کند ہوا اور نہی اس میں دندانے پڑے۔ فطر کا معنی ابتدا کرنا اور ایجاد کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : میں یہ نہیں جانتا تھا کہ آیت : فاطر السموت ولارض کا معنی کیا ہے (1) یہاں تک کہ میرے پاس دو بدو آئے جو ایک کنویں کے بارے میں جھگڑ رہے تھے ان میں سے ایک نے کہا : انا فطرتھا میں نے اسے شروع کیا تھا۔ فطر سے مراد انگشت شہادت اور انگوٹھے سے اونٹنی کو دو ہنا ہے۔ آسمانوں اور زمین کے ذکر سے مراد تمام عالم ہے۔ اس استدلال کے ساتھ اس امر پر متنبہ کیا کہ جو ابتدا پر قادر ہے وہ دو بارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔ آیت : جاعل الملئکتہ اسم فاعل میں تنوین جائز نہیں کیونکہ یہ ماضی کے معنی میں ہے۔ رسلا یہ مفعول ثانی ہے۔ یہ قول بھی کیا جاتا ہے کہ فعل مضمر کی بناء پر منصوب ہے، کیونکہ اسم فاعل کا صیغہ جب ماضی کے معنی میں ہو تو وہ کسی چیز میں عمل نہیں کرتا۔ اس کے عمل کی صورت یہ ہوگی کہ یہ مستقبل کا معنی دے اور اس سے تنوین تخفیف کے طور پر حذف ہو۔ ضحاک نے اسے آیت : الحمد اللہ فاطر السموت ولارض فعل ماضی کا صیغہ پڑھا ہے۔ آیت : جاعل الملئکتہ رسلا یہاں رسل سے مراد حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ، حضرت میکائیل، حضرت اسرا فیل اور ملک الموت ہیں۔ حضرت حسن بصری (رح) نے جاعل الملئکتہ رفع کے ساتھ قراءت کی ہے۔ خلید بن فشیط نے جعل الملا ئکتہ قراءت کی ہے، یہ سب ظاہر ہے۔ آیت : اولی اجنحۃ یہ صفت ہے۔ یعنی پروں والے۔ آیت : مثنی ٰ و ثلث ربع یعنی دو دو، تین تین اور چار چار۔ قتادہ نے کہا : ان میں سے بعض کے دو پر ہیں، بعض کے تین پر ہیں اور بعض کے چار ہیں، ان کے ساتھ وہ آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہیں اور زمین سے آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ایک وقت میں اتنی مسافت ہوتی ہے۔ یعنی انہیں قاصد بنایا۔ یحیی ٰبن سلام نے کہا : انبیاء کی جانب۔ سدی نے کہا : بندوں کی جانب رحمت اور انرقام کے ساتھ۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل امین کو دیکھا جب کہ آپ کے چھے سو پر تھے (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، معنی قو لہ تعالی، ولقد راہ آخری، جلد 1، صفحہ 98) ۔ زہری سے مروی ہے کہ جبریل امین نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : اے محمد ﷺ کاش آپ حضرت اسرافیل کو دیکھتے ان کے بارہ ہزار پر ہیں ان میں سے ایک پر مشرق میں اور ایک پر مغرب میں ہے۔ عرش ان کے کندھے پر ہے بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اتنا کمزور ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ وصع کی طرح ہوجاتا ہے، وصع ایک چھو ٹی چڑیا ہے یہاں تک کہ تیرے رب کے عرش کو اس کی عظمت کے سوا کوئی چیز اٹھائے ہوئے نہیں ہوتی۔ اولو، زو کی اسم جمع ہے۔ جس طرح ھولاء ذا کی اسم جمع ہے۔ اسم معرب میں ان دونوں کی مثل مخاض اور خلفہ ہے۔ مثنی، ثلاث اور رباء میں گفتگو سورة النساء میں گزر چکی ہے۔ یہ غیر منصرف ہیں۔ آیت : یذید فی الخلق ما یشاء اکثر مفسرین کا قول ہے : ملائکہ کی تحقیق میں اضافہ فرماتا ہے : مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے کہا : اس سے مراد فرشتوں کے پروں میں جتنا چاہتا ہے اضافہ فرماتا ہے (2) (تفسیر الحسن البصری، جلد 4، صفحہ 331) ۔ زہری اور ابن جریج نے کہا : حسن صورت میں اضافہ فرماتا ہے۔ کتاب کے مقد مہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ ہثیم فارسی نے کہا : میں نے خواب میں نبی کریم دیکھا حضور نے ارشاد فرمایا : ﷺ تو ہثیم ہے جو آواز کے ساتھ قرآن کو خوبصورت انداز میں پڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر دے قتادہ نے کہا : آیت : یذید فی الخلق ما یشاء سے مراد وہ آنکھوں میں ملاحت، ناک میں حسن اور منہ میں مٹھاس کا اضافہ کرتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اچھا خط۔ مہاجر کلا عی نے کہا : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اچھا خط کلام کی وضاحت میں اضافہ کرتا ہے (3) (تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 462 ) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد خوبصورت چہرہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس آیت کی تفسیر میں ایک روایت ہے : خوبصورت چہرہ، اچھی آواز اور اچھے بال یہ قشیری نے ذکر کیا ہے۔ نقاش نے کہا : اس سے مراد گھنگھر یا لے بال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد عقل اور تمیز ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد علوم اور ضائع ہیں۔ آیت : ان اللہ علی کل شیء قدیر اللہ تعالیٰ کمی اور بیشی پر قادر ہے۔ زمحشری نے کہا : آیت مطلق ہے جو ہر زیادتی کو شامل ہے وہ قدو قامت کی طوالت، صورت میں اعتدال، اعضاء میں کمال، پکڑ میں قوت ہو، عقل میں پختگی ہو، رائے میں استحکام ہو، دل میں جرائت ہو، نفس میں سخاوت ہو، زبان میں روانی ہو، گفتگو میں مہارت ہو اور سر انجام دینے میں نرمی اور بہترین اسلوب ہو اور اس کے علاوہ صورتیں ہو سکتی ہیں وصف جن کا احاطہ نہیں کرسکتا (1) (تفسیر الکشاف، جلد 3، صفحہ 596) ۔
Top