Al-Qurtubi - Faatir : 41
اِنَّ اللّٰهَ یُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا١ۚ۬ وَ لَئِنْ زَالَتَاۤ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُمْسِكُ : تھام رکھا ہے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین اَنْ : کہ تَزُوْلَا ڬ : ٹل جائیں وہ وَلَئِنْ : اور اگر وہ زَالَتَآ : ٹل جائیں اِنْ : نہ اَمْسَكَهُمَا : تھامے گا انہیں مِنْ اَحَدٍ : کوئی بھی مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۭ : اس کے بعد اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے حَلِيْمًا : حلم والا غَفُوْرًا : بخشنے والا
خدا ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ ٹل نہ جائیں اگر وہ ٹل جائیں تو خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں جو ان کو تھام سکے بیشک وہ بردبار (اور) بخشنے والا ہے
(آیت): ان اللہ یمسک السموت و لا رض ان تزولا جب اس امر کو واضح کیا کہ ان کے معبود آسمانوں اور زمین کی کسی چیز کا پیدا کرنے پر قادر نہیں تو اس امر کو بیان کیا کہ ان کا خالق اور ان کو انکی جگہ روکنے والا اللہ تعالیٰ ہے کوئی حادث چیز پیدا نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ ہی اسے پیدا فرماتا ہے اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی مگر اس کی بقاء کے ساتھ باقی رہتی ہے۔ ان محل نصب میں ہے اور اس معنی میں ہے کر اھت ان تزولا یا لئلا تزولا یا اس معنی پر محمول ہوگا کیونکہ معنی ہے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو سرکنے سے روکتا ہے۔ اس کی تعبیر کی بناء پر اضمار کی کوئی ضرورت نہیں ؛ یہ زجاج کا قول ہے۔ (آیت): و لئن زالتا ان امنکھما من احد من بعدہ فراء نے کہا : یعنی اگر دونوں اپنی جگہ سے زائل ہوجائیں تو کوئی انہیں روکنے والا نہیں (1) ( زاد المسیر، جز 6، صفحہ 269 ) ۔ ان، ما کے معنی میں ہے۔ فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مثل ہے ـ: آیت : و لئن ارسلنا ریحا فراوہ مصفرا لظلوا من بعدہ یکفرون (الروم) ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد قیامت کے روز دونوں کا اپنی جگہ سے زائل ہوجا نا ہے۔ ابراہیم سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا ایک شاگرد کعب الاحبار سے کیا سیکھا ؟ اس نے عرض کی : میں نے کعب کو کہتے ہوئے سنا : آسمان قطب پر گھوم رہا ہے جس طرح چکی کا قطب ہوتا ہے جو اس ستون میں ہے جو ایک فرشتے کے کندھے پر ہے۔ (2) ( تفسیر طبری، جز 22، صفحہ 170) ۔ حضرت عبد اللہ نے اسے فرمایا : میں پسند کرتا ہوں کہ تو اپنی سواری اور اس کے کجاوے کو الٹادے کعب نے جھوٹ بولا اس نے اپنی یہودیت کو ترک نہیں کیا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : آیت : ان اللہ یمسک السموت و لا رض ان تذولا آسمان نہیں گھو متے اگر گھومتے ہوتے تو اپنی جگہ سے زائل ہوجاتے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس کی مثل مروی ہے آپ نے شام سے آنے والے ایک آدمی سے فرمایا : تو وہاں کس سے ملا ؟ اس نے عرض کی : کعب سے۔ پو چھا : تو نے اسے کیا کہتے ہوئے سنا ؟ اس نے عرض کی : میں نے کعب کو کہتے ہوئے سنا : آسمان فرشتے کے کندھے پر ہیں۔ فرمایا کعب نے جھوٹ بولا ہے۔ کیا اس نے ابھی تک یہو دیت کو ترک نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا ہے : آیت : ان اللہ یمسک السموت و لا رض ان تذولا آسمان سات ہیں اور زمینیں سات ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ ان دونوں کا ذکر فرماتا ہے تو ان کو دو چیزوں کی حیثیت سے ذکر فرما تا ہے تو پس ضمیر ان دو نوں کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے : آیت : ان السموت و الا رض کا نتا رتقا ففتقنھما (الانبیاء : 30) پھر آیت کو اس ارشاد پر ختم کیا : آیت : انہ کان حلیما غفورا کیونکہ وہ معنی جسے بعض اہل تاویل نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان کو اس سے روکتا ہے کہ وہ کافروں کے کفر اور ان کے قول کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے کی وجہ سے زائل ہی نہ ہوجائیں۔ کلبی نے کہا : جب یہودیوں نے کہا : حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ نصاری نے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں تو قریب تھا کہ آسمان اور زمین اپنی جگہ سے ہل جائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں روک لیا (3) (زاد المسیر، جز 6، صفحہ 269 ) ، اور اس بارے میں اس آیت کو نازل فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے : آیت : لقد جئتم شیاء ادا (آیت) تکادالسموت یتفطرن منہ (المریم )
Top