Al-Qurtubi - Yaseen : 13
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (قصہ) اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ : بستی والے اِذْ : جب جَآءَهَا : ان کے پاس آئے الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور ان سے گاؤں والوں کا قصہ بیان کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے
خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ ﷺ اپنی قوم کے سامنے اصحب قریہ کا واقعہ بیان کریں (1) ۔ ماوردی نے بیان کیا ہے کہ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس بستی سے مراونطاکیہ ہے یہ اہل انطبیس کی طرف منسوب ہے یہ اس آدمی کا نام ہے جس نے اس کے بارے میں ایک لفظ یہ بی ہے ان تاکیہ یعنی طاء کی جگہ تاء وہاں ایک بادشاہ تھا جسے انطیخس بن انطنیحس کہا جاتا ہے ‘ وہ بتوں کی پوجا کیا کرتا تھا ‘ مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ ابو جعفر نے اسے کعب اور وہب سے نقل کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف تین رسولوں کو بھیجا وہ حضرت صادق ‘ حضرت مصدوق اور حضرت شمعون تھے شمعون ہی تیسرا تھا ‘ یہ طبری کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : وہ حضرت شمعون اور حضرت یوحنا تھے۔ نقاشی نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت شمعون اور حضرت یحییٰ تھے دونوں نے حضرت صادق اور مصدوق کا ذکر نہیں کیا۔ یہ بھی جائز ہے۔ کہ مثلا اور اصحاب قریہ ‘ اضرب کے دونوں مفعول ہوں یا اصحاب قریہ ‘ مثلا سے بدل ہو تقدیر کلام یوں ہوگی اضرب لھم مثلاً اصحٰب القریۃ مضاف کو حذف کردیا گیا۔ نبی کریم ﷺ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ ﷺ ان مشرکین کو اس عذاب سے ڈرائیں کہ ان مشرکوں پر وہ عذاب نازل ہو سکتا ہے جو اس بستی کے کفار پر نازل ہوا تھا جن کی طرف تین رسول بھیجے گئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : رسل من اللہ ‘ مبتدا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان تین افراد کو انطاکیہ کی طرف بھیجا تھا تاکہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں اللہ نے ان کے بھیجنے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حکم سے انہیں بھیجا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا تو لوگوں نے انہیں جھٹلایا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لوگوں نے دونوں کو مارا اور دونوں کو قیدی بنا لیا تو ہم تیسرے کے ساتھ انہیں قوت بخشی اور تیسرے کے ساتھ رسالت کو پختہ کیا۔ ابوبکر نے عاصم سے یہ قرأت نقل کی ہے فززنا بثالث جب کہ باقی قراء نے اسے مشدد پڑھا ہے۔ جوہری نے کہا : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تشدید اور تخفیف دونوں کے ساتھ ہے قوت بخشی اور مضبوط کیا اس حساب سے دونوں قرائتیں ایک معنی میں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا : تخفیف کی صورت میں یہ غلبنا اور قھرنا کے معنی میں ہے اس معنی میں و عزنی فی الخطاب۔ ) ص ( تشدید قوینا اور کثرنا کے معنی میں ہے۔ ابوعمرو بن علاء نے متلمس کے لئے شعر پڑھا : اجدا ازا رحلت تعزز لحمھا و اذا تشد بنسعھا لا تببس قصہ میں ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان لوگوں کی طرف دو قاصد بھیجے وہ ایک بوڑھے کو ملے جو اپنی بھیڑ بکریاں چرا رہا تھا وہ صبیب نجار صاحب یس تھا دونوں نے اسے اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دی دونوں نے کہا : ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے بھیجے گئے ہیں ہم تجھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف عبادت کی طرف دعوت دیتے ہیں اس نے دونوں سے معجزہ طلب کیا دونوں نے کہا : ہم مریض کو شفا دیتے ہیں۔ اس حبیب نجار کا ایک بیٹا مجنون تھا ‘ ایک قول یہ کیا گیا ہے وہ بستر پر مریض پڑا تھا دونوں نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ اللہ کے حکم سے صحیح وسالم اٹھ کھڑا ہو وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آیا۔ ایک قول یہ کیا گیا کہ یہی وہ آدی تھا جو شہر کے دور دراز علاقہ سے دوڑتا ہوا آیا تھا اس نے دونوں کے امر کو ظاہر کردیا دونوں نے بہت سے لوگوں کو شفا عطا فرمائی۔ بادشاہ نے دونوں کو بلا بھیجا جب کہ وہ بتوں کی عبادت کیا کرتا تھا تاکہ دونوں کے احوال کو سمجھے دونوں نے کہا : ہم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے ہیں۔ اس نے ان سے پوچھا : تمہاری نشانی کیا ہے ؟ دونوں نے کہا : ہم مادرز اداندھوں ‘ کوڑھ کے مریض کو اور دوسرے مریضوں کو اللہ کے حکم سے درست کرتے ہیں اور ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہیں بادشاہ نے ان کو مارنے کا ارادہ کیا۔ وہب نے کہا : بادشاہ نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور دونوں کو سوکوڑے مارے یہ خبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچی تو آپ نے تیسرے قاصد کو بھیجا۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ شمعون صفا تھا جو حواریوں کا سردار تھا دونوں کی مدد کے لئے اسے بھیجا اس نے بادشاہ کے ہم نشین کے ساتھ راہ ہم پیدا کیے یہاں تک وہ ان کے ہاں ذیشان ہوگیا اور وہ لوگ اس سے مانوس ہوگئے انہوں نے اس کی بات بادشاہ تک پہنچائی وہ بھی اس سے مانوس ہوگیا پھر ایک دن اس نے بادشاہ سے پوچھتا اس کا پس منظر کیا ہے ؟ بادشاہ نے کہا : غصہ میرے اور ان کے سوال کے درمیان غالب آگیا تھا اس آدمی نے کہا : کاش ! تو انہیں حاضر ہونے کا حکم دیتا ؟ اس نے ایسا ہی کیا شمعون نے دونوں سے کہا : تم جو دعویٰ کرتے ہو اس پر دلیل کیا ہے ؟ دونوں نے کہا : ہم مادرز اداندھوں کو اور برص کے مریضوں کو شفایاب کرتے ہیں۔ ایک ایسا لڑکا لایا گیا جس کی آنکھوں کے نشان ہی نہ تھے اس کی آنکھوں کی جگہ ایسی تھی جس طرح پیشانی ہوتی ہے دونوں نے اپنے رب کے حضور دعا کی تو آنکھ کی جگہ پھٹ گئی دونوں نے مٹی کے ڈھیلے لئے اور اس کے رخسار پر رکھ دیئے تو دونوں اس کی آنکھیں بن گئیں جن کے ساتھ وہ دیکھنے گا۔ بادشاہ متعجب ہوا اس نے کہا : یہاں ایک لڑکا ہے جو سات دن پہلے فوت ہوگیا ہے میں نے اس دفن کیا یہاں تک کہ اس کا باپ آئے کہا : کہا تمہارا رب اسے زندہ کرسکتا ہے ؟ دونوں نے اعلانیہ دعا کی اور شمعون نے آہستہ دعا کی وہ مردہ زندہ ہو کر بیٹھ گیا۔ اس نے کہا : میں سات دن پہلے مرگیا تھا مجھے مشرک کی حثیت سے پایا گیا مجھے آگ کی سات وادیوں میں داخل کیا گیا جس حالت پر ہوں اس سے میں تمہیں خبردار کرتا ہوں پھر آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے تو میں ایک خوبصورت چہرے والے جوان کو دیکھا جو ان تین افراد کے حق میں سفارش کر رہا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی روح اور کلمہ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ لوگوں نے اس سے پوچھا : یہ شمعون بھی انہیں کا ساتھی ہے ؟ اس نے کہا : یہاں یہ ان سے افضل ہے شمعون نے لوگوں کو بتایا کہ اسے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان لوگوں کی طرف بھیجا تھا اس کی گفتگو بادشاہ پر اثر انداز ہوئی اس نے بادشاہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی بادشاہ بیشمار لوگوں کے ساتھ مومن ہوگیا اور دوسرے بیشمار لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ قشیری نے یہ ذر کیا ہے کہ بادشاہ تو ایمان لے آیا تھا لیکن اس کی قوم مومن نہ ہوئی تھی ‘ حضرت جبریل امین نے ایک چیخ ماری تو باقی ماندہ سب کافر مر گئے۔ یہ روایت کی گئی ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس بستی کی طرف جائیں تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے نبی ہم ان لوگوں کی زبان میں گفتگو نہیں کرسکتے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے حق میں عا کی تو اسی جگہ پر سو گئے وہ نیند سے اٹھے تو فرشتوں نے انہیں اٹھایا اور انطاکیہ میں جا پہنچا یا تو ان میں سے ہر ایک ان کی زبان میں بات کر رہا تھا اللہ تعالیٰ کا فرمان : و ایدنہ بروح القدوس) البقرہ (87: کا یہی مفہوم ہے سب نے کہا : ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا : تم تو محض ہماری طرح انسان ہو تم کھانا کھاتے ہو اور بازاروں میں چلتے ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے تو کوئی چیز نازل نہیں کی جس کے ساتھ وہ حکم دے یا منع کرے تم تو اپنی رسالت کے دعویٰ میں جھوٹ بولتے ہو ‘ رسولوں نے کہا : ہمارا رب خوب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں اگرچہ تم ہمیں جھٹلائو ہمارے ذمے تو یہ پیغام پہنچانا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے۔ لوگوں نے ان سے کہا : ہم نے تم سے فال بدلیا۔ مقاتل نے کہا : تین سال تک ان سے بارش روک لی گئی۔ لوگوں نے کہا : یہ تمہاری نحوست ہے۔ یہ بھی قول کیا جاتا ہے : دس سال تک انہیں ڈراتے رہے لوگوں نے کہا : اگر تم ہمیں ڈرانے سے نہ رکے تو ہم تمہیں رحم کردیں گے۔ فراء نے کہا : ہم تمہیں قتل کردیں گے (1) ۔ کہا : قرآن حکیم میں جم سے مراد قتل کرنا ہے۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد پتھر مار مار کر مار ڈالنا ہے۔ ایک قول یہ ہے : ایک قول یہ ہے : کہا گیا ہے اس کا معنی ہے ہم تمہیں گالیاں دیں گے۔ سب بحث پہلے گزر چکی ہے۔ عذاب الیم۔ سے مراد قتل ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد تکلیف وہ عذاب ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس سے مراد قتل سے قبل تکلیف وہ عذاب ہے جیسے کھال اتارنا ‘ ہاتھ پائوں کاٹنا اور سولی پر لٹکانا۔ رسولوں نے کہا : خیر اور شر میں سے حصہ تمہارا ہے اور تمہاری گردنوں میں لٹکا ہوا ہے وہ سب کچھ ہماری نحوست کی وجہ سے نہیں ‘ یہ معنی ضحاک نے بیان کیا ہے۔ قتادہ نے کہا : تمہارے اعمال تمہارے ساتھ ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تمہارا رزق اور تمہارا عمل ہے ‘ معنی ایک ہی ہے۔ حضرت حسن بصری نے اسے اطیرکم پڑھا ہے جو تطیرکم کے معنی میں ہے ائن ذکرتم قتادہ نے کہا : تقدیر کلام یہ ہوگی ان ذکرتم تطیرتم اس میں نو قرائتیں ہیں۔ اہل مدینہ نے اسے این ذکر تم یعنی دوسرے ہمزہ میں تخفیف ہے اہل کوفہ نے أان دونوں ہمزوں کو ثابت رکھے ہوئے پڑھا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں ہمزوں کے درمیان الف فاصل ہے کیونکہ دونوں ہمزوں کو ثابت رکھتے ہوئے پڑھا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دونوں ہمزوں کے درمیان الف فاصل ہے کیونکہ دو ہمزوں کا اجتماع ناپسندیدہ ہے۔ چوتھی صورت یہ ہے ہمزہ کے بعد الف ہے الف کے بعد ہمزہ مخففہ ہے۔ پانچویں صورت دو مفتوح ہمزوں کے درمیان الف ہے۔ چھٹی صورت یہ ہے دونوں مفتوح ہمزوں کو ثابت رکھا گیا ہے۔ فراء نے کہا : یہ قرأت ابور زین کی قرأت ہے۔ میں کہتا ہوں : ثعلبی نے اسے زربن حبیش اور ابن سمیقع سے نقل کیا ہے۔ عیسیٰ بن عمر اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یوں اس کی قرأت کی قالو اطائرکم معکم این ذکرتم ‘ این جو حیث کے معنی میں ہے۔ یزید بن قعقاع ‘ حسن بصری اور طلحہ نے کہا : ذکر تم تخفیف کے ساتھ ہے۔ نحاس نے یہ سب اقوال ذکر کیے ہیں۔ مہدوی نے طلحہ بن مصرف اور عیسیٰ ہمدانی سے نقل کیا ہے آن ذکرتم یعنی مد کے ساتھ اسے پڑھا ہے ہمزہ استفہام ‘ ہمزہ مفتوحہ پر داخل ہوا ہے ماحبشون نے کہا : ان ذکرتم ایک ہمزہ مفتوح کے ساتھ ہے ‘ یہ نو قرائتیں ہیں۔ ابن ہر مز نے اسے طیرکم معکم ‘ ائن ذکرتم پڑا ہے کیونکہ انہیں نصیحت کی گئی ‘ یہ نیا کلام ہے یعنی اگر تمہیں نصیحت کی جائے تم فال پکڑنے لگتے ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہوں نے اس وقت فال بد لیا جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو دعوت دی تو انہوں نے وہ دعوت قبول نہ کر ان کا انجام ہلاکت ہے قتادہ نے کہا : تم فال پکڑنے میں اسراف سے کام لینے والے ہو یحییٰ بن سلام نے کہا : تم اپنے کفر میں اسراف کرنے والے ہو۔ ابن بحر نے کہا : سرف سے یہاں مراد فساد ہے اس کا معنی ہے بلکہ تم لوگ فسادی ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے تم مشرک ہو (2) ۔ اسراف کا معنی حد سے تجاوز کرنا ہے مشرک بھی حد سے تجاویز کرتا ہے۔
Top