Al-Qurtubi - Yaseen : 78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
وَضَرَبَ : اور اس نے بیان کی لَنَا : ہمارے لیے مَثَلًا : ایک مثال وَّنَسِيَ : اور بھول گیا خَلْقَهٗ ۭ : اپنی پیدائش قَالَ : کہنے لگا مَنْ يُّحْيِ : کون پیدا کرے گا الْعِظَامَ : ہڈیاں وَهِىَ : اور جبکہ وہ رَمِيْمٌ : گل گئیں
اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہنے لگا کہ (جب) ہڈیا بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا ؟
مسئلہ نمبر -1 وہ بھول گیا کہ ہم نے اسے مردہ نطفہ سے پیدا کیا اور ہم نے اس کی زندگی کو رکھ دیا یعنی اس کی ذات میں ہی جواب موجود ہے اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہاں اللہ تعالیٰ تجھے اٹھائے اور اور تجھے جہم میں داخل کرے گا (1) “ اس میں قیاص کی صحت پر دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منکرین بعث کے خلاف پہلی دفعہ پیدا کرنے سے استدلال کیا ہے۔ رمیم کا معنی بوسیدہ ہے یوں جملہ بولا جاتا ہے : رم العظیم فھو رمیم و رمام۔ رمیم فرمایا رمیمہ نہیں کہا کیونکہ یہ فاعلۃ سے معدول ہے جو کلمہ اپنے وزن سے معدول ہوا سے اعراب سے بھی پھیردیا جاتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وما کا نت امک بغیا۔ ) مریم ( بغیاء کے آخر سے یاء کو گرا دیا کیونکہ اسے باغیۃ سے پھیرا گیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : اس کافر نے نبی کریم ﷺ سے کہا : بتائیے اگر میں اسے پیس دوں اور ہوا میں بکھیر دوں کیا اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ کرے گا (2) تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی فرما دیئجئے : وہ ذات اسے زندہ کرے گی جس نے اسے پہلی بار بغیر مثال کے پیدا کیا تو وہ دوبارہ کسی شے کو پیدا کرنے پر بدرجہ اولی قد رہے (3) وہ شے عجم الذنب ہے اسے پہلی دفعہ پیدا کرنا ہے اور کیسے اسے دوبارہ پیدا کرنا ہے (4) ۔ مسئلہ نمبر 2 : اس آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ ہڈیوں میں زندگی ہے اور اور موت کے ساتھ وہ ناپاک ہوجاتی ہیں ‘ یہ امام ابوحنیفہ اور بعض اصحاب شافعی کا قول ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا : ہڈی میں کوئی زندگی نہیں۔ یہ بحث سورة نحل میں پہلے گذر چکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے : اللہ تعالیٰ نے من یحی العظام سے مراد اصحاب عظام لئے ہیں اور مضاف الیہ کا مضاف کی جگہ واقع ہونا لغت میں بہت زیادہ ہے اور شریعت میں بھی موجود ہے۔ ہم کہتے ہیں : اس وقت ہوتا ہے جب ضرورت ہو جب کہ یہاں کوئی ضرورت نہیں جو اس اضمار کا باعث ہو یہاں تک کہ اس تقدیر کلام کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی ہے اور وہ اس پر قادر ہے حقیقت اس کی گواہی دیتی ہے کیونکہ احساس جو زندگی کی علامت ہے اس میں موجود ہے ‘ ایہ ابن عربی کا قول ہے
Top