بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Az-Zumar : 1
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ
تَنْزِيْلُ : نازل کیا جانا الْكِتٰبِ : یہ کتاب مِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے الْعَزِيْزِ : غالب الْحَكِيْمِ : حکمت والا
اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے
1 ۔ 4:۔ تنزیل کو رفع ‘ مبتدا کی وجہ سے دیا گیا اس کی خبر من اللہ العزیز الحکیم۔ ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ وہ اس حیثیت سے مرفوع ہو ھذا تنزیل یہ فراء نے کہا۔ کسائی اور فراء نے تنزیل منصوب پڑھا ہے کیونکہ یہ مفعول بہ ہے۔ کسائی نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے اتبعو اواقرء واتنزیل الکتاب۔ فراء نے کہا : یہ اغراء کی حیثیت میں منسوب ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : کتب اللہ علیکم) النسائ (24: تقدیر کلام ہے الزموا کتاب اللہ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ اسے یہ نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ مکتوب ہے۔ یہ کتاب کی تنزیل اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے حق سے مراد صدق ہے یعنی یہ باطل اور مذاق نہیں۔ فاعبداللہ مخلصا اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر -1 مخلصا حال ہونے کی حیثیت سے منصوب ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو موحد بنتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو۔ الدین سے مراد اطاعت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد عبادت ہے۔ یہ مفعول بہ ہے۔ الدین الخالص سے مراد ہے جس میں کسی شے کی آمیزش نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں کسی شے کو صدق کرتا ہوں اور میں کوئی عمل کرتا ہوں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور لوگوں کی تعریف کا ارادہ رکھتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : والذین نفس محمد بیدہ لا یقبل اللہ شیا شورک فیہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے ! اللہ تعالیٰ کسی ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا جس میں شراکت کی گئی ہو ‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی الا للہ الدین الخالص یہ وضاحت سورة بقرۃ ‘ سورة النساء اور سورة الکہف میں مفصل گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر -2 ابن عربی نے کہا : یہ آیت اس بارے میں دلیل ہے کہ ہر عمل میں نیت واجب ہے ان اعمال میں سب سے عظیم وضو ہے جو ایمان کی جز ہے (1) جب کہ امام ابوحنیفہ نے اس سے اختلاف کیا ہے اور ولید بن مسلم نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے دونوں کہتے ہیں : وضو نیت کے بغیر بھی کفایت کرجاتا ہے۔ نیت کے بغیر نہ وہ ایمان کی شرط بنتا ہے اور نہہ ہی ناخنوں اور بالوں سے خطائیں نکلتی ہیں۔ والذین اتخذوا من دوہنہ اولیاء اولیاء سے مراد بت ہیں اس کی کبر محذوف ہے وہ قالوا ہے قتادہ نے کہا : جب انہیں جاتا : من ربکم و خالقکم (2) تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا خالق کون ہے ؟ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ آسمان سے کس نے پانی نازل کیا ؟ سب نے کہا : اللہ تعالیٰ نے۔ انہیں کہا جاتا : تمہاری بتوں کی عبادت سے کیا مراد ہے ؟ وہ کہتے ہیں : تاکہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں اور ہمارے حق میں اللہ تعالیٰ کے ہاں شفاعت کریں (3) ۔ کلبی نے کہا : اس کلام کا جواب سورة الاحقاف میں ہے : فلولا نصر ھم الذین اتخذوا من دون اللہ قربانا الھۃ) الاحقاف (28: زلفی سے مراد قربت ہے تاکہ وہ ہمیں اس کے قریب کردیں۔ زلفی مصدر کے حکم میں ہے حضرت ابن مسعود ‘ حضرت ابن عباس اور مجاہد کی قراءت میں والذین اتخذوا من دونہ اولیاء قالو نعبدھم الالیقربونا الی اللہ زلفی۔ حضرت ابی کی قراءت میں و الذین اتخذو من دونہ اولیاء ما نعبدکم الا لتقربونا الی اللہ زلفی ‘ یہ نحاس نے ذکر کیا ہے کہا : اس میں حکایت واضح ہے۔ ان اللہ یحکم بینھم قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اہل ادیان میں فیصلہ فرمائے گا ہر ایک جس کا مستحق ہوگا اسے جزا دے گا۔ ان اللہ لا یہدی من ھو کذب کفار۔ جے کے بارے مين پہلے ہی کفر کا فیصلہ ہوچکا ہے وہ اس دین کی ہدایت نہیں پائے گا ‘ جسپر وہ راضی ہے وہ دین اسلام ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان ہے : و رضیت لکم الاسلام دینا) المائدہ (3: اس آیت میں قدر یہ اور دوسرے مکاتب فکر کا رد ہے جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔ لو اراد اللہ ان یتخذ و لدا لا صطفی مما یخلق ما یشاء اگر اللہ تعالیٰ یہ ارادہ کرتا کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کسی کو یہ نام دیتا تو اللہ تعالیٰ یہ امر ان کے سپرد نہ کرتا سبحنہ ھو اللہ الواحد القھار۔ اولاد سے پاکی بیان کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا۔
Top