Al-Qurtubi - Az-Zumar : 22
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَفَمَنْ : کیا۔ پس ۔ جس شَرَحَ اللّٰهُ : اللہ نے کھول دیا صَدْرَهٗ : اس کا سینہ لِلْاِسْلَامِ : اسلام کے لیے فَهُوَ : تو وہ عَلٰي : پر نُوْرٍ : نور مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اپنے رب کی طرف سے فَوَيْلٌ : سو خرابی لِّلْقٰسِيَةِ : ان کے لیے ۔ سخت قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل مِّنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی یاد اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو (تو کیا وہ سخت دل کافر کی طرح ہوسکتا ہے ؟ ) پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں
شرع کا معنی کھولنا اور وسیع کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس کے سینے کو اسلام کے لئے کھول دیا یہاں تک کہ وہ اس میں ثبت ہوگیا (1) سدی نے کہا : اس کے سینہ کو اسلام کے ساتھ وسیع کردیا کیونکہ اس پر وہ خوش ہو اور اس سے اطمینان ہوا۔ اس تعبیر کی بناء پر یہ جائز ہے کہ یہ شرح اسلام کے بعد ہو پہلی تعبیر کی صورت میں یہ جائز ہے کہ شرع اسلام سے قبل ہو۔ فھو علی نور من ربہ وہ اپنے رب کی جانب سے ہدایت پر ہے جس طرح ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا اس حذف پر اللہ تعالیٰ کا فرمان : فویل للقسیۃ قلبوھم دلالت کرتا ہے۔ مبرد نے کہا : جب دل سخت ہوجائے تو کہا جاتا ہے : قسا القلب اسی طرح عتا اور عسا اس کے قریب قریب ہیں قلب قاس ایسا دل جو سخت ہو جو نرم نہ ہو۔ مفسرین نے کہ ا : افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام سے مراد حضرت علی اور حضرت حمزہ ؓ ہیں۔ نقاش نے یہ بیان کیا کہ اس سے مراد حضرت عمر بن خطاب ہیں۔ مقاتل نے کہا : اس سے مراد حضرت عمار بن یاسر ہں۔ مقاتل اور کلبی سے یہ مروی ہے کہ اس نے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ آیت ان تمام افراد کے لئے عام ہے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان تخلیق فرما کر کھلا کردیا۔ مرہ نے حضرت بن مسعود ؓ سے روایت نقل کی ہے کہا ہم نے عرضی : یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے اس کے سینہ کو کیسے کھول دیا ؟ فرمایا : ” جب نور دل میں داخل ہوتا ہے تو وہ کھل جاتا ہے (2) “ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اس کی نشانی کیا ہے ؟ فرمایا : الا نابۃ الی دار الکلود التجافی عن دارالغرور والا ستعداد للموت قبل نزدلہ جنت کی طرف متوجہ ہونا ‘ دنیا سے پہلے تہی کرنا اور موت کے آنے سے پہلے اس کے لئے تیار کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے تین خصلتوں کا ذکر کیا اس میں کوئی شک نہیں جس میں یہ خصلتیں ہوں تو وہ کامل ایمان والا ہے کیونکہ انابہ سے مراد نیکی کے اعمال ہیں کیونکہ جنت نیک اعمال کی جزا کے طور پر بنائی گئی ہے کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ہکیم میں کئی مواقع پر کیسے اس کا زکر کیا پھر اس کیب عد فرمایا : جزاء بما کانو 1 یعملون۔ ) الواقعہ ( پس جنت اعملا کی جزا ہے جب بندہ نیکی کے کاموں میں منہمک ہوجاتا ہے تو یہی اس کا دار خلود کی طرف لوٹنا ہوتا ہے جب دنیا سے اس کی حرص ٹھنڈی پڑجاتی ہے اور اس کی طلب سے غافل ہوجاتا ہے اور ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اسے دنیا سے بےنیاز کردیتی ہیں تو وہ اسی پر اکتفا کر لتای ہے اور قانعع ہوجاتا ہے پس وہ دنیا سے پہلو تہی کرلیتا ہے جب وہ اپنے امور کو تقوی کے ساتھ پختہ کرلیتا ہے تو وہ ہر امر میں غور و فکر کرنے والا ہوتا ہے وہ ادب کو کلام میں لاتا ہے پختگی سے کام کرتا ہے ‘ احتیاط سے کام لیتا ہے ‘ اس چیز سے بچتا ہے جو اسے شک میں ڈالے اور ان چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اسے شک میں نہ ڈالیں ‘ تو تحقیق اس نے موت کے لئے تیاری کرلی یہ ظاہر میں اس کی علامات ہیں کیونکہ وہ موت کو دیکھتا ہے اور دنیا سے آخر کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دنیا کی دار غرور دیکھتا ہے یہ روایت اس لئے حاصل ہوتی ہے کیونکہ نور اس کے دل میں داخل ہوچکا ہوتا ہے۔ فویل للقیۃ قلوبھم من ذکر اللہ ایک قول یہ کیا گیا : اس سے مراد ابو لہب اور اس کی اولاد ہے من ذکر اللہ سے مراد ہے کہ ان کے دلوں کی سختی قرآن سسنے سے بڑھ جاتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا کہ من ‘ عن کے معنی میں ہے معنی ہوگا اللہ کا ذکر قبول کرنے سے ان کے دل سخت ہوگئے ہیں ‘ یہ طبری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قال اللہ تعالیٰ اطلبوا الحوائج من اسمعا فانی جعلت فیھم رحمتی ولا تطلبوھا من القاسیۃ قلوبھم فانی جعلت فیھم سخطی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اپنی ضروریات سختی لوگوں سے طلب کیا کرو کیونکہ میں نے اسن میں اپنی رحمت رکھ دی ہے تم اپنی حاجت سخت دل لوگوں سے نہ مانگا کرو کیونکہ میں نے ان میں اپنی ناراضگی رکھ دی ہے۔ مالک بن دینار نے کہا : کسی بندے کو سخت دلی سے بڑھ کر بڑی سزا نہیں دی گئی اور اللہ تعالیٰ کسی قول پر ناراض نہیں ہوتا مگر ان کے دلوں میں رحمت چھین لیتا ہے۔
Top