Al-Qurtubi - Az-Zumar : 30
اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ٘
اِنَّكَ : بیشک تم مَيِّتٌ : مرنے والے وَّاِنَّهُمْ : ار بیشک وہ مَّيِّتُوْنَ : مرنے والے
(اے پیغمبر ﷺ تم بھی مرجاؤ گے اور یہ بھی مرجائیں گے
30 ۔ 31:۔۔ بیشک آپ نے بھی دنیا سے انتقال فرما نا ہے اور انہوں نے بھی مرنا ہے، پھر تم سب روز حشر اپنے رب کے حضور میں آ پس میں جھگڑئو گے ابن محیصن، ابن ابی عبلہ، عیسیٰ بن ابی اسحاق نے اسے انک ما ئت وا نھم مائتن پڑ ھا ہے یہ اچھی قراءت ہے، حضرت عبد زبیر نے بھی یہی قراءت کی ہے اس قسم کا الف شاز قراءتوں میں حزف کردیا جاتا ہے۔ انہ لما را اض من ھذا الطعا م۔ حضرت حسن بصر ی، فراء اور کسائی نے میت پڑھا ہے یہ لم یمت و سیموت سے مشتق ہے المیت جب تخفیف کے ساتھ پڑھیں اس سے مراد وہ شخص جس سے روح الگ ہوجائے اسی وجہ یہاں اس میں تخفیف نہیں کی گئی۔ قتا دہ نے کہا ؛ نبی کر یم ﷺ کو آپ کی ذات اور تمہیں تمہاری ذا توں کی موت کی خبردی گئی۔ ثا بت بنانی نے کہا، ایک آ دمی صلہ بن اشیم نے اسے کہا، قر یب ہو اور کھانا کھا ئو مجھے میرے بھائی کی موت کی خبر بہت عرصہ پہلے دی گی آنے والے نے کہا، وہ کیسے جبکہ میں تیرے پاس پہلا خبر لا نیولا۔ ہوں۔ صلا بن اشیم نے کہا ؛ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی موت کی خبر دی ہے اور یہ پڑ ھا انک میت وانا نھم میتون (1) یہ نبی کر یم ﷺ کو خطا ب ہے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو آپ کی موت اور ان کی خبر دی۔ اس کی پا نچ وجوہ ہو سکتی (1) آ خرت سے ڈرانا مقصود ہوتا ہے (2) عمل پر برا نگییختہ کرنے کے کے لئے اس کا ذکر کیا (3) موت کی تمہید کے طور اس کا ذکر کیا (4) آپ کی موت میں اختلاف نہ کریں جس طرح پہلی امتوں نے دوسروں کی موت میں میں اختلاف کیا یہاں تک کہ جب حضرت عمر ؓ آپ ﷺ کی کا انکار کیا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسی آیت سے استدلال کیا تو حضرت عمر ؓ رک گئے (5) تاکہ اللہ تعالیٰ اس امر سے اگاہ کر دے کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں مخلوق کو برابر رکھا ہے جبکہ دوسرے معا ملات میں با ہم فضلیت موجود ہے تاکہ تسلی زیا دہ ہوجائے اور حسرت کم ہوجائے۔ ثم انکم یوم القیامتہ عند ربکم تختیصم اس مراد کافر اور مومن، ظالم کا مظلوم کا جھگڑا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے علماء نے کہا ؛ حدیث میں اس کا طویل ذکر ہے خصوصیت قیامت کے روز اس حد تک جا پہنچے گی کہ روح اور جسم آپس جھگرا کریں گے۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا۔ جب یہ آیت نا زل ہوئی ہم نے عرض کی۔ یا رسول اللہ ﷺ جو معاملات ہما رے درمیان ہوتے رہے خصو صی گناہوں کے ساتھ کیا ان کے با رے میں ہما رے ساتھ تکرار کیا جائے گا ؟ فرمایا یہاں تک کہ ہر صاحب حق دیا جائے گا۔ حضرت زبیر ؓ نے کہا اللہ کی قسم ! بیشک معا ملہ سخت ہے ( ٍ 1) ۔ ابن عمر ؓ نے کہا ؛ ہم نے کچھ وقت گزار ہم یہ خیال کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے اور اہل کتاب کے با رے میں نازل ہوئی ہے ثم انکم یوم القیا مت عند ربکم تختصمون ہم کہتے ؛ ہم کہتے ؛ ہم کیسے جھگڑیں گے جبکہ ہمارا نبی ﷺ اور ہما دین ہے ایک ہے یہاں تک کہ ہم نے بعض کی گردنیں اڑاتے دیکھا تو مجھے علم ہوگیا کہ یہ آیت ہما رے با رے میں نا زل ہوئی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے کہا کرتے تھے ہمارا رب ایک ہے ہمارا نبی ﷺ ایک ہے ہمارا دین ایک ہے دین ایک ہے یہاں تک کہ ہم نے بعض کو تلواروں کے ساتھ بعض کی گردنیں اڑاتے دیکھا تو مجھے علم ہوگیا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے کہا ؛ ہم کہا کرتے تھے ہمارا نبی ہے اور نبی ایک ہے تو ہے یہ جھگڑہ کیسا۔ جب جنگ صفین کا موقع آیا اور ہم سے بعض نے نعض پر تلواروں سے حملہ کیا تو ہم نے کہا ؛ وہ یہی ہے۔ حضرت ابرا ہیم نخعی نے کہا ؛ جب یہ آیت نا زل ہوئی تو رسول ﷺ کے صحا بہ ؓ کہنے لگے ؛ ہما رے درمیان ہماری درمیان خصوصیت کیا ہوگی۔ ؟ جب حضرت عثمان ؓ شہید ہوگئے تو صحابہ ؓ نے کہا ؛ یہی ہما رے درمیان خصوصیت ہوگی۔ ایک قول کہا گیا ہے ؛ ان کے مراد اللہ تعالیٰ کی با رگاہ میں فیصلہ طلب کرنا ہے ظالم کی نیکوں سے اس کے ظلم کے برابر حق لیا جائے گا اور جس کے لئے حق ثا بت ہوا اس کو دے دیا جائے گا یہ حکم تمام مظا لم کے با رے میں ہے جس طرح حضرت ابوہریرہ ہہ ؓ ؓ میں ہے جس حضرت ابوہریرہ ؓ کی حد یث سے ثا بت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرما یا۔ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے، صحا بہ ؓ نے عرض کی ہمارے درمیان مفلس وہ جس کے پاس درہم نہ ہو اور سامان نہ ہو فرمایا ان میں میری امت میں سے مفلس ہوگا جو قیا مت کے دن نماز روزوں اور زکوت کے ساتھ آئے گا کہ اس نے اس کو گا لیاں دی ہو نگی اس پر تہمت لگائی ہوگی اس کا مال کھا یا ہوگا، اس کا خون بہا یا ہوگا اس کو ما را ہوگا اس کو اس کو اس کی نیکوں سے بد لہ جائے گا اور دو سرے کو اس نیکیوں سے دیا جائے گا اگر اس کی نیکیاں واجبات ادا کرنے سے پہلے ختم ہوگئیں تو مظلوم کی برائیاں لی جائیں گی اور ظالم پر پھنک دی جائیں گی پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا، امام مسلم نے نقل کیا ہے سو رہ آل عمران میں بحث گزر چکی ہے۔ بخا ری شر یف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس آ دمی کا کسی کا کسی پر عزت یا کسی حوالے سے کوئی ظلم ہو تو آج ہی اس سے معا فی لے لے اس سے پہلے کہ اس کے پاس کوئی دینار اور درہم نہ رہے اگر اس کا کوئی عمل صالح گیا تو اس کے ظلم کے کے مطا بق اس سے لیا جائے گا اگر اس کی نیکیاں نہ ہو نگی تو مظلوم کے گناہ لیے جائیں گے (1) حد یث مسند یہی ہے، ، سب سے پہلے خوصومات دنیا میں ہوں گی، ، ہم نے تمام بحث التذ کرہ میں ذکر کردی ہے،۔
Top